سید رافع
محفلین
لوگ کیسے بہت ابر آلود ہوتے ہیں ؟
مزاج میں ابر جیسی شگفتگی ہے۔
لوگ کیسے بہت ابر آلود ہوتے ہیں ؟
بالکل ایسا ہی ہے ہماری تو بھاوج اور بھتیجے بھتیجیاں ہیں سارے ٹھنڈے اور دھیمے مزاج ہماری قوم کی طرح نہیں کہ اکثریت سبز مرچ منہ میں رکھے بیٹھا ہے اور تیز دھار الفاظ سے لوگوں پر وار ۔۔۔مزاج میں ابر جیسی شگفتگی ہے۔
بالکل ایسا ہی ہے ہماری تو بھاوج اور بھتیجے بھتیجیاں ہیں سارے ٹھنڈے اور دھیمے مزاج ہماری قوم کی طرح نہیں کہ اکثریت سبز مرچ منہ میں رکھے بیٹھا ہے اور تیز دھار الفاظ سے لوگوں پر وار ۔۔۔
یہاں بیچارے معاشی جنگ روز لڑتے ہیں اوپر سے کورونا وائرس پڑھائی لکھائی بھی بند ہے تو کہاں سے ہمارے معاشرے میں سُدھار پیدا ہوگابالکل ایسا ہی ہے ہماری تو بھاوج اور بھتیجے بھتیجیاں ہیں سارے ٹھنڈے اور دھیمے مزاج ہماری قوم کی طرح نہیں کہ اکثریت سبز مرچ منہ میں رکھے بیٹھا ہے اور تیز دھار الفاظ سے لوگوں پر وار ۔۔۔
جب اتنا بہتر ماحول میسر ہے وہاں تو پھر واپسی کیوں؟آفس جاتے ابھی تین روز ہی ہوئے تھے کہ مجھے بتایا گیا کہ آج مجھے اور وائف کو دوپہر کے کھانے پر لے جایا جائے گا۔ دو پاکستانی جو کچھ عرصے سے کمپنی میں تھے ہمیں اپنی گاڑی پر نزدیکی حلال کھانے کے ریٹورنٹ لے گئے۔ وہاں ہم نے کمپنی کے بل پر کھانا کھایا۔ راستے میں مجھے گاڑی کے ہیٹر سے سر درد ہونے لگا۔ انہی میں سے ایک صاحب نے ٹلینول لے کر دی۔ وہاں دو گولیاں کھلی ملنے کا رواج نہیں سو پوری پچاس گولیوں کی شیشی خریدنی پڑی۔ بہرکیف ہم کو انہوں نے سر شام گھر کے پاس چھوڑا اور خود علیک سلیک کے بعد رخصت ہوئے۔
یہاں بیچارے معاشی جنگ روز لڑتے ہیں اوپر سے کورونا وائرس پڑھائی لکھائی بھی بند ہے تو کہاں سے ہمارے معاشرے میں سُدھار پیدا ہوگا
پر لوگوں کو اچھے لوگوں کی صحبت کہاں نصیب ہورہی ہےہر معاشرے میں اہل محبت ہوتے ہیں اور منتشر المزاج لوگ بھی۔ اہل محبت صحبت اور اہل محبت کی کتابیں سدھار اور عافیت کے نزدیک کرتی ہیں۔
پر لوگوں کو اچھے لوگوں کی صحبت کہاں نصیب ہورہی ہے
کورونا کی وجہ سے سب لوگوں نے جو چھوٹی موٹی دعوتیں اجتماعات وغیرہ سب پر پابندی عائد ہے
لاگ اِن ہوکر دیکھنا ہوگا اِس میں تو
بھیا اخلاق میں سدھار کے تعلق کو کورونا سے مت جوڑیںیہاں بیچارے معاشی جنگ روز لڑتے ہیں اوپر سے کورونا وائرس پڑھائی لکھائی بھی بند ہے تو کہاں سے ہمارے معاشرے میں سُدھار پیدا ہوگا
کورونا کی وجہ سے پڑھائی متاثر ہورہی ہے جب لوگ پڑھیں گے نہیں تو اخلاق کہاں سے درست ہونگیںبھیا اخلاق میں سدھار کے تعلق کو کورونا سے مت جوڑیں
بہار کے موسم کو بوسٹن کے آبائی لوگ خوب مناتے ہیں۔ اب مارچ میں انہوں نے ہوائی چپلوں پہننا شروع کر دیں اور ٹی شرٹ اور نیکر کو اپنا لباس بنا لیا تھا۔ میں بدستور جیکٹ اور دیگر گرم لباس میں ہوتا۔ ایک دن میں نے چارلس دریا کے اردگرد درجنوں لوگوں کو اسی قسم کے لباس میں جاگنگ کرتے دیکھا۔ سوچا کیوں نہ جیکٹ اتار دی جائے اور دریا کی سیر کی جائے۔ گاڑی پارک کر کے میں جونہی سو میٹر چلا میری تھرتھری چھوٹ گئی۔ ہاتھ جمتے محسوس ہونے لگے۔ کسی نہ کسی طرح گاڑی تک پہنچا اور ہیٹر آن کیا تو دم میں دم آیا۔
امریکہ میں ریسیشن شروع ہو چکا تھا۔ کاروبار دھڑا ڈھر ناکام ہو رہے تھے اور اپنے ملازمین کو نکال رہے تھے۔ اگر میں نومبر میں بوسٹن نہ آگیا ہوتا تو مجھے بھی نہ بلایا جاتا۔ ہماری کمپنی جو 300 ملازمین کو رکھنے کا ارادہ رکھتی تھی اب ہر ہفتے درجنوں افراد کو نکال رہی تھی۔ صرف پاکستان اور انڈیا سے 43 افراد کو نہیں بلایا گیا۔ ایک دن درجینا سے آئی ایک خاتون مینیجر روتی ہوئی لفافہ لے کر آئی۔ وہ دو ماہ قبل ہی اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ بوسٹن آئی تھی اور اب اسے پراجیکٹ نہ ملنے کے سبب نکال دیا گیا تھا۔ ہمارا آفس سکڑ کرسولوئین اسکوئر سے چارلس دریا کے پاس منتقل ہو چکا تھا۔
ایک دن میں کسی سوچ میں چارلس ریور سے ملحقہ سڑک سے گزر رہا تھا۔ میرے گھر کا ایکزٹ اچانک آجاتا تھا۔ اگر آپ 60 کی رفتار سے گاڑی چلا رہے ہیں اور دھیان نہیں تو لُپ سے ایکزٹ نکل جاتا۔ ایک دفعہ آپ آگے نکل جائیں تو پل سے دوسرے طرف جانا پڑتا اور پھر قریبا 8 یا 10 میل گاڑی چلانی پڑتی۔ یہ ہی ہوا کہ میں ایسا سوچوں میں غرق تھا کہ پہلی بار ایکزٹ نکل گیا اور میں نے اپنے ہونٹ بھینچ لیے۔ پھر دوسری دفعہ میں پوری طرح تیار تھا لیکن دوسری بار بھی کچھ خیال نہ رہا اور میں ایکزٹ سے آگے نکل گیا۔ بلاآخر تیسری دفعہ میں خوب محتاط رہا اور گھر کے ایکزٹ پر آ گیا۔
شکر کریں ایگزٹ مل گیا نہیں تو آج بھی سفرنامہ لکھنے کے بجائے ایکزٹ ہی ڈھونڈ رہے ہوتے
حیران کن انٹرسٹ ریٹ۔ لگتا ہے آپ کو کافی ہائی رسک borrower سمجھا گیااس پر 16 اعشاریہ 5 فیصد سود