فلک شیر

محفلین
کسی برتن کی طرح توڑ دیا ہے اس نے
اپنے ہاتھوں سے مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے

اس کی حسرت میں نکل آیا ہوں اپنی جانب
رائیگانی کو عجب موڑ دیا ہے اس نے
 

فلک شیر

محفلین
لو لگانے سے گئی دربدری کی ذلت
خود کو پہنچا ہوا لگتا ہوں سفر سے پہلے

اک ہتھیلی ہے مری ایک ہتھیلی اس کی
سب دعائیں اثر یاب ہیں اثر سے پہلے​
 

فلک شیر

محفلین
غرق شہروں کی کہانی اور ہے
تیری میری رائیگانی اور ہے

جینے مرنے کے علاوہ بھی یہاں
ایک صورت درمیانی اور ہے

میرے گرنے کو زمانے چاہییں
میری بنیادوں میں پانی اور ہے

گھر ٹپکتا دیکھ کر روتی ہے ماں
چھت تلے اک چھت پرانی اور ہے​
 

فلک شیر

محفلین
شعر لکھنے کو اب رہا کیا ہے
اس سے کہنے کو اب رہا کیاہے

میرا ہم عصر صبح کا تارا
میرے بارے میں جانتا کیا ہے

سوچتے ہونٹ ، بولتی آنکھیں
حیرتی کا مکالمہ کیا ہے

میں یہاں سے پلٹنا چاہتا ہوں
اے خدا تیرا مشورہ کیاہے

جسم کے اس طرف ہے گل آباد
پھاند دیوار، دیکھتا کیا ہے

میری خود سے مفاہمت نہ ہوئی
تو بتا، تیرا مسئلہ کیا ہے

اس لیے بولنے پہ ہوں مجبور
آپ سوچیں گے سوچتا کیا ہے

میں بنا تھا کھنکتی مٹی سے
میرے اندر سکوت سا کیاہے
 

فلک شیر

محفلین
سکوتِ نیم شبی سے ڈر گئے ہم بھی
ہمیں سنبھال کہ گیتوں سے بھر گئے ہم بھی

بچھڑنے والو! کبھی آئینہ بھی دیکھنا تم
تمہارے ساتھ کوئی ہاتھ کر گئے ہم بھی​
 

فلک شیر

محفلین
گدائے حرف ہیں، شام و سحر تسبیح کرتے ہیں
ہم اٹھتے بیٹھتے اسمِ ہنر تسبیح کرتے ہیں

کہ جیسے شہر پر کوئی مصیبت آنے والی ہو
ہوا کچھ پڑھتی پھرتی ہے شجر تسبیح کرتے ہیں

خداوندا! یہ کیسی رات آئی ہے قیامت کی
ترے بندے کوئی حرفِ دگر تسبیح کرتے ہیں

 

فلک شیر

محفلین
ممکن ہے اب وقت کی چادر پر میں کروں رفو کا کام
جوتے میں نے گانٹھ لیے ہیں گدڑی میں نے سی لی ہے​
 

فلک شیر

محفلین
اسی خیال سے اپنی جڑیں نہ پھیلنے دیں
کہ جس نے پاؤں دیے ہیں کبھی سفر دے گا

اسے پسند نہیں ہوں میں پہلی حالت میں
میں اور ہوں وہ مجھے کوئی اور کر دے گا​
 

فلک شیر

محفلین
کسی نے دیکھا کسی نے پوچھا کسی نے روک کسی نے ٹوکا
ہمیں محبت سے پیشتر بھی بڑے بڑے تجربے ہوئے ہیں

دعائیں ان کے لیے جنہیں دل لگانے کی دھن نہیں سمائی
سلام ان پر کہ جو محبت میں جان سے بھی گئے ہوئے ہیں

نہ اس میں آسیب ِ آرزو ہے ، نہ اس میں بچوں کی ہاؤ ہو ہے
نہ جانے کیوں اس مکانِ دل سے محلے والے ڈرے ہوئے ہیں​
 

فلک شیر

محفلین
اب اس سے اگلا سفر ہمارا لہو کرے گا
کہ ہم مدینے سے کربلا تک پہنچ گئے ہیں

گلابوں اور گردنوں سے اندازہ ہو رہا ہے
کہ ہم کسی موسم ِ جزا تک پہنچ گئے ہیں

تری محبت میں گمرہی کا عجب نشہ تھا
کہ تجھ تک آتے ہوئے خدا تک پہنچ گئے ہیں​
 

فلک شیر

محفلین
بے تعلق نہ ہمیں جان کہ ہم جانتے ہیں
کتنا کچھ جان کے یہ بے خبری آتی ہے

اس قدر گوندھنا پڑتی ہے لہو سے مٹی
ہاتھ گھل جاتے ہیں تب کوزہ گری آتی ہے

کتنا رکھتے ہیں اِس شہر خموشاں کا خیال
روز اک ناؤ گلابوں سے بھری آتی ہے

زندگی کیسے بسر ہو گی کہ ہم کو تابش
صبر آتا ہے نہ آشفتہ سری آتی ہے​
 

فلک شیر

محفلین
پرندے بھی اگر مل بیٹھتے ہیں
یہی لگتا ہے سازش ہو رہی ہے

کسی نے خط میں لکھا ہے کہ تابش
یہاں کچھ دن سے بارش ہو رہی ہے​
 

فلک شیر

محفلین
یہ جو نشہ سا طاری ہے طاری رہے رقص جاری رہے
میرے مولا یہ بے اختیاری رہے رقص جاری رہے

ہم لہو میں نہائیں کہ جاں ہی سے جائیں تجھے اس سے کیا
شہرِ تہمت تری سنگباری رہے رقص جاری رہے

ہم نے تو جس جگہ تجھ کو رکھا وہیں آبلہ پڑ گیا
پائے وحشت تری وضعداری رہے رقص جاری رہے

ایک پاکوب سے کہہ رہا ہے چٹختا ہوا خاکداں
جتنی دیر اس جگہ تیری باری رہے رقص جاری رہے​
 

فلک شیر

محفلین
کیوں نہ پھر اسی سے تعلق کو نبھایا جائے
جب کسی اور کا ہونا ہے اسی کا ہونا

تیرا سورج کے قبیلے سے تعلق تو نہیں
یہ کہاں سے تجھے آیا ہے سبھی کا ہونا​
 

فلک شیر

محفلین
دریا کی روانی ہے روانی کے علاوہ
یہ بھید نہ سمجھا کوئی پانی کے علاوہ

میں تجھ سے کہیں اور ملا ہوں
خوابوں سے اُدھر عالمِ فانی کے علاوہ

آئی جو کسی روز تو پوچھوں گا صبا سے
کیا کرتی ہے پیغام رسانی کے علاوہ

 

فلک شیر

محفلین
یوں بھی منظر کو نیا کرتا ہوں
دیکھتا ہوں اسے حیرانی کے ساتھ

گھر میں ایک تصویر جنگل کی بھی ہے
رابطہ رہتا ہے ویرانی کے ساتھ​
 

فلک شیر

محفلین
کوئی کوئی عشق میں ہوتا ہے گمنام
کوئی کوئی عزت والا ہوتا ہے

اپنے دکھ اپنی آنکھیں روتی ہیں
ہر گھر کا اپنا پرنالا ہوتا ہے

رونے سے بھی رونق آتی ہے رخ پر
بارش سے بھی حسن دوبالا ہوتا ہے

روز ہی دل کو صاف کیا کرتا ہوں میں
روز ہی اس کونے میں جالا ہوتا ہے

ان میں سے ہوں جن کا سارا مال و منال
ایک پیالہ ایک دو شالہ ہوتا ہے​
 

فلک شیر

محفلین
کہاں وہ وقت کہ پانی سے خوف آتا تھا
اور اب زمین میں چہرہ دکھائی دیتا ہے

یہ دیکھنے کو تماشا بنے تماشائی
وہ دیکھتا ہوا کیسا دکھائی دیتاہے​
 

فلک شیر

محفلین
مجھے بھی اوروں کی طرح کاغذ ملا ہے لیکن
میں اس سے ناؤ نہیں سمندر بنا رہا ہوں

اور اب اداسی کی ستر پوشی کا مرحلہ ہے
تھکن کے دھاگوں سے ایک چادر بنا رہا ہوں
 
Top