ام الکتاب (مولانا ابولکلام آزاد)

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 164
ظہور قرآن کے وقت پانچ دینی تصور فکر انسانی پر چھائے ہوئے تھے :
1) چینی، 2) ہندوستانی، 3) مجوسی، 4) یہودی اور 5) مسیحی
1) چینی تصور
دنیا کی تمام قدیم قوموں میں چینیوں کی یہ خصوصیت تسلیم کرنی پڑی ہے کہ ان کے تصور الوہیت نے ابتدا میں ایک سادہ اور مبہم نوعیت اختیار کر لی تھی وہ بہت حد تک برابر قائم رہی اور زمانہ مابعد کی ذہنی وسعت پذیریاں اس میں زیادہ مداخلت نہ کر سکیں۔ تاہم تصور کا کوئی مرقع بغیر رنگ و روغن کے بن نہیں سکتا، اس لئے آہستہ آہستہ اس سادہ خاکے میں بھی مختلف رنگتیں نمایاں ہونے لگیں اور بالآخر ایک رنگین تصویر متشکل ہو گئم۔
چین میں قدیم زمانے سے مقامی خداؤں کے ساتھ ایک آسمانی ہستی کا اعتقاد بھی موجود تھا۔ ایک ایسی بلند اور عظیم ہستی جس کے علویت کے تصورات کے لئے ہم آسمان کے سوا اور کسی طرف نظر اٹھا نہیں سکتے۔ آسمان حسن و بخشایش کا بھی مظہر ہے، قہر و غضب کی بھی ہولناکی ہے۔ اس کا سورج روشنی اور حرارت بخشتا ہے اس کے ستارے اندھیری راتوں میں قندیلیں روشن کر دیتے ہیں۔ اس کی بارش زمین کو طرح طرح کی روئیدگیوں سے معمور کر دیتی ہے۔ لیکن اس کی بجلیاں ہلاکت کا بھی پیام ہیں اور اس کی گرج دلوں کو دہلا بھی دیتی ہے۔ اس لئے آسمانی خدا کے تصور میں بھی دونوں صفتیں نمودار ہوئیں۔ ایک طرف اس کی جود و بخشائش ہے، دوسری طرف اس کا قہر و غضب ہے۔ چینی شاعری کی قدیم کتاب میں ہم قدیم ترین چینی تصورات کی جھلک دیکھ سکتے ہیں۔ ان میں جابجا ہمیں ایسے مخاطبات ملتے ہیں جن میں آسمانی اعمال کی ان متضاد نمودوں پر حیرانی و سرگشتگی کا اظہار کیا گیا ہے۔ "یہ کیا بات ہے کہ تیرے کاموں میں یکسانی اور ہم آہنگی نہیں! تو زندگی بھی بخشتا ہے اور تیرے پاس ہلاکت کی بجلیاں بھی ہیں۔"
یہ "آسمان" چینی تصور کا ایک ایسا بنیادی عنصر بن گیا کہ چینی جمعیت "آسمانی جمعیت" اور چینی مملکت "آسمانی مملکت" کے نام سے پکاری جانے لگی۔ رومی جب پہلے پہل چین سے آشنا ہوئے تو انہیں ایک آسمانی مملکت ہی کی خبر ملی تھی۔ اس وقت سے (Coelum)
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 165
کے مشتقات کا چین کےلئے استعمال ہونے لگا۔ یعنی "آسمان والے" اور "آسمانی" اب بھی انگریزی میں چین کے باشندوں کے لیے مجازاً "سلے شیل" (Celestial) کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے یعنی آسمانی ملک کے باشندے۔
اس آسمانی ہستی کے علاوہ گزرے ہوئے انسانوں کی روحیں بھی تھیں جنہیں دوسرے عالم میں پہنچ کر تدبیر و تصرف کی طاقتیں حاصل ہو گئی تھیں اور اس لئے پرستش کی مستحق سمجھی گئی تھیں، ہر خاندان اپنی معبود روحیں رکھتا تھا اور ہر علاقہ اپنا مقامی خدا۔
لاؤتزوا ورکنگ فوزی کی تعلیم
سنہ مسیحی سے پانچ سو برس پہلے لاؤ تزو (Lao-Tzu) اور کنگ فوزی (Kung-Fu-Tse) کا ظہور ہوا۔ کنگ فوزی نے ملک کو عملی زندگی کی سعادتوں کی راہ دکھائی اور معاشرتی حقوق و فرائض کی ادائیگی کا ایک قانون مہیا کر دیا۔ لیکن جہاں تک خدا کی ہستی کا تعلق ہے "آسمان" کا قدیمی تصور بدستور قائم رہا اور اجداد پرستی کے عقائد نے اس کے ساتھ مل کر ایک ایسی نوعیت پیدا کر لی گویا آسمانی خدا تک پہنچنے کا ذریعہ، گزری ہوئی روحوں کا وسیلہ اور تشفع ہے۔ روحانی تصورات میں وسیلے کا اعتقاد ہمیشہ عابدانہ پرستش کی نوعیت پیدا کر لیتا ہے چنانچہ یہ توسل بھی عملاً تعبد تھا اور ہر طرح کے دینی اعمال و رسوم کا مرکزی نقطہ بن گیا تھا۔
ہندوستان اور یونان میں دیوتاؤں کے تصور نے نشو و نما پائی تھی جو خدائی کی ایک بالا ہستی کے ساتھ کارخانہ عالم کے تصرفات میں شرکت رکھتے تھے۔ چینی تصور میں یہ خانہ بزرگوں کی روحوں نے بھرا اور اس طرح اشراک اور تعدد کے تصور کی پوری نقش آرائی ہو گئی۔
کنگ فوزی کے ظہور سے پہلے قربانیوں کی رسم عام طور پر رائج تھی۔ کنگ فوزی نے اگرچہ ان پر زور نہیں دیا لیکن ان سے تعرض بھی نہیں کیا۔ چنانچہ وہ چینی مندروں کا تقاضا برابر پورا کرتی رہیں۔ قربانیوں کے عمل کے پیچھے طلب، بخشش اور جلب تحفظ، دونوں کے تصور کام کرتے تھے۔ قربانیوں کے ذریعہ ہم اپنے مقاصد بھی حاصل کر سکتے ہیں اور خدا کے قہر و غضب سے محفوظ بھی ہو جا سکتے ہیں۔ پہلی غرض کے لئے وہ نذر ہیں، دوسری غرض کے لئے فدیہ۔
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 166
لاؤ-تزو نے تاؤ یعنی طریقت کے مسلک کی بنیاد ڈالی۔ اسے چین کو تصوف اور ویدانیت سمجھنا چاہیے۔ تاؤ نے چینی زندگی کو روحانی استغراق اور داخلی مراقبے کی راہون سے آشنا کیا اور مذہبی اور اخلاقی تصورات میں ایک طرف گہرائی اور دقت آفرینی پیدا ہوئی دوسری طرف لطافت فکر اور رقت خیال کے نئے نئے دروازے کھلے۔ لیکن تصوف ملک کا عام دینی تصور نہیں بن سکتا تھا۔ اس کی محدود جگہ چین میں بھی وہی رہی جو "ویدانیت" کی، ہندوؤں میں اور "تصوف" کی مسلمانوں میں رہی ہے۔
چین کا شمنی تصور
اس کے بعد وہ زمانہ آیا جب ہندوستان کے شمنی (یعنی بدھ مذہب) کی چین میں اشاعت ہوئی یہ مہایانابدھ مذہب تھا جو مذہب کی اصلی مبادیات سے بہت دور جا چکا تھا اور جس نے تبدل پذیری کی ایسی بے روک لچک پیدا کر لی تھی کہ جس شکل و قطع کا خانہ ملتا تھا ویسا ہی جسم بنا کر اس میں سما جاتا تھا۔ یہ جب چین، کوریا، اور جاپان میں پہنچا تو اسے ہندوستان اور سیلون سے مختلف قسم کی فضا ملی اور اس نے فوراً مقامی وضع و قطع اختیار کر لی۔
بدھ مذہت کی نسبت یقین کیا جاتا ہے کہ خدا کی ہستی کے تصور سے خالی ہے، لیکن پیروان بدھ نے خود بدھ کو خدا کی جگہ دے دی اور اس کی پرستش کا ایک عالم گیر نظام قائم کر دیا جس کی کوئی دوسری نظیر اصنامی مذاہب کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ چنانچہ چین، کوریا اور جاپان کی عبادت گاہیں بھی اب اس نئے معبود کے بتوں سے معمور ہو گئیں۔
1) ہندوستانی تصور
ہندوستان کے تصور الوہیت کی تاریخ متضاد تصوروں کا ایک حیرت انگیز منظر ہے۔ ایک طرف اس کا توحیدی فلسفہ ہے دوسری طرف اس کا عملی مذہب ہے۔ توحیدی فلسفے نے استغراق فکر و عمل کے نہایت گہرے اور دقیق مرحلے طے کیے اور معاملے کو فکری بلندیوں کی ایک ایسی اونچی سطح تک پہنچا دیا جس کی کوئی دوسری مثال ہمیں قدیم قوموں کے مذہبی تصورات میں نہیں ملتیں۔ عملی مذہب نے اشراک اور تعدد کی بے روک راہ اختیار کی اور
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 167
اصنامی تصوروں کو اتنی دور تک پھیلنے دیا کہ ہر پتھر معبود ہو گیا، ہر درخت خدائی کرنے لگا اور ہر چوکھٹ سجدہ گاہ بن گئی! وہ بہ یک ہی وقت زیادہ سے زیادہ بلندی کی طرف بھی اڑا اور زیادہ سے زیادہ پستی میں بھی گرا۔ اس کے "خواص" نے اپنے لئے توحید کی جگہ پسند کی اور "عوام" کے لئے اشراک اور اصنام پرستی کی راہ مناسب سمجھی۔
اپنشد کا توحیدی اور وحدۃ الوجودی تصور
رگ وید کے زمزموں میں ہمیں ایک طرف مظاہر قدرت کی پرستش کا ابتدائی تصور بتدریج پھیلتا اور متجسم ہوتا دکھائی دیتا ہے، دوسری طرف ایک بالاتر اور خالق کل ہستی کا توحیدی تصور بھی آہستہ آہستہ ابھرتا نظر آتا ہے۔ خصوصاً دسویں حصے کے زمزموں میں تو اس کی نمود صاف صاف دکھائی دینے لگتی ہے۔ یہ توحیدی تصور کسی بہت پرانے گذشتہ عہد کے بنیادی تصور کا بقیہ تھا یا مظاہر قدرت کی کثرت آرائیوں کا تصور، اب خود بخود کثرت سے وحدت کی طرف ارتقائی قدم اٹھانے لگا تھا؟ اس کا فیصلہ مشکل ہے! لیکن بہرحال ایک ایسے قدیم عہد میں بھی جب کہ رگ وید کے تصوروں نے نظم و سخن کا جامہ پہننا شروع کیا تھا، توحیدی تصور کی جھلک صاف صاف دیکھی جا سکتی ہے۔ خداؤں کا وہ ہجوم جس کی تعداد تین سو تینتالیس یا اسی طرح کی ثلاثی کثرت تک پہنچ گئی تھی۔ بالاخر تین دائروں میں سمنٹنے لگا یعنی زمین، فضا اور آسمان میں اور پھر اس نے ایک رب الاربابی (Henotheism)تصور کی نوعیت پیدا کر لی۔ پھر یہ رب الاربابی تصور (Henotheism) اور زیادہ سمٹنے لگتا ہے اور ایک سب سے بڑی اور سب سے چھائی ہوئی ہستی نمایاں ہونے لگتی ہے۔ یہ ہستی کبھی "ورون" میں نظر آتی ہے، کبھی "اندر" میں اور کبھی "اگنی" میں۔ لیکن بالاخر ایک خالق کل ہستی کا تصور پیدا ہو جاتا ہے جو "یرجاپتی" (پروردگار عالم) اور "وشوا کرمن) (خالق کل) کے نام سے پکاری جانے لگتی ہے اور جو تمام کائنات کی اصل و حقیقیت ہے۔ "وہ ایک ہے مگر علم والے اسے مختلف ناموں سے پکارتے ہیں : اگنی، یم، ماتری شوان، وہ ایک نہ تو آسمان ہے نہ زمین ہے نہ سورج کی روشنی ہے نہ ہوا کا طوفان ہے وہ کائنات کی روح ہے، تمام قوتوں کا سرچشمہ ہمیشگی۔ لازوالی وہ کیا ہے؟ وہ شاید رت ہے جوہر کے روپ میں ادیتی
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 168
ہے روحانیت کے بھیس میں۔ وہ بغیر سانس کے سانس لینے والی ہستی (حصہ دہم – 121 – 1) ہم اسے دیکھ نہیں سکتے ہم اسے پوری طرح بتا نہیں سکتے۔ وہ ایکم است ہے یعنی حقیقت یگانہ، الحق یہی وحدت ہے جو کائنات کی تمام کثرت کے اندر دیکھی جا سکتی ہے۔
یہی مبادیات ہیں جنہوں نے اپنشدروں میں توحید وجودی (Pantheism) کے تصور کی نوعیت پیدا کر لی اور پھر ویدانیت کے مابعدالطبیعات (Metaphysics) نے انہیں بنیادوں پر استغراق فکر و نظر کی بڑی بڑی عمارتیں تیار کر دیں۔
وحدۃ الوجودی اعتقاد ذات مطلق کے کشفی مشاہدات پر مبنی تھا، نظری عقائد کو اس میں دخل نہ تھا۔ اس لئے اصلاً یہاں صفات آرائیوں کی گجائش ہی نہ تھی اور اگر تھی بھی تو صرف سلبی صفات (Negative Attributes) ہی ابھر سکتی تھیں۔ ایجابی صفات (Positive) کی صورت آرائی نہیں کی جا سکتی تھی یعنی یہ تو کہا جا سکتا تھا کہ وہ ایسا نہیں ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ ایسا ہے اور ایسا ہے۔ کیونکہ ایجابی صفات کا جو نقشہ بھی بنایا جائے گا وہ ہمارے ذہن و فکر ہی کا بنایا ہوا نقشہ ہو گا اور ہمارا ذہن و فکر امکان و اضافت کی چار دیواری میں اس طرح مقید ہے کہ مطلق اور غیر محدود حقیقت کا تصور کر ہی نہیں سکتا۔ وہ جب تصور کرے گا تو ناگزیر ہے کہ مطلق کو مشخص بنا کر سامنے لائے اور جب تشخص آیا تو اطلاق باقی نہیں رہا۔ بابافنائی نے دو مصرعوں کے اندر معاملے کی پوری تصویر کھینچ دی تھی۔
مشکل حکایتسیست کہ ہر ذرہ تین اوست
اما نمی تو ان کہ اشارت بہ اوکند
یہی وجہ ہے کہ اپنشد نے پہلے ذات مطلق (برہمان) کو ذات مشخص (ایشور) کے مرتبے میں اتارا اور جب اطلاق نے تشخص کا نقاب چہرہ پر ڈال لیا تو پھر اس نقاب پوش چہرے کی صفتوں کی نقش آرائیاں کی گئیں اور اس طرح وحدہ الوجودی عقیدے نے ذات مشخص و متصف (ساگون) کے تصور کا مقام بھی مہیا کر دیا۔
جب ان صفات کا ہم مطالعہ کرتے ہیں تو بلاشبہ ایک نہایت بلند تصور سامنے آ جاتا ہے جس میں سلبی اور ایجابی دونوں طرح کی صفتیں اپنی پوری نموداریاں رکھتی ہیں۔ اس کی ذات یگانہ ہے۔ اس ایک کے لئے دوسرا نہیں، وہ بے ہمتا ہے، بے مثال ہے، ظرف و
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 169
مکان اور مکان کے قیود سے بالاتر ازلی و ابدی ناممکن الادارا کل واجب الوجود وہی پیدا کرنے والا ہے وہی حفاظت کرنے والا اور وہی فنا کر دینے والے وہ علقۃ العلل اور علت مطلقہ (اپادتا اور نیمتا کارنا) ہے تمام موجودات اسی سے بنیں اسی سے قائم رہتی ہیں اور پھر اسی کی طرف لوٹنے والی ہیں وہ نور ہے کمال ہے حسن ہے سر تا سر پاکی ہے سب سے زیادہ طاقت ور، سب سے زیادہ رحم و محبت والا ہے ساری عبادتوں اور عاشقیوں کا مقصود حقیقی۔
لیکن ساتھ ہی دوسری طرف یہ حقیقت بھی ہمیں صاف صاف دکھائی دیتی ہے کہ توحیدی تصور کی یہ بلندی بھی اشراک اور تعدد کی آمیزش سے خالی نہیں رہی اور توحید فی الذات کے ساتھ توحید فی الصفات کا نے میل عقیدہ جلوہ گر نہ ہو سکا۔ زمانہ حال کے ایک قابل ہندو مصنف کے لفظوں میں "دراصل "اشراکی" اور "تعددی تصور" (Polytheistic) ہندوستانی دل و دماغ میں اس درجہ جڑ پکڑ چکا تھا کہ اب اسے یک قلم اکھاڑ کے پھینک دینا آسان نہ تھا۔ اس لئے ایک یگانہ ہستی کی جلوہ طرازی کے بعد بھی دوسرے خدا نابود نہیں ہو گئے۔ البتہ اس یگانہ ہستی کا قبصہ و اقتدار ان سب پر چھا گیا اور سب اس کی ماتحتی میں آ گئے۔
اب اس طرح کی تصریحات ہمیں ملنے لگتی ہیں کہ بغیر اس بالاتر ہستی (برہمان) کے "اگنی" دیبی کچھ نہیں کر سکتی "یہ اسی "برہمان" کا خوف ہے جو تمام دیوتاؤں سے ان کے فرائض منصبی انجام دلاتا ہے۔ (تیتر یا اپنشد) راجہ اشواپتی نے جب پانچ گھر والوں سے پوچھا "تم اپنے دھیان میں کس کی پرستش کرتے ہو؟" تو ان میں سے ہر ایک نے ایک ایک دیوتا کا نام لیا۔ اس پر اشواپتی نے کہا : "تم میں سے ہر ایک نے حقیقت کے صرف ایک ہی حصے کی پرستش کی، حالانکہ وہ سب کے ملنے سے شکل پذیر ہوتی ہے، "اندر" اس کا سر ہے "سوریہ" (سورج) اس کی آنکھیں ہیں "وایو" سانس ہے، "آکاش" (ایتھر) جسم ہے، "دھرتی" (زمین" اس کا پاؤں ہے۔"
لیکن پھر ساتھ ہی یہ ہے کہ جب حقیقت کی قیومیت اور احاطے پر زور دیا جاتا ہے تو تمام موجودات کے ساتھ دیوتاؤں کی ہستی بھی غائب ہو جاتی ہے، کیونکہ تمام موجودات اسی پر موقوف ہیں وہ کسی پر موقوف نہیں۔ جس طرح رتھ کے پہیے کی تمام شاخیں ایک ہی دائرے
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 170
کے اندر اپنا وجود رکھتی ہیں اسی طرح تمام چیزیں، تمام دیوتا، تمام دنیائیں اور تمام آلات اسی ایک وجود کے اندر ہیں۔" (برھادریناک، اپ نشد باب 2 – 5) "یہاں وہ درخت موجود ہے جس کی جڑ اوپر کی طرف چلی گئی ہے اور شاخیں نیچے کی طرف پھیلی ہوئی ہیں یہ برھمان ہے لافانی، تمام کائنات اس میں ہے، کوئی اس سے باہر نہیں۔ (تیتریا – 1 – 10)۔
یہاں ہم مصنف موصوف کے الفاظ مستعار لیتے ہیں "یہ دراصل ایک سمجھوتہ تھا جو چند خاص دماغوں کے فلسفیانہ تصور نے انسانی بھیڑ کے وہم پرست ولولوں کے ساتھ کر لیا تھا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خواص اور عوام کی فکری موافقت کی ایک آب و ہوا پیدا ہو گئی اور وہ برابر قائم رہی۔"
آگے چل کر ویدانیت کے فلسفے نے بڑی وسعتیں اور گہرائیاں پیدا کیں، لیکن خواص کے توحیدی تصور میں عوام کے اشراکی تصور سے مفاہمت کو جا میلان پیدا ہو گیا تھا وہ متزلزل نہ ہو سکا بلکہ اور زیادہ مضبوط اور وسیع ہوتا گیا یہ بات عام طور پر تسلیم کر لی گئی کہ سالک جب عرفان حقیقت کی منزلیں طے کر لیتا ہے تو پھر ماسوی کی تمام ہستیاں معدوم ہو جاتی ہیں اور ماسوی میں دیوتاؤں کی ہستیاں بھی داخل ہیں۔ گویا دیوتاؤں کی ہستیاں ظاہر وجود کی ابتدائی تعینات ہوئیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بنیاد بھی برابر قائم رکھی گئی کہ جب تک اس آخری مقام عرفان تک رسائی حاصل نہ ہو جائے دیوتاؤں کی پرستش کے بغیر چارہ نہیں اور ان کی پرستش کا جو نظام قائم ہو گیا ہے اسے چھیڑنا نہیں چاہیے اس طرح گویا ایک طرح کے توحیدی اشراکی تصور (Monotheistic Polytheism) کا مخلوط مزاج پیدا ہو گیا جو بہ یک وقت فکر و نظر کو توحیدی تقاضا بھی پورا کرنا چاہتا تھا اور ساتھ ہی اصنامی عقائد کا نظام عمل بھی سنبھالے رکھنا چاہتا تھا۔ ویدانت کے بعض مذہبوں میں تو یہ مخلوط نوعیت بنیادی تصوروں تک سرایت کر گئی۔مثلاً انیمبارک اور اس کا شاگرد سری نواس برہم سوتر کی شرح کرتے ہوئے ہمیں بتلاتے ہیں کہ اگرچہ برہمایا کرشن کی طرح کوئی نہیں مگر اس سے ظہور میں آئی ہوئی دوسری قوتیں بھی ہیں جو اس کے ساتھ اپنی نمود رکھتی ہیں اور اسی کی طرح کارفرمائی میں شریک ہیں۔ چنانچہ کرشن کے بائیں طرف رادھا ہے یہ بخشش ونوال کی ہستی ہے تمام نتائج و ثمرات بخشنے والی۔ ہمیں چاہیے کہ برہما کے ساتھ رادھا کی بھی پرستش کریں۔

 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 171
اس موقع پر یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ فطرت کائنات کے جن قوائے مدبرہ کو سامی تصور نے "ملاک" اور "ملائکہ" سے تعبیر کیا تھا اسی کو آریائی تصور نے دیو" اور "یرتا" سے تعبیر کیا۔ یونانیوں کا "تھیوس" (Theos) رومیوں کا "ڈے یوس" (Deus) پارسیوں کا یزتا (یزدان) سب کے اندر وہی ایک بنیادی مادہ اور وہی ایک بنیادی تصور کام کرتا رہا۔ سنسکرت میں "دیو" ایک لچکدار لفظ ہے متعدد معنوں میں مستعمل ہوا ہے لیکن جب مافوق الفطرت ہستیوں کے لئے بولا جاتا ہے تو اس کے معنی ایک ایسی غیرمادی اور روحانی ہستی کے ہو جاتے ہیں۔جو اپنے وجود میں روشن اور درخشاں ہوں۔ سامی ادیان نے ان روحانی ہستیوں کی حیثیت اس سے زیادہ نہیں دیکھی کہ وہ خدا کی پیدا کی ہوئی کارکن ہستیاں ہیں لیکن آریائی تصور نے ان میں تدبیر اور تصرف کی بالاستقلال طاقتیں دیکھیں اور جب توحیدی تصور کے قیام سے وہ استقلال باقی نہ رہا تو توسل اور تزلف کا درمیانی مقام انہوں نے پیدا کر لیا۔ یعنی اگرچہ وہ خود خدا نہیں ہیں، لیکن خدا تک پہنچنے کے لئے ان کی پرستش ضروری ہوئی۔ ایک پرستار کی پرستش اگرچہ ہو گی معبود حقیقی کے لئے، مگر ہو گی انہیں کے آستانوں پر۔ ہم براہ راست خدا کے آستانے تک پہنچ نہین سکتے، ہمیں پہلے دیوتاؤں کے آستانوں کا وسیلہ پکڑنا چاہیے۔ دراصل یہی توسل و تزلف کا عقیدہ ہے جس نے ہر جگہ توحیدی اعتقاد و عمل کی تکمیل میں خلل ڈالا، ورنہ ایک خدا کی یگانگی اور بالاتری سے تو کسی کو بھی انکار نہ تھا۔ عرب جاہلیت کے بت پرستوں کا بھی یہی عقیدہ قرآن نے نقل کیا ہے کہ " مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّ۔هِ زُلْفَىٰ ﴿٣(39:3)۔
بہرحال شرک فی الصفات اور شرک فی العبادات کا یہی وہ عصری مادہ تھا جس نے ہندوستان کے عملی مذہب کو سر تا سر اشراک اور اصنام پرستی کے عقائد سے معمور کر دیا اور بالآخر یہ صورت حال اس درجہ گہری اور عام ہو گئی کہ جب تک ایک سراغ رساں، جستجو اور تفحص کی دور دراز مسافتیں طے نہ کر لے گا ہندو عقیدے کے توحیدی تصور کا کوئی نشان نہیں پا سکتا۔ توحیدی تصور نے یہاں ایک ایسے راز کی نوعیت پیدا کر لی جس تک صرف خاص خاص عارفوں ہی کی رسائی ہو سکتی ہے ہم اس کا سراغ پہاڑوں کے غاروں میں پا سکتے ہیں لیکن کوچہ و بازار میں نہیں پا سکتے۔ گیارہویں صدی مسیحی میں جب ابو ریحان البیرونی ہندوستان
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 172
کے علوم و عقائد کے سراغ میں نکلا تھا تو یہ متضاد و صورت حال دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔ سولھویں صدی میں ویسی ہی حیرانی ابو الفضل کو پیش آئی اور پھر اٹھارویں صدی میں سر ولیم جونس (Sir William Jones) کو۔
بہترین معذرت جو اس صورت حال میں کی جا سکتی ہے وہی ہے جس کا اشارہ گیتا کے شہرہ آفاق ترانوں میں ہمیں ملتا ہے اور جس نے البیرونی کے فلسفیانہ دماغ کو بھی اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ یعنی یہاں پہلے دن سے عقائد و عمل کی مختلف راہیں مصلحتاً کھلی رکھی گئیں تاکہ خواص اور عوام دونوں کی فہم و استعداد کی رعایت ملحوظ رہے۔ توحیدی تصور خواص کے لئے تھا کیونکہ وہی اس بلند مقام کے متحمل ہو سکتے تھے اصنامی تصور عوام کے لئے تھا کیونکہ ان کی طفلانہ عقول کے لئے یہی راہ موزون تھی۔ اور پھر چونکہ خواص بھی جمعیت و معاشرت کے عام ضبط و نظم سے باہر نہیں رہ سکتے اس لئے عملی زندگی میں انہیں بھی اصنام پرستی کے تقاضے پورے ہی کرنے پڑتے تھے اور اسی طرح ہندو زندگی کی بیرونی وضع قطع بلا استثنا اشراک اور اصنام پرستی ہی کی رہتی آئی۔
البیرونی نے حکماء یونان کے اقوال نقل کر کے دکھایا ہے کہ اس بارے میں ہندوستان اور یونان دونوں کا حال ایک ہی طرح کا رہا پھر گیتا کا یہ قول نقل کیا ہے کہ "بہت سے لوگ مجھ تک (یعنی خدا تک) اس طرح پہنچنا چاہتے ہیں کہ میرے سوا دوسروں کی عبادت کرتے ہیں۔ لیکن میں ان کی مرادیں بھی پوری کر دیتا ہوں کیونکہ میں ان سے اور ان کی عبادت سے بے نیاز ہوں۔
بے محل نہ ہو گا کہ اگر اس موقعے پر زمانہ حال کے ایک ہندو مصنف کی رائے پر بھی نظر ڈال لیجائے۔ گوتم بدھ کے ظہور سے پہلے ہندو مذہب کے تصور الوہیت نے جو عام شکل و صورت پیدا کر لی تھی اس پر بحث کرتے ہوئے یہ قابل مصنف لکھتا ہے :
"گوتم بدھ کے عہد میں جو مذہب ملک پر چھایا ہوا تھا اس کے نمایاں خط و خال یہ تھے کہ لین دین کا ایک سودا تھا جو خدا اور انسان کے درمیان ٹھہر گیا تھا۔ جب کہ ایک طرف اپنشد کا برھمان تھا جو ذات الوہیت کا ایک اعلٰی اور شائستہ تصور پیش کرتا تھا تو دوسری طرف ان گنت خداؤں کا ہجوم تھا جن کے لئے کوئی حد بندی نہیں ٹھہرائی
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 173
جا سکتی تھی۔ آسمان کے سیارے، مادے کے عناصر، زمین کے درخت جنگل کے حیوان، پہاڑوں کی چٹانیں، دریاؤں کی جدولیں، غرضیکہ موجودات خلقت کی کوئی قسم ایسی نہ تھی جو خدائی حکومت میں شریک نہ کر لی گئی ہو۔ گویا ایک بے لگام اور خود رو تخیل کو پروانہ مل گیا تھا کہ دنیا کی جتنی چیزوں کو خدائی مسند پر بٹھا سکتا ہے بے روک ٹوک بٹھاتا رہے۔ پھر جیسے خداؤں کی یہ بے شمار بھیڑیں بھی اس کے ذوق خدا سازی کے لئے کانی نہ ہوئی ہوں طرح طرح کے عفریتوں اور عجیب الخلقت جسموں کی متخیلہ صورتوں کا بھی ان پر اضافہ ہوتا رہا۔ اس میں شبہ نہیں کہ اپنشدوں نے فکر و نظر کی دنیا میں ان خداؤں کی سلطانی، درہم برہم کر دی تھی، لیکن عمل کی زندگی میں انہیں نہیں چھیڑا گیا وہ بدستور اپنی خدائی مسندوں پر جمے رہے۔
شمنی مذہب اور اس کے تصورات
قدیم برہمنی مذہب کے بعد شمنی مذہب یعنی بدھ مذہب کا ظہور ہوا۔ اسلام کے ظہور سے پہلے ہندوستان کا عام مذہب یہی تھا۔ شمنی مذہب کی اعتقادی مبادیات کی مختلف تفسیریں کی گئی ہیں۔ انیسویں صدی کے مستشرقوں کے ایک گروہ نے اسے اپنشدوں کی تعلیم ہی کا ایک عملی استغراق قرار دیا تھا اور خیال کیا تھا کہ "نروان" میں جذب و انفصال کی روحانی اصل پوشیدہ ہے۔ یعنی جس سرچشمے سے انسانی ہستی نکلی ہے، پھر اسی میں واصل ہو جانا "نروان" یعنی نجات کامل ہے۔ لیکن اب عام طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے کہ شمنی مذہب خدا اور روح کی، ہستی کا کوئی تصور نہیں رکھتا۔ اس کا دائرہ اعتقاد و عمل صرف زندگی کی سعادت اور نجات کے مسئلے میں محدود ہے۔ وہ صرف پرکرتی ہے یعنی مادہ ازلی کا حوالہ دیتا ہے جسے کائناتی طبیعت حرکت میں لاتی ہے۔ نروان سے مقصور یہ ہے کہ ہستی کی انانیت فنا ہو جائے اور زندگی کے چکر سے نجات مل جائے اس میں شک نہیں کہ جہاں تک مابعد زمانے کے شمنی مفکروں کی تصریحات کا تعلق ہے یہی تفسیر صحیح معلوم ہوتی ہے اگر ان کا ایک گروہ لا ادریت (Agnosticism) تک پہنچ کر رک گیا ہے تو دوسرا گروہ اس سے بھی آگے نکل گیا ہے اور مدعیانہ انکار کی راہ اختیار کی ہے۔ موکشا کر گپتا نے "ترک بھاشا" میں ان تمام دلائل کا
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 174
رد کیا ہے جو نیائے اور ویشک طریق نظر کے نظار خدا کی ہستی کے اثبات میں پیش کرتے تھے۔ تاہم یہ بات بھی قطعی طور پر نہیں کہی جا سکتی کہ خود گوتم بدھ کا سکوت و توقف بھی انکار پر مبنی تھا۔ اس کے سکوتی تحفظات متعدد مسئلوں میں ثابت ہیں اور اس کے متعدد محمل قرار دیئے جا سکتے ہیں۔ اگر ان تمام اقوال پر جو براہ راست اس کی طرف منسوب ہیں، غور کیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا مسلک نفی ذات کا نہ تھا، نئی صفات کا تھا۔ اور نفی صفات کا مقام ایسا ہے کہ انسانی فکر و زبان کی تمام تعبیرات معطل ہو جاتی ہیں اور سکوت کے سوا چارہ کار باقی نہیں رہتا۔
علاوہ بریں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اس کے ظہور کے وقت اصنامی خدا پرستی کے مفاسد بہت گہرے ہو چکے تھے اور اصنامی خدا پرستی بجائے خود، راہ حقیقت کی سب سے بڑی روک بن گئی تھی۔ اس نے اس روک سے راستہ صاف کر دینا چاہا اور تمام توجہ زندگی کی عملی سعادت کے مسئلے پر مرکوز کر دی۔ اس صورت حال کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ برہمنی خدا پرستی کے عقائد سے انکار کیا جائے اور اس پر زور دیا جائے کہ نجات کی راہ ان معبودوں کی پرستش میں نہیں ہے، بلکہ علم حق اور عمل حق میں ہے یعنی اشنا ٹگ مارک میں ہے۔ آگے چل کر اس اضافی انکار نے مطلق کی شکل پیدا کر لی اور پھر برہمنی مذہب کی مخالفت کے غلو نے معاملے کو دور تک پہنچا دیا۔
بہر حال خود گوتم بدھ اور اس کی تعلیم کے شارحوں کی تصریحات اس بارے میں کچھ ہی رہی ہوں مگر یہ واقعہ ہے کہ اس کے پیرووں نے خدا کے تصور کی خالی مسند بہت جلد بھر دی۔ انہوں نے اس مسند کو خالی دیکھا تو خود گوتم بدھ کو وہاں لا کر بٹھا دیا اور پھر اس نئے معبود کی پرستش اس جوش و خروش کے ساتھ شروع کر دی کہ آدھی سے زیادہ دنیا اس کے بتوں سے معمور ہو گئی!
آوارہ غربت نہ تو ان دید صنم را
وقتست دیگر بتکدہ سازند حرم را

(محبوب کی ملاقات، ہاتھ خالی آدمی کب کر سکتا ہے! مقدس حرم کو بتکدہ بنانے کا وقت کوئی اور ہے)

 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 175
گوتم بدھ کی وفات پر ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرا تھا کہ پیروان بدھ کی اکثریت نے اس کی شخصیت کو عام انسانی سطح سے بالاتر دیکھنا شروع کر دیا تھا اور اس کے آثار و تبرکات کی پرستش کا میلان بڑھنے لگا تھا۔ اس کی وفات کے کچھ عرصے بعد جب مذہب کی پہلی مجلس اعظم راج گیری میں منعقد ہوئی اور اس کے شاگرد خاص آنند نے اس کی آخری وصا یا بیان کیں تو بیان کیا جاتا ہے کہ لوگ اس کی روایت پر مطمئن نہ ہوئے اور اس کے مخلاف ہو گئے۔ کیونکہ اس کی روایتوں میں انہیں وہ ماوراہ انسانیت عظمت نظر نہیں آئی جسے اب ان کی طبیعت ڈھونڈنے لگی تھی۔ تقریباً سو برس بعد جب دوسری مجلس ویشالی (مظفر پور حالی) میں منعقد ہوئی تو اب مذہب کی بنیادی سادگی اپنی جگہ کھو چکی تھی اور اس کی جگہ نئے نئے تصوروں اور مخلوط عقیدوں نے لے لی تھی اب مسیحی مذہب کے اقانیم ثلاثۃ کی طرح جو پانچ سو برس بعد ظہور میں آنے والا تھا، ایک شمنی اقالیم کا عقیدہ بدھ کی شخصیت کے گرد ھالے کی چمکنے لگا اور عام انسانی سطح سے وہ ماورا تسلیم کر لی گئی۔ یعنی بدھ کی ایک سخصیت کے اندر تین وجودوں کی نمود ہوئی : اس کی تعلیم کی شخصیت، اس کے دنیاوی وجود کی شخصیت، اس کے حقیقی وجود کی شخصیت۔ جو لوک (بہشت) میں رہتی ہے۔ دنیا میں جب کبھی بدھ کا ظہور ہوتا ہے تو یہ اس حقیقی وجود کا ایک پرتو ہوتا ہے۔ نجات پانے کے معنی یہ ہوئے کہ آدمی حقیقی بدھ کے اسی ماوراء عالم مسکن میں پہنچ جائے۔
پہلی صدی مسیح میں بعہد کوشان جب چوتھی مجلس برشادر (پشاور حالی) میں منعقد ہوئی تو اب بنیادی مذہب کی جگہ ایک طرح کا کلیسائی مذہب قائم ہو چکا تھا اور بدھ کے اشٹانگ مارگ (طریق ثمانیہ) کی عملی روح طرح طرح کی رسوم پرستیوں اور قواعد آرائیوں میں معدوم ہو چکی تھی۔
بالآخر پیروان بدھ دو بڑے فرقوں میں بٹ گئے۔ ھین یان (Hinayana) اور مہا یان (Mahayana)۔ پہلا فرقہ بدھ کی شخصیت میں ایک رو نما اور معلم کی انسانی شخصیت دیکھنی چاہتا تھا لیکن دوسرے نے اسے پوری طرح ماوراہ انسانیت کی زبانی سطح پر متمکن کر دیا تھا اور پیروان بدھ کی عام راہ وہی ہو گئی تھی۔ افغانستان، بامیان، وسط ایشیاء، چین، کوریا، جاپان، تبت سب میں مہایان مذہب کی تبلیغ و اشاعت ہوئی۔ چینی سیاح فاھین
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 176
(Fa-Hein) جب چوتھی صدی مسیحی میں ہندوستان آیا تھا تو اس نے یورپ کے ھین یان شمنیوں سے مباحثہ کیا تھا اور مہایان طریقے کی صداقت کے دلائل پیش کیے تھے۔ موجودہ زمانے میں سیلون کے سوا (جہاں ھین یان طریقے کا ایک محرف بقیہ "تھیراداد" کے نام سے پایا جاتا ہے) تمام پیروان بدھ کا مذہب مہایان ہے۔
موجودہ زمانے کے بعض محققین شمنیہ کا خیال ہے کہ اشوک کے زمانے تک بدھ مذہب میں بت پرستی کا عام رواج نہیں ہوا تھا، کیونکہ اس عہد تک کے جو بدھ آثار ملتے ہیں یان میں بدھ کی شخصیت کسی بت کے ذریعے نہیں بلکہ صرف ایک کنول کے پھول یا ایک خالی کرسی کی شکل میں دکھائی گئی ہے۔ پھر کنول اور خالی کرسی کی جگہ دو قدم نمودار ہونے لگے اور پھر بتدریج قدموں کی جگہ خود بدھ کا پورا مجسمہ نمودار ہو گیا۔ اگر یہ استنباط صحیح تسلیم کر لیا جائے جب بھی ماننا پڑے گا کہ اشوک کے زمانے کے بعد سے بدھ کے بتوں کی عام پرستش جاری ہو گئی تھی۔ اشوک کا عہد سنہ 250 قبل از مسیح تھا۔
1) ایرانی مجوسی تصور
زردشت کے ظہور سے پہلے مادا (میڈیا Media) اور پارس میں ایک قدیم ایریانی طریق پرستش رائج تھا۔ ہندوستان کے ویدوں میں دیوتاؤں کی پرستش اور قربانیوں کے اعمال و رسوم جس طرح پائے جاتے ہیں قریب قریب ویسے ہی عقائد و رسوم پارس اور مادا میں بھی پھیلے ہوئے تھے۔ دیوتائی طاقتوں کو ان کے دو بڑے مظہروں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ ایک طاقت روشنی کی ہستیوں کی تھی جو انسان کو زندگی کی تمام خوشیاں بخشتی تھی۔ دوسری برائی کے تاریک عفریتوں کی تھی جو ہر طرح کی مصیبتوں اور ہلاکتوں کی سرچشمہ تھی آگ کی پرستش کے لئے قربان گاہیں بنائی جاتی تھیں اور ان کے پجاریوں کو موگوش کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ اوستا کے گاتھا میں انہیں "کارپان" اور "کاری " کے نام سے بھی پکارا گیا ہے۔ آگے چل کر اسی "موگوش" نے آتش پرستی کا مفہوم پیدا کر لیا اور غیر قومیں ایرانیوں کو "مگ" اور "موگوش" کے نام سے پکارنے لگیں۔ عربوں نے اسی "موگوش" کو "مجوس" کر دیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 177
مزدیسنا :
زردشت کا جب ظہور ہوا تو اس نے ایرانیوں کو ان قدیم عقائد سے نجات دلائی اور "مزدیسنا" کی تعلم دی یعنی دیوتاؤں کی جگہ ایک خدائے واحد "اھورامزدا" کی پرستش کی۔ یہ "اھورامزدا" یگانہ ہے، بے ہمتا ہے، بے مثال ہے، نور ہے، پاکی ہے، سر تا سر حکمت اور خیر ہے اور تمام کائنات کا خالق ہے۔ اس نے انسان کے لئے دو عالم بنائے ایک عالم دینوی زندگی کا ہے دوسرا مرنے کے بعد کی زندگی کا مرنے کے بعد جسم فنا ہو جاتا ہے مگر روح باقی رہتی ہے اور اپنے اعمال کے مطابق جزا پاتی ہے۔ دیوتاؤں کی جگہ اس نے "امیش سپند" اور "یزتا" کا تصور پیدا کیا یعنی فرشتوں کا۔ یہ فرشتے "اھورا مزدا" کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں برائی اور تاریکی کی طاقتوں کی جگہ "انگرامے نیوش" (Angrame Niyush) کی ہستی کی خبر دی، یعنی شیطان کی۔ یہی "انگرامے نیوش" پا زندگی کی زبان میں "اھرمز" ہو گیا۔
زردشت کی تعلیم میں ہندوستانی آریاؤں کے ویدی عقائد کا رد صاف صاف نمایاں ہے۔ ایک ہی نام ایران اور ہندوستان دونوں جگہ ابھرتا ہے اور متضاد معنی پیدا کر لیتا ہے۔ اوستا کا "اھورا" سام اور یجوروید میں "اسورا" ہے اور اگرچہ رگ وید میں اس کا اطلاق اچھے معنوں پر ہوا تھا مگر اب وہ برائی کی شیطانی روح بن گیا ہے ویدوں کا اندرا اوستہ کا "انگرا" ہو گیا۔ ویدوں میں وہ آسمان کا خدا تھا اوستا میں زمین کا شیطان ہے۔ ہندوستان اور یورپ میں دیو (Dev) اور ڈے یوس (Deus) اور تھیوس (Theus) خدا کے لئے بولا گیا لیکن ایران میں دیو کے معنی عفریتوں کے ہو گئے۔ گویا دونوں عقیدے ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے ایک کا خدا دوسرے کا شیطان ہو جاتا تھا۔ اسی طرح ہندوستان میں "یم" موت کی طاقت ہے۔ اوستا کی روایتوں میں "تم" زندگی اور انسانیت کی سب سے بڑی نمود ہوئی اور پھر یہی "یم" جم ہو کر جمشید ہو گیا۔
فسانہا کہ بہ بازیچہ روزگار سرود
کنون بہ مسجد جمشید و تاج کی بستند
لیکن معلوم ہوتا ہے کہ چند صدیوں کے بعد ایران کے قدیم تصورات اور بیرونی اثرات پھر غالب آ گئے اور ساسانی عہد میں جب مزیدیسنا کی تعلیم ازسرنو تو تدوین ہوئی تو
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 178
قدیم مجوسی یونانی اور زردشتی عقائد کا ایک مخلوط مرکب تھا اور اس کا بیرونی رنگ و روغن تو تمام تر مجوسی تصور ہی نے فراہم کیا تھا۔ اسلام کا جب ظہور ہوا تو یہی مخلوط تصور ایران کا قومی مذہبی تصور تھا۔ مغربی ہند کے پارسی مہاجر یہی تصور اپنے ساتھ ہندوستان لائے اور پھر یہاں کے مقامی اثرات کی ایک تہہ اس پر اور چڑھ گئی۔
مجوسی تصور کی بنیاد ثنویت (Dualism) کے عقیدے پر تھی۔ یعنی خیر اور شر کی دو الگ الگ قوتیں ہیں۔ "اھورا مزدا" جو کچھ کرتا ہے خیر اور روشنی ہے۔ "انگرامے نیوش" یعنی اھرمن جو کچھ کرتا ہے شر اور تاریکی ہے۔ عبادت کی بنیاد سورج اور آگ کی پرستش پر رکھی گئی کہ روشنی یزچانی صفات کی سب سے بڑی مظہر ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ مجوسی تصور نے خیر اور شر کی گتھی یوں سلجھانی چاہی کہ کارخانہ ہستی کی سربراہی دو متقابل اور متعارض قوتوں میں تقسیم کر دی۔
1) یہودی تصور
یہودی تصور ابتدا میں ایک محدود نسلی تصور تھا۔ یعنی کتاب پیدائش کا "یہودہ" خاندان اسرائیل کے نسلی خدا کی حیثیت سے نمایاں ہوا تھا لیکن پھر یہ تصور بتدریج وسیع ہوتا گیا یہاں تک کہ یشعیا دوم کے صحیفے میں "تمام قوموں کا خدا" اور "تمام قوموں کا ہیکل" نمایاں ہو گیا۔ تاہم اسرائیلی خدا کا نسلی اختصاص کسی نہ کسی شکل میں برابر کام کرتا ہی رہا اور ظہور اسلام کے وقت اس کے نمایاں خال و خط نسل اور جغرافیہ ہی کے خال و خط تھے۔ تجسم اور تنزیہ کے اعتبار سے وہ ایک درمیانی درجہ رکھتا تھا اور اس میں غالب عنصر قہر و غضب اور انتقام و تعذیب کا تھا۔ خدا کا بار بار متشکل ہو کر نمودار ہونا مخاطبات کا تمام تر انسانی اوصاف و جذبات سے آلودہ ہونا، قہر و انتقام کی شدت اور ابتدائی درجے کی تمثیلی اسلوب تورات کے صحیفوں کا عام تصور ہے۔
خدا کا انسان سے رشتہ اس نوعیت کا رشتہ ہوا جیسے ایک شوہر کا اپنی بیوی سے ہوتا ہے۔ شوہر نہایت غیور ہوتا ہے وہ اپنی بیوی کی ساری خطائیں معاف کر دے گا لیکن یہ جرم معاف نہیں کرے گا کہ اس کی محبت میں کسی دوسرے مرد کو بھی شریک کرے۔ اسی طرح خاندان اسرائیل کا خدا بھی بہت غیور ہے۔ اس نے اسرائیل کے گھرانے کو اپنی چہیتی بیوی بنایا چونکہ
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 179
چہیتی بیوی بنایا اس لئے خاندان اسرائیل کے بے وفائی اور غیر قوموں سے آشنائی اس پر بہت ہی شاق گرزتی ہے اور ضروری ہے کہ وہ اس جرم کے بدلے سخت سزائیں دے۔ چنانچہ احکام عشرہ (Ten Commandments) میں ایک حکم یہ بھی تھا : "تو کسی چیز کی صورت نہ بنائیو اور اس کے آگے جھکیو، کیونکہ میں خداوند تیرا خدا رشک کرنے والا ایک بہت ہی غیور خدا ہوں۔ (خروج 20: 4،5)
شوہر کے رشتے کی یہ تمثیل جو مصر سے خروج کے بعد متشکل ہونا شروع ہو گئی تھی، آخر عہد تک کم و بیش قائم رہی۔ یہودیوں کی ہر گمراہی پر خدا کے غضب کا اظہار ایک غضب ناک شوہر کا پرجوش اظہار ہوتا ہے جو اپنی چہیتی بیوی کو اس کی ایک ایک بے وفائی یاد دلا رہا ہو۔ یہ اسلوب تمثیل بظاہر کتنا ہی مؤثر اور شاعرانہ دکھائی دیتا ہو لیکن اس میں شک نہیں کہ خدا کے تصور کے لئے ایک ابتدائی درجے کا غیر ترقی یافتہ تصور تھا۔
1) مسیحی تصور
لیکن یشعیا دوم کے زمانے سے اس صورت حال میں یہ تبدیلی شروع ہوئی اور یہودی تصور میں بہ یک ایک وقت وسعت اور لطافت دونوں طرح کے عناصر نمایاں ہونے لگے۔ گویا اب ایک نئی تصوری فضاء کے لئے زمانے کا مزاج تیار ہونے لگا تھا۔ چنانچہ مسیحیت آئی تو رحم و محبت اور عفو و بخشش کا ایک نیا تصور لے کر آئی۔ اب خدا کا تصور نہ تو جابر بادشاہ کی طرح قہر آلودہ تھا نہ رشک و غیرت میں ڈوبے ہوئے شوہر کی طرح سخت گیر تھا بلکہ باپ کی محبت و شفقت کی مثال نمایاں کرتا تھا اور اس میں شک نہیں کہ یہودی تصور کی شدت و غلظت نمایاں کرتا تھا۔ اور اس میں شک نہیں کہ یہودی تصور کی شدت و غلظت کے مقابلے میں رحم و محبت کی رقت کا یہ ایک انقلابی تصور تھا۔ انسانی زندگی کے سارے رشتوں میں ماں باپ کا رشتہ سب سے بلند تر رشتہ ہے۔ اس میں شوہر کے رشتے کی طرح جذبوں اور خواہشوں کے غرضوں کو دخل نہیں ہوتا یہ سراسر رحم و شفقت اور پرورش و چارہ سازی ہوتی ہے۔ اولاد بار بار قصور کرے گی لیکن ماں کی محبت پھر بھی گردن نہیں موڑے گی اور باپ کی شفقت پھر بھی معافی سے انکار نہیں کرتے گی۔ پس اگر خدا کے تصور کے لئے انسانی رشتوں
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 180
کی مشابہتوں سے کام لیئے بغیر چارہ نہ ہو تو بلا شبہ شوہر کی تمثیل کے مقابلے میں باپ کی تمثیل کہیں زیادہ شائستہ اور ترقی یافتہ تمثیل ہے۔
تجسم اور تنزہ کے لحاظ سے مسیحی تصور کی سطح اصلا وہی تھی۔ جہاں تک یہودی تصور پہنچ چکا تھا۔ مگر جب مسیحی عقائد کا رومی اصنام پرستی کے تصوروں سے امتزاج ہوا تو اقانیم ثلاثہ، کفارہ اور مسیح پرستی کے تصورات چھا گئے اور اسکندریہ کے فلسفہ آمیز اصنامی تصور سیراپس (Serapis) نے مسیحی اصنامی تصور کی شکل اختیار کر لی۔ اب مسیحیت کو بت پرستوں کی بت پرستی سے تو انکار تھا لیکن خود اپنی بت پرستی پر کوئی اعتراض نہ تھا، میڈونا (Madonna) کے قدیم بت کی جگہ اب ایک نئی مسیحی میڈونا کا بت تیار ہو گیا۔ یہ خدا کے فرزند کو گود میں لئے ہوئے تھی اور ہر راسخ الاعتقاد مسیحی کی جبین نیاز کا سجدہ طلب کرتی تھی۔
غرضیکہ کہ قرآن کا جب نزول ہوا تو مسیحی تصور رحم و محبت کی پدری تمثیل کے ساتھ اقانیم ثلاثہ، کفارہ اور تجسم کا ایک مخلوط، "اشراکی توحید"، متصور تھا۔
فلاسفہ یونان اور اسکندریہ کا تصور
ان تصوروں کے علاوہ ایک تصور فلاسفہ یونان بھی ہے جو اگرچہ مذاہب کے تصوروں کی طرح اقوام عالم کا تصور نہ ہو سکا تاہم انسان کی فکری نشو و نما کی تاریخ میں اس نے بہت بڑا حصہ لیا اور اس لئے اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
تقریباً پانچ سو برس قبل از مسیح یونان میں توحید کا تصور نشو و نما پانے لگا تھا۔ اس کی سب سے بڑی معلم شخصیت سقراط (Socrates) کی حکمت میں نمایاں ہوئی جسے افلاطون (Plato) نے تدوین و انضباط کے جامے سے آراستہ کیا۔
جس طرح ہندوستان میں رگ وید کی دیوتائی تصورات نے بالاخر ایک "رب الا ربابی" تصور کی نوعیت پیدا کر لی تھی اور پھر اس "رب الا ربابی" تصور نے بتدریج توحیدی تصور کی طرف قدم بڑھایا تھا ٹھیک اسی طرح یونان میں بھی اولمپس (Olympus( کے دیوتاؤں کو بالاخر ایک "رب الا رباب" ہستی کے آگے جھکنا پڑا اور پھر یہ "رب الا ربابی" تصور و بتدریج کثرت سے وحدت کی طرف قدم بڑھانے لگا۔ یونان کے قدیم ترین تصوروں کے معلوم

 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 211
اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦
ہدایت
"ہدایت" کے معنی رہنمائی کرنے، راہ دکھانے، راہ پر لگا دینے کے ہیں۔ اجمالاً اس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔ یہاں ہم چاہتے ہیں ہدایت کے مختلف مراتب و اقسام پر نظر ڈالیں جن کا قرآن حکیم نے ذکر کیا ہے اور جن میں سے ایک خاص مرتبہ وحی و نبوت کی ہدایت کا ہے۔
تکوین وجود کے مراتب اربعہ
تم ابھی پڑھ چکے ہو کہ خدا کی ربوبیت نے جس طرح مخلوقات کو ان کے مناسب حال جسم و قویٰ دیے ہیں، اسی طرح ان کی ہدایت کا فطری سامان بھی مہیا کر دیا ہے۔ فطرت کی یہی ہدایت ہے جو ہر وجود کو زندگی و معیشت کی راہ پر لگاتی اور ضروریات زندگی کی جستجو میں رہنما ہوتی ہے۔ اگر فطرت کی یہ ہدایت موجود نہ ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ کوئی مخلوق بھی زندگی کو بقا کا سامان بہم پہنچا سکتی۔ چنانچہ قرآن نے جابجا اس حقیقت پر توجہ دلائی ہے۔ وہ کہتا ہے : ہر وجود کے بننے اور درجہ تکمیل تک پہنچنے کے مختلف مراتب ہیں اور ان میں آخری مرتبہ ہدایت کا مرتبہ ہے۔ سورۃ الاعلٰی می بالترتیب چار مرتبوں کا ذکر کیا گیا ہے :
الَّذِي خَلَقَ فَسَوَّىٰ ﴿٢وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَىٰ ﴿٣﴾ - سورۃ نمبر 87
وہ پروردگار جس نے ہر چیز پیدا کی، پھر اسے درست کیا، پھر ایک اندازہ ٹھہرا دیا، پھر اس پر راہ (عمل) کھول دی۔
یعنی تکوین وجود کے چار مرتبے ہوئے، تخلیق، تسویۃ، تقدیر، ہدایت
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 212
"تخلیق" کے معنی پیدا کرنے کے ہیں۔ یہ بات کہ کائنات خلقت اور اس کے ہر وجود کا مواد عدم سے وجود میں آ گیا ہے، تخلیق ہے۔
"تسویۃ" کے معنی یہ ہیں کہ ایک چیز کو جس طرح ہونا چاہیے، ٹھیک اسی طرح درست اور آراستہ کر دینا۔
"تقدیر" کے معنی اندازہ ٹھہر دینے کے ہیں اور اسکی تشریح اوپر گزر چکی ہے۔
"ہدایت" سے مقصود یہ ہے کہ ہر وجود پر اس کی زندگی و معیشت کی راہ کھول دی جائے اور اس کی تشریح بھی ربوبیت کے مبحث میں گزر چکی ہے۔
مثلاً مخلوقات میں ایک خاص قسم پرند کی ہے :
1) یہ بات کہ ان کا مادہ خلقت ظہور میں آ گیا تخلیق ہے۔
2) یہ بات کہ ان کے تمام ظاہری و باطنی قویٰ اس طرح بنا دیئے گئے کہ ٹھیک ٹھیک قوام و اعتدال کی حالت پیدا ہو گئی، تسویۃ ہے۔
3) یہ بات کہ ان کے ظاہری و باطنی قویٰ کے اعمال کے لیے ایک خاص طرح کا اندازہ ٹھہر دیا گیا ہے جس سے وہ باہر نہیں جا سکتے، تقدیر ہے۔ مثلاً یہ کہ ہوا میں اڑیں گے، مچھلیوں کی طرح پانی میں تیریں گے نہیں۔
4) یہ بات کہ ان کے اندر وجدان و حواس کی روشنی پیدا ہو گئی جو انہیں زندگی و بقا کی راہیں دکھاتی اور سامان حیات کے طلب و حصول میں رہنمائی کرتی ہے، ہدایت ہے۔
قرآن کہتا ہے خدا کی ربوبیت کا مقتضی یہی تھا کہ جس طرح اس نے ہر وجود کو اس کا جامہ ہستی عطا فرمایا اور اس کے ظاہری و باطنی قوی درست کر دیے اور اس کے اعمال کے لیے ایک مناسب حال اندازہ ٹھہر دیا، اسی طرح اس کی ہدایت کا بھی سامان کر دیا :
قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَىٰ كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىٰ ﴿20:٥٠
(موسیٰ نے) کہا : ہمارا پرودگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی بناوٹ دی پھر اس پر راہ عمل کھول دی۔
قرآن نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا جو مکالمہ جابجا نقل کیا ہے، اس میں حضرت ابراہیم اپنے عقیدے کا اعلان کرتے ہوئے کہتے ہیں :
 
Top