امریکہ کا سفر نامہ

سیما علی

لائبریرین
مزاج میں ابر جیسی شگفتگی ہے۔
بالکل ایسا ہی ہے ہماری تو بھاوج اور بھتیجے بھتیجیاں ہیں سارے ٹھنڈے اور دھیمے مزاج ہماری قوم کی طرح نہیں کہ اکثریت سبز مرچ منہ میں رکھے بیٹھا ہے اور تیز دھار الفاظ سے لوگوں پر وار ۔۔۔:crying3::crying3:
 
بالکل ایسا ہی ہے ہماری تو بھاوج اور بھتیجے بھتیجیاں ہیں سارے ٹھنڈے اور دھیمے مزاج ہماری قوم کی طرح نہیں کہ اکثریت سبز مرچ منہ میں رکھے بیٹھا ہے اور تیز دھار الفاظ سے لوگوں پر وار ۔۔۔:crying3::crying3:

میں ملائشین لوگوں کی منکسر المزاجی کا اس وقت اور مداح ہو گیا جب انکے گورنمنٹ اور ٹیکس ڈپارٹمنٹ جانا ہوا۔ نہایت خندہ پیشانی سے سب پیش آرہے تھے۔ آفس اور بازاروں میں ملئے لوگوں کا انکسار پہلے ہی دیکھ چکا تھا۔

چلیں اب کچھ بات امریکہ کے لوگوں کی ہو جائے۔ :)
 
بالکل ایسا ہی ہے ہماری تو بھاوج اور بھتیجے بھتیجیاں ہیں سارے ٹھنڈے اور دھیمے مزاج ہماری قوم کی طرح نہیں کہ اکثریت سبز مرچ منہ میں رکھے بیٹھا ہے اور تیز دھار الفاظ سے لوگوں پر وار ۔۔۔:crying3::crying3:
یہاں بیچارے معاشی جنگ روز لڑتے ہیں اوپر سے کورونا وائرس پڑھائی لکھائی بھی بند ہے تو کہاں سے ہمارے معاشرے میں سُدھار پیدا ہوگا
 
آفس جاتے ابھی تین روز ہی ہوئے تھے کہ مجھے بتایا گیا کہ آج مجھے اور وائف کو دوپہر کے کھانے پر لے جایا جائے گا۔ دو پاکستانی جو کچھ عرصے سے کمپنی میں تھے ہمیں اپنی گاڑی پر نزدیکی حلال کھانے کے ریسٹورنٹ لے گئے۔ وہاں ہم نے کمپنی کے بل پر کھانا کھایا۔ راستے میں مجھے گاڑی کے ہیٹر سے سر درد ہونے لگا۔ انہی میں سے ایک صاحب نے ٹلینول لے کر دی۔ وہاں دو گولیاں کھلی ملنے کا رواج نہیں سو پوری پچاس گولیوں کی شیشی خریدنی پڑی۔ بہرکیف ہم کو انہوں نے سر شام گھر کے پاس چھوڑا اور خود علیک سلیک کے بعد رخصت ہوئے۔
 
آفس جاتے ابھی تین روز ہی ہوئے تھے کہ مجھے بتایا گیا کہ آج مجھے اور وائف کو دوپہر کے کھانے پر لے جایا جائے گا۔ دو پاکستانی جو کچھ عرصے سے کمپنی میں تھے ہمیں اپنی گاڑی پر نزدیکی حلال کھانے کے ریٹورنٹ لے گئے۔ وہاں ہم نے کمپنی کے بل پر کھانا کھایا۔ راستے میں مجھے گاڑی کے ہیٹر سے سر درد ہونے لگا۔ انہی میں سے ایک صاحب نے ٹلینول لے کر دی۔ وہاں دو گولیاں کھلی ملنے کا رواج نہیں سو پوری پچاس گولیوں کی شیشی خریدنی پڑی۔ بہرکیف ہم کو انہوں نے سر شام گھر کے پاس چھوڑا اور خود علیک سلیک کے بعد رخصت ہوئے۔
جب اتنا بہتر ماحول میسر ہے وہاں تو پھر واپسی کیوں؟
 
یہاں بیچارے معاشی جنگ روز لڑتے ہیں اوپر سے کورونا وائرس پڑھائی لکھائی بھی بند ہے تو کہاں سے ہمارے معاشرے میں سُدھار پیدا ہوگا

ہر معاشرے میں اہل محبت ہوتے ہیں اور منتشر المزاج لوگ بھی۔ اہل محبت کی صحبت اور اہل محبت کی کتابیں سدھار اور عافیت کے نزدیک کرتی ہیں۔
 
آخری تدوین:
ہر معاشرے میں اہل محبت ہوتے ہیں اور منتشر المزاج لوگ بھی۔ اہل محبت صحبت اور اہل محبت کی کتابیں سدھار اور عافیت کے نزدیک کرتی ہیں۔
پر لوگوں کو اچھے لوگوں کی صحبت کہاں نصیب ہورہی ہے
کورونا کی وجہ سے سب لوگوں نے جو چھوٹی موٹی دعوتیں اجتماعات وغیرہ سب پر پابندی عائد ہے
 
دہ ماہ تک میں ڈاون ٹاون میں کمپنی کے فراہم کردہ اپارٹمنٹ میں رہا۔ ایک دن صبح سویرے کمرے میں لگا گرم پانی سے چلنے والا ہیٹر لیک کرنے لگا۔ جلد ہی بھاپ ہی بھاپ کمرے میں بھر گئی اور فرش پر نیم گرم ہو گیا۔ میں نے اٹھ کر ہیٹر کو بند کیا، کھڑکیاں کھولیں اور مالک مکان کو کال کی۔ کچھ دیر بعد ایک ہیٹر مکینک آیا اور ہیٹر کو ٹھیک کر کے چلا گیا۔

جب میں کلف سائڈ کامنز منتقل ہوا اور کمپنی کو پتہ چلا کہ میں نے گاڑی لے لی ہے تو انہوں نے مجھے تیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ٹاون، آرلنگٹن میں کلائنٹ کے پراجیکٹ پر منتقل کر دیا۔ پہلے دن کمپنی کا سینئر آرکیٹیکٹ مجھے کلائنٹ سے ملاقات کے لیے لے گیا۔ اگلے دن سے مجھے خود ہائی وے پر ڈرائیو کر کے وہاں پہنچنا تھا۔

ایک دن میں نے واپسی کے وقت گاڑی کو بغیر انڈیکیٹر دیے لین تبدیل کر لی۔ پیچھے سے ایک ہارن بجاتی گاڑی گزری جس میں بِیٹھی خاتون کے چہرے سے خوف نمایاں تھا۔ آہستہ آہستہ مجھے ہائے پر ڈرائیونگ اور مختلف موسمی حالات میں گاڑی چلانے کا تجربہ ہوتا جا رہا تھا۔

کلائنٹ سے گپ شپ چلتی رہتی۔ وہ ایک نئی میڈیکل پراڈکٹ کے صفحات مجھ سے بنوا رہا تھا۔ انکا سارا سسٹم سیپ پر تھا۔ میں ان لوگوں کے ساتھ کبھی کبھار لنچ کر لیتا۔ وہاں میری کہانی سنانے کی عادت جوش مارتی اور میں ان کو ہندو مسلم کلچر کی شادیوں اور کھانوں کے بارے میں خوب بڑھ چڑھ کر بتاتا۔ وہ بھی دلچسپی سے ان قصوں سے لطف اندوز ہوتے رہتے۔

ایک دن میں نے واپسی کے وقت سوچا کہ کیوں نہ پیٹرول ٹینک فل کرا لیا جائے۔ گیس اسٹیشن پر پہنچ کر میں نے گاڑی آف کی اور نیچے اترا۔ سردی سے بچنے کے لیے سارے شیشے بند کیے ہوئے تھے۔ گاڑی کی چابی اگنیشن میں لگی ہوئی تھی۔ ابھی میں پیٹرول بھرنے کو ہی تھا کہ 'کلچ' کی آواز آئی اور سارے دروازے لاک ہو گئے۔ مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ چابی لگے لگے بھی گاڑی کے دروازے آٹومیٹک بند ہو جاتے ہیں۔ میں پیٹرول بھرکر دروازے کے قریب ٹہلنے لگا کہ کیا کیا جائے۔ اسی اثناء میں پیٹرول پمپ کا ایک ملازم میری طرف آیا۔ جب میں نے اسکو صورتحال سمجھائی تو وہ کہنے لگا کہ شیشہ توڑنا ہی اس کا واحد حل ہے۔ ابھی وہ مجھ سے بات کر ہی رہا تھا کہ مجھے خیال آیا کہ ایک اور چابی گھر پر ہے۔ اس زمانے میں میرے پاس موبائل فون نہیں ہوتا تھا لیکن کمپنی نے بلیک بیری کی ایک ٹیکسٹ بھجینے کی ڈائوائس دی تھی۔ کمپنی میں ایک صاحب تھے جو کافی عرصے سے امریکہ میں تھے اور مشیگن سے بوسٹن منتقل ہوئے تھے۔ ہر ایک کی بڑھ چڑھ کر مدد کرتے۔ انکی اپنی فیملی پاکستان گئی ہوئی تھی۔ مجھے خیال آیا کیوں نہ ان سے چابی یہاں منگوا لی جائے۔ وہ بے چارے آفس سے پہلے میرے گھر گئے چابی لی اور پھر تیس کلو میٹر کا سفر کر کے گیس اسٹیشن پر مجھے چابی لا کر دی۔ گیس اسٹیشن کا ملازم گاڑی چلتی دیکھ کر مجھے دیکھ کر مسکرانے لگا جیسا کہ شیشہ نہ توڑنے پر اسے خوشی ہوئی ہو۔

بلیک بیری ڈوائس جس کی وجہ سے گاڑی کا شیشہ ٹوٹنے سے بچا۔

rim-950.jpg
 
بوسٹن کا موسم عجیب انداز میں تبدیل ہو رہا تھا۔ جہاں دسمبر سے فروری برفباری ہوئی تھی اور ہیٹر چل رہے تھے اب مارچ میں کبھی کبھار پنکھے کی ضرورت رہتی۔ شہر بھر میں رنگ برنگے پھولوں کی کیاریاں لگ گئیں تھیں۔ حکومت کی جانب سے سڑکوں کے کنارے اور درمیان میں بنی مخصوص کیاریوں میں بھی رنگ برنگے پھول کھلے تھے۔

shutterstock_139573487.0.jpg
 
ایک دن میں یونہی کسی کام سے نکلا۔ ریڈ سگنل ہو چکا تھا سو کراسنگ کے نزدیک میں نے گاڑی کی رفتار دھیمی کرنی شروع کی۔ میرے آگے ایک بائیکر تھا۔ میں بائیکر کے آگے اپنی گاڑی لے گیا جیسے ہم لین میں ہوتے ہوئے بھی کراچی میں بائک کے آگے گاڑی لے جا سکتے ہیں۔ میری گاڑی کا شیشہ نیچے تھا چنانچہ وہ بائیکر میرے نزدیک آیا اور کہا "Do you have a problem"۔ میں نے نفی میں سر ہلا دیا۔

bikerrally2377771.jpg
 
بہار کے موسم کو بوسٹن کے آبائی لوگ خوب مناتے ہیں۔ اب مارچ میں انہوں نے ہوائی چپلوں پہننا شروع کر دیں اور ٹی شرٹ اور نیکر کو اپنا لباس بنا لیا تھا۔ میں بدستور جیکٹ اور دیگر گرم لباس میں ہوتا۔ ایک دن میں نے چارلس دریا کے اردگرد درجنوں لوگوں کو اسی قسم کے لباس میں جاگنگ کرتے دیکھا۔ سوچا کیوں نہ جیکٹ اتار دی جائے اور دریا کی سیر کی جائے۔ گاڑی پارک کر کے میں جونہی سو میٹر چلا میری تھرتھری چھوٹ گئی۔ ہاتھ جمتے محسوس ہونے لگے۔ کسی نہ کسی طرح گاڑی تک پہنچا اور ہیٹر آن کیا تو دم میں دم آیا۔

t_1315124502_7b3bdd077a_o.jpg


امریکہ میں ریسیشن شروع ہو چکا تھا۔ کاروبار دھڑا ڈھر ناکام ہو رہے تھے اور اپنے ملازمین کو نکال رہے تھے۔ اگر میں نومبر میں بوسٹن نہ آگیا ہوتا تو مجھے بھی نہ بلایا جاتا۔ ہماری کمپنی جو 300 ملازمین کو رکھنے کا ارادہ رکھتی تھی اب ہر ہفتے درجنوں افراد کو نکال رہی تھی۔ صرف پاکستان اور انڈیا سے 43 افراد کو نہیں بلایا گیا۔ ایک دن درجینا سے آئی ایک خاتون مینیجر روتی ہوئی لفافہ لے کر آئی۔ وہ دو ماہ قبل ہی اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ بوسٹن آئی تھی اور اب اسے پراجیکٹ نہ ملنے کے سبب نکال دیا گیا تھا۔ ہمارا آفس سکڑ کرسولوئین اسکوئر سے چارلس دریا کے پاس منتقل ہو چکا تھا۔

ایک دن میں کسی سوچ میں چارلس ریور سے ملحقہ سڑک سے گزر رہا تھا۔ میرے گھر کا ایکزٹ اچانک آجاتا تھا۔ اگر آپ 60 کی رفتار سے گاڑی چلا رہے ہیں اور دھیان نہیں تو لُپ سے ایکزٹ نکل جاتا۔ ایک دفعہ آپ آگے نکل جائیں تو پل سے دوسرے طرف جانا پڑتا اور پھر قریبا 8 یا 10 میل گاڑی چلانی پڑتی۔ یہ ہی ہوا کہ میں ایسا سوچوں میں غرق تھا کہ پہلی بار ایکزٹ نکل گیا اور میں نے اپنے ہونٹ بھینچ لیے۔ پھر دوسری دفعہ میں پوری طرح تیار تھا لیکن دوسری بار بھی کچھ خیال نہ رہا اور میں ایکزٹ سے آگے نکل گیا۔ بلاآخر تیسری دفعہ میں خوب محتاط رہا اور گھر کے ایکزٹ پر آ گیا۔

0805_falcons22-1000x666.jpg
 

وسیم

محفلین
بہار کے موسم کو بوسٹن کے آبائی لوگ خوب مناتے ہیں۔ اب مارچ میں انہوں نے ہوائی چپلوں پہننا شروع کر دیں اور ٹی شرٹ اور نیکر کو اپنا لباس بنا لیا تھا۔ میں بدستور جیکٹ اور دیگر گرم لباس میں ہوتا۔ ایک دن میں نے چارلس دریا کے اردگرد درجنوں لوگوں کو اسی قسم کے لباس میں جاگنگ کرتے دیکھا۔ سوچا کیوں نہ جیکٹ اتار دی جائے اور دریا کی سیر کی جائے۔ گاڑی پارک کر کے میں جونہی سو میٹر چلا میری تھرتھری چھوٹ گئی۔ ہاتھ جمتے محسوس ہونے لگے۔ کسی نہ کسی طرح گاڑی تک پہنچا اور ہیٹر آن کیا تو دم میں دم آیا۔

t_1315124502_7b3bdd077a_o.jpg


امریکہ میں ریسیشن شروع ہو چکا تھا۔ کاروبار دھڑا ڈھر ناکام ہو رہے تھے اور اپنے ملازمین کو نکال رہے تھے۔ اگر میں نومبر میں بوسٹن نہ آگیا ہوتا تو مجھے بھی نہ بلایا جاتا۔ ہماری کمپنی جو 300 ملازمین کو رکھنے کا ارادہ رکھتی تھی اب ہر ہفتے درجنوں افراد کو نکال رہی تھی۔ صرف پاکستان اور انڈیا سے 43 افراد کو نہیں بلایا گیا۔ ایک دن درجینا سے آئی ایک خاتون مینیجر روتی ہوئی لفافہ لے کر آئی۔ وہ دو ماہ قبل ہی اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ بوسٹن آئی تھی اور اب اسے پراجیکٹ نہ ملنے کے سبب نکال دیا گیا تھا۔ ہمارا آفس سکڑ کرسولوئین اسکوئر سے چارلس دریا کے پاس منتقل ہو چکا تھا۔

ایک دن میں کسی سوچ میں چارلس ریور سے ملحقہ سڑک سے گزر رہا تھا۔ میرے گھر کا ایکزٹ اچانک آجاتا تھا۔ اگر آپ 60 کی رفتار سے گاڑی چلا رہے ہیں اور دھیان نہیں تو لُپ سے ایکزٹ نکل جاتا۔ ایک دفعہ آپ آگے نکل جائیں تو پل سے دوسرے طرف جانا پڑتا اور پھر قریبا 8 یا 10 میل گاڑی چلانی پڑتی۔ یہ ہی ہوا کہ میں ایسا سوچوں میں غرق تھا کہ پہلی بار ایکزٹ نکل گیا اور میں نے اپنے ہونٹ بھینچ لیے۔ پھر دوسری دفعہ میں پوری طرح تیار تھا لیکن دوسری بار بھی کچھ خیال نہ رہا اور میں ایکزٹ سے آگے نکل گیا۔ بلاآخر تیسری دفعہ میں خوب محتاط رہا اور گھر کے ایکزٹ پر آ گیا۔

0805_falcons22-1000x666.jpg

شکر کریں ایگزٹ مل گیا نہیں تو آج بھی سفرنامہ لکھنے کے بجائے ایکزٹ ہی ڈھونڈ رہے ہوتے :p
 
Top