امریکہ کا سفر نامہ

میریٹ ہوٹل کراچی جہاں فرم کے نمائندوں نے انٹرویو لیے۔

Dinner-At-Marriott-Hotel-Karachi-600x600.jpg


365981_v1.jpeg
میرٹ ہوٹل کو اندر سے پہلی بار دیکھا اچھا لگا
 
سن ٢٠٠٠ میں میرے پاس رِیل والا مینوئل کیمرہ ہوتا تھا۔ اس سے قریبا دو سو تصاویر کھینچی تھیں۔ وہیں بوسٹن میں رِیل دیں تو وہ ٢۴ گھنٹے میں نیگیٹو سے تصاویر نکال کر دے دیتے تھے۔ کراچی پہچنے کے کئی سال تک وہ البمز میرے پاس رہے۔ پھر میں اور بھائی الگ الگ گھروں میں رہنے لگے اور البم بھائی کے گھر کے اسٹور میں۔ انہوں نے شاید میری وہ البمز اور شادی کی البمز کچرہ کنڈلی کے حوالے کر دیں۔

میں نے جتنے دل توڑ دئیےہیں ان سے بے حد ادب سے معذرت۔
آج کل تو تصاویروں کو محفوظ کرنے کے بھی بہت طریقے آچکے ہیں
 
MCSD پلاسٹک کارڈ کے علاوہ مائیکرو سافٹ کی طرف سے بھیجا جانے والا کاغذی سرٹیفیکٹ۔ سفرنامہ لکھنے کی رفتار سست رہے گی کیونکہ آج کل میں صاحب فراش ہوں اور صحت اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے۔ دعاؤں کی درخواست ہے اللہ صحت کاملہ عاجلہ مستقلہ عطا فرمائے۔

اِس پر کیا بِل گیٹس کا دستخط ہیں؟
 

وسیم

محفلین
بوسٹن میں میرے رہنے کا ارادہ اس وقت متزلزل ہوا جب میری بیگم صاحبہ میرے آفس جانے کے بعد روتیں۔ میں انکو کالنگ کارڈ لا کر دیتا تاکہ وہ اپنی امی سے بات کر سکیں لیکن اب وہ آفس جانے سے پہلے بھی اکیلے پن کی وجہ سے رونا شروع ہو گئیں۔

میں جاب پر چڑا چڑا رہنے لگا۔ ایک دوست جو کہ کیلی فورنیا میں مقیم تھے ان سے رابطہ کیا کہ وہاں جاب ہو جائے۔ وہاں بیگم صاحبہ کی پھوپھی تھیں۔ لیکن بات نہ بنی۔ یورنیورسٹی میں انکو داخلہ دلایا لیکن کلائنٹ اور کمپنی کے ساتھ جو بگاڑ پیدا ہونا تھا ہو چکا تھا۔

ابتدائی چار ہفتے میں یہاں تک رونا بڑھا کہ میں وائف کو آفس لے جانے لگا۔ ایک سینئر نے اپنی وائف سے کال کرائی لیکن انکی تنہائی میں فرق نہ آیا۔

شام، رات اور ویک اینڈ پر مال اور دیگر گھومنے کی جگہوں پر جاتے۔ پر سرد موسم اور اکیلے پن، گھر کی تلاش اور دیگر معاملات کی وجہ سے جاب ختم ہوئی۔

بیگم صاحبہ کو کراچی بھیج کر میں ماموں کے یہاں کیلی فورنیا چلا گیا تاکہ نئی جاب تلاش کروں۔ لیکن دو ہی ماہ میں ہمت ہار کر اپنی وائف کی محبت میں کراچی واپس آگیا۔

لو جی، امریکہ آنسوؤں میں بہہ گیا
:)
 
جنوری 2001 آچکا تھا۔ خبروں میں برفباری کے ایک طوفان کی خبر تھی۔ طوفان آیا اور گزرنے والا ہی تھا کہ ہم نے اپنی گاڑی نکالی تاکہ طوفان کا براہ راست مشاہدہ کریں۔ خیر سڑک پر تھوڑی ہی دور گئے تو احساس ہوا کہ گاڑی چلانا کافی مشکل ہو رہا ہے سو واپس گھر آگئے۔

اس سے کمتر درجے کے طوفان میں ہم جب کلائنٹ آفس اسی کی رفتار سے کار چلاتے ہوئے پہنچے تو وہ دیر سے آیا اور ہمیں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ کسی پمپ پر رک کر اس معمولی طوفان کے رکنے کا انتظار کرتا رہا۔

ہمیں بلیک آئس کا علم بعد میں ہوا۔

winter-is-coming-12-18-inches-high-snow-expected-in-new-jersey.jpg


E2LXSPRVYBEQJE5F7IKWLTXZTY.jpg


YXP2J5ATUVNEYORNCPTUFS3GPE.JPG
 
سن 2001 کے رمضان آچکے تھے۔ بوسٹن میں مغرب سوا چار بجے ہو جاتی تھی۔ ہم آفس سے چار بجے سے قبل ہی اٹھ جاتے۔ ظہر کی نماز وہیں اپنے کمرے میں پڑھ لیتے جہاں ہمارے علاوہ دو اور لوگ تھے۔ ایک ہندو پروگرامر تھا اور ایک امریکی تھا جو کبھی ہوتا اور کبھی نہیں۔ جائے نماز تھی نہیں تو ہم اپنی جیکٹ بچھا کر نماز پڑھ لیتے۔ جمعے کی نماز کے لیے سارے پاکستانی لڑکے ایک ساتھ بوسٹن یورنیورسٹی جاتے جہاں بیسمنٹ میں ایک فلسطینی طالب علم جمعے کا خطبہ دیتا اور نماز پڑھاتا۔

ایک دن جب جمعے کے بعد ہم نے لال سگنل پر ہی کراچی اسٹائل میں روڈ پار کی تو ایک صاحب نے ہمیں بتایا کہ یہاں "جے واکنگ" پر بھی ٹکٹ مل جاتا ہے۔

جب ہم کلائنٹ کے پاس جانے لگے تو وہاں کچھ فاصلے پر ایک ترک مسجد تھی۔ وہاں ترک امام کی امامت میں نماز پڑھتے۔

h_bostonia_14-7819-STOCK-013.jpg


ens_102519_FridayPrayer_main-768x576.jpg
 
ایک دن امریکہ میں کوئی قومی چھٹی کا دن آیا۔ اتفاق سے اس دن جمعہ بھی تھا سو ہم نے ڈاون ٹاون سے قریبی مسجد yahoo پر تلاش کرنی شروع کی۔ اس زمانے میں گوگل مشہور نہیں ہوا تھا۔ بہرکیف سب سے قریبی مسجد کے لیے بھی ریڈ لائن ٹرین کے ایک اسٹیشن پر اتر کر بس لینی تھی۔ ہم نے نہا دھو کر آف وائٹ کرتا اور سفید شلوار پہن لی۔ بوسٹن کی سرد ہوائیں کرتے کے کف اور شلوار کے پائنچے سے داخل ہو کر جسم میں ایک تھرتھری پیدا کر رہیں تھیں۔ حالانکہ ہم نے تھرموپول بھی زیب تن کیا ہوا تھا۔ یہ لباس بوسٹن کی سردی کے لیے نامناسب تھا۔ کافی سفر کے بعد ہم ہیٹر سے گرم مسجد پہنچے اور نماز ادا کی۔ لباس کی ناموزوئیت ایک کمپنی کے لڑکے نے بھی مجھے بتائی جس نے ہمیں مسجد کے راستے میں کہیں دیکھا تھا۔

دن گزر رہے تھے اور اب عید سر پر تھی۔ میرے سسر نے ہم دونوں کے لیے عید کے جوڑے کا پارسل بھیجا تھا۔ عید کے دن کمپنی کے ایک صاحب جن کی اہلیہ پاکستان گئیں تھیں مجھے مسجد تک لے جانے کی پیشکش کی۔ کیونکہ میں نے ابھی گاڑی چلانا شروع نہیں کی تھی۔ عید کے روز کمیونٹی سینٹر پر کافی رش تھا۔ عید کی نماز ہوئی اور اسکے سب کو شیر خورمہ پیش کیا گیا۔ ایک صاحب شاید مرغی کا قورمہ اور سموسے بیچ رہے تھے۔ بیچلر لڑکوں کے لیے روایتی کھانا کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ عید کے دن تیار ہق کر ہم دونوں گھر پر رہے اور پاکستان فون کر کے عید کی مبارکباد دی۔ عید کا دن کافی بور گزرا۔ بس اسی طرح شام اور پھر رات ہو گئی اور اگلی صبح پھر وہی آفس جانے کا سلسلہ۔

slide.jpg
 
Top