فلک شیر

محفلین
یہ جو ہم تجھ سے تری بات کرنا چاہتے ہیں
جنوں بہ حرف و حکایات کرنا چاہتے ہیں

اسی لیے تو دعا درمیان میں لائے
گلہ برنگِ مناجات کرنا چاہتے ہیں

تمہیں پسند غیاب و حجاب میں رہنا
مگر جو تم سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں

یہ گردبادِ جہاں کیوں ہمیں گھسیٹتا ہے
کہ ہم تو رقص ترے ساتھ کرنا چاہتے ہیں

اگر قریب سے گزروں تو ایسا لگتا ہے
یہ پیڑ مجھ سے کوئی بات کرنا چاہتے ہیں​
 

فلک شیر

محفلین
تجھ سے نہیں ملا تھا مگر چاہتا تھا میں
تو ہم سفر ہو اور کہیں کا سفر نہ ہو

تو جانتا نہیں مرے مالک مکان کو
اے دوست! کوئی چیز ادھر ادھر نہ ہو
 

فلک شیر

محفلین
کوئی ملتا نہیں یہ بوجھ اٹھانے کے لیے
شام بے چین ہے سورج کو گرانے کے لیے

اپنے ہمزاد درختوں میں کھڑا سوچتا ہوں
میں تو آیا تھا انہیں آگ لگانے کے لیے

لفظ تو لفظ یہاں دھوپ نکل آتی ہے
تیری آواز کی بارش میں نہانے کے لیے​
 

فلک شیر

محفلین
ہم کنارے پہ سلگتے ہوئے پیڑوں کی طرح
آپ تصویر میں دریا کی جگہ رہتے ہیں

یہ بھی رہتے نہیں ویران جگہ پر تابش
دکھ بھی پرندوں کی طرح شہر میں آ رہتے ہیں​
 

فلک شیر

محفلین
اگر کبھی موجودگاں سے فرصت ہو
تو رفتگاں مری نیندیں حرام کرتے ہیں

ابھی تو گھر میں نہ بیٹھیں کہو بزرگوں سے
ابھی تو شہر کے بچے سلام کرتے ہیں​
 

فلک شیر

محفلین
خیال و خواب وخبر کے لیے سلام و دعا
لواحقین ہنر کے لیے سلام و دعا

ہوائے تیز کی خاطر پیامِ خندہ لب
چراغِ راہ گزر کے لیے سلام و دعا

چلیں کوئی تو مجھے ڈوبتے بھی دیکھے گا
کنارہ گیر شجر کے لیے سلام و دعا​
 

فلک شیر

محفلین
ایک تو مڑ کے نہ جانے کی اذیت تھی بہت
اور اس پر یہ ستم کوئی پکارا بھی نہیں

عمرِ مابعد اگر تیرے علاوہ کچھ ہے
پھر تو میں اب بھی نہیں اور دوبارا بھی نہیں

 

فلک شیر

محفلین
ایک بے کار تمنا کو لگا کے دل پر
ہم نے ٹوٹے ہوئے حجرے کی مرمت کی ہے

چھوٹی اینٹوں سے بنایا ہوا یہ حجرہ دل
گزرے وقتوں میں یہاں کس نے سکونت کی ہے​
 

فلک شیر

محفلین
پھر اس کے بعد پھلوں میں مٹھاس نہیں آئی
شجر نے کام لیا تھا غلط بیانی سے

تو مل گیا ہے تو اچھا ہوا وگرنہ دوست
کسے غرض تھی محبت میں کامرانی سے​
 

فلک شیر

محفلین
آسودگانِ رنج ہیں ہم کو خوشی سےکیا
تو خیریت نہ جان اگر خیریت سے ہیں

کیا طُرفہ لوگ ہیں یہ ترے قیس و کوہکن
حالت کوئی نہیں ہے مگر خیریت سے ہیں​
 

فلک شیر

محفلین
دل بستگیء شوق کے سامان بندھے ہیں
گھر میں کہیں پنجرے کہیں گلدان بندھے ہیں

یہ اپنی محبت تو دکھاوے کے لیے ہے
ہم تم تو کہیں اور مری جان بندھے ہیں

تم کاٹ نہ دینا اسے بے کار سمجھ کر
اس پیڑ کے نیچے کئی پیمان بندھے ہیں

یہ ہم جو کسی طور نہیں کھلتے کسی پر
تجھ ہاتھ کی خاطر بہت آسان بندھے ہیں

عالم تھے کئی اور بھی مٹی کے علاوہ
کیا اس میں کشش تھی کہ یہاں آن بندھے ہیں​
 

فلک شیر

محفلین
پھر تو اس کی یاد بھی رکھی نہ میں نےاپنے پاس
جب کیا واپس تو کل اسباب واپس کر دیا

التجائیں کر کے مانگی تھی محبت کی کسک
بے دلی نے یہ غمِ نایاب واپس کر دیا​
 
Top