سید فصیح احمد
لائبریرین
405صفحہ
اور بری طرح نکالیں گے۔ بھلا میں کہتا ہوں کہ دوسرے فریق سے مل نہیں گیا ہے اور جو مسل سرا میں بھی نہ ہوئی تو۔ یہ بڑا بے وقوف ہے اس کا اعتبار تو شاید دشمن بھی نہ کریں۔
شیخ جی : جی نہیں اتنے دنوں کا رہا سہا ہے ایسا تو کیا کرے گا دیکھیے معلوم ہوا جاتا ہے۔ اگر پیشی کے وقت تک نہ آیا تو کوئی نہ کوئی ترکیب نکلالی ہی جائے گی۔ آپ پریشان نہ ہوں۔
بڑے مرزا صاحب: پریشان کیسے نہ ہوں۔ سب کرائی محنت غارت غول ہوئی جا رہی ہے۔نقصان مایہ اور شماتت، ہمسایہ اوپر سے۔ خدا کرے ابھی پکار نہ ہو۔
مرزا صاحب یہ دعائیں مانگ ہی رہے تھے کہ قیامت کا صور پھنک گیا۔مرزا فلاں بن فلاں کوئی حاجر ہے۔ چہرے پر ہوائیاں چھوٹنے لگیں۔ کلیجہ بلیوں اچھلنے لگا۔ ہاتھ پاؤں برف ہو گئے حواس یہ جا وہ جا۔ خدمت گار سے جا ملے۔
بڑے مرزا صاحب: اب کیا ہو گا شیخ جی۔
شیخ جی : چلیے تو عدالت سے عذر کریں گے۔
خدا نے خیر کی کہ وہاں پہنچتے ہی معلوم ہوا کہ تاریخ بڑھ گئی۔ جان میں جان آئی۔ باہر نکلے۔ کچھ خوش کچھ غصہ۔ لمبے لمبے قدم رکھتے چلے کہ مسل کی خبر لیں۔ سرا کے پھاٹک پر نائب صاحب کا نوکر دکھائی دیا۔
بڑے مرزا صاحب: اور وہ کیوں نہیں آیا۔
نوکر: اس نے کہا کہ میرے پاؤں میں موچ آ گئی ہے۔ تُم لے جاؤ۔
بڑے مرزا صاحب: شیخ جی مٹھائی کی خیر نہیں معلوم ہوتی۔
دور ہی سے کوٹھڑی کی کنڈی اتری ہوئی اور دروازہ بھڑا ہوا دکھائی دیا۔ مرزا صاحب نے چال بدل دی اور دبے پاؤں چلنے لگے۔ دراڑ سے مل کر ملاحظہ کیا۔ دیکھتے کیا ہیں کہ پلنگ پررنگ برنگ کی مٹھائی کا چورا اور ٹکڑے بکھرے ہوئے بہار دکھا رہے ہیں۔ ٹوکری کا گریبان پہلے ہی تار تار ہو چکا ہے اور رقیب روسیاہ کا منھ اور جیبیں پھولی ہوئی ہیں اور وہ پانچوں انکلیاں زمین پر رگڑ رگڑ کر صاف چادر پر موقع موقع سے کتے کے پاؤں بنا رہا ہے۔ دروازہ کھلا دھڑ سے چٹاخ پٹاخ چٹ پٹ۔ دھم پٹ تڑ۔ بھلا بے اندھی رانڈ کے جنے آج پکڑا گیا نا۔
اور بری طرح نکالیں گے۔ بھلا میں کہتا ہوں کہ دوسرے فریق سے مل نہیں گیا ہے اور جو مسل سرا میں بھی نہ ہوئی تو۔ یہ بڑا بے وقوف ہے اس کا اعتبار تو شاید دشمن بھی نہ کریں۔
شیخ جی : جی نہیں اتنے دنوں کا رہا سہا ہے ایسا تو کیا کرے گا دیکھیے معلوم ہوا جاتا ہے۔ اگر پیشی کے وقت تک نہ آیا تو کوئی نہ کوئی ترکیب نکلالی ہی جائے گی۔ آپ پریشان نہ ہوں۔
بڑے مرزا صاحب: پریشان کیسے نہ ہوں۔ سب کرائی محنت غارت غول ہوئی جا رہی ہے۔نقصان مایہ اور شماتت، ہمسایہ اوپر سے۔ خدا کرے ابھی پکار نہ ہو۔
مرزا صاحب یہ دعائیں مانگ ہی رہے تھے کہ قیامت کا صور پھنک گیا۔مرزا فلاں بن فلاں کوئی حاجر ہے۔ چہرے پر ہوائیاں چھوٹنے لگیں۔ کلیجہ بلیوں اچھلنے لگا۔ ہاتھ پاؤں برف ہو گئے حواس یہ جا وہ جا۔ خدمت گار سے جا ملے۔
بڑے مرزا صاحب: اب کیا ہو گا شیخ جی۔
شیخ جی : چلیے تو عدالت سے عذر کریں گے۔
خدا نے خیر کی کہ وہاں پہنچتے ہی معلوم ہوا کہ تاریخ بڑھ گئی۔ جان میں جان آئی۔ باہر نکلے۔ کچھ خوش کچھ غصہ۔ لمبے لمبے قدم رکھتے چلے کہ مسل کی خبر لیں۔ سرا کے پھاٹک پر نائب صاحب کا نوکر دکھائی دیا۔
بڑے مرزا صاحب: اور وہ کیوں نہیں آیا۔
نوکر: اس نے کہا کہ میرے پاؤں میں موچ آ گئی ہے۔ تُم لے جاؤ۔
بڑے مرزا صاحب: شیخ جی مٹھائی کی خیر نہیں معلوم ہوتی۔
دور ہی سے کوٹھڑی کی کنڈی اتری ہوئی اور دروازہ بھڑا ہوا دکھائی دیا۔ مرزا صاحب نے چال بدل دی اور دبے پاؤں چلنے لگے۔ دراڑ سے مل کر ملاحظہ کیا۔ دیکھتے کیا ہیں کہ پلنگ پررنگ برنگ کی مٹھائی کا چورا اور ٹکڑے بکھرے ہوئے بہار دکھا رہے ہیں۔ ٹوکری کا گریبان پہلے ہی تار تار ہو چکا ہے اور رقیب روسیاہ کا منھ اور جیبیں پھولی ہوئی ہیں اور وہ پانچوں انکلیاں زمین پر رگڑ رگڑ کر صاف چادر پر موقع موقع سے کتے کے پاؤں بنا رہا ہے۔ دروازہ کھلا دھڑ سے چٹاخ پٹاخ چٹ پٹ۔ دھم پٹ تڑ۔ بھلا بے اندھی رانڈ کے جنے آج پکڑا گیا نا۔
==== OOOOOO ====