امریکا اور طالبان میں امن معاہدے پر دستخط؛ امریکی فوج 14 ماہ میں افغانستان سے مکمل انخلا کرے گی

رانا

محفلین
بصد احترام، شاید آپ نے ربط میں دی گئی خبر تفصیل سے نہیں پڑھی۔
امریکا نے افغانستان پر حملہ کرنے کی ٹھان ہی لی تھی۔ اسی لیے اس نے اسامہ بن لادن کے ٹرائل کی افغان تجاویز کو ٹھکرا دیا۔ طالبان حکومت پر جنگ مسلط کی گئی۔ وہ ہرگز جنگ نہیں چاہتے تھے۔
سر بڑی معذرت کہ آپ اصل نکتے پر بات ہی نہیں کررہے۔ امریکہ نے حملے کی ٹھان لی تھی لیکن بہانہ کیا تھا؟ کہ آپ کی زمین پر ایک شخص ہے جو امریکہ کے لئے خطرہ ہے۔ اب ذرا معاہدے کا پہلا نکتہ پڑھیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
آج افغانستان کے بڑے رقبے پر طالبان کی حکومت ہے۔ اپنے وطن کو پنجۂ استبداد سے نجات دلانے کے لیے افغان مجاہدین نے پہلے روس اور اب امریکا اور اس کے حواریوں سے جہاد کیا جس میں اللہ رب العزت نے انھیں کامیابی سے ہم کنار کیا۔
امریکہ اس شرط پر واپس گیا ہے کہ طالبان آئندہ سے کسی بھی جہادی دہشت گرد تنظیم کو پناہ نہیں دیں گے۔ یہ بنیادی شرط توڑنے پر امریکہ بھرپور طاقت سے واپس آجائے گا۔

’معاہدے میں بری چیزیں ہوئیں تو اتنی بڑی فوج بھیجیں گے جو کسی نے نہیں دیکھی ہوگی‘
215403_7052017_updates.jpg

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ—فوٹو فائل

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغان امن معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ جلد طالبان رہنماؤں سے ملاقات کروں گا، افغانستان سے جلد فوج واپس بلانا شروع کر دیں گے۔

اس کے ساتھ ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار بھی کیا ہے کہ اگر معاہدے میں بُری چیزیں ہوئیں تو ہم اتنی بڑی فوج واپس افغانستان لے کر جائیں گے جو کسی نے کبھی نہیں دیکھی ہوگی، لیکن امید ہے اس کی نوبت نہیں آئے گی۔


دوسری جانب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی افغان امن معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے سیاسی مفاہمت کی کامیاب کوشش قرار دیا ہے۔

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بھی امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان معاہدے کی کامیابی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز امریکا اور افغان طالبان کے درمیان 18 سالہ طویل جنگ کے خاتمے کے لیے تاریخی امن معاہدے پر دستخط ہو گئے۔

دوحہ معاہدے کے تحت افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کا انخلا آئندہ 14 ماہ کے دوران ہوگا جب کہ اس کے جواب میں طالبان کو ضمانت دینی ہے کہ افغان سرزمین القاعدہ سمیت دہشت گرد تنظیموں کے زیر استعمال نہیں آنے دیں گے۔
 

عدنان عمر

محفلین
سر بڑی معذرت کہ آپ اصل نکتے پر بات ہی نہیں کررہے۔ امریکہ نے حملے کی ٹھان لی تھی لیکن بہانہ کیا تھا؟ کہ آپ کی زمین پر ایک شخص ہے جو امریکہ کے لئے خطرہ ہے۔ اب ذرا معاہدے کا پہلا نکتہ پڑھیں۔
طالبان اسی پہلے نکتے پر نائین الیون سے پہلے بھی راضی تھے۔ طالبان کا موقف تھا کہ کسی عالمی اور غیر جانبدار فورم پر اسامہ بن لادن کے خلاف مقدمہ چلایا جائے اور جرم ثابت ہونے کی صورت میں اسے امریکا کے حوالے کر دیا جائے۔
یعنی طالبان، امریکی مجرموں کو اس وقت بھی پناہ دینے کے حق میں نہ تھے۔ بس شرط یہی تھی کہ امریکا جنھیں مجرم کہہ رہا ہے، انھیں مجرم ثابت تو کرے۔
میری دانست میں، اگر طالبان غیر مشروط طور پر نا انصافی سے کام لیتے ہوئے اسامہ کو امریکا کے حوالے کر دیتے، تب بھی امریکا نے حملے سے باز نہیں آنا تھا۔
عراق کی مثال لیں۔ امریکہ، برطانیہ اور دیگر اتحادیوں نے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے کے ہتھیاروں (WMDs) کا بہانہ بنا کر عراق پر حملہ کیا۔ بعد میں یہ دعویٰ جھوٹ ثابت ہوا۔ لیکن مجال ہے کہ جھوٹ گھڑنے کی امریکی پروپیگنڈا مشینری بند ہوئی ہو۔ یہ مشینری آج بھی پہلے کی طرح سرگرم ہے۔
ذرا حالات و واقعات کی گرد بیٹھنے دیجیے۔ پھر امید ہے کہ بہت سے "حقائق" کا پول کھل کر سامنے آئے گا۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
سبکی دونوں ہی کی ہوئی۔ امریکہ بھی انہیں زیر نہ کرسکا لیکن یہ تو کہہ سکتا ہے کہ بیس سال پہلے جو ہم نے مطالبہ کیا تھا آخر طالبان سے لکھوا کر ہی نکلے ہیں۔ طالبان بھی کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے اسے نکلواکر ہی دم لیا۔ دونوں ہی سچے ہیں اور دونوں کی ہی ’’عزت‘‘ رہ گئی ہے۔
جی آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس معاہدہ سے دونوں فریقین کو فیس سیونگ مل گئی۔

419_015249_reporter.JPG
سلیم صافی
افغانستان میں امن آرہا ہے؟
215320_4871096_updates.jpg

فوٹو: فائل

قطر کے دارالحکومت دوحا میں آج تاریخ رقم ہونے جا رہی ہے، گزشتہ سال فروری میں شروع ہونیوالے امریکہ طالبان مذاکرات آج 29 فروری کو دونوں کی ڈیل پر منتج ہو رہے ہیں۔

19 سال کی خونریزی، تباہی، ہزاروں افغانوں کی قربانی، لاکھوں کے دربدر ہونے، ارب ہا ڈالروں کے خرچے، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے لاکھوں بموں کے استعمال اور طالبان کی طرف سے سینکڑوں خودکش دھماکوں کے بعد آج امریکہ اور طالبان ڈیل پر متفق ہو رہے ہیں۔

ایک دوسرے کی رہائی کے بدلے میں طالبان اور افغان حکومت کی قید سے رہائی پانے والے آسٹریلیا کے پروفیسر ٹموٹی ویکس اور جلال الدین حقانی مرحوم کے صاحبزادے انس حقانی آج دوحا میں ہونیوالی اس تاریخی تقریب میں دوستوں کی حیثیت سے شرکت کر رہے ہیں۔

یہ ڈیل تاریخی رہے گی کیونکہ اس کے نتیجے میں امریکہ اور طالبان کی براہِ راست جنگ ختم ہو جائے گی اور صرف افغانستان نہیں بلکہ افغانستان سے جڑے بہت سے ممالک پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

میں اسے ڈیل کا نام اس لئے بھی دے رہا ہوں کہ اس کے ذریعے دونوں فریق ماضی کے اپنے موقف سے پیچھے ہٹ گئے، امریکی ماضی میں افغانستان سے نکلنے کو تیار نہیں تھے اور اس ڈیل کے نتیجے میں بتدریج ان کی افواج نکلیں گی جبکہ طالبان القاعدہ جیسی تنظیموں کے ساتھ اپنے تعلق کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے اور اپنی سرزمین کو کسی بیرونی ملک کے خلاف استعمال نہ کرنے کی گارنٹی دینے پر تیار ہوگئے جس کیلئے وہ ماضی میں تیار نہ تھے۔

اسی طرح نائن الیون کے بعد امریکی طالبان کو مکمل ختم کرنے کے متمنی تھے اور ان کو کسی بھی شکل میں سیاسی نظام کا حصہ بنانے پر آمادہ نہ تھے، اب وہ طالبان کے وجود کو تسلیم کرکے انہیں افغانستان کے سیاسی نظام کا حصہ بنانے پر آمادہ ہوگئے۔


اسی طرح طالبان ماضی میں احمد شاہ مسعود، گلبدین حکمت یار، حامد کرزئی اور ڈاکٹر اشرف غنی جیسے دیگر افغانوں کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں تھے لیکن اب ان کے ساتھ بیٹھ کر مشترکہ نظام بنانے پر تیار ہو گئے جس کا اظہار طالبان کے نائب امیر سراج الدین حقانی نے نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے آرٹیکل میں کیا۔

اسی طرح ماضی میں طالبان اپنی امارت اسلامی کی بحالی پر اصرار کرتے تھے اور افغان آئین کے مطابق کسی سیاسی نظام کا حصہ بننے پر آمادہ نہیں تھے، وہ اسلامی نظام پر بدستور اصرار کر رہے ہیں لیکن اب وہ دیگر افغان دھڑوں کے ساتھ نئے سیاسی نظام کی تشکیل کیلئے مذاکرات پر تیار ہو گئے۔

یوں تبدیلی دونوں طرف آئی ہے اور اس تبدیلی تک پہنچنے کے لئے جن لوگوں نے بنیادی کردار ادا کیا ان میں امریکہ کی طرف سے زلمے خلیل زاد، پاکستان کی طرف سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید، طالبان کی طرف سے ملا عبدالغنی برادر، ملا امیر خان متقی اور انس حقانی جیسے لوگوں نے بنیادی کردار ادا کیا۔

اسی طرح پس پردہ طالبان کے نائب امیر اور جلال الدین حقانی کے صاحبزادے سراج الدین حقانی اور سابق افغان صدر حامد کرزئی اور ان کے دست راست عمر زاخیلوال کا کردار بھی بنیادی اہمیت کا حامل رہا۔

طالبان پر اثر و رسوخ رکھنے والی بعض پاکستانی دینی شخصیات نے بھی اہم کردار ادا کیا اور ان سب کی کوششوں کے ثمر کے طور پر آج قطر میں تاریخی ڈیل ہونے جا رہی ہے لیکن مکرر عرض ہے کہ یہ ڈیل افغانستان میں امن کی ضمانت نہیں۔

ایسا نہیں ہوگا کہ یکدم افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج نکل جائیں گی بلکہ ان کا انخلا مرحلہ وار اور انٹرا افغان یا بین الافغان مذاکرات کی کامیابی سے مشروط ہوگا، اسی طرح طالبان بھی کل سے سیاسی نظام کا حصہ نہیں بنیں گے بلکہ بین الافغان مذاکرات کے دوران وہ اپنی امارت اسلامی کی بحالی یا پھر کم از کم اپنی ترجیحات کے مطابق سیاسی نظام کی تشکیل پر اصرار کریں گے۔

اسی طرح قطر ڈیل تک پہنچنے کے عمل میں پاکستان نے تو ڈٹ کر تعاون کیا لیکن افغانستان کے دیگر پڑوسی یا پھر چین، ایران، بھارت یا روس جیسی طاقتیں بھی اس پراسیس کو سبوتاژ نہیں کر رہی تھیں۔

بھارت امریکہ کے ڈر سے ایسا نہیں کر سکتا تھا جبکہ ایران، چین اور روس بھی افغانستان سے نیٹو افواج کا انخلا چاہتے تھے، اس لئے وہ بھی سہولت کار رہے، یہی وجہ ہے کہ قطر ڈیل پر دستخطوں کے دوران ان سب ممالک کے نمائندے شریک ہوں گے لیکن اب بین الافغان مفاہمت کے سلسلے میں علاقائی طاقتیں اپنی اپنی پراکسیز کو نئے نظام میں سمونے اور اپنی اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کریں گی۔

یوں امریکہ اور طالبان کی ڈیل کا مرحلہ جتنا آسان تھا، بین الافغان مفاہمت کا عمل اتنا مشکل ہوگا، یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ امریکہ اور طالبان کے مذاکرات میں بنیادی طور پر دو فریق یعنی امریکہ اور طالبان تھے اور دونوں کے اہداف اور خدشات بھی واضح تھے لیکن پھر بھی کسی نتیجے تک پہنچنے میں ایک سال کا وقت لگا جبکہ بین الافغان مذاکرات کے سلسلے میں دو نہیں کئی فریق ہونگے۔

مذاکرات صرف افغان حکومت سے نہیں بلکہ اس میں حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ، رشید دوستم، گلبدین حکمت یار، استاد محقق، افغان سول سوسائٹی اور خواتین کے نمائندے بھی ہوں گے، اب حامد کرزئی جیسے لوگ اگر طالبان کے معاملے میں مفاہمانہ رویہ رکھتے ہیں تو امراللہ صالح جیسے لوگ انتہائی سخت موقف رکھتے ہیں۔

بین الافغان مذاکرات کے سلسلے میں تمام طالبان کو بھی ایک صفحے پر لانا ہوگا اور دوسری طرف کابل میں بیٹھی ہوئی سیاسی قوتوں کو پہلے آپس میں طالبان سے متعلق ایک صفحے پر لانا ہوگا اور پھر دونوں کے درمیان مشترکہ بنیادوں پر نظام تشکیل دینا ہوگا لیکن قریب کی تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ افغانوں نے ایک بات پر اتفاق کیا ہے کہ وہ کسی بات پر متفق نہیں ہوں گے۔

امن کی اصل کنجی بین الافغان مفاہمت ہے نہ کہ امریکہ طالبان ڈیل، اگر اسّی کی دہائی میں خلق اور پرچم کے رہنماؤں کے برہان الدین ربانی اور حکمت یار جیسے قائدین کے ساتھ بین الافغان مذاکرات کامیاب ہوتے تو سوویت یونین کو مداخلت کا موقع نہ ملتا۔

پھر اگر مجاہدین آپس میں نہ لڑتے تو طالبان کا ظہور نہیں ہو سکتا تھا، پھر اگر طالبان اور مجاہدین کے بین الافغان مذاکرات کامیاب ہوتے اور ان کے درمیان جنگیں نہ ہوتیں تو امریکہ اور نیٹو کو مداخلت کا موقع نہ ملتا۔

اسی طرح اگر اب بین الافغان مذاکرات کامیاب ہوئے اور افغان غیروں کے معاملے میں جو لچک دکھاتے ہیں، وہ انہوں نے ایک دوسرے کیلئے دکھا دی تو افغانستان میں امن قائم ہو سکتا ہے لیکن اگر بین الافغان مفاہمت کا عمل کامیاب نہ ہوا تو نہ صرف بیرونی مداخلتوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا بلکہ خاکم بدہن خانہ جنگی کی صورت میں ایسی تباہی آسکتی ہے کہ ہم ماضی کی تباہیوں کو بھول جائیں۔

اس لئے اب کابل میں بیٹھے ہوئی افغان قیادت اور طالبان کو ایک دوسرے کیلئے اس سے زیادہ لچک دکھانا ہوگی جو انہوں نے امریکہ اور دیگر بیرونی طاقتوں کیلئے دکھائی اور پاکستانی قیادت کو بین الافغان مذاکرات کی کامیابی کیلئے اس سے بھی زیادہ محنت کرنا ہوگی جو اس نے امریکہ اور طالبان کی ڈیل کے سلسلے میں کی ہے۔


عدنان عمر
 

جاسم محمد

محفلین
امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کرنے کی خاص وجہ اور ضرورت کیا ہو سکتی ہے؟
سب سے بڑی وجہ تو یہی ہے کہ ٹرمپ نے الیکشن کمپین میں وعدہ کیا تھا کہ وہ صدر بننے کے بعد امریکی افواج عراق اور افغانستان سے واپس بلوا لے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین

رانا

محفلین
کیا امریکا نے معاہدے میں کوئی ایسی شق رکھی ہے کہ جسے وہ مجرم قرار دے، اسے بلا ثبوت فوراً امریکا کے حوالے کرنا ہوگا؟
سر پہلا نکتہ پڑھیں اور بیس سال پہلے کا مطالبہ پڑھیں۔ یہی تو کہہ رہا ہوں کہ سو جوتے اور سو پیاز۔۔۔۔ لیکن خیر اپ سے گفتگو سے سر میں درد ہونے لگا ہے۔ خوش رہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
تخمینہ کے مطابق امریکہ افغان جنگ میں 2 کھرب ڈالر جھونک چکا ہے۔ اس جنگ سے سوائے امریکی عسکری اسٹیبلشمنٹ اور نجی مالیاتی اداروں کے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
What Did the U.S. Get for $2 Trillion in Afghanistan?
پیش گوئی یہ ہے کہ ٹرمپ مزید دو کھرب ڈالر شجر کاری کے لیے مختص کر ے گا
 

ابن عادل

محفلین
یہ بات روز، روشن کی طرح واضح ہے کہ امریکہ نے اس جنگ میں ہزیمت اٹھائی ہے ۔ جو کہتےہیں کہ طالبان نے امریکہ کی شرط مانی ہے انہیں غور کرنا چاہیے کہ امریکہ جسے وہ آج بھی سپر پاور سمجھتے ہیں اس سپر پاور نے ان کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہیں جنہیں وہ جاہل ، گنوار حتی کہ انسان تک نہ سمجھتا تھا ۔جس پر اس نے ایٹم بم کے علاوہ دنیا کے تمام بموں کا تجربہ کرلیا تھا ۔
اس معاہدے سے ان لوگوں کو جواب مل گیا جو کہتے تھے کہ روس سے فتح اسٹنگر میزائل کی وجہ سے تھی ۔ سوال یہ ہے اب فتح کس کے باعث ہوئی ۔
سچ یہ ہے یہ معاہدہ ان تمام مزاحمتی تحریکوں کے لیے باعث حوصلہ افزاء ہے جو استعمار کے خلاف صف آراء ہیں ۔ مغربی میڈیا نے بیس سال طالبان کودرندہ بنا کر پیش کیا ہے اور اب اس درندے سے وہ خود مذاکرات کررہا ہےسوال تو امریکہ سے کرنا چاہیے لیکن یہ بھی میڈیا کا کمال ہے کہ وہ امریکہ پر اٹھنے والے تمام سوالات و اعتراضات کو گم کردے گا اور طالبان کو یوں پیش کرے گا کہ وہ انسان بن گئے تھے اس لیے اب ان سے معاہدہ کرلیا گیا ہے ۔ یہاں بھی کچھ لوگ یہی ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔
ویت نام کے بعد طالبان امریکی استعماریت کے خلاف ایک اور استعارہ ہیں ۔ بلکہ تمام استعماری قوتوں کے خلاف ۔ یہ جدوجہد پوری دنیا کی مزاحمتی تحریکوں کو جلا بخشےگی ۔ یہ اعلان ہے اس بات کا کہ جذبہ اور نظریہ سب پر بالا ہے ۔ جہد مسلسل اورقربانی قوموں کی زندگی ہے ۔
جو لوگ آئندہ کے افغانستان کو اس وقت زیر بحث لا رہے ہیں وہ امریکہ کی ہزیمت سے نظریں چرا رہے ہیں ۔
امریکہ کی کارپٹ بمباری تو بہت سے دوستوں کے لیے تہذیب کی علامت ہے لیکن انہیں طالبان کے حملے اور خود کش حملے نہایت ناگوار ہیں اور کیوں نہ ہوں کہ انہوں نے بیس سال انہیں وحشی اور درندہ کہنے والے میڈیا کو سنا ہے ۔ بہر حال وہ خاطر جمع رکھیں ممکن ہے کچھ عرصے بعد امریکہ کو افغانستان سے کوئی مالی مفاد درپیش ہوا تو یہ سب طالبان دنیا کے بہترین انسان ہوں گے ۔ اور مغربی میڈیا ان درندوں کو دنیا کا نجات دہندہ ثابت کررہا ہوگا ۔ اور پاکستان جو انہیں اپنے بچے کہتا تھا اور پھر عاق کردیا تھا وہ بھی بے تاب ہوگا کہ کسی طرح دوبارہ وہ اس کے بچے بن جائیں اور اگر ایسا نہ ہو تو ضرورت کے وقت کسی کو بھی باپ بنایا جاسکتا ہے ۔ دورحاضر کے تقاضے کچھ یوں ہی ہیں ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
رعایت اللہ فاروقی لکھتے ہیں:
نائن الیون کے بعد یہ وہ دن تھے جب امریکہ افغانستان میں فوجی اور پاکستان میں "فکری یلغار" کر چکا تھا۔ سی آئی اے کے ترتیب دئے گئے فکری جارحیت کے منصوبے میں تین چار طے شدہ اہداف تھے۔ یہ فکری جنگ سی آئی اے نے پاکستان کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے مورچوں سے مسلط کر رکھی تھی۔ حسن نثار اور نئے اسلام کے خالقین جیسے کرائے کے ٹٹو صبح شام ٹی وی سکرینوں پر سی آئی اے کی یہ جنگ لڑتے رہے۔ پہلی بات وہ یہ کہتے تھے کہ مسلمانوں کی تاریخ خون آشامی سے بھری ہوئی ہے۔ حالانکہ مسلمانوں کی جنگوں میں 1400 سال کے دوران جتنے انسان مرے ہیں وہ انہی اہل مغرب کی صرف ایک جنگ، جی ہاں صرف ایک جنگ، یعنی دوسری جنگ عظیم سے کم ہیں۔
تاریخ انسانی کا یہ شرمناک ناک دھبہ صرف صلیبیوں کے ماتھے کا جھومر ہے کہ جب وہ بیت المقدس میں داخل ہوئے تو انہوں نے تمام کے تمام مسلمان شہریوں، جن میں مرد و زن۔ بچے، جوان اور بوڑھے تمام کے تمام شامل تھے، ذبح کر ڈالے۔ اور ان نہتے شہریوں کو بالکل اسی طرح ذبح کیا جس طرح قصائی بکرے کو کرتا ہے۔ مگر حسن نثاروں سے وہ کہلواتے اور لکھواتے یہ رہے کہ مسلمان ایک سفاک قوم ہے اور اس کی تاریخ خون آشامی سے بھری ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا اور آپ نے یقین کرلیا۔

دوسری بات وہ یہ کرتے رہے کہ "مسلم وحدت" کا تصور باطل ہے۔ اصل وحدت تو دین براہیمی ہے۔ یعنی مسلمان، یہودی اور عیسائی ایک وحدت ہیں۔ آپ قرآن مجید سے براہ راست متصادم اس بکواس پر بھی یقین کر بیٹھے۔ آپ نے اللہ کی کتاب کے بجائے ان کی اس بکواس کو سینے سے لگا لیا۔
تیسری بات وہ یہ کرتے تھے کہ امام غزالی ایک علم دشمن شخص تھا۔ کیونکہ اس نے فلسفے کو کفر قرار دیا تھا جبکہ فلسفہ علوم کی ماں ہے۔ آپ دو منٹ میں ان کی اس بکواس کو اڑا سکتے تھے۔ آپ کہتے کہ چلو مان لیا امام غزالی فلسفے کو کفر قرار دینے کے سبب علم دشمن ہوئے۔ کیا آپ اپنی تاریخ کے اس سچ کو جھٹلا سکتے ہیں کہ آپ کا رینیسانس امام غزالی کی تہافت الفلاسفہ پر کھڑا ہے ؟ کیا آپ اس حقیقت کو جھٹلا سکتے ہیں رینیسانس کے کے بعد آنے والے آپ کے فلاسفہ یونانی فلسفے کے بجائے غزالی کے چراغ کی روشنی میں آگے بڑھتے نظر آتے ہیں ؟ کیا آپ اس حقیقت کا انکار کر سکتے ہیں کہ یونانی فلسفے سے جان چھڑوانے کے معاملے میں خود آپ کے فلاسفہ غزالی کو اپنا محسن مانتے ہیں ؟

دوسری بات یہ کہ علم کے باب میں آپ مغرب کو ایک چیلنج دے کر دیکھئے۔ ان کا باپ بھی اس چیلنج سے جان چھڑا کر نہیں گزر سکتا۔ چیلنج یہ ہے کہ مغرب اپنے علمی ارتقاء میں مسلم اندلس کو بائی پاس کرکے دکھا دے۔ وہ یہ ثابت کردے ان کا تمامتر علم اپنی ارتقائی تاریخ میں مسلم اندلس سے ماخوذ نہیں ہے۔ یہ اتنا بڑا سچ ہے کہ نیشنل جیوگرافک جیسا چینل بھی آج سے اٹھارہ برس قبل تاریخی طور پر یہ تک ثابت کرچکا ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی اساس اندلس سے ماخوذ علوم اور تجربات ہیں۔ وہ یہ تک ثابت کرچکے ہیں کہ آکسفورڈ کے بانی مسلم اندلس کے برطانوی سٹونٹس تھے۔

تیسری بات وہ یہ کرتے تھے کہ اقبال کا فلسفہ "فکری سرقہ" ہے۔ آپ نے اس پر بھی یقین کرلیا۔ چلو اقبال کا فسلفہ نطشے کا چربہ ہے۔ کیا افغان ملا کے حوالے سے اقبال کے خیالات بھی نطشے کا چربہ ہیں ؟ وہ خیالات جو اتنے ٹھوس ہیں کہ اقبال کی موت کے بعد پیدا ہونے والے افغان ملا بھی اس کی دلیل بن کر سامنے آتے چلے جا رہے ہیں۔ وہی ملا جس کے سامنے کل امریکی وزیر خارجہ سر جھکائے کھڑا تھا۔ کسی سپر طاقت کے لئے تاریخ کا اس سے بے رحم منظر اور کیا ہوسکتا ہے کہ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی سپر طاقت کا وزیر خارجہ کل ایک ایسے معاہدے پر دستخط کر رہا تھا جس کی ہر شق کا آغاز ان الفاظ میں ہوتا ہے۔

"امریکہ امارت اسلامی افغانستان کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتا بلکہ انہیں طالبان کے نام سے ہی پکارتا ہے"


آپ اس کا مطلب سمجھتے ہیں ؟ میں سمجھاتا ہوں۔ تیسری دنیا کے ممالک میں امریکہ اپنے صدر کا جانا اس کی توہین سمجھتا ہے۔ اگر کبھی صدیوں میں ایک بار چلا جائے تو یوں جاتا ہے جیسے کوئی سیٹھ مہاجرین کے کیمپ میں کمبل بانٹنے جاتا ہے۔ تیسری دنیا کے کے صدور اور وزرائے اعظم سے امریکہ اپنے وزیر خارجہ کے ذریعے معاملات کرتا ہے۔ یعنی ان ممالک کے سربراہان و سربراہان حکومت کو وہ اپنے وزیر خارجہ کے لیول پر رکھتا ہے۔ اگر تیسری دنیا کے ممالک کے وزیر خارجہ سے بات کرنی ہو تو امریکہ اپنا وزیر خارجہ نہیں بلکہ اسسٹنٹ وزیر خارجہ کو بھیجتا ہے۔ اگر ان ممالک کا صدر یا وزیر اعظم امریکہ چلا جائے تو امریکی صدر ملاقات کے لئے ایک گھنٹے سے بھی کم وقت دیتا ہے اور انہیں وھائٹ ہاؤس کا وہ روایتی عشائیہ بھی پیش نہیں کرتا جو ذرا بہتر حالت والے ممالک کے سربراہان کو پیش کرنا وہاں کی روایت ہے۔ اور یہ ملاقات ہوتی بھی صرف فوٹو سیشن کے لئے ہے۔

اسی فرعون صفت سپر طاقت کا وہی وزیر خارجہ کل 30 ممالک کی گواہی میں ایک ایسے "افغان ملا" کے حضور کھڑا نظر آیا جسے خود معاہدے میں امریکہ "غیر ریاست" تسلیم کر رہا ہے۔ ذرا ماڈرن پولیٹکل تاریخ میں ڈھونڈ کر دکھائے کہ دنیا کا کونسا وزیر خارجہ ہے جس نے کسی "تنظیم" کے درجہ دوم کے لیڈر کے ساتھ بین الاقوامی معاہدہ سائن کیا ہو ؟ امریکہ اپنے جس وزیر خارجہ کو وزرائے اعظم کے لیول پر رکھتا ہے اسی وزیر خارجہ کو طالبان نے ملا ہیبت اللہ کے لیول پر نہیں بلکہ اس کمانڈر کے لیول پر رکھ کر دکھایا یا نہیں ؟ یہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ ایسا حصہ جس پر آنے والی افغان نسلیں بھی فخر کیا کریں گی۔ اقبال کا پورا فلسفہ چھوڑئے، اس کا صرف افغان ملا والا ایک شعر آج کی تاریخ میں پورے مغربی فلسفے کو نگل گیا ہے۔

فکری یلغار کے ضمن میں حسن نثاروں سے اگلی بکواس وہ یہ کراتے رہے کہ "امت مسلمہ" نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی۔ وہ بڑے تکبر کے ساتھ پوچھا کرتا تھا کہ کدھر ہے امت مسلمہ ؟ مجھے تو امت مسلمہ نام کی کوئی چیز کہیں نظر نہیں آتی۔ اس کا جواب بھی بہت آسان تھا۔ بالکل سامنے تھا مگر آپ تو نابالغ تھے، آپ خاک سمجھتے ؟ کیا اسامہ بن لادن کوئی درانی، قندھاری، غزنوی، کاکڑ، اچکزئی یا یوسفزئی تھا ؟ اپنے اس بے وطن مہمان کے لئے طالبان نے دنیا کی سب سے بڑی سپر طاقت اور اس کے 44 معاون ممالک سے تصادم کیوں مول لیا ؟ یہ ہوتی ہے "امت مسلمہ" وہی امت مسلمہ جو حسن نثار جیسے دلالوں کو نظر نہیں آتی۔

اسی ضمن میں امت مسلمہ کی موجودگی کا ایک تازہ ثبوت دکھاؤں ؟ پچھلے 19 سال کے دوران افغان قضیے میں بھارت کا قومی موقف آپ کے لئے کوئی راز تو نہیں ؟ ہم سب اس سے واقف ہیں۔ بھارت اس باب میں امریکہ کا سب سے بڑا حامی و مددگار رہا ہے۔ اس نے افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے۔ آج وہ مکھن سے بال کی طرح نکال کر باہر پھینک دیا گیا ہے تو بھارت کا انٹیلی جنشیا ماتم کر رہا ہے۔ بھارت کی حکومت سکتے سے دوچار ہے۔ لیکن بھارت کا مسلمان کل کے دوحہ والے مناظر پر جشن منا رہے ہیں۔ وہ بھارت کے قومی موقف کے بجائے افغان طالبان کے ساتھ جذباتی وابستگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ کیوں ؟ کیونکہ سرحدیں بھی "امت مسلمہ" کے وجود کو نہیں مٹاسکیں۔ ان کا ملک امریکہ کے ساتھ اور وہ "جسد واحد" کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وہی جسد واحد جسے امت مسلمہ کہتے ہیں۔

فکری یلغار کے محاذ پر اس تمامتر پروپیگنڈے کا مقصد کیا تھا ؟ مسلمانوں کو انکی تاریخ سے بدظن کرنا اور مایوس کرنا۔ انہیں یہ باور کرانا کہ نہ ان کے پاس کوئی ہیرو ہے اور نہ ہی کوئی علمی سرمایہ فخر۔ تاکہ وہ اپنے وجود پر شرمندہ ہوکر مغربی چکاچوند کے اسیر ہوسکیں، فکری غلام بن سکیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
عامر خاکوانی لکھتے ہیں:
یہ طالبان کی فتح ہے، ایک بڑی، واضح کامیابی۔ فتح مبین۔ امریکی انہیں توڑنے، جھکانے ،شکست دینے، ختم کرنے میں ناکام رہے۔ وہ لوگ جو سمجھتے تھے کہ طالبان ختم ہوگئے، وہ ماضی کا ایک باب بن گئے ہیں.... ہفتہ کی شام ان سب کو اپنے تجزیے غلط ہونے، اندازے الٹ جانے پر دل ہی دل میں سہی، شرمندگی تو محسوس ہوئی ہوگی۔
طالبان اپنی جگہ پرڈٹ کر کھڑے ہوئے اور بے شمار جانوں کی قربانی دینے کے باوجود کھڑے ہوئے۔ وقت نے ثابت کیا کہ تاریخ ہمیشہ جرات مندوں اور بلند حوصلہ لوگوں کا ساتھ دیتی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
جو کہتےہیں کہ طالبان نے امریکہ کی شرط مانی ہے انہیں غور کرنا چاہیے کہ امریکہ جسے وہ آج بھی سپر پاور سمجھتے ہیں اس سپر پاور نے ان کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہیں جنہیں وہ جاہل ، گنوار حتی کہ انسان تک نہ سمجھتا تھا ۔
آپ معاہدہ کی روح کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ دونوں فرقین نے لچک کا مظاہرہ کیا اور اپنے سخت ترین موقف سے پیچھے ہٹے ہیں یعنی یوٹرن لیا ہے۔ اور امن معاہدہ کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ فریقین اپنے اپنے موقف میں لچک پیدا کرکے ہتھیار ڈال دیں اور امن کے ساتھ رہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
رعایت اللہ فاروقی لکھتے ہیں:
نائن الیون کے بعد یہ وہ دن تھے جب امریکہ افغانستان میں فوجی اور پاکستان میں "فکری یلغار" کر چکا تھا۔ سی آئی اے کے ترتیب دئے گئے فکری جارحیت کے منصوبے میں تین چار طے شدہ اہداف تھے۔ یہ فکری جنگ سی آئی اے نے پاکستان کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے مورچوں سے مسلط کر رکھی تھی۔ حسن نثار اور نئے اسلام کے خالقین جیسے کرائے کے ٹٹو صبح شام ٹی وی سکرینوں پر سی آئی اے کی یہ جنگ لڑتے رہے۔ پہلی بات وہ یہ کہتے تھے کہ مسلمانوں کی تاریخ خون آشامی سے بھری ہوئی ہے۔ حالانکہ مسلمانوں کی جنگوں میں 1400 سال کے دوران جتنے انسان مرے ہیں وہ انہی اہل مغرب کی صرف ایک جنگ، جی ہاں صرف ایک جنگ، یعنی دوسری جنگ عظیم سے کم ہیں۔
تاریخ انسانی کا یہ شرمناک ناک دھبہ صرف صلیبیوں کے ماتھے کا جھومر ہے کہ جب وہ بیت المقدس میں داخل ہوئے تو انہوں نے تمام کے تمام مسلمان شہریوں، جن میں مرد و زن۔ بچے، جوان اور بوڑھے تمام کے تمام شامل تھے، ذبح کر ڈالے۔ اور ان نہتے شہریوں کو بالکل اسی طرح ذبح کیا جس طرح قصائی بکرے کو کرتا ہے۔ مگر حسن نثاروں سے وہ کہلواتے اور لکھواتے یہ رہے کہ مسلمان ایک سفاک قوم ہے اور اس کی تاریخ خون آشامی سے بھری ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا اور آپ نے یقین کرلیا۔

دوسری بات وہ یہ کرتے رہے کہ "مسلم وحدت" کا تصور باطل ہے۔ اصل وحدت تو دین براہیمی ہے۔ یعنی مسلمان، یہودی اور عیسائی ایک وحدت ہیں۔ آپ قرآن مجید سے براہ راست متصادم اس بکواس پر بھی یقین کر بیٹھے۔ آپ نے اللہ کی کتاب کے بجائے ان کی اس بکواس کو سینے سے لگا لیا۔
تیسری بات وہ یہ کرتے تھے کہ امام غزالی ایک علم دشمن شخص تھا۔ کیونکہ اس نے فلسفے کو کفر قرار دیا تھا جبکہ فلسفہ علوم کی ماں ہے۔ آپ دو منٹ میں ان کی اس بکواس کو اڑا سکتے تھے۔ آپ کہتے کہ چلو مان لیا امام غزالی فلسفے کو کفر قرار دینے کے سبب علم دشمن ہوئے۔ کیا آپ اپنی تاریخ کے اس سچ کو جھٹلا سکتے ہیں کہ آپ کا رینیسانس امام غزالی کی تہافت الفلاسفہ پر کھڑا ہے ؟ کیا آپ اس حقیقت کو جھٹلا سکتے ہیں رینیسانس کے کے بعد آنے والے آپ کے فلاسفہ یونانی فلسفے کے بجائے غزالی کے چراغ کی روشنی میں آگے بڑھتے نظر آتے ہیں ؟ کیا آپ اس حقیقت کا انکار کر سکتے ہیں کہ یونانی فلسفے سے جان چھڑوانے کے معاملے میں خود آپ کے فلاسفہ غزالی کو اپنا محسن مانتے ہیں ؟

دوسری بات یہ کہ علم کے باب میں آپ مغرب کو ایک چیلنج دے کر دیکھئے۔ ان کا باپ بھی اس چیلنج سے جان چھڑا کر نہیں گزر سکتا۔ چیلنج یہ ہے کہ مغرب اپنے علمی ارتقاء میں مسلم اندلس کو بائی پاس کرکے دکھا دے۔ وہ یہ ثابت کردے ان کا تمامتر علم اپنی ارتقائی تاریخ میں مسلم اندلس سے ماخوذ نہیں ہے۔ یہ اتنا بڑا سچ ہے کہ نیشنل جیوگرافک جیسا چینل بھی آج سے اٹھارہ برس قبل تاریخی طور پر یہ تک ثابت کرچکا ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی اساس اندلس سے ماخوذ علوم اور تجربات ہیں۔ وہ یہ تک ثابت کرچکے ہیں کہ آکسفورڈ کے بانی مسلم اندلس کے برطانوی سٹونٹس تھے۔

تیسری بات وہ یہ کرتے تھے کہ اقبال کا فلسفہ "فکری سرقہ" ہے۔ آپ نے اس پر بھی یقین کرلیا۔ چلو اقبال کا فسلفہ نطشے کا چربہ ہے۔ کیا افغان ملا کے حوالے سے اقبال کے خیالات بھی نطشے کا چربہ ہیں ؟ وہ خیالات جو اتنے ٹھوس ہیں کہ اقبال کی موت کے بعد پیدا ہونے والے افغان ملا بھی اس کی دلیل بن کر سامنے آتے چلے جا رہے ہیں۔ وہی ملا جس کے سامنے کل امریکی وزیر خارجہ سر جھکائے کھڑا تھا۔ کسی سپر طاقت کے لئے تاریخ کا اس سے بے رحم منظر اور کیا ہوسکتا ہے کہ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی سپر طاقت کا وزیر خارجہ کل ایک ایسے معاہدے پر دستخط کر رہا تھا جس کی ہر شق کا آغاز ان الفاظ میں ہوتا ہے۔

"امریکہ امارت اسلامی افغانستان کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتا بلکہ انہیں طالبان کے نام سے ہی پکارتا ہے"


آپ اس کا مطلب سمجھتے ہیں ؟ میں سمجھاتا ہوں۔ تیسری دنیا کے ممالک میں امریکہ اپنے صدر کا جانا اس کی توہین سمجھتا ہے۔ اگر کبھی صدیوں میں ایک بار چلا جائے تو یوں جاتا ہے جیسے کوئی سیٹھ مہاجرین کے کیمپ میں کمبل بانٹنے جاتا ہے۔ تیسری دنیا کے کے صدور اور وزرائے اعظم سے امریکہ اپنے وزیر خارجہ کے ذریعے معاملات کرتا ہے۔ یعنی ان ممالک کے سربراہان و سربراہان حکومت کو وہ اپنے وزیر خارجہ کے لیول پر رکھتا ہے۔ اگر تیسری دنیا کے ممالک کے وزیر خارجہ سے بات کرنی ہو تو امریکہ اپنا وزیر خارجہ نہیں بلکہ اسسٹنٹ وزیر خارجہ کو بھیجتا ہے۔ اگر ان ممالک کا صدر یا وزیر اعظم امریکہ چلا جائے تو امریکی صدر ملاقات کے لئے ایک گھنٹے سے بھی کم وقت دیتا ہے اور انہیں وھائٹ ہاؤس کا وہ روایتی عشائیہ بھی پیش نہیں کرتا جو ذرا بہتر حالت والے ممالک کے سربراہان کو پیش کرنا وہاں کی روایت ہے۔ اور یہ ملاقات ہوتی بھی صرف فوٹو سیشن کے لئے ہے۔

اسی فرعون صفت سپر طاقت کا وہی وزیر خارجہ کل 30 ممالک کی گواہی میں ایک ایسے "افغان ملا" کے حضور کھڑا نظر آیا جسے خود معاہدے میں امریکہ "غیر ریاست" تسلیم کر رہا ہے۔ ذرا ماڈرن پولیٹکل تاریخ میں ڈھونڈ کر دکھائے کہ دنیا کا کونسا وزیر خارجہ ہے جس نے کسی "تنظیم" کے درجہ دوم کے لیڈر کے ساتھ بین الاقوامی معاہدہ سائن کیا ہو ؟ امریکہ اپنے جس وزیر خارجہ کو وزرائے اعظم کے لیول پر رکھتا ہے اسی وزیر خارجہ کو طالبان نے ملا ہیبت اللہ کے لیول پر نہیں بلکہ اس کمانڈر کے لیول پر رکھ کر دکھایا یا نہیں ؟ یہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ ایسا حصہ جس پر آنے والی افغان نسلیں بھی فخر کیا کریں گی۔ اقبال کا پورا فلسفہ چھوڑئے، اس کا صرف افغان ملا والا ایک شعر آج کی تاریخ میں پورے مغربی فلسفے کو نگل گیا ہے۔

فکری یلغار کے ضمن میں حسن نثاروں سے اگلی بکواس وہ یہ کراتے رہے کہ "امت مسلمہ" نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی۔ وہ بڑے تکبر کے ساتھ پوچھا کرتا تھا کہ کدھر ہے امت مسلمہ ؟ مجھے تو امت مسلمہ نام کی کوئی چیز کہیں نظر نہیں آتی۔ اس کا جواب بھی بہت آسان تھا۔ بالکل سامنے تھا مگر آپ تو نابالغ تھے، آپ خاک سمجھتے ؟ کیا اسامہ بن لادن کوئی درانی، قندھاری، غزنوی، کاکڑ، اچکزئی یا یوسفزئی تھا ؟ اپنے اس بے وطن مہمان کے لئے طالبان نے دنیا کی سب سے بڑی سپر طاقت اور اس کے 44 معاون ممالک سے تصادم کیوں مول لیا ؟ یہ ہوتی ہے "امت مسلمہ" وہی امت مسلمہ جو حسن نثار جیسے دلالوں کو نظر نہیں آتی۔

اسی ضمن میں امت مسلمہ کی موجودگی کا ایک تازہ ثبوت دکھاؤں ؟ پچھلے 19 سال کے دوران افغان قضیے میں بھارت کا قومی موقف آپ کے لئے کوئی راز تو نہیں ؟ ہم سب اس سے واقف ہیں۔ بھارت اس باب میں امریکہ کا سب سے بڑا حامی و مددگار رہا ہے۔ اس نے افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے۔ آج وہ مکھن سے بال کی طرح نکال کر باہر پھینک دیا گیا ہے تو بھارت کا انٹیلی جنشیا ماتم کر رہا ہے۔ بھارت کی حکومت سکتے سے دوچار ہے۔ لیکن بھارت کا مسلمان کل کے دوحہ والے مناظر پر جشن منا رہے ہیں۔ وہ بھارت کے قومی موقف کے بجائے افغان طالبان کے ساتھ جذباتی وابستگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ کیوں ؟ کیونکہ سرحدیں بھی "امت مسلمہ" کے وجود کو نہیں مٹاسکیں۔ ان کا ملک امریکہ کے ساتھ اور وہ "جسد واحد" کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وہی جسد واحد جسے امت مسلمہ کہتے ہیں۔

فکری یلغار کے محاذ پر اس تمامتر پروپیگنڈے کا مقصد کیا تھا ؟ مسلمانوں کو انکی تاریخ سے بدظن کرنا اور مایوس کرنا۔ انہیں یہ باور کرانا کہ نہ ان کے پاس کوئی ہیرو ہے اور نہ ہی کوئی علمی سرمایہ فخر۔ تاکہ وہ اپنے وجود پر شرمندہ ہوکر مغربی چکاچوند کے اسیر ہوسکیں، فکری غلام بن سکیں۔
کسی اسلامی آر ایس ایس کی لکھی ہوئی تاریخ لگ رہی ہے۔ جیسے ہندو آر ایس ایس اپنی بڑائی بیان کرنے کیلئے ہندوستان کی تاریخ بدل دیتے ہیں۔ وہی کچھ یہاں کیا گیا ہے۔
 
Top