کیا کہنے جناب کے انتخاب کےثبت کر اور کوئی مہر مرے ہونٹوں پر
قفلِ ابجد سے نہیں بند ہوا باب مرا
جس قدر آئی فراخی مرے دل میں تابش
اتنا ہی تنگ ہوا حلقہ احباب مرا
سررررکیا کہنے جناب کے انتخاب کے
میرا پسندیدہ شعرمیرے سینے سے ذرا کان لگا کر دیکھو
سانس چلتی ہے کہ زنجیر زنی ہوتی ہے
آہستہ آہستہ کی تکرار مزہ دے گئیکہیں لالی بھری تھالی نہ گر جائے سمندر میں
چلا ہے شام کا سورج کہاں آہستہ آہستہ
مکیں جب نیند کے سائے میں سستانے لگیں تابش
سفر کرتے ہیں بستی کے مکاں آہستہ آہستہ
شکرگزار ہوں عمر بھائیبہت خوبصورت شراکت ۔۔۔
اہا اہا کیا ندرت ِخیال ہےمری خندق میں اس کے قرب کی قندیل روشن ہے
مرے دشمن سے کہہ دینا میں اس سے پیار کرتا ہوں
اٹھائے پھر رہا ہوں حسرتِ تعمیر کی اینٹیں
جہاں سایہ نہیں ہوتا وہیں دیوار کرتا ہوں
نغمگی اور رچاؤ کے کیا کہنے لطف آ گیاپیش آتے ہیں کچھ ایسے اپنی حیرانی سے ہم
آئینے کو دیکھتے ہیں خندہ پیشانی سے ہم
دل میں اک گوشہ ہمارے واسطے رکھ چھوڑنا
کیا خبر کب تنگ آ جائیں جہانبانی سے ہم
رات کو جب یاد آئے تیری خوشبوئے قبا
تیرے قصے چھیڑتے ہیں رات کی رانی سے ہم