شمشاد
لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 164
ظہور قرآن کے وقت پانچ دینی تصور فکر انسانی پر چھائے ہوئے تھے :
1) چینی، 2) ہندوستانی، 3) مجوسی، 4) یہودی اور 5) مسیحی
1) چینی تصور
دنیا کی تمام قدیم قوموں میں چینیوں کی یہ خصوصیت تسلیم کرنی پڑی ہے کہ ان کے تصور الوہیت نے ابتدا میں ایک سادہ اور مبہم نوعیت اختیار کر لی تھی وہ بہت حد تک برابر قائم رہی اور زمانہ مابعد کی ذہنی وسعت پذیریاں اس میں زیادہ مداخلت نہ کر سکیں۔ تاہم تصور کا کوئی مرقع بغیر رنگ و روغن کے بن نہیں سکتا، اس لئے آہستہ آہستہ اس سادہ خاکے میں بھی مختلف رنگتیں نمایاں ہونے لگیں اور بالآخر ایک رنگین تصویر متشکل ہو گئم۔
چین میں قدیم زمانے سے مقامی خداؤں کے ساتھ ایک آسمانی ہستی کا اعتقاد بھی موجود تھا۔ ایک ایسی بلند اور عظیم ہستی جس کے علویت کے تصورات کے لئے ہم آسمان کے سوا اور کسی طرف نظر اٹھا نہیں سکتے۔ آسمان حسن و بخشایش کا بھی مظہر ہے، قہر و غضب کی بھی ہولناکی ہے۔ اس کا سورج روشنی اور حرارت بخشتا ہے اس کے ستارے اندھیری راتوں میں قندیلیں روشن کر دیتے ہیں۔ اس کی بارش زمین کو طرح طرح کی روئیدگیوں سے معمور کر دیتی ہے۔ لیکن اس کی بجلیاں ہلاکت کا بھی پیام ہیں اور اس کی گرج دلوں کو دہلا بھی دیتی ہے۔ اس لئے آسمانی خدا کے تصور میں بھی دونوں صفتیں نمودار ہوئیں۔ ایک طرف اس کی جود و بخشائش ہے، دوسری طرف اس کا قہر و غضب ہے۔ چینی شاعری کی قدیم کتاب میں ہم قدیم ترین چینی تصورات کی جھلک دیکھ سکتے ہیں۔ ان میں جابجا ہمیں ایسے مخاطبات ملتے ہیں جن میں آسمانی اعمال کی ان متضاد نمودوں پر حیرانی و سرگشتگی کا اظہار کیا گیا ہے۔ "یہ کیا بات ہے کہ تیرے کاموں میں یکسانی اور ہم آہنگی نہیں! تو زندگی بھی بخشتا ہے اور تیرے پاس ہلاکت کی بجلیاں بھی ہیں۔"
یہ "آسمان" چینی تصور کا ایک ایسا بنیادی عنصر بن گیا کہ چینی جمعیت "آسمانی جمعیت" اور چینی مملکت "آسمانی مملکت" کے نام سے پکاری جانے لگی۔ رومی جب پہلے پہل چین سے آشنا ہوئے تو انہیں ایک آسمانی مملکت ہی کی خبر ملی تھی۔ اس وقت سے (Coelum)