اللہ تعالی سدا آپ کو اپنی امان میں رکھے آمین
بہت شروع کی بات ہے کہ مجھے @بوچھی اپیا
سیدہ شگفتہ بہنا اور آپ بارعب شخصیات محسوس ہوتی تھیں ۔
اک جھجھک سی رہتی تھی ۔ جانے کیا سننا پڑجائے ۔ ویسے بھی خواتین سے گفتگو کرنے میں شرمیلا پن حائل رہتا ہے ۔
یہ تو محترم
تعبیر بہنا (اللہ ان کو سدا خوش وآباد رکھے آمین ) نے بہت خلوص سے زبردستی کرتے اراکین محفل سے گفتگو کرنے کی راہ کو آسان بنایا ۔
پہلی دو شخصیات کے بارعب
ہونے میں تو کوئی کلام نہیں نایاب بھائی۔ لیکن میں تو کوشش کے باوجود رعب دار شخصیت نہیں بن پائی
تعبیر واقعی اتنی خوش مزاج اور خوش دل ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے کوئی الگ تھلگ رہ ہی نہیں سکتا۔
آپ بحیثیت خاتون پاکستانی خواتین کے لیئے کیسی تعلیم کو مناسب سمجھتی ہیں ۔ جو کہ پاکستانی خواتین کے لیئے اندرون و بیرون ملک زندگی گزارنے کے لیئے مفید ہو ۔۔۔ ۔۔۔ ۔؟
کیا آپ یہ سمجھتی ہیں کہ پاکستان کا نظام تعلیم ہر دو اصناف کے لیئے مناسب و مفید ہے ۔۔؟
میرے نزدیک ان دونوں سوالوں کا جواب ایک ہی ہے۔
بہت سے دیگر ممالک کی طرح ہمارے یہاں بھی تعلیم کا مقصد عملی زندگی میں اچھی نوکری حاصل کرنا سمجھا جاتا ہے۔ اتفاق سے کل شام ہی ٹیلی ویژن پر بچوں کا ایک پروگرام چل رہا تھا۔ مجھے دلچسپ لگا تو میں نے پورا پروگرام دیکھ لیا۔ اس میں میزبان ایک سکول میں بچوں کے ساتھ گپ شپ کر رہے تھے اور زیادہ تر بچے پرائمری سیکشن سے تھے۔ میزبان نے سوال کیا کہ 'آپ لوگ اسکول کیوں آتے ہیں اور پڑھنا کیوں ضروری ہے'؟ تمام بچوں کا یہی جواب تھا ' تاکہ اچھی جاب مل سکے'۔ مجھے حیرانگی اس بات پر ہو رہی تھی کہ ایک چھ سال کے بچے کو بھی 'تعلیم اور اچھی نوکری' کا فلسفہ معلوم ہے۔ یعنی ہم لوگ گھروں اور تعلیمی اداروں میں کہیں بھی پڑھنے کو شخصیت کی تعمیر سے نہیں جوڑتے۔ نتیجہ عملی زندگی میں آ کر انسان معاشرے میں اپنے ہر متوقع کردار میں کسی حد تک ناکامی کا شکار ہو جاتا ہے کونکہ پڑھائی کا مقصد نصابی کتابوں میں موجود مواد کو رٹوانا اور رٹنا اور پھر اچھے نمبر لانا ہوتا ہے اور تعلیم کو عملی زندگی سے بالکل الگ تھلگ ایک ڈبہ بند چیز سمجھا جاتا ہے۔
رہی صنفی بنیاد پر تعلیم تو میرا محدود مشاہدہ ، تجربہ اور علم یہ کہتا ہے کہ تعلیمی نظام اور نصاب اگر مقصدیت سے خالی ہے تو چاہے آپ مرد و خواتین کے لئے الگ الگ جتنے مرضی نصاب اور مضامین مختص کر لیں کوئی فائدہ نہیں۔ اور اگر تعلیم مقصدیت اور حقیقت پسندی پر مبنی ہے تو دونوں کے لئے یکساں انداز و نصاب کافی ہیں۔ کیونکہ اگر تعلیم نے آپ کو اچھے بُرے کی تمیز ، تجزیہ نگاری ، سوچنا ، ریزننگ (معذرت مجھے اس کی اردو ذہن میں نہیں آ رہی) اور فیصلہ لینے کی صلاحیت دے دی تو عملی زندگی میں کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
نایاب بھائی اگر تھیوری میں اور کاغذوں پر دیکھیں تو ہمارا تعلیمی نظام ترقی یافتہ ممالک سے کچھ زیادہ پیچھے نہیں ہے لیکن جب ہم اس کے نفاذ اور پریکٹس کی بات کرتے ہیں تو پاکستان کا نظامِ تعلیم غیر مفید اور با مقصد نہیں ہے۔ ہمارا موجودہ قومی نصاب جدید بنیاد پر ڈیزائن کیا گیا ہے لیکن جب اس کو سلیبس اور درسی کتابوں میں منتقل کیا جاتا ہے تو نصاب کی اصل روح کو سامنے نہیں رکھا جاتا۔یہاں بہت سے عوامل سامنے آ جاتے ہیں۔ کرپشن، نا اہلی ، ذاتی مفاد یہ سب عناصر کسی بھی اچھی نیت سے کئے گئے کام کے اصل مقصد کو ختم کر دیتے ہیں۔ مزید ستم یہ کہ ہمارے سسٹم میں ابھی بھی 'استاد' صرف معلومات کی منتقلی کا ذریعہ ہے نا کہ ایک رہنما اور facilitator۔ اس ضمن میں مجھے ایک تشبیہہ ذہن میں آتی ہے۔ کہ استاد جماعت میں آتا ہے، پھر جیسے بچے کے سر پر موجود ایک ڈھکن اٹھاتا ہے اور معلومات سے بھرا جگ اس میں انڈیل دیتا ہے۔ اب یہ معلومات بچے کے کس کام کی ہیں، بچے کو اس کا کچھ علم نہیں اور استاد کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ اور بچے کے ذہن میں اس جگ میں بھری معلومات کی جگہ ہے بھی نہیں، اس کی بھی کسی کو پرواہ نہیں ہوتی۔
خیر میرے نزدیک ہمارے تعلیمی نظام کی چند بڑی کمزرویاں کچھ یوں ہیں۔
- نصابی کتب
- روایتی طریقہ تدریس جہاں استاد ہی معلومات و علم کا منبع ہے۔ بچہ صرف ایک بے جان و بے ذہن چیز ہے۔
- نصابی مواد کی عملی زندگی سے دُوری
- تعلیم اور تربیت کا مسنگ لنک۔ ہم صرف تعلیم دیتے ہیں تربیت نہیں کرتے۔ کردار کی تعمیر ہمارے نظامِ تعلیم کا حصہ نہیں ہے اگرچہ قومی نصاب اور پالیسیز میں اس کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔
- محدود اسلامی نصاب اور اس کی نظر انداز شدہ تدریس۔ اسلامیات کو گھر کی کھیتی سمجھ لینے والا رویہ بھی بچوں کے کردار کی تعمیر میں سقم رہ جانے کا باعث بنتا ہے۔
- امتحانی نظام جو استعدادِ کار کی بجائے یادداشت کو آزماتا ہے۔
ایک مثال: بچے کو تخلیقی لکھائی سکھائی نہیں جاتی بلکہ رٹوائی جاتی ہے۔ نتیجتاً ساری جماعت کے چچاؤں کی شادی ایک ہی دن ہو رہی ہے ۔تمام بچوں کے والد کی تبدیلی ایک ہی جگہ ہو جاتی ہے ، سارے بچوں کو ان کے ماموں نے تحفہ دیا ہے اور سب کو تحفے میں گھڑی ملی ہے ، ہر ایک کا ہیرو ایک ہی بندہ ہے ، ہر ایک کو چھٹی چاہئیے تو وجہ صرف بخار ہے
۔ تبھی تو جب لوگ عملی زندگی میں آتے ہیں تو مصیبت پڑ جاتی ہے۔
ایک اور مثال: برطانیہ میں اپنے پروجیکٹ کے سلسلے میں میں ایک ادارے میں گئی تو وہاں تخلیقی لکھائی اور سوچ پر بات ہونے لگی۔ اس ادارے کی سربراہ کسی زمانے میں چھوٹے بچوں کو پڑھایا کرتی تھیں۔ انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک بار انہوں نے اپنی کلاس کے بچوں کو گیلی مٹی سے بھیڑ بنانے کو کہا۔ ایک بچی ان کے پاس اپنی بھیڑ لے کر آئی جو صرف مٹی کا ایک گولہ سا تھا۔ جب انہوں نے بچی سے پوچھا کہ یہ کیسی بھیڑ ہے جس کا سر، ٹانگیں کچھ بھی نہیں ہیں؟ تو اس بچی کا جواب کچھ یوں تھا ۔ ' یہ بھیڑ سو رہی ہے اور اس نے اپنی گردن اور ٹانگیں اپنے دھڑ میں چھپا لی ہیں۔" ان خاتون کے مطابق انہوں نے اس بچی کو تخلیقی سوچ رکھنے کی بنیاد پر اس ایکٹیویٹی میں اے ون گریڈ دیا۔ اور میں تب یہ سوچ رہی تھی کہ اگر یہی بات ہمارے یہاں کسی بچے نے کہی ہوتی تو استاد صاحبان اس کا کیا حشر کرتے ۔