شعر لکھنے کو اب رہا کیا ہے
اس سے کہنے کو اب رہا کیاہے
میرا ہم عصر صبح کا تارا
میرے بارے میں جانتا کیا ہے
سوچتے ہونٹ ، بولتی آنکھیں
حیرتی کا مکالمہ کیا ہے
میں یہاں سے پلٹنا چاہتا ہوں
اے خدا تیرا مشورہ کیاہے
جسم کے اس طرف ہے گل آباد
پھاند دیوار، دیکھتا کیا ہے
میری خود سے مفاہمت نہ ہوئی
تو بتا، تیرا مسئلہ کیا ہے
اس لیے بولنے پہ ہوں مجبور
آپ سوچیں گے سوچتا کیا ہے
میں بنا تھا کھنکتی مٹی سے
میرے اندر سکوت سا کیاہے