امریکہ کا سفر نامہ

سب سے پہلے تو لکھیں ثقافتی فرق جو محسوس کیا اور پھر کیسے اس کے ساتھ ایڈجسٹ ہوئے۔ اس کے بعد زندگی کے شروع کے تین مہینے کی بھاگم دوڑ۔ گھر سیٹ کرنا، ملنا ملانا، پہلے تین چار ماہ بہت بھاگم دوڑ والے ہوتے ہیں

آپ کو خوب تجربہ ہے :)۔ جی ضرور ان سب پر لکھوں گا۔
 
ہم نے شہر سے قریب cliffside commons malden میں رہنا پسند کیا تاکہ آفس جانے میں آسانی ہو اور وائف یورنیورسٹی جا سکیں۔ حالانکہ اس کا کرایہ سن 2000 میں 1250 ڈالرز ماہانہ تھا۔ جبکہ اسی قسم کا اپارٹمنٹ سب اربز میں 700 ڈالرز میں مل جاتا۔

Cliffside-Commons.JPG
 
آخری تدوین:
اپارٹمنٹ خالی بغیر کسی فرنیچر کے ملتا۔ ہم آہستہ آہستہ فرنیچر خرید رہے تھے۔ اس اپارٹمنٹ کو حاصل کرنا نئے سرد شہر میں جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ کمپنی نے ایک اسٹیٹ ایجنٹ کو ہماری مدد کے لیے رکھا تھا لیکن اسکے دکھائے ہوئے اپارٹمنٹ ہمیں پسند نہ آئے۔ وہ شہر سے دور تھے۔ کافی محنت اور ٹرین جس کو بوسٹن کے لوگ "ٹی" بھی کہتے تھے اس سے کئی سفر ہوئے جب کہیں جا کے یہ اپارٹمنٹ ملا۔ ہم دو ماہ فرم کے مہیا کردہ چھوٹے سے فلیٹ پر رہے جو تیسری منزل پر تھا۔ کپڑے دھونے کے لیے بیسمنٹ میں لگی کامن واشنگ مشین تک جانا پڑتا۔ کمپنی کا یہ اپارٹمنٹ ڈاؤن ٹاؤن میں واقع تھا اور گھر سے نکلتے ہی گیٹ کے سامنے ہی ایک بڑی یورنیورسٹی تھی۔ بوسٹن امریکا کا ایجوکیشن سینٹر ہے اور یہاں 3000 کے قریب کالجز اور یورنیورسٹیز ہیں۔ معلوم ہوتا تھا کہ فرم نے پیسے کی بچت کی خاطر ہمیں اس سستے اپارٹمنٹ میں ٹہریا تھا۔ حالانکہ ہمیں 4000 ڈالرز کا ری لوکیشن فنڈ بھی دیا۔

اپارٹمنٹ کا لیونگ روم۔

11010472710588789847687.jpg


کچن
100821011121189768116751055.jpg


ایک اور زاویے سے۔
2103109710011785105-1119.jpg


بیڈ روم۔
106766121113997611681-119.jpg
 
امریکا پہنچنے کے پہلے دن پہلی شام ہمارا پہلا کھانا سیون اپ اور چپس تھے۔ تھکاوٹ سے برا حال تھا اور حلال کھانے کا ہمیں کچھ علم نہ تھا۔ جب شام کافی ڈھل گئی اور چپس سے بھوک نہ مٹی تو ہم دونوں نے مارکیٹ کا چکر لگایا اور ایک ہندو فوڈ شاپ سے چاول اور دال کھائے۔ سردی کے مارے برا حال تھا۔ ہم Downtown Crossing ٹی اسٹیشن کے نزدیک ٹہرے تھے۔ اسی اثناء میں بارش ہو گئی اور ہم نے جلدی سے ایک شاپ سے ایک چھتری خریدی۔ جوں ہی ہم سو میڑ چلے ہوا کے جھکڑ نے چھتری کو توڑ اور پھاڑ دیا۔ ہم امریکہ کے ایک قانون پسند ملک ہونے کا نقشہ ذہن میں لیے ہوئے تھے۔ ناقص مال کی امید نہ تھی سو ہم شاپ گئے۔ مالک نے چھتری واپس کرنے سے انکار کردیا۔ ہمیں کچھ سمجھ نہ آیا تو ہم نے قریبی پولیس والے کو بتایا جس نے بات کو ہنس کر ٹال دیا۔ ہمارے ذہن میں کسٹمر کے اطمینان اور قانون پسند ہونے کا امریکی خاکہ ایک شاک میں آگیا۔

ٹی ٹرین کا نقشہ
boston-t---modern_1024x1024.png


ٹی ٹرین
640px-Haymarket_Green_westbound.jpg
 
آخری تدوین:
برفباری اور اس سے متعلقہ معاملات و خطرات ہمارے لیے نئے تھے۔ بوسٹن پہنچنے کے چار ہفتوں کے اندر میں 2001 ماڈل کی کرولا لے لی تھی۔ لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ ڈاؤن ٹاؤن میں پارکنگ کتنا بڑا مسئلہ ہے۔ چنانچہ جب کلف سائڈ پر منتقل ہوئے تو ایک دوست کی مدد سے زیرو میٹر کار گھر لے آئے۔ میں کراچی سے انٹرنیشنل ڈرائیونگ لائسنس لے کر گیا تھا چنانچہ چند دنوں کی پریکٹس کے بعد میں گاڑی سڑک پر لے آیا۔

ایک پرلطف واقعہ یاد آگیا کہ جب ہم ڈاؤن ٹاؤن میں تھے تو بیگم نے مجھے جگاتے ہوئے کہا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ میں نے کھڑکی سے دیکھا تو سفید سفید برف گر رہی تھی۔ انکا کہنا تھا کہ کیا یہ روئی گر رہی ہے۔ ہم دونوں کا برفباری کا یہ پہلا بار سامنا تھا۔

ایک دن رات بھر خوب برفباری ہوئی۔ جب میں گاڑی لے کر کلف سائڈ سے نکلا تو قریب ہی کی کراسنگ پر سگنل ریڈ ہو گیا۔ باوجود اسکے میں بریک پر پاؤں رکھا تھا لیکن گاڑی پھسلے جارہی تھی۔ مجھے خوف ہونے لگا کہ کراسنگ پر گاڑیوں سے ٹکرا نہ جاؤں تو میں نے گاڑی کو فٹ پاتھ پر پڑے برف کے پہاڑ سے ٹکڑا دیا۔ اس سے گاڑی کا بمپر برف سے ٹکرایا اور وہ رک گئی۔ اچھا ہوا کہ اسپیڈ 20 سے زیادہ نہیں تھی ورنہ کافی نقصان ہوتا۔

اس جگہ کا موجودہ اسٹریٹ ویو جہاں یہ حادثہ ہوا۔
Google Maps
 
بنکر ہل کمیونٹی کالج کا اسٹریٹ ویو جہاں بیگم صاحبہ انگلش لینگوئج کلاسزز لینے جاتیں۔ یہ اورنج ٹی اسٹیشن کے سامنے ہی بنا ہوا تھا۔

Google Maps
 
نومبر ٢٠٠٠ کی خوشگوار شام تھی اور گھر میں چہل پہل اور کزنز کی خوب رونق لگی ہوئی تھی۔ آج رات ٢ بجے کی فلائٹ سے مجھے بوسٹن کے شہر، ریاست میساچوسٹ امریکہ روانہ ہونا تھا۔

پانچ سال قبل ہی ونڈوز ٩۵ ریلیز ہوئی تھی اور امریکہ میں سافٹ وئیر انجینئرز کی اسامیاں بہت بڑھ گئیں تھیں۔ پاکستانی امریکی بزنس مین جو کہ ایم آئی ٹی کا فارغ التحصیل انجینیر تھا اس نے ایک کنسلٹنگ فرم بوسٹن میں قائم کی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے سال بھر میں ١۵٠ ملازمین رکھے جا چکے تھے۔

فرم نے اپنا ایک وفد میریٹ ہوٹل کراچی میں ٹہرایا ہوا تھا اور میں صبح گیارہ بجے اس وفد کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے ان کی بھیجی ہوئی آفر ای میل پر قبول کی تھی۔ وفد کے ایک سینئیر رکن نے پرجوش انداز میں مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا، "ہمیں بہت خوشی ہو رہی آپکو بتاتے ہوئے کہ آپکے سابقہ انٹرویوز کامیاب رہے ہیں اور ہم آپکا ایچ ون بوسٹن پہنچتے ہی فائل کریں گے۔ کونگریجولیشن مسٹر رافع"۔

میں اور وائف رات گیارہ بجے ائیرپورٹ جانے کے لیے تیار تھے۔ میں نے دونوں سوٹ کیس کا وزن کر لیا تھا جو کہ کم وبیش ۴٠ کلو تھا۔ گھر اور سسرال والوں کو مجھے سی آف کرنے ائیرپورٹ تک جانا تھا سو کئی گاڑیوں میں لوگ سوار ہونے کے لیے تیار تھے۔ جو کزنز نہیں جا سکتے تھے وہ گلے مل رہے تھے۔ مجھے ہچھلے دو ہفتوں میں کپڑوں اور دیگر سامان کے لیے خوب بھاگ دوڑ کرنی پڑی تھی۔ آج جانے کے دن بھی شام تک بازار بچی کچی سامان کی لسٹ لے کر جانا پڑا تھا۔ رات کا کھانا ہضم ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔

تین گاڑیاں مجھے اور دیگر لوگوں کو لے کر کراچی ائیرپورٹ کی جانب رواں دواں تھیں۔

جاری ہے۔۔۔
پڑھ کر ہی اتنا اچھا لگ رہا ہے آپ گئے ہوں گے اور سارے رشتے داروں نے آپ کو ائیر پورٹ چھوڑا ہوگا تو بہت ہی اچھا لگا ہوگا
 
پڑھ کر ہی اتنا اچھا لگ رہا ہے آپ گئے ہوں گے اور سارے رشتے داروں نے آپ کو ائیر پورٹ چھوڑا ہوگا تو بہت ہی اچھا لگا ہوگا

جی! جیسے جیسے میں لکھ رہا ہوں۔ میرے چہرے پر مسکراہٹ ہے۔ بعض اوقات تو بہت اچھا سا احساس ہوتا ہے۔
 
امریکہ پہچنے کے اگلے روز ہی میں دفتر دیکھنے گیا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑ رہا ہے میں 17 نومبر 2000 بروز جمعہ بوسٹن پہنچا تھا۔ چنانچہ اگلے روز ہفتے کے دن میں ٹی کے ذریعے دفتر کی جگہ دیکھنے گیا۔ پیر سے مجھے آفس شروع کرنا تھا۔ بیگم صاحبہ کو اکیلے گھر چھوڑ کر میں پہلی بار ٹرین میں سوار ہوا۔ گھر ڈاؤن ٹاؤن کراسنگ جبکہ دفترسولیوان اسکوئر پر واقع تھا۔ جیسا کہ میں نے پہلے لکھا کہ بعد میں یعنی کوئی دو ماہ بعد میں کلف سائڈ کامنز منتقل ہو گیا تھا اور کار لے استعمال کرنے لگا۔

Orange_Line_-_ChooseArtboard_1_2048x2048.jpg

دفتر کے پاس کا ٹی اسٹیشن۔ یہاں سے شٹل وین کے ذریعے روڈ پار آفس کی عمارت تک جاتے۔ ٹھنڈک اتنی زیادہ ہوتی کہ 2 منٹ کا فاصلہ بھی شٹل سے ہی غنیمت لگتا۔
l.jpg
 
Top