انٹرویو انٹرویو وِد فرحت کیانی

تعبیر

محفلین
اللہ تعالی سدا آپ کو اپنی امان میں رکھے آمین
بہت شروع کی بات ہے کہ مجھے @بوچھی اپیا سیدہ شگفتہ بہنا اور آپ بارعب شخصیات محسوس ہوتی تھیں ۔
اک جھجھک سی رہتی تھی ۔ جانے کیا سننا پڑجائے ۔ ویسے بھی خواتین سے گفتگو کرنے میں شرمیلا پن حائل رہتا ہے ۔
یہ تو محترم تعبیر بہنا (اللہ ان کو سدا خوش وآباد رکھے آمین ) نے بہت خلوص سے زبردستی کرتے اراکین محفل سے گفتگو کرنے کی راہ کو آسان بنایا ۔
بس نایاب بھائی ایک یہی کام تو آتا ہے مجھے بولنا اور دوسروں کو بھی بولنے پر مجبور کرنا :p
مجھے تو ان میں سے کسی سے بھی ڈر بھی نہیں لگتا تھا تب حالانکہ میں بوچھی اور شگفتہ سے کئی بار ڈانٹ بھی کھا چکی تھی
البتہ فرحت ہمیشہ سے مجھے بیبا بچہ لگتی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ فرحت تفصیلی جوابات کے لیے۔ میں امید کرتا ہوں کہ پسندیدہ کلام کے لیے بھی کچھ وقت نکال سکیں گی۔

والسلام
 

شمشاد

لائبریرین
ایک دن کی صدارت میں اتنے کام نہیں ہو سکتے۔
مجھ سے پوچھا ہوتا تو میں کہتا کہ ایک دن کی صدارت ملنے پر میں سب سے پہلا کام یہ کرتا کہ "تاحیات صدر رہنے کے لیے کیا طریقہ استعمال کیا جائے" باقی کام بعد میں ہوتے رہتے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
اللہ تعالی سدا آپ کو اپنی امان میں رکھے آمین
بہت شروع کی بات ہے کہ مجھے @بوچھی اپیا سیدہ شگفتہ بہنا اور آپ بارعب شخصیات محسوس ہوتی تھیں ۔
اک جھجھک سی رہتی تھی ۔ جانے کیا سننا پڑجائے ۔ ویسے بھی خواتین سے گفتگو کرنے میں شرمیلا پن حائل رہتا ہے ۔
یہ تو محترم تعبیر بہنا (اللہ ان کو سدا خوش وآباد رکھے آمین ) نے بہت خلوص سے زبردستی کرتے اراکین محفل سے گفتگو کرنے کی راہ کو آسان بنایا ۔
پہلی دو شخصیات کے بارعب :waiting: ہونے میں تو کوئی کلام نہیں نایاب بھائی۔ لیکن میں تو کوشش کے باوجود رعب دار شخصیت نہیں بن پائی :(
تعبیر واقعی اتنی خوش مزاج اور خوش دل ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے کوئی الگ تھلگ رہ ہی نہیں سکتا۔ :)


آپ بحیثیت خاتون پاکستانی خواتین کے لیئے کیسی تعلیم کو مناسب سمجھتی ہیں ۔ جو کہ پاکستانی خواتین کے لیئے اندرون و بیرون ملک زندگی گزارنے کے لیئے مفید ہو ۔۔۔ ۔۔۔ ۔؟
کیا آپ یہ سمجھتی ہیں کہ پاکستان کا نظام تعلیم ہر دو اصناف کے لیئے مناسب و مفید ہے ۔۔؟
میرے نزدیک ان دونوں سوالوں کا جواب ایک ہی ہے۔
بہت سے دیگر ممالک کی طرح ہمارے یہاں بھی تعلیم کا مقصد عملی زندگی میں اچھی نوکری حاصل کرنا سمجھا جاتا ہے۔ اتفاق سے کل شام ہی ٹیلی ویژن پر بچوں کا ایک پروگرام چل رہا تھا۔ مجھے دلچسپ لگا تو میں نے پورا پروگرام دیکھ لیا۔ اس میں میزبان ایک سکول میں بچوں کے ساتھ گپ شپ کر رہے تھے اور زیادہ تر بچے پرائمری سیکشن سے تھے۔ میزبان نے سوال کیا کہ 'آپ لوگ اسکول کیوں آتے ہیں اور پڑھنا کیوں ضروری ہے'؟ تمام بچوں کا یہی جواب تھا ' تاکہ اچھی جاب مل سکے'۔ مجھے حیرانگی اس بات پر ہو رہی تھی کہ ایک چھ سال کے بچے کو بھی 'تعلیم اور اچھی نوکری' کا فلسفہ معلوم ہے۔ یعنی ہم لوگ گھروں اور تعلیمی اداروں میں کہیں بھی پڑھنے کو شخصیت کی تعمیر سے نہیں جوڑتے۔ نتیجہ عملی زندگی میں آ کر انسان معاشرے میں اپنے ہر متوقع کردار میں کسی حد تک ناکامی کا شکار ہو جاتا ہے کونکہ پڑھائی کا مقصد نصابی کتابوں میں موجود مواد کو رٹوانا اور رٹنا اور پھر اچھے نمبر لانا ہوتا ہے اور تعلیم کو عملی زندگی سے بالکل الگ تھلگ ایک ڈبہ بند چیز سمجھا جاتا ہے۔
رہی صنفی بنیاد پر تعلیم تو میرا محدود مشاہدہ ، تجربہ اور علم یہ کہتا ہے کہ تعلیمی نظام اور نصاب اگر مقصدیت سے خالی ہے تو چاہے آپ مرد و خواتین کے لئے الگ الگ جتنے مرضی نصاب اور مضامین مختص کر لیں کوئی فائدہ نہیں۔ اور اگر تعلیم مقصدیت اور حقیقت پسندی پر مبنی ہے تو دونوں کے لئے یکساں انداز و نصاب کافی ہیں۔ کیونکہ اگر تعلیم نے آپ کو اچھے بُرے کی تمیز ، تجزیہ نگاری ، سوچنا ، ریزننگ (معذرت مجھے اس کی اردو ذہن میں نہیں آ رہی) اور فیصلہ لینے کی صلاحیت دے دی تو عملی زندگی میں کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

نایاب بھائی اگر تھیوری میں اور کاغذوں پر دیکھیں تو ہمارا تعلیمی نظام ترقی یافتہ ممالک سے کچھ زیادہ پیچھے نہیں ہے لیکن جب ہم اس کے نفاذ اور پریکٹس کی بات کرتے ہیں تو پاکستان کا نظامِ تعلیم غیر مفید اور با مقصد نہیں ہے۔ ہمارا موجودہ قومی نصاب جدید بنیاد پر ڈیزائن کیا گیا ہے لیکن جب اس کو سلیبس اور درسی کتابوں میں منتقل کیا جاتا ہے تو نصاب کی اصل روح کو سامنے نہیں رکھا جاتا۔یہاں بہت سے عوامل سامنے آ جاتے ہیں۔ کرپشن، نا اہلی ، ذاتی مفاد یہ سب عناصر کسی بھی اچھی نیت سے کئے گئے کام کے اصل مقصد کو ختم کر دیتے ہیں۔ مزید ستم یہ کہ ہمارے سسٹم میں ابھی بھی 'استاد' صرف معلومات کی منتقلی کا ذریعہ ہے نا کہ ایک رہنما اور facilitator۔ اس ضمن میں مجھے ایک تشبیہہ ذہن میں آتی ہے۔ کہ استاد جماعت میں آتا ہے، پھر جیسے بچے کے سر پر موجود ایک ڈھکن اٹھاتا ہے اور معلومات سے بھرا جگ اس میں انڈیل دیتا ہے۔ اب یہ معلومات بچے کے کس کام کی ہیں، بچے کو اس کا کچھ علم نہیں اور استاد کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ اور بچے کے ذہن میں اس جگ میں بھری معلومات کی جگہ ہے بھی نہیں، اس کی بھی کسی کو پرواہ نہیں ہوتی۔
خیر میرے نزدیک ہمارے تعلیمی نظام کی چند بڑی کمزرویاں کچھ یوں ہیں۔
  • نصابی کتب
  • روایتی طریقہ تدریس جہاں استاد ہی معلومات و علم کا منبع ہے۔ بچہ صرف ایک بے جان و بے ذہن چیز ہے۔
  • نصابی مواد کی عملی زندگی سے دُوری
  • تعلیم اور تربیت کا مسنگ لنک۔ ہم صرف تعلیم دیتے ہیں تربیت نہیں کرتے۔ کردار کی تعمیر ہمارے نظامِ تعلیم کا حصہ نہیں ہے اگرچہ قومی نصاب اور پالیسیز میں اس کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔
  • محدود اسلامی نصاب اور اس کی نظر انداز شدہ تدریس۔ اسلامیات کو گھر کی کھیتی سمجھ لینے والا رویہ بھی بچوں کے کردار کی تعمیر میں سقم رہ جانے کا باعث بنتا ہے۔
  • امتحانی نظام جو استعدادِ کار کی بجائے یادداشت کو آزماتا ہے۔
ایک مثال: بچے کو تخلیقی لکھائی سکھائی نہیں جاتی بلکہ رٹوائی جاتی ہے۔ نتیجتاً ساری جماعت کے چچاؤں کی شادی ایک ہی دن ہو رہی ہے ۔تمام بچوں کے والد کی تبدیلی ایک ہی جگہ ہو جاتی ہے ، سارے بچوں کو ان کے ماموں نے تحفہ دیا ہے اور سب کو تحفے میں گھڑی ملی ہے ، ہر ایک کا ہیرو ایک ہی بندہ ہے ، ہر ایک کو چھٹی چاہئیے تو وجہ صرف بخار ہے:confused3: ۔ تبھی تو جب لوگ عملی زندگی میں آتے ہیں تو مصیبت پڑ جاتی ہے۔
ایک اور مثال: برطانیہ میں اپنے پروجیکٹ کے سلسلے میں میں ایک ادارے میں گئی تو وہاں تخلیقی لکھائی اور سوچ پر بات ہونے لگی۔ اس ادارے کی سربراہ کسی زمانے میں چھوٹے بچوں کو پڑھایا کرتی تھیں۔ انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک بار انہوں نے اپنی کلاس کے بچوں کو گیلی مٹی سے بھیڑ بنانے کو کہا۔ ایک بچی ان کے پاس اپنی بھیڑ لے کر آئی جو صرف مٹی کا ایک گولہ سا تھا۔ جب انہوں نے بچی سے پوچھا کہ یہ کیسی بھیڑ ہے جس کا سر، ٹانگیں کچھ بھی نہیں ہیں؟ تو اس بچی کا جواب کچھ یوں تھا ۔ ' یہ بھیڑ سو رہی ہے اور اس نے اپنی گردن اور ٹانگیں اپنے دھڑ میں چھپا لی ہیں۔" ان خاتون کے مطابق انہوں نے اس بچی کو تخلیقی سوچ رکھنے کی بنیاد پر اس ایکٹیویٹی میں اے ون گریڈ دیا۔ اور میں تب یہ سوچ رہی تھی کہ اگر یہی بات ہمارے یہاں کسی بچے نے کہی ہوتی تو استاد صاحبان اس کا کیا حشر کرتے ۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
اگر آپ کو وزیر تعلیم بننے کا موقع ملے تو آپ موجودہ پاکستانی نظام تعلیم میں کس قسم کو ردوبدل کرنا مناسب سمجھیں گی ۔۔۔ ۔؟
اس صورت میں میرا فوکس ان باتوں پر ہو گا:
  • نظامِ تعلیم میں یکسانیت: ہم سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو ختم نہیں کر سکتے کہ تعلیمی نظام ہر جگہ پبلک اور پرائیویٹ پارٹنرشپ پر مبنی ہوتا ہے لیکن نصاب میں یکسانییت لانا بہت ضروری ہے۔ کسی بھی ڈگری کے لئے پڑھائے جانے والے نصاب کی بنیاد قومی نصاب (نیشنل کریکلم) ہونا چاہئیے۔
  • پبلک اور پرائیویٹ دونوں طرح کے اداروں میں اساتذہ کی تقرری کے لئے ایک مخصوص قابلیت و تربیت کی شرط۔ اگر میں بااختیار ہوں تو میں کبھی ہر کسی کو ، جسے کسی اور شعبے میں نوکری نہیں ملتی، آ کر استاد بننے کی اجازت ہر گز نہیں دوں گی۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہم سب سے اہم شعبے کی کمان غیر ہنرمند لوگوں کے ہاتھ کیسے دے سکتے ہیں۔
  • کمرہ جماعت میں استاد کی بجائے بچے کو مرکزی حیثیت دینے کی پابندی۔ استاد کے کردار کو مولا بخش سے مسلح سپاہی کے بجائے بچوں کا ساتھی بنانے پر زور ۔
  • تعلیم کے ساتھ تربیت پر زور: ہماری ڈگری صرف نفسِ مضمون کو رٹنے پر مبنی ہوتی ہے اور سمجھنے پر نہیں۔ ہمارا نظامِ تعلیم ہر سال ہزاروں ڈگری یافتی لوگ پیدا کرتا ہے لیکن ان میں سے ایسے بہت کم ہوتے ہیں جو معاشرے کے مہذب رکن بن سکیں اور اپنی ذاتی ، پیشہ ورانیہ اور قومی زندگی میں مفید کردار ادا کر سکیں۔ ابھی یہ جو ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال چل رہی ہے ۔ مجھے افسوس ہوتا ہے جب میں مسیحاؤں کو اپنے اساتذہ کے ساتھ مارپیٹ کرتے اور مرتے مریضوں کی تکلیف دہ موت کا سبب بنتے دیکھتی ہوں۔ مجھے دُکھ ہوتا ہے جب میں ایک ایگریکٹو پوسٹ پر فائز بندے کو اس کی غلطی کے باوجود گاڑی سے اتر کر ٹریفک کانسٹیبل کے ساتھ ہاتھا پائی اور گالم گلوچ کرتے دیکھتی ہوں۔
پاکستانی معاشرے میں اک خاتون کیسے اپنی انفرادیت کو قائم رکھتے بلندیوں کو چھو سکتی ہے ۔۔۔ ؟
مجھے ایسا لگتا ہے نایاب بھائی کہ ہمارے پاکستانی میں معاشرے میں تعلیم یافتہ یا کام کرنے والی خواتین کے بارے میں ایک روایتی سوچ رکھی جاتی ہے کہ وہ روایات سے باغی ہوتی ہے ، اس کو گھر بنانے یا چلانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ، اس کے نزدیک اس کا کیریئر یا تعلیم اس کی پہلی اور آخری ترجیح ہوتی ہے۔ جبکہ میرا مشاہدہ اس کے برعکس ہے۔ یقیناً ایسی خواتین بھی ہوتی ہیں لیکن زیادہ تر خواتین اپنے گھر کا نظام بہتر طریقے سے چلانے میں بہت اہم کردار ادا کر رہی ہوتی ہیں۔ غیر روایتی مثالیں تو آپ کو کم پڑھی لکھی یا گھریلو خواتین میں بھی مل جاتی ہیں۔ ان میں بھی ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو ایک بیٹی، بہن ، بیوی یا ماں کی حیثیت میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہتی ہیں تو اس سوال کے جواب میں میں یہی کہوں گی کہ خواتین چاہے گھریلو ہوں یا کام کرنے والی، تعلیم اور پھر اس سے ملنے والے شعور کی بنیاد پر عملی زندگی گزارنا ان کو خود سے منسوب تمام فرائض بہ احسن سر انجام دینے میں مدد دیتے ہیں۔ویسے بھی ہمارے یہاں ایک غلط فہمی یہ بھی ہے کہ صرف پڑھی لکھی لڑکی پر ہی ورکنگ وویمن کا ٹھپہ لگایا جا سکتا ہے حالانکہ وہ عورتیں جو لوگوں کے گھروں میں کام اور مزدوری کرتی ہیں وہ بھی ورکنگ کلاس کا ہی حصہ ہیں۔ سو اگر پیشہ ورانہ زندگی کی بات کی جائے تو ایک خاتون اگر متوازن سوچ کی مالک ہے تو وہ گھر سے باہر بھی مذہبی ، ذاتی ، معاشرتی اور اخلاقی اقدار کے مطابق کامیاب زندگی گزار سکتی ہے ، لباس کے چناؤ سے لیکر عام میل جول تک کہیں بھی اس کو اپنی انفرادیت برقرار رکھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
:whew:

نایاب بھائی تعلیم پر میں گھنٹوں بات کیا کرتی ہوں حتیٰ کہ سننے والےاپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں۔ امید ہے آپ بھی اس وقت ایسا ہی کر رہے ہوں گے۔ :openmouthed:
 

ملائکہ

محفلین
واؤ اپنے بہت تفصیل سے اور بہت اچھے جوابات لکھے ہیں۔۔۔۔ آپکے ساتھ تو تھوڑا وقت گزارنا چائیے تاکہ ہم جیسے لوگ بھی کچھ نہ کچھ سیکھ لیں آپ سے۔۔۔۔ میرا بھی ایک سوال ہے جیسا کہ آپ نے بچوں کی تعلیم اور اسکول کے بارے میں لکھا ہے تو اسی حوالے سے سوال یہ ہے کہ ایک عام ماں جو کہ خود اسی طرح کے سسٹم سے تعلیم لیکر نکلی ہو۔۔۔ وہ اتنے complex and competitive ماحول میں اپنے بچے کی تربیت اس طرح کیسے کرے کہ وہ ایک اچھا انسان بھی ہو اور practically بھی کامیاب ہو
 

باباجی

محفلین
تعلیم کے حوالے سے کچھ سوالات میرے ذہن میں آئے ہیں ورنہ میں زیادہ سوالات نہیں کرسکتا
فرحت کیانی

1) پاکستان میں جو زیادہ روانی سے اور اچھی انگریزی بولتا ہے وہ زیادہ پڑھا لکھا سمجھا جاتا ہے ۔۔۔ ایسا کیوں ؟
2) یہاں پڑھے لکھے ہونے کا کیا معیار ہے ؟
3) کیا آپ ملک میں رائج طریقہ تعلیم و نصاب سے مطمئن ہیں ؟
 

امن ایمان

محفلین
زبردست۔۔۔۔واقعی میں بہت،بےحد جاندار،حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ان جوابات کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔۔۔۔کاش کوئی حکومتی بندہ یہاں کا رخ کرلے اور ان نظریات کو پڑھ لے۔۔۔۔کاش ہماری آئیندہ پرائم منسٹر فرحت کیانی بن سکتی ہوتیں۔۔۔۔فرحت ملائکہ کا سوال بہت عمدہ ہے،۔۔۔اور مجھے آپ کے جواب انتظار رہے گا۔

آپ کے جوابات واقعی بلاتبصرہ ہیں۔:)
 

امن ایمان

محفلین
اچھا فرحت اوپر باباجی کے کچھ سنجیدہ سوالات بھی جوابات کے منتظر ہیں۔۔۔۔اور ان کے بعد بلال اعظم کے 100 سوال آپ کی راہ دیکھ رہے ہیں۔۔۔۔مجھے امید ہے آپ اپنا حوصلہ بلند رکھیں گی۔:lol:
 
Top