عدنان عمر
محفلین
اس کہانی کا آغاز ۲۷ دسمبر۲۰۱۹ سے ہوتا ہے، جب ہمیں جناب سید عمران کی جانب سے ذاتی مکالمات میں ایک پیغام موصول ہوا۔ یہ پیغام کیا تھا، ایک مژدہِ جانفزا تھا جس میں ہمیں کراچی کے محفلین سے ملاقات کی دعوت دی گئی تھی۔ یہ جان کر مزید خوشی ہوئی کہ جناب سید عاطف علی، ریاض کےبجائے کراچی میں موجود ہیں، اور یہ بزم ان سے ملاقات کا ایک بہانہ ہے۔ بس پھر کیا تھا، ہم نے فوراً ہامی بھر لی۔( خبردار ! کوئی دل میں یہ خیال نہ لائے کہ ہم نے ہامی بھرنے سے پہلے وزارتِ داخلہ سے این او سی لیا ہوگا۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔)
اور پھر اتوار،۲۹ دسمبر کی صبح آن پہنچی۔ ہمیں وقت پہ پہنچنے کی بہت فکر تھی۔ گھرمیں کہہ رکھا تھا کہ ہم ٹھیک نو بجے روانہ ہو جائیں گے۔ نو بجے کے قریب جب ہم تیاری کے آخری مراحل میں تھے ، ہماری اہلیہ نے نوٹ کیا کہ ہم خلافِ معمول سنگھار میز کے سامنے سے ہٹنے کا نام نہیں لے رہے۔ اب بیبیوں کی زبان کون روکے، فوراً بول پڑیں، ’’اوہو بڑی تیاریاں ہیں، کیا بر دکھوے کو جارہے ہیں؟‘‘ یہ سن کر غصہ تو بہت آیا لیکن در گزر سے کام لیتے ہوئے ہم نے سرزنش کا ارادہ ترک کر دیا، کیونکہ تاخیر کا اندیشہ تھا۔
اور یوں نو بجے گھر سے روانہ ہوئے۔ رکشہ میں بیٹھ کر بس اسٹاپ پہنچے اور لی مارکیٹ جانے والی بڑی بس کا انتظار کرنے لگے۔ چند منٹ بعد بس آگئی۔ سید عمران بھائی نے بتایا تھا کہ منزل مقصود بہادر آباد چورنگی کے قریب ہے، اس لیے ہم نےکنڈکٹر سے پوچھا کہ بہادر آباد چورنگی جانے کے لیے کس اسٹاپ پر اترنا موزوں تر ہوگا۔ کنڈکٹر کے بجائے ایک ہمراہی نے بتایا کہ لیاقت نیشنل اسپتال اترجائیے، وہاں سے زیادہ دور نہیں۔اور یوں ہم اسپتال کے بالمقابل اتر گئے ۔ ابھی دس بجنے میں کوئی بیس منٹ تھے۔ ہم نے سوچا ابھی تو بہت ٹائم ہے۔ خراماں خراماں چلتے ہوئے ایک صاحب سے بہادر آبادچورنگی کا راستہ پوچھا۔ انھوں نے رہنمائی کی۔ چورنگی کے قریب پہنچے تو ایک اور صاحب نے بتایا کہ عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ ، بہادر آباد چورنگی سے اور تھوڑا آگے ہے۔ اب ہم ذرا گھبرائے کہ کہیں لیٹ نہ ہوجائیں۔ قدرے تیز چلتے ہوئے بہادر آباد چورنگی کو پار کیا اور عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ کی جانب بڑھے۔ ٹرسٹ کے سامنے ایک صاحب ٹرسٹ کی گاڑی دھو رہے تھے۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ ملک ہوٹل کہاں ہے۔ انھوں نے سامنے کی جانب اشارہ کیا۔ ان کی نظرو ں کا تعاقب کیا تو دیکھا کہ سڑک کے پار ایک عمارت کے اوپر لکھا ہے Malik’s restaurant ۔ ہم یہ سوچتے ہوئے کہ یہ ’مالک‘ ہے یا ’ملک‘، ریستوران کی جانب بڑھے۔ وہاں پہنچ کر وقت دیکھا تو ٹھیک دس بج رہے تھے۔
ریستوران کے باہر کیا دیکھتے ہیں کہ ایک صاحب پتلون قمیض اور بے آستین کی جیکٹ میں ملبوس اپنے موبائل پر نظریں گاڑے کھڑے ہیں۔ ہمارے دل میں خیال آیا کہ کہیں یہ سید عمران بھائی تو نہیں۔ ان صاحب نے ہم پر ایک گہری نظر ڈالی اور پھر مشغول ہوگئے۔ ہم نے بھی سوچا کہ یہ وہ گوہرِ مقصود نہیں ہیں۔ بہر حال باہر کھڑے کھڑے سید عمران بھائی کو میسج کیا کہ ہم ریستوران کے باہر پہنچ گئے ہیں۔ جب میسج کا فوری جواب نہیں آیا تو ہم نے سوچا کہ اندر جا کر بیٹھا جائے۔ باہر کھڑے کچھ اچھا نہیں لگتا۔
اندرجا کر کونے میں رکھی ایک ٹیبل سنبھالی اور دروازے پر نظریں گاڑ دیں۔ کچھ ہی دیر میں سید عمران بھائی کا فون آگیا۔ انھوں نے بتایا کہ وہ ابھی راستے میں ہیں، ایک اور محفلین بھی ہوٹل کے باہر موجود ہیں، وہ انھیں میرا نمبر دے رہے ہیں۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے۔ لیکن پھر ہم انتظار ہی کرتے رہ گئے۔ ہم نے بور ہونے سے بہتر یہ سمجھا کہ اپنے محبوب مشغلے یعنی اپنے اسمارٹ فون میں کتاب بینی کا کام شروع کردیں۔ ابھی کتاب کھولی ہی تھی کہ ایک صاحب سادہ لباس (یعنی بغیر وردی) میں آن دھمکے اور ہم سے پوچھا کہ کتنے آدمی ہیں آپ۔ ہم نے بتایا کہ ہمیں خود نہیں پتہ کہ اور کتنوں نے آناہے۔ فرمانے لگے کہ آپ جس ٹیبل کو گھیرے بیٹھے ہیں، وہاں چھ سے زائد آدمی نہیں بیٹھ سکتے۔ ہم نے پھر اظہارِ لاعلمی کیا کہ ہمیں آنے والوں کی تعداد نہیں معلوم۔ یہ سن کر وہ رخصت ہوئے۔ ابھی انھیں گئےدو چار منٹ ہوئے تھے کہ ایک باوردی صاحب آن پہنچے۔انھوں نے بھی یہی پوچھا کہ کتنے آدمی ہیں آپ۔ ہم نے پھر سے آموختہ دہرا دیا۔ وہ بھی نامراد لوٹے۔
اور پھر خوبیٔ قسمت، ہماری موبائل اسکرین سید عمران بھائی کے نام سے جگمانے لگی۔ کال ریسیو کی تو نادر شاہی حکم جاری ہوا کہ اپنے جگہ سےاٹھ کھڑے ہوں۔ ہم اٹھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ شرعی وضع قطع اور باوقار شخصیت کے حامل ایک صاحب ریستوران کےاندر داخلی دروازے کے پاس کھڑے ہیں۔ ہمیں دیکھتے اور شناخت کرتے ہی ان صاحب نے یوں منہ موڑا کہ چند لمحے تو ہم سمجھے کہ یہ درویش، بندے کے باطن میں جھانکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن پھر اس خیال کو ذہن سے جھٹکا اور سید عمران بھائی کی جانب بڑھے۔ عمران بھائی تک پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ صاحب جو ہمیں ریستوران کے باہر کھڑے ملے تھے، وہ بھی موجود ہیں۔ سید عمران بھائی اور ان صاحب سے مصافحہ و معانقہ ہوا تو انکشاف ہوا کہ یہ صاحب سید عاطف علی ہیں۔ ہم نے دل میں کہا ، ہت تیرے کی، پہلے پتہ ہوتا تو ہم عاطف بھائی کی تحریر کی طرح ان کی تقریر سے بھی فیض یاب ہوتے۔ سید عمران بھائی نے ایک اور صاحب سے تعارف کروایا تو پتہ چلا کہ یہ تو محفل کےہر دل عزیز جناب ِ مابدولت یعنی محمد امین صدیق بھائی ہیں۔ اتنے میں جوانِ رعنا فہیم بھائی بھی آگئے۔ اب ہم نے ایک بڑی ٹیبل گھیر لی۔ ابھی بیٹھے ہی تھی کہ کیا دیکھتے ہیں کہ جناب محمد خلیل الرحمٰن بھائی اپنے ہنستے مسکراتے چہرے کے ساتھ جلوہ افروز ہورہے ہیں۔ وہ بھی ملے اور بہت اپنائیت سے ملے۔ کچھ ہی دیر میں جناب فاخر رضا صاحب اپنے دوست کاظم رضا صاحب کے ہمراہ تشریف لے آئے۔ دونوں صاحبان سےپرجوش ملاقات ہوئی۔ اب بس محمد عدنان اکبری نقیبی بھائی کا انتظار تھا۔ہم بھی بے صبری سے ان کا انتظار کرنے لگے لیکن کچھ دیر بعد پتہ چلا کہ وہ بوجوہ تشریف نہیں لاسکیں گے۔
اور پھر اتوار،۲۹ دسمبر کی صبح آن پہنچی۔ ہمیں وقت پہ پہنچنے کی بہت فکر تھی۔ گھرمیں کہہ رکھا تھا کہ ہم ٹھیک نو بجے روانہ ہو جائیں گے۔ نو بجے کے قریب جب ہم تیاری کے آخری مراحل میں تھے ، ہماری اہلیہ نے نوٹ کیا کہ ہم خلافِ معمول سنگھار میز کے سامنے سے ہٹنے کا نام نہیں لے رہے۔ اب بیبیوں کی زبان کون روکے، فوراً بول پڑیں، ’’اوہو بڑی تیاریاں ہیں، کیا بر دکھوے کو جارہے ہیں؟‘‘ یہ سن کر غصہ تو بہت آیا لیکن در گزر سے کام لیتے ہوئے ہم نے سرزنش کا ارادہ ترک کر دیا، کیونکہ تاخیر کا اندیشہ تھا۔
اور یوں نو بجے گھر سے روانہ ہوئے۔ رکشہ میں بیٹھ کر بس اسٹاپ پہنچے اور لی مارکیٹ جانے والی بڑی بس کا انتظار کرنے لگے۔ چند منٹ بعد بس آگئی۔ سید عمران بھائی نے بتایا تھا کہ منزل مقصود بہادر آباد چورنگی کے قریب ہے، اس لیے ہم نےکنڈکٹر سے پوچھا کہ بہادر آباد چورنگی جانے کے لیے کس اسٹاپ پر اترنا موزوں تر ہوگا۔ کنڈکٹر کے بجائے ایک ہمراہی نے بتایا کہ لیاقت نیشنل اسپتال اترجائیے، وہاں سے زیادہ دور نہیں۔اور یوں ہم اسپتال کے بالمقابل اتر گئے ۔ ابھی دس بجنے میں کوئی بیس منٹ تھے۔ ہم نے سوچا ابھی تو بہت ٹائم ہے۔ خراماں خراماں چلتے ہوئے ایک صاحب سے بہادر آبادچورنگی کا راستہ پوچھا۔ انھوں نے رہنمائی کی۔ چورنگی کے قریب پہنچے تو ایک اور صاحب نے بتایا کہ عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ ، بہادر آباد چورنگی سے اور تھوڑا آگے ہے۔ اب ہم ذرا گھبرائے کہ کہیں لیٹ نہ ہوجائیں۔ قدرے تیز چلتے ہوئے بہادر آباد چورنگی کو پار کیا اور عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ کی جانب بڑھے۔ ٹرسٹ کے سامنے ایک صاحب ٹرسٹ کی گاڑی دھو رہے تھے۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ ملک ہوٹل کہاں ہے۔ انھوں نے سامنے کی جانب اشارہ کیا۔ ان کی نظرو ں کا تعاقب کیا تو دیکھا کہ سڑک کے پار ایک عمارت کے اوپر لکھا ہے Malik’s restaurant ۔ ہم یہ سوچتے ہوئے کہ یہ ’مالک‘ ہے یا ’ملک‘، ریستوران کی جانب بڑھے۔ وہاں پہنچ کر وقت دیکھا تو ٹھیک دس بج رہے تھے۔
ریستوران کے باہر کیا دیکھتے ہیں کہ ایک صاحب پتلون قمیض اور بے آستین کی جیکٹ میں ملبوس اپنے موبائل پر نظریں گاڑے کھڑے ہیں۔ ہمارے دل میں خیال آیا کہ کہیں یہ سید عمران بھائی تو نہیں۔ ان صاحب نے ہم پر ایک گہری نظر ڈالی اور پھر مشغول ہوگئے۔ ہم نے بھی سوچا کہ یہ وہ گوہرِ مقصود نہیں ہیں۔ بہر حال باہر کھڑے کھڑے سید عمران بھائی کو میسج کیا کہ ہم ریستوران کے باہر پہنچ گئے ہیں۔ جب میسج کا فوری جواب نہیں آیا تو ہم نے سوچا کہ اندر جا کر بیٹھا جائے۔ باہر کھڑے کچھ اچھا نہیں لگتا۔
اندرجا کر کونے میں رکھی ایک ٹیبل سنبھالی اور دروازے پر نظریں گاڑ دیں۔ کچھ ہی دیر میں سید عمران بھائی کا فون آگیا۔ انھوں نے بتایا کہ وہ ابھی راستے میں ہیں، ایک اور محفلین بھی ہوٹل کے باہر موجود ہیں، وہ انھیں میرا نمبر دے رہے ہیں۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے۔ لیکن پھر ہم انتظار ہی کرتے رہ گئے۔ ہم نے بور ہونے سے بہتر یہ سمجھا کہ اپنے محبوب مشغلے یعنی اپنے اسمارٹ فون میں کتاب بینی کا کام شروع کردیں۔ ابھی کتاب کھولی ہی تھی کہ ایک صاحب سادہ لباس (یعنی بغیر وردی) میں آن دھمکے اور ہم سے پوچھا کہ کتنے آدمی ہیں آپ۔ ہم نے بتایا کہ ہمیں خود نہیں پتہ کہ اور کتنوں نے آناہے۔ فرمانے لگے کہ آپ جس ٹیبل کو گھیرے بیٹھے ہیں، وہاں چھ سے زائد آدمی نہیں بیٹھ سکتے۔ ہم نے پھر اظہارِ لاعلمی کیا کہ ہمیں آنے والوں کی تعداد نہیں معلوم۔ یہ سن کر وہ رخصت ہوئے۔ ابھی انھیں گئےدو چار منٹ ہوئے تھے کہ ایک باوردی صاحب آن پہنچے۔انھوں نے بھی یہی پوچھا کہ کتنے آدمی ہیں آپ۔ ہم نے پھر سے آموختہ دہرا دیا۔ وہ بھی نامراد لوٹے۔
اور پھر خوبیٔ قسمت، ہماری موبائل اسکرین سید عمران بھائی کے نام سے جگمانے لگی۔ کال ریسیو کی تو نادر شاہی حکم جاری ہوا کہ اپنے جگہ سےاٹھ کھڑے ہوں۔ ہم اٹھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ شرعی وضع قطع اور باوقار شخصیت کے حامل ایک صاحب ریستوران کےاندر داخلی دروازے کے پاس کھڑے ہیں۔ ہمیں دیکھتے اور شناخت کرتے ہی ان صاحب نے یوں منہ موڑا کہ چند لمحے تو ہم سمجھے کہ یہ درویش، بندے کے باطن میں جھانکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن پھر اس خیال کو ذہن سے جھٹکا اور سید عمران بھائی کی جانب بڑھے۔ عمران بھائی تک پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ صاحب جو ہمیں ریستوران کے باہر کھڑے ملے تھے، وہ بھی موجود ہیں۔ سید عمران بھائی اور ان صاحب سے مصافحہ و معانقہ ہوا تو انکشاف ہوا کہ یہ صاحب سید عاطف علی ہیں۔ ہم نے دل میں کہا ، ہت تیرے کی، پہلے پتہ ہوتا تو ہم عاطف بھائی کی تحریر کی طرح ان کی تقریر سے بھی فیض یاب ہوتے۔ سید عمران بھائی نے ایک اور صاحب سے تعارف کروایا تو پتہ چلا کہ یہ تو محفل کےہر دل عزیز جناب ِ مابدولت یعنی محمد امین صدیق بھائی ہیں۔ اتنے میں جوانِ رعنا فہیم بھائی بھی آگئے۔ اب ہم نے ایک بڑی ٹیبل گھیر لی۔ ابھی بیٹھے ہی تھی کہ کیا دیکھتے ہیں کہ جناب محمد خلیل الرحمٰن بھائی اپنے ہنستے مسکراتے چہرے کے ساتھ جلوہ افروز ہورہے ہیں۔ وہ بھی ملے اور بہت اپنائیت سے ملے۔ کچھ ہی دیر میں جناب فاخر رضا صاحب اپنے دوست کاظم رضا صاحب کے ہمراہ تشریف لے آئے۔ دونوں صاحبان سےپرجوش ملاقات ہوئی۔ اب بس محمد عدنان اکبری نقیبی بھائی کا انتظار تھا۔ہم بھی بے صبری سے ان کا انتظار کرنے لگے لیکن کچھ دیر بعد پتہ چلا کہ وہ بوجوہ تشریف نہیں لاسکیں گے۔
(یہ داستان ابھی ختم نہیں ہوئی۔)
آخری تدوین: