فرحت آپ سے مزید سوال :
کیا اعلٰی تعلیم لڑکیوں کی شادی میں رکاوٹ ہے؟ موجودہ دور کا یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔
(میں نے اسی موضوع پر ایک دھاگا بھی شروع کیا تھا "
ربط یہ رہا" لیکن اس میں خاطر خواہ جواب موصول نہ ہو سکے۔ اس کی جگہ اگر میں نے سیاست یا مذہب کے زمرے میں کوئی دھاگا شروع کیا ہوتا تو اچھا خاصا رش لیتا۔)
اس کے ساتھ ساتھ جہیز پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کیجیے گا۔ یہ مسئلہ تو مندرجہ بالا مسئلے سے بھی بڑھ کر ہے۔
معاشرے میں آپ کے نزدیک ان مسائل کا کیا حل ہے؟
سب سے پہلے تو تاخیر کے لئے بہت معذرت شمشاد بھائی۔
میں نے بھی آپ کا شروع کردہ دھاگہ دیکھا تھا اور سوچا تھا کہ کچھ لکھوں گی لیکن پھر وہی مصروفیت بھری سُستی آڑے آ گئی۔
اس بات سے تو سب اتفاق کریں گے کہ سیاست اور مذہب کے زمرے میں اس دھاگے کے پہلے دن ہی پوسٹس کی بھرمار ہو جاتی۔
یہ بات تو کسی حد تک درست ہے کہ اعلیٰ تعلیم لڑکیوں کی شادی میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔
اگر اعداد و شمار کو بھی دیکھا جائے تو اعلیٰ تعلیم میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں کے برابر اور بعض اوقات زیادہ بھی ہوتی ہے۔ اب اس صورت میں والدین کے لئے مسئلہ تو یقیناً ہوتا ہے کہ وہ اگر اپنی بیٹی سے زیادہ نہیں تو کم از کم اس کے برابر تعلیمی قابلیت والے لڑکے کو ڈھونڈیں جو کہ کافی دقت طلب کام ہے۔ سو اسی دیکھ بھال میں ان کی بیٹی کی شادی میں مزید تاخیر ہوتی چلی جاتی ہے۔ لیکن اس تاخیر یا روکاٹ کی وجہ صرف والدین یا لڑکی کی یہ شرط نہیں ہوتی بلکہ کچھ اور عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں جن میں سے ایک بڑی وجہ ہمارے معاشرے میں پائی جانی والی روایتی سوچ کا ہونا ہے۔ اور وہ روایتی سوچ یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیاں عموماً منہ پھٹ ، روایات سے باغی اور گھر گرہستی کو بوجھ سمجھنے والی ہوتی ہیں۔ پھر وہ ایک نفسیاتی دباؤ والا عنصر بھی شامل ہو جاتا ہے کہان کے خیال میں کم پڑھے لکھے لڑکے سے شادی ہونے کی صورت میں پڑھی لکھی لڑکی احساسِ برتری کا شکار ہو گی اور ان کا ایک ساتھ زندگی گزارنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ اسی لئے اکثر والدین اور لڑکے خود بھی پڑھے لکھے ہونے کے باوجود کم پڑھی لکھی لڑکی کو چنتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں وہ ان کے رعب میں رہے گی اور گھر میں دلچسپی بھی لے گی۔ حالانکہ بعد میں صورتحال اس کے الٹ بھی ہو سکتی ہے۔ دوسری بڑی وجہ عمر سے جڑی ہوتی ہے۔ لڑکے اور اس کی والدہ کی کوشش ہوا کرتی ہے کہ چاہے ان کے چاند اپنی عمر کی 35 بہاریں بھی دیکھ چکے ہوں ، ان کی ہونے والی بیگم اور بہو کو زیادہ سے زیادہ اتنی چھوٹ دی سکتی ہے کہ وہ ٹین ایج سے ایک آدھ سال اوپر ہو جائے۔ سو سیدھی سی بات ہے اگر لڑکی سکول کالج سے آگے نکل گئی ہے تو یہ بھی ان کے لئے ایک ناقابلِ قبول بات ہوتی ہے۔
میرے خیال میں اس مسئلے کا حل یہ تو ہر گز نہیں ہو سکتا کہ لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے سے صرف اس وجہ سے روک دیا جائے کہ ان کی شادی میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ اس مسئلے کا حل سوچ کی تبدیلی ہے کہ ذہنی پختگی اور تعمیرِ کردار کو صرف تعلیمی ڈگری سے نہ جوڑا جائے۔ جہاں رشتوں کی بنیاد کردار اور اچھی سوچ پر ہو وہاں تعلیم اور عمر کا فرق زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ اور یہ تبدیلی فوراً نہیں بلکہ آہستہ آہستہ آ سکتی ہے۔ شاید یہاں بھی ایسے ہی آ جائے۔
لیکن شاید اب اس رحجان میں کچھ کمی آتی جا رہی ہے۔ اب اس طرح کی صورتحال بھی دیکھنے کو ملتی ہے کہ لڑکے اور ان کے گھر والے ایسی لڑکی کی تلاش میں ہوتے ہیں جو ان کے ساتھ معاشی ذمہ داری بھی بانٹ سکے۔ شاید اب یہاں بھی حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ ایک فرد پورے گھر کا بوجھ اکیلے نہیں اٹھا سکتا۔ دوسری طرف لڑکیاں اور ان کے والدین بھی یہ سمجھنا شروع ہو گئے ہیں کہ صرف اعلیٰ ڈگری رکھنے والے ہی زندگی کے بہتر ساتھی ثابت نہیں ہوتے تو وہ بھی زیادہ یا برابر کے ڈگری یافتہ لڑکے کی شرط پر سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو میں نے یہاں دیکھی ہیں۔ ایک تازہ ترین مثال۔۔۔کچھ دن پہلے ایک لڑکی سے ملاقات ہوئی جو ایم فِل کے فائنل سمسٹر میں تھی۔ جب وہ اپنے بارے میں بتا رہی تھی تو اس نے اپنے شوہر کا بتایا کہ وہ سعودی عرب میں کام کرتے ہیں اور انہوں نے ہی مجھے کام کرنے کے لئے کہا ہے۔ شوہر کی تعلیم پوچھی گئی تو وہ صرف انٹر پاس تھے۔ اور ماشاءاللہ وہ لڑکی کافی مطمئن اور خوش دکھائی دے رہی تھی۔
اگر اعلیٰ تعلیم شادی میں رکاوٹ بنتی ہے تو والدین کی مالی استطاعت اور متوقع سسرال والوں کی طویل ترین فرمائشی فہرستیں بھی کچھ کم گھمبیر مسائل نہیں ہیں۔ ہمارے یہاں 'بیٹے' کو کیش کروایا جاتا ہے۔ مائیں ایک عمر انتظار کرتی ہیں کہ کب بیٹے کو بیاہیں اور بہو سے زیادہ بہو کے ساتھ آنے والے سامان کی زیادہ فکر ہوتی ہے۔ اور اس خواب کی قیمت ان والدین کو چکانی پڑتی ہے جنہوں نے بیٹی پالی بھی ، اسے تعلیم و تربیت بھی دی اور اس کے بعد اس کو خود سے جدا بھی کیا اور ساتھ ساتھ گویا بیٹی کے والدین ہونے کا ہرجانہ بھی بھرا۔ اور یہ ہرجانہ یا جہیز صرف شادی کے موقع پر ہی ختم نہیں ہو جاتا۔ مجھے تو وہ سب بھی جہیز ہی کی اگلی اقساط لگتی ہیں جو شادی کے بعد والدین کو بیٹی کے لئے کرنا پڑتا ہے۔
ویسے جہیز میں بھی صرف لڑکے والوں کی فرمائشوں کو الزام دینا درست نہیں۔ ہم لوگ مادی اشیاء کے پیچھے اس طرح دوڑنے کے عادی ہو گئے ہیں کہ ان کی خواہش اور حصول کی کوشش میں یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا۔ اکثر لڑکیاں خود بھی اپنے والدین کے گھر سے سوئی سے لیکر گاڑی تک ہر چیز لے جانے کی خواہش مند ہوتی ہیں چاہے اس کے لئے والدین کو اپنا سب کچھ ہی گروی کیوں نہ رکھنا پڑے۔
اور جو لڑکی والدین کی کمزور مالی حالت کے باعث یا اپنی سمجھ داری کی وجہ سے کم جہیز لے جانے پر مصر ہو اس کے ساتھ سسرال میں جو سلوک روا رکھا جاتا ہے وہ بھی سب کو معلوم ہے۔
اس پر مزید ستم یہ کہ میڈیا کے بہت سے دیگر منفی اثرات میں ایک یہ بھی شامل ہو گیا ہے کہ وہ رسومات اور فرمائشیں جو پہلے کچھ گھرانوں تک محدود تھیں اب ہر خاندان کا حصہ بنتی جا رہی ہیں کیونکہ ٹی وہی ہمارے گھر کا فرد اور کیبل چینلز ہمارے استاد کا درجہ اختیار بن چکے ہیں۔ جس چینل کو کھولیں آپ کو شادیوں پر مارننگ شوز، نائٹ شوز ، ڈرامے ملیں گے جس میں شادی کے ملبوس سے لیکر رسومات کو اس طرح دکھایا جاتا ہے کہ ہر دیکھنے والے کو یہ سب جیسے ایک 'یارڈ سٹک' مل جاتی ہے کہ ایک شادی ایسی ہونی چاہئیے۔ جہیز ایسا ہونا چاہیئے۔ شادی کی رسومات میں کیا کچھ شامل ہونا چاہئیے۔ جوڑے کس ڈیزائنر سے بننے ہیں اور یہ ڈیزائنر والا خبط صرف اعلیٰ طبقے یا اعلیٰ متوسط طبقے تک محدود نہیں۔ بلکہ اس میں ہر طبقہ شامل ہے۔ سو لڑکے والوں کی فرمائشی لسٹ میں آجکل رسومات کے لئے بھی بہت سی نئی چیزیں شامل ہو گئی ہیں۔ اسی طرح لڑکیاں خود بھی ایسے ہی خیالات سے متاثر ہو رہی ہیں۔ ہماری ایک جاننے والوں کے گھر کام کرنے والی کی بیٹی نے اپنی مایوں کے لئے یہاں کی ایک مشہور ڈیزائنر سے جوڑا بنوانے اور مایوں کا سٹیج بالکل ویسا بنوانے کی ضد کی تھی جیسا کسی مارننگ شو میں لگایا گیا اور ضد پوری نہ ہونے کی صورت میں شادی نہ کرنے کی دھمکی دے دی تھی۔ اور سنا ہے کہ پھر اس کی ضد پوری بھی کی گئی تھی۔ہر دو صورتوں میں پسے بیچارے لڑکی کے والدین جاتے ہیں۔
میری نظر میں مسئلے کا حل پھر وہی ہے۔ روایتی سوچ میں تبدیلی۔ اور اس سوچ کی تبدیلی میں دیگر بہت سے عوامل میں سے جو مجھے اب بہت اہم دکھتا ہے وہ ہے میڈیا۔ میں نے لوگوں کو میڈیا کے زیرِ اثر اپنی سوچ یوں تبدیل کرتے دیکھا ہے کہ یقین نہیں آتا۔ اور مجھے افسوس اسی بات کا ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو ان چینلز کے کرتا دھرتا ہے، کیا وہ کبھی بھی نہیں سوچتے کہ ان پر کتنی بڑی اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور وہ اپنے لوگوں کے انداز سوچ کو کتنی آسانی سے مثبت راہ پر لگا سکتے ہیں۔ وہی چینلز جو نمود و نمائش اور مادیت پرستی کی ترویج کر رہے ہیں اگر وہ تھوڑے سے بھی ذمہ دار ہو جائیں تو معاشرے میں ہر سطح پر تبدیلی آ سکتی ہے۔
اور انفرادی طور پر تو ہم کچھ نہ کچھ تبدیلی تو لا ہی سکتے ہیں۔ اگر میں کچھ ایسی سوچ رکھتی ہوں تو میں یقیناً اپنے ارداے اور عمل سے کم از کم ان دس لوگوں کی سوچ میں تبدیلی لا سکتی ہوں جن سے میں وابستہ ہوں اور یوں آہستہ آہستہ اس سوچ کا دائرہ پھیلتا چلا جائے گا۔