انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

376

دو دن سے کچھ بنی تھی، سو پھر شب بگڑ گئی
صحبت ہماری یار سے بے ڈھب بگڑ گئی

واشد کچھ آگے آہ سے ہوتی تھی دل کے تئیں
اقلیمِ عاشقی کی ہوا اب بگڑ گئی

گرمی نے دل کی، ہجر میں اُس کے جلا دیا
شاید کہ احتیاط سے یہ تب بگڑ گئی

باہم سلوک تھا تو اُٹھاتے تھے نرم گرم
کاہے کو میر کوئی دبے، جب بگڑ گئی​
 
377

کچھ موجِ ہوا پیچاں اے میر نظر آئی
شاید کہ بہار آئی، زنجیر نظر آئی

دلی کے نہ تھے کوچے، اوراق مصور تھے
جو شکل نظر آئی، تصویر نظر آئی

اُس کی تو دل آزاری بے ہیچ ہی تھی یارو
کچھ تم کو ہماری بھی تقصیر نظر آئی!​
 
378

ہوگئی شہر شہر رسوائی
اے مری موت تُو بھلی آئی

یک بیاباں بہ رنگِ صوتِ جرس
مجھ پہ ہے بے کسی و تنہائی

میر جب سے گیا ہے دل، تب سے
میں تو کچھ ہوگیا ہوں سودائی
 
379

اب صعف سے ڈہتا ہے بے تابی شتابی کی
اس دل کے تڑپنے نے کیا خانہ خرابی کی

بُھنتے ہیں دل اک جانب، سِکتے ہیں جگر یک سُو
ہے مجلسِ مشتاکاں دکان کبابی کی

تلخ اُس لبِ مے گوں سے سب سنتے ہیں کس خاطر
تہ دار نہیں ہوتی گفتار شرابی کی

یک بو کشیِ بلبل ، ہے موجبِ صد مستی
پُر زور ہے کیا دارو غنچے کی گلابی کی

نشمردہ مرے مجھ سے یاں حرف نہیں نکلا
جو بات کہ میں نے کی سو میر حسابی کی​
 
380

مجھ سا بے تاب ہووے جب کوئی
بے قراری کو جانے تب کوئی

ہاں خدا مغفرت کرے اُس کو
صبرِ مرحوم تھا عجب کوئی

جان دے گو مسیح پر اس سے
بات کہتے ہیں تیرے لب کوئی

بعد میرے ہی ہوگیا سنسان
سونے پایا تھا ورنہ کب کوئی

(ق)

اور محزوں بھی ہم سُنے تھے ولے
میر سا ہو سکے ہے کب کوئی

کہ تلفظ طرب کا سن کے کہے
شخص ہوگا کہیں طرب کوئی
 
381

آگے ہمارے عہد سے وحشت کو جا نہ تھی
دیوانگی کسی کی بھی زنجیرِ پا نہ تھی

بیگانہ سا لگے ہے چمن اب خزاں میں ہائے
ایسی گئی بہار، مگر آشنا نہ تھی

کب تھا یہ شورِ نوحہ، ترا عشق جب نہ تھا
دل تھا ہمارا آگے تو ماتم سرا نہ تھی

وہ اور کوئی ہوگی سحر جب ہوئی قبول
شرمندہء اثر تو ہماری دُعا نہ تھی

دیکھے دیارِ حسن کے میں کارواں بہت
لیکن کسو کے پاس متاعِ وفا نہ تھی

آئی پری سی پردہء مینا سے جام تک
آنکھوں میں تیری دخترِ زر کیا حیانہ تھی

پژمردہ اس قدر ہیں کہ ہیں شبہ ہم کو میر
تن میں ہمارے جان کبھی تھی بھی یا نہ تھی
 
383

کب تلک داغ دکھائے گی اسیری مجھ کو
مر گئے ساتھ کے میرے تو گرفتار کئی

دے ہی چالاکیاں ہاتھوں کی ہیں جو اول تھیں
اب گریباں میں مرے رہ گئے ہیں تار کئی

اپنے کُوچے میں نکلیو تُو سنبھالے دامن
یادگارِ مثرہء میر ہیں واں خار کئی
 
384

میری پُرسش پہ تری طبع اگر آوے گی
صورتِ حال تجھے آپھی نظر آوے گی

محو اُس کا نہیں ایسا کہ جو چیتے گا شتاب
اُس کے بے خود کی بہت دیر خبر آوے گی

ابر مت گورِ غریباں پہ برس، غافلَ آہ!
ان دل آزردوں کے جی میں بھی لہر آوے گی

میر میں جیتوں میں آؤں گا اسی دن ، جس دن
دل نہ تڑپے گا مرا، چشم نہ بھر آوے گی
 
385

کیا کروں شرح خستہ جانی کی
میں نے مر مر کے زندگانی کی

حالِ بد گفتنی نہیں میرا
تم نے پوچھا تو مہربانی کی

سب کو جانا ہے یوں تو پر اے صبر
آتی ہے، اک تری جوانی کی

تشنہ لب مرگئے ترے عاشق
نہ ملی ایک بوند پانی کی

بیت بحثی سمجھ کے کر بلبل
دھوم ہے میری خوش زبانی کی

جس سے کھوئی تھی نیند میر نے کل
ابتدا پھر وہی کہانی کی​
 
386

ہے یہ بازارِ جنوں، منڈی ہے دیوانوں کی
یاں دُکانیں ہیں کئی چاک گریبانوں کی

کیوں کے کہیے کہ اثر گریہء مجنوں کو نہ تھا
گرد نم ناک ہے اب تک بھی بیابانوں کی

خانقہ کا تُو نہ کر قصد ٹک اے خانہ خراب!
یہی اک رہ گئی ہے بستی مسلمانوں کی

سیل اشکوں سے بہی، صرصر آہوں سے اُڑی
مجھ سے کیا کیا نہ خرابی ہوئی ویرانوں کی

دل و دیں کیسے کہ اُس رہزنِ دل ہا سے اب
یہ پڑی ہے کہ خدا خیر کرے جانوں کی

کتنے دل سوختہ ہم جمع ہیں اے غیرتِ شمع
کر قدم رنجہ کہ مجلس ہے یہ پروانوں کی

سرگزشتیں نہ مری سن کہ اُچٹتی ہے نیند
خاصیت یہ ہے مری جان ان افسانوں کی

مے کدے سے تو ابھی آیا ہے مسجد میں میر
ہو نہ لغزش کہیں، مجلس ہے یہ بیگانوں کی
 
387


ملا غیر سے جا، جفا کیا نکالی
اُکت لے کے آخر ادا کیا نکالی

طبیبوں نے تجویز کی مرگِ عاشق
مناسب مرض کے دوا کیا نکالی

نہیں اُس گزرگہ سے آتی اِدھر اب
نئی راہ کوئی صبا کیا نکالی

دلا اُس کے گیسو سے کیوں لگ چلا تُو
یہ اک اپنے جی کی بَلا کیا نکالی

دمِ صبح جوں آفتاب آج ظالم
نکلتے ہی تیغِ جفا کیا نکالی

لگے در بہ در میر چلاتے پھرنے
گدا تو ہوئے پر صدا کیا نکالی​
 
388

رہی نہ گفتہ مرے دل میں داستاں میری
نہ اس دیار میں سمجھا کوئی زباں میری

بہ رنگِ صوتِ جرس تجھ سے دور ہوں تنہا
خبر نہیں ہے تجھے آہ کارواں میری

ترے نہ آج کے آنے میں صبح کے مجھ پاس
ہزار جائے گئی طبعِ بدگماں میری

شب اُس کے کُوچے میں جاتا ہوں اس توقع پر
کہ ایک دوست ہے واں خوابِ پاسباں میری

اُسی سے دور رہا اصل مدعا جوتھا
گئی یہ عمرِ عزیز آہ رائگاں میری

ترے فراق میں جیسے خیال مفلس کا
گئی ہے فکرِ پریشاں کہاں کہاں میری

دیا دکھائی مجھے تو اُسی کا جلوہ میر
پڑی جہان میں جاکر نظر جہاں میری​
 
389

اب کے بھی سیرِ باغ کی جی میں ہوس رہی
اپنی جگہ بہار میں کنجِ قفس رہی

میں پا شکستہ جا نہ سکا قافلے تلک
آتی اگرچہ دیر صدائے جرس رہی

لطفِ قبائے تنگ پہ گُل کا بجا ہے ناز
دیکھی نہیں ہے اُن نے تری چولی چس رہی

خالی شگفتگی سے جراحت نہیں کوئی
ہرزخم یاں ہے جیسے کلی ہو بکس رہی

جوں صبح اس چمن میں نہ ہم کُھل کے ہنس سکے
فرصت رہی جو میر بھی سو یک نفس رہی​
 
390


آج کل بے قرار ہیں ہم بھی
بیٹھ جا چلنے ہار ہیں ہم بھی

آن میں کچھ ہیں آن میں کچھ ہیں
تحفہء روزگار ہیں ہم بھی

منع گریہ نہ کر تُو اے ناصح
اس میں بے اختیار ہیں ہم بھی

مدعی کو شراب، ہم کو زہر
عاقبت دوستدار ہیں ہم بھی

گرز خود رفتہ ہیں ترے نزدیک
اپنے تو یادگار ہیں ہم بھی

میر نام اک جواں سنا ہوگا
اُسی عاشق کے یار ہیں ہم بھی
 
غفلت میں گئی آہ مری ساری جوانی
اے عمرِ گزشتہ میں تری قدر نہ جانی

مدت سے ہیں اک مشتِ پر آوارہ چمن میں
نکلی ہے یہ کس کی ہوسِ بال فشانی

بھاتی ہے مجھے اک طلبِ بوسہ میں یہ آن
لکنت سے اُلجھ جا کے اُسے بات نہ آنی

دیکھیں تو سہی کب تئیں نبھتی ہے یہ صحبت
ہم جی سے ترے دوست ہیں تُو دشمنِ جانی

(ق)

اک شخص مجھی سا تھا کہ وہ تجھ پہ تھا عاشق
وہ اُس کی وفا پیشگی ، وہ اُس کی جوانی

یہ کہہ کے جو رویا تو لگا کہنے نہ کہہ میر
سنتا نہیں میں ظلم رسیدوں کی کہانی​
 
392

کل بارے ہم سے ، اُس سے ملاقات ہوگئی
دو دو بچن کے ہونے میں اک بات ہوگئی

ڈر ظلم سے کہ اُس کی جزا بس شتاب ہے
آیا عمل میں یاں کہ مکافات ہوگئی

خورشید سا پیالہء مے بے طلب دیا
پیرِ مغاں سے رات کرامات ہوگئی

کتنا خلافِ وعدہ ہوا ہوگا وہ کہ یاں
نومیدی و اُمید مساوات ہو گئی

اپنے تو ہونٹ بھی نہ ہلے اُس کے روبرو
رنجش کی وجہ میر وہ کیا بات ہو گئی
 
393

کوئی ہو محرمِ شوخی ترا تو میں پوچھوں
کہ بزمِ عیشِ جہاں کیا سمجھ کے برہم کی

ہمیں تو باغ کی تکلیف سے معاف رکھو
کہ سیر و گشت نہیں رسم اہلِ ماتم کی

گھرے ہیں درد و الم میں فراق کے ایسے
کہ صبحِ عید بھی یاں شام ہے محرم کی

قفس میں میر نہیں جوشِ داغ سینے پر
ہوس نکالی ہے ہم نے بھی گل کے موسم کی
 
394

نسبت تو دیتے ہیں ترے لب سے پر ایک دن
ناموس یوں ہی جائے گی آبِ حیات کی

صد حرف زیرِ خاک تہِ دل چلے گئے
ملہت نہ دی اجل نے ہمیں ایک بات کی

ہم تو ہی اس زمانے میں حیرت سے چپ نہیں
اب بات جاچکی ہے سبھی کائنات کی

عرصہ ہے تنگ چال نکلتی نہیں ہے اور
جو چال پڑتی ہے سو وہ بازی کی مات کی​
 
395

اب دل کو آہ کرنی ہی صبح و مسا لگی
پژ مردہ اس کلی کے تئیں بھی ہوا لگی

کیوں کر بجھاؤں آتشِ سوزانِ عشق کو
اب تو یہ آگ دل سے جگر کو بھی جا لگی

لگ جائے چپ نہ تجھ کو تو تُو کہیو عندلیب
گر بے کلی نے کی ہمیں تکلیف نا لگی

کشتے کا اُس کے زخم نہ ظاہر ہوا کہ میر
کس جائے اُس شہید کے تیغِ جفا لگی​
 
Top