فلک شیر

محفلین
ریت کے واسطے کافی ہے مرے پاؤں کا لمس
تشنگی تیرے لیے دیدہ ء تر حاضر ہے

اور تو کچھ بھی نہیں گردِ سفر حاضر ہے
مابدولت سے کہو خاک بسر حاضر ہے

وقت ِ ناوقت حضوری کا تسلسل ٹوٹا
ایک ہی بار میں دل بارِ دگر حاضر ہے​
 

فلک شیر

محفلین
تیرے بس میں بھی نہ تھے جو ترے باعث بھی نہ تھے
اُن مسائل کا بھی میں نے تجھے حل جانا تھا

میری حساس طبیعت کا برا ہوجس نے
تیری چپ کو بھی ترا رد عمل جاناتھا​
 

فلک شیر

محفلین
طلسمِ ظلمتِ شب کا ازالہ کیا کرتا
پرندے سوئے ہوئے تھے میں نالہ کیا کرتا

خدا کے نام کی پروا نہیں تھی لوگوں کو
یہاں ہمارا تمہارا حوالہ کیا کرتا​
 

فلک شیر

محفلین
جب نہ کام آئی مرے دستِ ہنر کی کوشش
مرحلے سہل لیے دستِ دعا نے میرے

یوں بچایا ہے مجھے مجھ سے خدا نے میرے
سنگ جو ہاتھ میں تھا اب ہے سرہانے میرے

 

فلک شیر

محفلین
اور ہی کچھ نہ بول دوں عرض ہنر کے شوق میں
میں ہوں کسی کا رازداں میرے لیے دعا کرو

چاہیے پرورش مجھے نخلِ بزرگ کی طرح
دشت کے سب پرندگاں میرے لیے دعا کرو​
 

فلک شیر

محفلین
پسِ گریہ کوئی دیتا ہے تسلی تجھ کو
یہ جو اے دل تجھے بے وجہ سکوں ہے یوں ہے

میر صاحب ہی نہیں اس سے پرے بیٹھتے ہیں
جو بھی شائستہ ِ آدابِ جنوں ہے یوں ہے

زندگی بھر میں کوئی شعر تو ایسا ہوتا
میں بھی کہتا جو مرا زخمِ دروں ہے یوں ہے

نیست میں ہست کا احساس دلاتی ہوئی آنکھ
شور کرتی ہے کہ ہے کن فیکوں ہے یوں ہے​
 

فلک شیر

محفلین
ایسے نہیں مانوں گا میں ہستی کا توازن
تقطیع کیا جائے یہ مصرعہ مرے آگے

حیرت ہے کہ دیتی ہیں مجھے طعنہ وحشت
ترتیب سے رکھی ہوئی اشیا ء مرے آگے​
 

فلک شیر

محفلین
غرور ر کذب و ریا کل من علیہا فان
مسلسل ایک ندا کل من علیہا فان

اُسی نے ہم سے کہا عشق مر نہیں سکتا
اُسی نے ہم سے کہا کل من علیہا فان

ہمارے نام شجر پر لکھے ہوئے تھے جہاں
وہیں کسی نے لکھاکل من علیہا فان

 

فلک شیر

محفلین
نہیں پہنچنا ہمیں گر کسی نتیجے پر
تو پھر جو ہم میں ہے جاری وہ گفتگو کیا ہے

کوئی تو ہو جسے اپنا رقیب ٹھہراؤں
کوئی تو ہو جسے معلوم ہو تو کیا ہے​
 

فلک شیر

محفلین
اس زمانے میں غنیمت ہے غنیمت ہے میاں
کوئی باہر سے بھی درویش اگر لگتا ہے

عشق زادوں کے لہو کا یہ اثر لگتا ہے
آج بھی دشت میں نیزے کو ثمر لگتا ہے​
 

فلک شیر

محفلین
میری تنہائی بڑھاتے ہیں چلے جاتے ہیں
ہنس تالاب پہ آتے ہیں چلے جاتے ہیں

اس لئے اب میں کسی کو نہیں جانے دیتا
جو مجھے چھوڑ کے جاتے ہیں چلے جاتے ہیں

میری آنکھوں سے بہا کرتی ہے ان کی خوشبو
رفتگاں خواب میں آتے ہیں چلے جاتے ہیں

شادیِ مرگ کا ماحول بنا رہتا ہے
آپ آتے ہیں رلاتے ہیں چلے جاتے ہیں

کب تمھیں عشق پہ مجبور کیا ہے ہم نے
ہم تو بس یاد دلاتے ہیں چلے جاتے ہیں

آپ کو کون تماشائی سمجھتا ہے یہاں
آپ تو آگ لگاتے ہیں چلے جاتے ہیں​
 
Top