دو نکاتی منشور
میرے عزیز دوستو!
جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہے کہ اس محفل میں ایک الیکشن کا انعقاد ہونے جا رہا ہے جسکی فرمائش کرنے والے نہایت ہی محترم شخصیت محب علوی ہیں ۔ گو کہ انکی پوسٹس کی تعداد تقریباً بارہ سو ہے مگر ابھی تک انہیں اپنی ہر دل عزیزی پر شک ہے اور وہ عوام سے رائے کے طلبگار ہوئے ۔ بہتر تو یہ ہی تھا کہ وہ خود ہی اپنے حق میں یک سوالی ریفرنڈم کروا لیتے تاکہ عزت سادات کو کوئی فرق نہ پڑتا مگر کیا کیجئے کہ انہیں اپنی مقابل میں ہی نظر آئی تھی ۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ میری جگہ چیف الیکشن کمشنر کو اپنا مقابل قرار دے دیتے تاکہ جیسا بھی ہوتا مقابلہ برابر کا ہوتا۔ میری پوسٹس 3000 سے زیادہ ہیں اور میری کارکردگی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اس لحاظ سے میں ان سے کافی سینئر بھی ہوں ۔
اب اگر صرف تعداد کی بات کریں تو میری پوسٹس کی تعداد محب سے کہیں زیادہ ہے مگر میں نے کبھی غرور نہیں کیا ۔ اب لوگوں کو ہی خواتین سے مقابلے کا شوق چرائے تو کیا کیجئے ۔ بات سے بات نکلی ہے تو ایک لطیفہ تو آپ نے بھی سنا ہوگا ۔ کسی شیر کے منہ میں چھپکلی آگئی ۔ اب کھائے تو بھی مرے اور نہ کھائے تو بھی مرے۔
بہرحال تکلف برطرف میری پوری کوشش یہی رہی تھی کہ میں محب سے مقابلہ نہ کروں کیونکہ میری نظر میں انکا احترام بہت ہے اور انکی ہار سے مجھے دلی افسوس ہوتا ۔ بلکہ ہوگا بھی کیونکہ اللہ تعالی نے میرا دل بہت نرم بنایا ہے۔ باتیں بنانے مجھے آتی نہیں ہیں۔ مگر ہم مسلمانوں کی خوبی ہے کہ جنگ سے آخری لمحے تک بچنے کی کوشش کرتے ہیں مگر جب جنگ مسلط کر دی جائے تو جیت کے علاوہ کچھ قبول نہیں کرتے ۔ اور عورتوں سے مقابلہ کرنا اب میں کیا کہوں اپنے مرزا غالب فرما گئے ہیں ۔
بقدر ظرف ہے ساقی ! خمار تشنہ کامی بھی
اور ویسے بھی ہر دل عزیزی تو دلوں میں ہوتی ہے ۔ لبوں سے اظہار وہ مانگتے ہیں جنہیں اپنے ہر دل عزیز ہونے پر شک ہوتا ہے یا ان پر جو انہیں اپنا کہتے ہیں ۔
مجھے اپنے تمام ساتھی ارکان پر پورا اعتماد ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ میرے اس اعتماد کو قائم رکھیں گے۔
ہاں میں آپ کو اپنے آئندہ پروگرام کے بارے میں بتا دوں ۔اور یہ پروگرام ہار جیت سے مشروط نہیں ہوگا ۔
1۔ اردو ویب پر تمام پراجیکٹس میں میں اپنا حصہ لینا اسی طرح جاری رکھوں گی جیسے میں لے رہی ہوں ۔ کیونکہ میں کسی مرتبے ۔ الیکشن ۔ ہردل عزیزی ۔ عوامی بلے بلے ۔ شاباش یا کسی اور چیز کے حصول کے لئے نہیں کر رہی ہوں بلکہ اہلِ زباں کی خدمت کے لئے جتنی میری بساط ہے اس کے مطابق اپنا حق ادا کرنے کی معمولی سی کوشش کر رہی ہوں ۔
2۔ جیت ہار اللہ کے ہاتھ ہے مگر دشمن (انتخابی کہیں سچ مچ کا نہ سمجھ لیجئے گا) کو مزہ چکھانے اور اسکے تکبر کی سزا دلوانے کے لئے میں آپ سے اپیل کروں گی کہ مجھے ووٹ ڈالیں کیونکہ اسی طرح انکے اذہانِ بیمار سے فتور اعلویت نکل سکتا ہے ۔
خدمت کرنے والوں کو ووٹ کی نہیں دعاؤں کی ضرورت ہوتی ہے اور آپ کی دعائیں جب تک میرے ساتھ ہیں مجھے کوئی فکر نہیں ہے ۔
آپ سب کی مخلص
ماوراء