Fawad – Digital Outreach Team – US State Department
کچھ اردو فورمز پر ڈاکٹر عافيہ کيس کے پس منظر ميں يہ سوال کيا جا رہا ہے کہ امریکی حکومت کس قانون کے تحت شہريوں کو گرفتار کر کے ان سے تفتيش کا اختيار رکھتی ہے؟
اس سوال کا جواب دينے سے پہلے ميں يہ واضح کر دوں کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی پر اس وقت اقدام قتل کا مقدمہ چل رہا ہے۔ ان پر اس وقت "اينمی کمبيٹنٹ" کی اصطلاح نافذ نہيں ہوتی اور نہ ہی انھيں ضمن ميں گرفتار کيا گيا تھا۔
جہاں تک اينمی کمبيٹنٹ کے حوالے سے قوانين کے بارے ميں سوال ہے اس کی تشريح 11 ستمبر 2001 کے واقعات کے تناظر ميں کی جانی چاہيے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ 11 ستمبر 2001 کے حملے امريکہ کے خلاف اقدام جنگ کے مترادف تھے۔ ان کی نوعيت اور شدت ايک جنگ کے مساوی تھی۔ ان حملوں ميں کم از کم ايک ہدف پينٹاگان خالص عسکری نوعيت کا تھا۔ يہ بھی ياد رہے کہ 11 ستمبر کے حملے القائدہ کی جانب سے امريکی تنصيبات پر پہلے حملے نہيں تھے بلکہ اس سے پہلے قريب دس سالہ عرصے ميں امريکی شہريوں اور امريکی تنصيبات پر لاتعداد حملے کيے گئے۔
ستمبر 18 2001 کو کانگريس نے امريکی صدر کو يہ اختيار ديا تھا کہ وہ ان حملوں کے جواب ميں طاقت کا استعمال کر سکتے ہيں۔ اس کے بعد اقوام متحدہ اور نيٹو نے بھی اس بات کی توثيق کی تھی کہ امريکی کی جانب سے جوابی جارحانہ کاروائ اقوام متحدہ کے چارٹر اور نيٹو ٹريٹی کے عين مطابق ہو گی۔ 11 ستمبر 2001 (بلکہ اس سے بھی کچھ سال پہلے) سےامريکہ قانونی طور پر بھی اور حقائق کی روشنی میں حالت جنگ ميں ہے۔ اس ضمن ميں آپ کو يہ بھی ياد رکھنا چاہيے کہ اسامہ بن لادن نے قريب ايک دہائ پہلے عوامی سطح پر امريکہ کے خلاف "اعلان جنگ" کيا تھا۔ حالت جنگ کی صورت ميں کچھ ايسے قوانين اور ضوابط کا اطلاق حکومت کی صوابديد پر ہوتا ہے جن کا استعمال امن کی حالت ميں ممکن نہيں ہوتا۔ انھی قوانين ميں امريکی صدر کو يہ اختيار بھی حاصل ہوتا ہے کہ وہ اس وقت تک اينمی کمبيٹنٹ کو زير حراست رکھ سکتےہيں جب تک حملے رک نہيں جاتے۔ اينمی کمبيٹنٹ کو جنگ کے قوانين اور ضابطوں کے عين مطابق دوران جنگ حراست ميں رکھا جا سکتا ہے۔
يہاں ميں يہ وضاحت بھی کر دوں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ايک روايتی جنگ نہيں ہے جس ميں دو ممالک کی افواج اپنی مخصوض يونيفارمز اور جھنڈوں کے ساتھ اپنے ملک کی نمايندگی کرتے ہوئے ميدان جنگ ميں ايک دوسرے کے سامنے واضح اعلان اور ارادے کے ساتھ موجود ہوتی ہيں اور اس ضمن ميں جنگ سے متعلق بين الاقوامی قوانين بھی لاگو ہوتے ہيں ۔ اس کے برعکس دہشت گرد عام عوام ميں گھل مل کر بغير اعلان اور اپنے "شکار" ميں فوجی اور غير فوجی کی تفريق کے بغير حملہ کرتے ہيں اسی ليے القائدہ کے ضمن ميں جنگ اور قيديوں کے حقوق کے حوالے سے جينيوا کينويشن کی شقوں کا مکمل اطلاق نہيں ہوتا۔
"اينمی کمبيٹنٹ" کون ہيں؟
القائدہ اور طالبان کے خلاف جاری جنگ ميں "اينمی کمبيٹنٹ" کی اصطلاح القائدہ اور طالبان سے وابسطہ ممبران اور ايجنٹس پر صادق آتی ہے۔ اس اصطلاح کی تشريح کے ليے امريکی حکومت نے 1942 ميں امريکی سپريم کورٹ کے اس فيصلے سے استفادہ کيا تھا جو ايکس پارٹ کوئرن نامی مشہور زمانہ کيس ميں ديا گيا تھا اس فيصلے سے ايک اقتتباس
ايکس پارٹ کوئرن 317 یو ايس 1، 37-38
"وہ شہری جو خود کو دشمن حکومت کی عسکری شاخ سے منسلک کريں گے اور اس کی مدد، رہنمائ اور اشارے سے جارحانہ عزائم کے ارادے کے ساتھ ملک ميں داخل ہوں گے انھيں ہيگ کنويشن اور جنگی قانون کی روشنی ميں دشمن تصور کيا جائے گا۔"
اس حوالے سے مزيد تفصيل آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔
http://en.wikipedia.org/wiki/Ex_parte_Quirin
"اينمی کمبيٹنٹ" ايک عمومی اصطلاح ہے جس کی دو ذيلی کيٹيگريز ہيں۔ قانونی اور غير قانونی کمبيٹنٹ۔ قانونی کمبيٹنٹ کی کيٹيگری کے زمرے ميں آنے والے قيديوں کو پی –او – ڈبليو کا سٹيٹس ديا جاتا ہے اور انھيں تيسری جينيوا کنوينشن کے تحت تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔
امريکی صدر کے فيصلے کے مطابق القائدہ تنظيم کے رکن غير قانونی کمبيٹنٹ کی کيٹيگری ميں آتے ہيں کيونکہ دوسری وجوہات کے علاوہ وہ ايک ايسے گروپ کی نمايندگی کرتے ہيں جو کسی مملکت يا رياست کی نمايندگی نہيں کرتا لہذا تيسری جينيوا کينوينشن ميں ديے جانے والے تحفظات کا اطلاق اس صورت ميں نہيں ہوتا۔ اسی طرح طالبان کے گرفتار شدہ ارکان پر پی – او – ڈبليو سٹيٹس کا اطلاق نہيں ہوتا کيونکہ وہ ان شرائط کو پورا نہيں کرتے جو تيسری جينيوا کنويشن کے آرٹيکل 4 ميں وضع کی گئ ہيں۔
قانون کے اعتبار سے اس ضمن ميں امريکی صدر کا فيصلہ حتمی ہے ليکن عدالتوں نے بھی ان کے اس فيصلے کی باقاعدہ توثيق کی ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov