شمشاد
لائبریرین
تمہارے جوابات پر مختصر نظر :
شمشاد بھائ کیا ضرورت تھی۔ اوپر سے اتنے مشکل سوال
میں نے تو بہت آسان سوال کیئے ہیں۔
شمشاد بھائ بجا کہا آپ نے۔ ہمارے علاقے کو اللہ نے بہت خوبصورتی بخشی ہے۔ مگر افسوس کہ یہ حسن گہنا رہا ہے۔ باغات ختم ہو رہے ہیں۔ کھیتوں میں مکان بن رہے ہیں۔ سرسبز پہاڑ ننگے ہو رہے جنگلات کٹ رہے ہیں۔ دریا کا پانی گندا ہوگیا ہے۔ موسم بدل رہے ہیں۔ ان حالات میں فطرت کے کتنے قریب رہا جاسکتا ہے۔ مگر اب جب کبھی شہر کے مضافات میں جانا ہوتا ہے۔ فطرت مجھے اپنے طرف کھینچ لیتی ہے۔ میں دیر تک ان نظاروں میں کھوئ رہتی ہوں۔ ریلیکس ہوجاتی ہوں۔ (شمشاد بھائ بس اتنی ہی تقریر کرنی آتی ہے
اتنی تقریر کے تو 10 نمبر ہی مل سکتے ہیں۔ ایک تو تقریر اتنی مختصر اور پھر اس کو کسی شعر سے سنوارا بھی نہیں
خیر ابھی بھی سوات قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔
جی شمشاد بھائ مجھے موقع ملتا رہتا ہے گاؤں میں جانے کا کہ بہت سے رشتہ دار اب بھی گاؤں میں رہتے ہیں۔
گاؤں میں گو کے جدید سہولتیں نہیں ہیں لیکن میرے خیال میں وہاں سادگی اور سکون بہت ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
پھول اور پودے مجھ سے اکثر باتیں کرتے ہیں مجھے بولنے کا موقع ہی نہیں دیتے۔ میرے شب و روز تو گھر کے اندر ہی گزرتے ہیں۔ مگر باہر لان کے پودوں اور پھولوں کی باتیں سننے کے لیے موقع نکال ہی لیتی ہوں۔ پچھلے دنوں یہاں جو طوفان آیا تھا اس میں ہمارے لان میں کھڑے خوبانی کے دو درخت اکھڑ گیے۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے کسی ماں کے دو بیٹے ایک ساتھ مرگیے ہوں۔ انہیں درختوں کے سایے میں گرمیوں کے دوپہر میں بیٹھ کر کوئ کتاب پڑھتی تھی۔
یہ تو واقعی افسوس والی بات ہے۔ اب دوبارہ درخت لگانا اور ان کا بڑا ہونا، ایک زمانہ چاہیے۔
شمشاد بھائ افسوس کہ یہاں رہٹ نہیں ہوتے ۔ مگر بارہا ایسا ہوا ہے کہ چھٹی کے دن بابا اور میں مدین (سوات کا مشہور سیاحتی مقام) چلے جاتے ہیں۔ وہاں میں گھنٹوں دریائے سوات کے پانی میں پیر ڈالے بیٹھی رہتی ہوں۔ مدہوش ہو جاتی ہوں۔
اچھا میں بھی گزشتہ ماہ وہاں گیا تھا تو دور سے ایک لڑکی نظر تو آئی تھی پانی میں پاؤں ڈالے بیٹھی تھی، لیکن اس کے پاؤں تو الٹے تھے۔ وہ تم تو نہیں ہو سکتیں۔ ویسے بہت مزہ آتا ہے اس طرح پانی میں پاؤں ڈال کر بیٹھنے سے۔
شمشاد بھائ بہت سے جانور ابھی دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔ ایک کتاہم نے بھی پال رکھاہے سپینئیل نسل کا۔
میرا مطلب فائدہ دینے والے جانوروں سے تھا، مثلا گائے، بکرے، بکری، بھیڑ وغیرہ۔
میں جب بھی بچوں کو لےکر گاؤں جاتا تھا تو بچوں کا ماموں بھینس کا دودھ نکالتے وقت کسی نہ کسی بچے کو بلا کر پاس بٹھا لیتا اور کہتا منہ کھولو اور دودھ کی دھار سیدھا منہ میں مارتا۔
بقول غالب: امتحاں اور بھی باقی ہو تو یہ بھی نہ سہی
ابھی تو بہت امتحان باقی ہیں۔ دیکھتی جاؤ۔
مزید کچھ ہلکے پھلکے سوال :
اگر آپ کو کسی ویران جگہ بھیجا جائے تو کسے ساتھ لیجانا پسند کریں گی؟
ایک نیکی جو گلے پڑ گئی ہو؟
صبح اٹھتے ہی کس چیز کی طلب ہوتی ہے؟
تمہاری کس عادت سے تمہارے بابا بیزار رہتے ہیں؟
شدید تکان کے باوجود کہاں جانے کے لیے تیار رہتی ہیں؟
یہ لو ابھی کے لیے بس اتنا ہی۔
شمشاد بھائ کیا ضرورت تھی۔ اوپر سے اتنے مشکل سوال
میں نے تو بہت آسان سوال کیئے ہیں۔
شمشاد بھائ بجا کہا آپ نے۔ ہمارے علاقے کو اللہ نے بہت خوبصورتی بخشی ہے۔ مگر افسوس کہ یہ حسن گہنا رہا ہے۔ باغات ختم ہو رہے ہیں۔ کھیتوں میں مکان بن رہے ہیں۔ سرسبز پہاڑ ننگے ہو رہے جنگلات کٹ رہے ہیں۔ دریا کا پانی گندا ہوگیا ہے۔ موسم بدل رہے ہیں۔ ان حالات میں فطرت کے کتنے قریب رہا جاسکتا ہے۔ مگر اب جب کبھی شہر کے مضافات میں جانا ہوتا ہے۔ فطرت مجھے اپنے طرف کھینچ لیتی ہے۔ میں دیر تک ان نظاروں میں کھوئ رہتی ہوں۔ ریلیکس ہوجاتی ہوں۔ (شمشاد بھائ بس اتنی ہی تقریر کرنی آتی ہے
اتنی تقریر کے تو 10 نمبر ہی مل سکتے ہیں۔ ایک تو تقریر اتنی مختصر اور پھر اس کو کسی شعر سے سنوارا بھی نہیں
خیر ابھی بھی سوات قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔
جی شمشاد بھائ مجھے موقع ملتا رہتا ہے گاؤں میں جانے کا کہ بہت سے رشتہ دار اب بھی گاؤں میں رہتے ہیں۔
گاؤں میں گو کے جدید سہولتیں نہیں ہیں لیکن میرے خیال میں وہاں سادگی اور سکون بہت ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
پھول اور پودے مجھ سے اکثر باتیں کرتے ہیں مجھے بولنے کا موقع ہی نہیں دیتے۔ میرے شب و روز تو گھر کے اندر ہی گزرتے ہیں۔ مگر باہر لان کے پودوں اور پھولوں کی باتیں سننے کے لیے موقع نکال ہی لیتی ہوں۔ پچھلے دنوں یہاں جو طوفان آیا تھا اس میں ہمارے لان میں کھڑے خوبانی کے دو درخت اکھڑ گیے۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے کسی ماں کے دو بیٹے ایک ساتھ مرگیے ہوں۔ انہیں درختوں کے سایے میں گرمیوں کے دوپہر میں بیٹھ کر کوئ کتاب پڑھتی تھی۔
یہ تو واقعی افسوس والی بات ہے۔ اب دوبارہ درخت لگانا اور ان کا بڑا ہونا، ایک زمانہ چاہیے۔
شمشاد بھائ افسوس کہ یہاں رہٹ نہیں ہوتے ۔ مگر بارہا ایسا ہوا ہے کہ چھٹی کے دن بابا اور میں مدین (سوات کا مشہور سیاحتی مقام) چلے جاتے ہیں۔ وہاں میں گھنٹوں دریائے سوات کے پانی میں پیر ڈالے بیٹھی رہتی ہوں۔ مدہوش ہو جاتی ہوں۔
اچھا میں بھی گزشتہ ماہ وہاں گیا تھا تو دور سے ایک لڑکی نظر تو آئی تھی پانی میں پاؤں ڈالے بیٹھی تھی، لیکن اس کے پاؤں تو الٹے تھے۔ وہ تم تو نہیں ہو سکتیں۔ ویسے بہت مزہ آتا ہے اس طرح پانی میں پاؤں ڈال کر بیٹھنے سے۔
شمشاد بھائ بہت سے جانور ابھی دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔ ایک کتاہم نے بھی پال رکھاہے سپینئیل نسل کا۔
میرا مطلب فائدہ دینے والے جانوروں سے تھا، مثلا گائے، بکرے، بکری، بھیڑ وغیرہ۔
میں جب بھی بچوں کو لےکر گاؤں جاتا تھا تو بچوں کا ماموں بھینس کا دودھ نکالتے وقت کسی نہ کسی بچے کو بلا کر پاس بٹھا لیتا اور کہتا منہ کھولو اور دودھ کی دھار سیدھا منہ میں مارتا۔
بقول غالب: امتحاں اور بھی باقی ہو تو یہ بھی نہ سہی
ابھی تو بہت امتحان باقی ہیں۔ دیکھتی جاؤ۔
مزید کچھ ہلکے پھلکے سوال :
اگر آپ کو کسی ویران جگہ بھیجا جائے تو کسے ساتھ لیجانا پسند کریں گی؟
ایک نیکی جو گلے پڑ گئی ہو؟
صبح اٹھتے ہی کس چیز کی طلب ہوتی ہے؟
تمہاری کس عادت سے تمہارے بابا بیزار رہتے ہیں؟
شدید تکان کے باوجود کہاں جانے کے لیے تیار رہتی ہیں؟
یہ لو ابھی کے لیے بس اتنا ہی۔