فلک شیر

محفلین
دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مرجاتے ہیں
ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں

ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں

گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں

کس طرح لوگ چلے جاتے ہیں اُٹھ کر چپ چاپ
ہم تو یہ دھیان میں لاتے ہوئے مر جاتے ہیں

ان کے بھی قتل کا الزام ہمارے سر ہے
جو ہمیں زہر پلاتے ہوئے مر جاتے ہیں

یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں

ہم ہیں وہ ٹوٹی ہوئی کشتیوں والے تابش
جو کناروں کو ملاتے ہوئے مر جاتے ہیں​
 

فلک شیر

محفلین
زخم چھپانے کو ہم خلعت مانگتے ہیں
تم کہتے ہو اجرِ ہجرت مانگتے ہیں

میری دعا سے اور تری آمین سے کیا
اس بستی کے لوگ قیامت مانگتے ہیں​
 

فلک شیر

محفلین
تمہارے شہر کے چاروں طرف پانی ہی پانی تھا
وہی اک جھیل ہوتی تھی جدھر جاتے تھے ہم دونوں

سنہری مچھلیاں، مہتاب اور کشتی کے اندر ہم
یہ منظر گم تھا پھر بھی جھیل پر جاتے تھے ہم دونوں

زمستاں کی ہواؤں میں فقط جسموں کے خیمے تھے
دبک جاتے تھے ان میں جب ٹھٹھر جاتے تھے ہم دونوں

عجب اک بے یقینی میں گزرتی تھی کنارے پر
ٹھہرتے تھے نہ اُٹھ کر اپنے گھر جاتے تھے ہم دونوں

کہیں جانا نہیں تھا اس لیے آہستہ رو تھےہم
ذرا سا فاصلہ کر کے ٹھہر جاتے تھے ہم دونوں

زمانہ دیکھتا رہتا تھا ہم کو چور آنکھوں سے
نہ جانے کن خیالوں میں گزر جاتے تھے ہم دونوں

بس اتنا یاد ہے پہلی محبت کا سفر تھا وہ
بس اتنا یاد ہے شام و سحر جاتے تھے ہم دونوں

حدودِ خواب سے آگے ہمارا کون رہتا تھا
حدودِ خواب سے آگے کدھر جاتے تھے ہم دونوں​
 

فلک شیر

محفلین
نیند آتے ہی مجھے اُس کو گزر جانا ہے
وہ مسافر ہے جسے میں نے شجر جانا ہے

چاند کے ساتھ بہت دور نکل آیا تھا
اب کھڑا سوچتا ہوں میں نے کدھر جانا ہے

اس کو کہتے ہیں ترے شہر سے ہجرت کرنا
گھر پہنچ کر بھی یہ لگتا ہے کہ گھر جانا ہے​
 

فلک شیر

محفلین
دل کی ضد تھی کہ اسے دور سے چاہا جائے
اور تنہائی اسے ہاتھ لگا بھی آئی

میرے اطراف میں رات ایسی بلا کی چُپ تھی
پھول ٹوٹا تو مجھے اس کی صدا یاد آئی

میں ابھی سوچ رہا تھا کہ کھلوں یا نہ کھلوں
میری چپ جا کے اسے بھید بتا بھی آئی

میں نے اب تک نہیں دنیا کو مقابل جانا
اپنی دانست میں وہ مجھ کو گرا بھی آئی

حسنِ محجوب تری ایک جھلک کی خاطر
اِک پیمبرؐ ہی نہیں ، خلق خدا بھی آئی

 

فلک شیر

محفلین
شہر کو شورِ قیامت چاہیے
یار یہ دو چار چڑیاں کیا کریں

شاخ سے کیوں توڑ لیں تازہ گلاب
کیوں کسی تتلی کا حق مارا کریں

تم مکمل بات پر خاموش ہو
لوگ تو پورا مرا جملہ کریں

قیس مل جائےتو پوچھیں مرشدا
عشق کرنا چھوڑ دیں ہم یا کریں​
 

فلک شیر

محفلین
ہم بھی کہتے ہیں کہ سب کچھ ہے ہمارے دم سے
ہم بھی گزرے ہوئے لوگوں کی طرح سوچتے ہیں

تیرے ہاتھوں سے کسی دن نہ جھپٹ لیں تجھ کو
ہم محبت میں غریبوں کی طرح سوچتے ہیں

یہ میاں اہلِ محبت ہیں انہیں کچھ نہ کہو
یہ بڑے لوگ ہیں بچوں کی طرح سوچتے ہیں​
 

فلک شیر

محفلین
میں کوئی شاخِ شکستہ ہوں اور تو اس کی ٹیک
یار اپنا سلسلہ یک جان و دو قالب نہیں

لیکن اتنا دھیان رکھنا میں پرندوں کی طرح
تم پہ اپنا حق جتاتا ہوں مگر غاصب نہیں​
 

فلک شیر

محفلین
یوں ہی پہچان کی ذلت سے نکل کر دیکھوں
نام تبدیل کروں شکل بدل کر دیکھوں

ہو بھی سکتا ہے کنارے پہ کھڑا ہو کوئی
ڈوبتے ڈوبتے اک بار اُچھل کر دیکھوں
 

فلک شیر

محفلین
یہ جو میں بھاگتا ہوں وقت سے آگے آگے
میری وحشت کے مطابق یہ روانی کم ہے

غم کی تلخی مجھے نشہ نہیں ہونے دیتی
یہ غلط ہے کہ تری چیز پرانی کم ہے

ہجر کو حوصلہ اور وصل کو فرصت درکار
اک محبت کے لیے ایک جوانی کم ہے

اس سمے موت کی خوشبو کے مقابل
کسی آنگن میں کھلی رات کی رانی کم ہے​
 

فلک شیر

محفلین
کہیں خوشبو کہیں جگنو، کہیں میں تو نکلتے ہیں
بہت بکھرے ہوئے لیکن بہت یکسو نکلتے ہیں

ہم اپنے اپنے گھر سے یوں نکل آئے محبت میں
کہ جیسے شدتِ جذبات میں آنسو نکلتے ہیں​
 

فلک شیر

محفلین
یوں ہی ممکن ہے یہ وقت آنکھ میں پانی ہو جائے
رات لمبی ہے بہت کوئی کہانی ہو جائے

شعر ہوتے ہیں نہ روتے ہیں نہ مل بیٹھتے ہیں
کس طرح ختم طبیعت کی گرانی ہو جائے

اپنے کمرے کے میں پردے ہی ہٹا دوں تابش
یوں ہی ممکن ہے مری شام سہانی ہو جائے​
 

فلک شیر

محفلین
قہوہ خانے میں دھواں بن کے سمائے ہوئے لوگ
جانے کس دھن میں سلگتے ہیں بجھائے ہوئے لوگ

اپنا مقسوم ہے گلیوں کی ہوا ہو جانا
یار ہم ہیں کسی محفل سے اٹھائے ہوئے لوگ

شکل تو شکل مجھے نام بھی اب یاد نہیں
ہائے وہ لوگ وہ اعصاب پہ چھائے ہوئے لوگ
 
Top