مہ جبین
محفلین
3۔ اگر لڑکی پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کر رہی ہو، جیسے، طب، انجینئرنگ، لاء وغیرہ تو کیا گریجویشن کرتے ہی شادی کردینا زیادہ مفید ہے یا لڑکیوں کی خواہش پر اسپیشیلائزیشن ، پریکٹس اور کیریئر وغیرہ میں ”قدم جمانے“ کے بعد شادی کرنا بہتر ہوگا۔
میرا خیال ہے گریجویشن کرتے ہی شادی کرنا مناسب ہوتا ہے کیونکہ لڑکیوں پر جتنی جلدی جوانی آتی ہے تو واپسی کا سفر بھی اُسی مناسبت سے شروع ہوجاتا ہے، پھر لڑکیوں کے رشتے بھی ایک مناسب وقت تک آتے ہیں اور پھر عمر ذرا بھی زیادہ ہوجائے تو لڑکوں کے تو نہیں پھر "بابوں" کے رشتے آتے ہیں یا پھر آتے ہی نہیں۔
اسپیشلائزیشن ، پریکٹس اور کیرئیر میں "قدم جمانے" کے بعد لڑکی کی عمر یقیناً "30 تک تو لازمی پہنچے گی تو ایسی صورت میں کبھی قسمت سے کوئی اچھا رشتہ آبھی سکتا ہے اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ آڑھے ٹیڑھے رشتے آئیں جو لڑکی اور اسکے گھر والوں کے لئے ذہنی اذیت کا سبب بن سکتے ہیں اسلئے مناسب یہی ہے کہ مناسب عمر میں اچھے رشتوں کو انکار محض اس بنیاد پر نہ کیا جائے بس اللہ کا نام لیکر شادی کردینا ہی اچھا ہوتا ہے
اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خاطر اچھے رشتوں کو ٹھکرانا کفرانِ نعمت بھی ہوتا ہے جس سے حتی الامکان بچنا بہتر ہے ۔
4۔ کیا تعلیم یافتہ اور بر سر روزگار مسلمان لڑکیاں ہمارے معاشرے میں شادی کے بغیر بھی خوش و خرم یا مطمئن یا کسی قسمی کی پریشانیوں اور دشواریوں کے بغیر زندگی گذار سکتی ہیں؟
شادی کرنا تو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے تو اس مذہبی فریضے کو ادا کرنا ایسے بھی ضروری ہے اور ویسے بھی یہ معاشرہ اکیلی عورت کا جینا محال کردیتا ہے قدم قدم پر ایک تنہا عورت کو مشکلا ت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور وہ ایک اکیلی اس معاشرے کے ناسوروں سے نہیں نمٹ سکتی، وہ چاہے تعلیم یافتہ اور برسرِ روزگار ہو اور بظاہر خوش و خرم اور مطمئن ہو تب بھی اس کو مرد کے سہارے کی ضرورت رہے گی ( میری اس بات پر آزادیء حقوقِ نسواں کی تنظیموں کے پتنگے لگ جائیں گے اور کچھ ایسے مرد حضرات بھی بہت جز بز ہونگے جنہوں نے عورت کو انکے حقوق کے نام پر مادر پدر آزاد بنادیا ہے)
ہم عورتیں برابری کے بلند وبانگ دعوے تو کرتی ہیں لیکن مرد کی طرح بوجھ نہیں اٹھا سکتی ہیں ، جہاں بھاری کام کی بات آجائے تو کسی مرد کو دیکھتی ہیں کہ کوئی ہمارا بوجھ اٹھا کر رکھ دے ، ایسے ہی گاڑی تو ہم چلالیتی ہیں لیکن راستے میں گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو جائے تو راہ چلتے "بھائیوں " کو آوازیں لگائیں گی کہ ذرا ٹائر بدل دیں اور "بھائی" حضرات فوراً دوڑے چلے آتے ہیں۔۔۔۔۔ سوری میں ذرا تلخ ہوگئی ۔۔۔۔ تو بات یہ ہے کہ یہ حقیقت تسلیم کر لینا چاہئے کہ مرد کے بغیر عورت ادھوری اور عورت کے بغیر مرد۔۔۔۔۔ لہٰذا عورت کو تنہا رہنے کے بجائے شادی کرلینی چاہئے کہ کڑی دھوپ میں شوہر ایک سائبان کی مانند ہوتا ہے (اور لوگوں کا متفق ہونا ضروری نہیں )
میرا خیال ہے گریجویشن کرتے ہی شادی کرنا مناسب ہوتا ہے کیونکہ لڑکیوں پر جتنی جلدی جوانی آتی ہے تو واپسی کا سفر بھی اُسی مناسبت سے شروع ہوجاتا ہے، پھر لڑکیوں کے رشتے بھی ایک مناسب وقت تک آتے ہیں اور پھر عمر ذرا بھی زیادہ ہوجائے تو لڑکوں کے تو نہیں پھر "بابوں" کے رشتے آتے ہیں یا پھر آتے ہی نہیں۔
اسپیشلائزیشن ، پریکٹس اور کیرئیر میں "قدم جمانے" کے بعد لڑکی کی عمر یقیناً "30 تک تو لازمی پہنچے گی تو ایسی صورت میں کبھی قسمت سے کوئی اچھا رشتہ آبھی سکتا ہے اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ آڑھے ٹیڑھے رشتے آئیں جو لڑکی اور اسکے گھر والوں کے لئے ذہنی اذیت کا سبب بن سکتے ہیں اسلئے مناسب یہی ہے کہ مناسب عمر میں اچھے رشتوں کو انکار محض اس بنیاد پر نہ کیا جائے بس اللہ کا نام لیکر شادی کردینا ہی اچھا ہوتا ہے
اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خاطر اچھے رشتوں کو ٹھکرانا کفرانِ نعمت بھی ہوتا ہے جس سے حتی الامکان بچنا بہتر ہے ۔
4۔ کیا تعلیم یافتہ اور بر سر روزگار مسلمان لڑکیاں ہمارے معاشرے میں شادی کے بغیر بھی خوش و خرم یا مطمئن یا کسی قسمی کی پریشانیوں اور دشواریوں کے بغیر زندگی گذار سکتی ہیں؟
شادی کرنا تو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے تو اس مذہبی فریضے کو ادا کرنا ایسے بھی ضروری ہے اور ویسے بھی یہ معاشرہ اکیلی عورت کا جینا محال کردیتا ہے قدم قدم پر ایک تنہا عورت کو مشکلا ت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور وہ ایک اکیلی اس معاشرے کے ناسوروں سے نہیں نمٹ سکتی، وہ چاہے تعلیم یافتہ اور برسرِ روزگار ہو اور بظاہر خوش و خرم اور مطمئن ہو تب بھی اس کو مرد کے سہارے کی ضرورت رہے گی ( میری اس بات پر آزادیء حقوقِ نسواں کی تنظیموں کے پتنگے لگ جائیں گے اور کچھ ایسے مرد حضرات بھی بہت جز بز ہونگے جنہوں نے عورت کو انکے حقوق کے نام پر مادر پدر آزاد بنادیا ہے)
ہم عورتیں برابری کے بلند وبانگ دعوے تو کرتی ہیں لیکن مرد کی طرح بوجھ نہیں اٹھا سکتی ہیں ، جہاں بھاری کام کی بات آجائے تو کسی مرد کو دیکھتی ہیں کہ کوئی ہمارا بوجھ اٹھا کر رکھ دے ، ایسے ہی گاڑی تو ہم چلالیتی ہیں لیکن راستے میں گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو جائے تو راہ چلتے "بھائیوں " کو آوازیں لگائیں گی کہ ذرا ٹائر بدل دیں اور "بھائی" حضرات فوراً دوڑے چلے آتے ہیں۔۔۔۔۔ سوری میں ذرا تلخ ہوگئی ۔۔۔۔ تو بات یہ ہے کہ یہ حقیقت تسلیم کر لینا چاہئے کہ مرد کے بغیر عورت ادھوری اور عورت کے بغیر مرد۔۔۔۔۔ لہٰذا عورت کو تنہا رہنے کے بجائے شادی کرلینی چاہئے کہ کڑی دھوپ میں شوہر ایک سائبان کی مانند ہوتا ہے (اور لوگوں کا متفق ہونا ضروری نہیں )