آپ کے انٹرویو کے لیے جو سوالات کرنے تھے ان میں سے ایک اہم سوال میری نظر میں یہ تھا جو یہاں کرنے جا رہی ہوں.
اپنے بچوں کے متعلق انسان کی بہت خواہشات ہوتی ہیں اور پھر انسان جہاں کی مٹی ہوتا ہے، چاہتے ہوئے بھی خود کو اس سے کاٹ نہیں سکتا. آپ کیا سمجھتے ہیں اس بارے میں؟ آپ کی بیٹی کا اردو زبان سے تعلق اور پھر پاکستان سے انسیت شاید بہت کم ہو. آپ اس فورم کے بانیوں میں سے ہیں. کیا آپ اسے اس واسطے یہاں لانا پسند کریں گے زندگی میں کبھی کہ یہ کمی اس طور پوری ہو؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟
پہلا اعتراض: کیا انسان کسی مٹی کا ہوتا ہے؟
اکثر لوگوں کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ زندگی کی مجبوریوں یا اپنی خواہشات کی وجہ سے ایک جگہ ہی تمام عمر گزار دیتے ہیں۔ لیکن یہ اصول تمام انسانوں پر لاگو نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کے چپے چپے پر انسان بستے ہیں۔
کچھ لوگ نقل مکانی کے بعد کافی ناسٹالجیا کا شکار بھی ہوتے ہیں۔ یہ اتنا عام ہے کہ اس پر کافی ادب تخلیق ہوا لیکن اتنا نہیں جتنا آپ کو ادب سے لگے۔ دوسری بات یہ کہ یہ ناسٹالجیا اگلی نسل میں منتقل نہیں ہوتا بلکہ امیگرنٹ کے ساتھ ہی ختم ہو جاتا ہے۔
میں نے زندگی میں متعدد بار گھر، شہر، ملک اور براعظم تبدیل کئے ہیں۔ یاد نہیں پڑتا کہ کبھی کوئی جگہ چھوڑنے کا دکھ ہوا ہو۔
باقی انسان اپنے تجربات کا مجموعہ ہے۔ میرا پاکستان اور اردو سے ایک تعلق ہے۔ چاہے میں اردو بولنا مکمل چھوڑ دوں اور پاکستان آنا جانا تب بھی یہ میرے ماضی اور شخصیت کا حصہ رہیں گے۔
رہی بات بیٹی کی تو وہ یہیں کی پیدائش ہے۔ اس نے پاکستان دیکھا ہے، اردو سنی ہے اور دیسی کھانے کھائے ہیں۔ لیکن اس کا ان سے تعلق ہمیشہ ایک درجہ ہٹ کر ہی ہو گا۔ یہ بھی فطری بات ہے۔ اکثر تارکین وطن چاہے مشرق وسطی میں ہوں یورپ میں یا امریکہ میں ان کے بچے زیادہ اردو نہیں بولتے اور جو بولتے بھی ہیں ان میں کم ہی لکھنا پڑھنا جانتے ہیں۔
کچھ ایسے ضرور ہیں جو ٹین ایج یا اس کے بعد اپنے والدین کے کلچر، مذہب اور زبان میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں اور کچھ ان کو بالکل بھلا دیتے ہیں۔ اس میں نہ پریشان ہونے کی بات ہے اور نہ خوش ہونے کی۔ یہ تو محض نظام فطرت ہے۔
یہی دیکھ لیں کہ ہمارے والدین اور ان کے والدین ہم سے کلچر اور زبان میں کتنے مختلف تھے چاہے ایک ہی علاقے میں رہے ہوں۔ اسی طرح ہماری اولاد ہم سے مختلف ہے۔