انکشاف در انکشاف!!!

عدنان عمر

محفلین
اس کہانی کا آغاز ۲۷ دسمبر۲۰۱۹ سے ہوتا ہے، جب ہمیں جناب سید عمران کی جانب سے ذاتی مکالمات میں ایک پیغام موصول ہوا۔ یہ پیغام کیا تھا، ایک مژدہِ جانفزا تھا جس میں ہمیں کراچی کے محفلین سے ملاقات کی دعوت دی گئی تھی۔ یہ جان کر مزید خوشی ہوئی کہ جناب سید عاطف علی، ریاض کےبجائے کراچی میں موجود ہیں، اور یہ بزم ان سے ملاقات کا ایک بہانہ ہے۔ بس پھر کیا تھا، ہم نے فوراً ہامی بھر لی۔( خبردار ! کوئی دل میں یہ خیال نہ لائے کہ ہم نے ہامی بھرنے سے پہلے وزارتِ داخلہ سے این او سی لیا ہوگا۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔)

اور پھر اتوار،۲۹ دسمبر کی صبح آن پہنچی۔ ہمیں وقت پہ پہنچنے کی بہت فکر تھی۔ گھرمیں کہہ رکھا تھا کہ ہم ٹھیک نو بجے روانہ ہو جائیں گے۔ نو بجے کے قریب جب ہم تیاری کے آخری مراحل میں تھے ، ہماری اہلیہ نے نوٹ کیا کہ ہم خلافِ معمول سنگھار میز کے سامنے سے ہٹنے کا نام نہیں لے رہے۔ اب بیبیوں کی زبان کون روکے، فوراً بول پڑیں، ’’اوہو بڑی تیاریاں ہیں، کیا بر دکھوے کو جارہے ہیں؟‘‘ یہ سن کر غصہ تو بہت آیا لیکن در گزر سے کام لیتے ہوئے ہم نے سرزنش کا ارادہ ترک کر دیا، کیونکہ تاخیر کا اندیشہ تھا۔

اور یوں نو بجے گھر سے روانہ ہوئے۔ رکشہ میں بیٹھ کر بس اسٹاپ پہنچے اور لی مارکیٹ جانے والی بڑی بس کا انتظار کرنے لگے۔ چند منٹ بعد بس آگئی۔ سید عمران بھائی نے بتایا تھا کہ منزل مقصود بہادر آباد چورنگی کے قریب ہے، اس لیے ہم نےکنڈکٹر سے پوچھا کہ بہادر آباد چورنگی جانے کے لیے کس اسٹاپ پر اترنا موزوں تر ہوگا۔ کنڈکٹر کے بجائے ایک ہمراہی نے بتایا کہ لیاقت نیشنل اسپتال اترجائیے، وہاں سے زیادہ دور نہیں۔اور یوں ہم اسپتال کے بالمقابل اتر گئے ۔ ابھی دس بجنے میں کوئی بیس منٹ تھے۔ ہم نے سوچا ابھی تو بہت ٹائم ہے۔ خراماں خراماں چلتے ہوئے ایک صاحب سے بہادر آبادچورنگی کا راستہ پوچھا۔ انھوں نے رہنمائی کی۔ چورنگی کے قریب پہنچے تو ایک اور صاحب نے بتایا کہ عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ ، بہادر آباد چورنگی سے اور تھوڑا آگے ہے۔ اب ہم ذرا گھبرائے کہ کہیں لیٹ نہ ہوجائیں۔ قدرے تیز چلتے ہوئے بہادر آباد چورنگی کو پار کیا اور عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ کی جانب بڑھے۔ ٹرسٹ کے سامنے ایک صاحب ٹرسٹ کی گاڑی دھو رہے تھے۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ ملک ہوٹل کہاں ہے۔ انھوں نے سامنے کی جانب اشارہ کیا۔ ان کی نظرو ں کا تعاقب کیا تو دیکھا کہ سڑک کے پار ایک عمارت کے اوپر لکھا ہے Malik’s restaurant ۔ ہم یہ سوچتے ہوئے کہ یہ ’مالک‘ ہے یا ’ملک‘، ریستوران کی جانب بڑھے۔ وہاں پہنچ کر وقت دیکھا تو ٹھیک دس بج رہے تھے۔

ریستوران کے باہر کیا دیکھتے ہیں کہ ایک صاحب پتلون قمیض اور بے آستین کی جیکٹ میں ملبوس اپنے موبائل پر نظریں گاڑے کھڑے ہیں۔ ہمارے دل میں خیال آیا کہ کہیں یہ سید عمران بھائی تو نہیں۔ ان صاحب نے ہم پر ایک گہری نظر ڈالی اور پھر مشغول ہوگئے۔ ہم نے بھی سوچا کہ یہ وہ گوہرِ مقصود نہیں ہیں۔ بہر حال باہر کھڑے کھڑے سید عمران بھائی کو میسج کیا کہ ہم ریستوران کے باہر پہنچ گئے ہیں۔ جب میسج کا فوری جواب نہیں آیا تو ہم نے سوچا کہ اندر جا کر بیٹھا جائے۔ باہر کھڑے کچھ اچھا نہیں لگتا۔

اندرجا کر کونے میں رکھی ایک ٹیبل سنبھالی اور دروازے پر نظریں گاڑ دیں۔ کچھ ہی دیر میں سید عمران بھائی کا فون آگیا۔ انھوں نے بتایا کہ وہ ابھی راستے میں ہیں، ایک اور محفلین بھی ہوٹل کے باہر موجود ہیں، وہ انھیں میرا نمبر دے رہے ہیں۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے۔ لیکن پھر ہم انتظار ہی کرتے رہ گئے۔ ہم نے بور ہونے سے بہتر یہ سمجھا کہ اپنے محبوب مشغلے یعنی اپنے اسمارٹ فون میں کتاب بینی کا کام شروع کردیں۔ ابھی کتاب کھولی ہی تھی کہ ایک صاحب سادہ لباس (یعنی بغیر وردی) میں آن دھمکے اور ہم سے پوچھا کہ کتنے آدمی ہیں آپ۔ ہم نے بتایا کہ ہمیں خود نہیں پتہ کہ اور کتنوں نے آناہے۔ فرمانے لگے کہ آپ جس ٹیبل کو گھیرے بیٹھے ہیں، وہاں چھ سے زائد آدمی نہیں بیٹھ سکتے۔ ہم نے پھر اظہارِ لاعلمی کیا کہ ہمیں آنے والوں کی تعداد نہیں معلوم۔ یہ سن کر وہ رخصت ہوئے۔ ابھی انھیں گئےدو چار منٹ ہوئے تھے کہ ایک باوردی صاحب آن پہنچے۔انھوں نے بھی یہی پوچھا کہ کتنے آدمی ہیں آپ۔ ہم نے پھر سے آموختہ دہرا دیا۔ وہ بھی نامراد لوٹے۔

اور پھر خوبیٔ قسمت، ہماری موبائل اسکرین سید عمران بھائی کے نام سے جگمانے لگی۔ کال ریسیو کی تو نادر شاہی حکم جاری ہوا کہ اپنے جگہ سےاٹھ کھڑے ہوں۔ ہم اٹھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ شرعی وضع قطع اور باوقار شخصیت کے حامل ایک صاحب ریستوران کےاندر داخلی دروازے کے پاس کھڑے ہیں۔ ہمیں دیکھتے اور شناخت کرتے ہی ان صاحب نے یوں منہ موڑا کہ چند لمحے تو ہم سمجھے کہ یہ درویش، بندے کے باطن میں جھانکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن پھر اس خیال کو ذہن سے جھٹکا اور سید عمران بھائی کی جانب بڑھے۔ عمران بھائی تک پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ صاحب جو ہمیں ریستوران کے باہر کھڑے ملے تھے، وہ بھی موجود ہیں۔ سید عمران بھائی اور ان صاحب سے مصافحہ و معانقہ ہوا تو انکشاف ہوا کہ یہ صاحب سید عاطف علی ہیں۔ ہم نے دل میں کہا ، ہت تیرے کی، پہلے پتہ ہوتا تو ہم عاطف بھائی کی تحریر کی طرح ان کی تقریر سے بھی فیض یاب ہوتے۔ سید عمران بھائی نے ایک اور صاحب سے تعارف کروایا تو پتہ چلا کہ یہ تو محفل کےہر دل عزیز جناب ِ مابدولت یعنی محمد امین صدیق بھائی ہیں۔ اتنے میں جوانِ رعنا فہیم بھائی بھی آگئے۔ اب ہم نے ایک بڑی ٹیبل گھیر لی۔ ابھی بیٹھے ہی تھی کہ کیا دیکھتے ہیں کہ جناب محمد خلیل الرحمٰن بھائی اپنے ہنستے مسکراتے چہرے کے ساتھ جلوہ افروز ہورہے ہیں۔ وہ بھی ملے اور بہت اپنائیت سے ملے۔ کچھ ہی دیر میں جناب فاخر رضا صاحب اپنے دوست کاظم رضا صاحب کے ہمراہ تشریف لے آئے۔ دونوں صاحبان سےپرجوش ملاقات ہوئی۔ اب بس محمد عدنان اکبری نقیبی بھائی کا انتظار تھا۔ہم بھی بے صبری سے ان کا انتظار کرنے لگے لیکن کچھ دیر بعد پتہ چلا کہ وہ بوجوہ تشریف نہیں لاسکیں گے۔

(یہ داستان ابھی ختم نہیں ہوئی۔)​
 
آخری تدوین:

عدنان عمر

محفلین
خیر محفلین کے مابین گفتگو کا ڈول ڈلا۔ شروع میں تو ہم منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے رہے کہ سبھوں سے یہ پہلی ملاقات تھی، اس لیےبولے کم اور زیادہ سنا کیے۔دریں اثناء، جناب خلیل بھائی نے اعلان کیا کہ محفلین کی ریت ہے کہ جب بھی ملتے ہیں تو اپنا باقاعدہ تعارف کرواتے ہیں۔ سو آج یہ روایت پھر سےتازہ کی جائے گی۔ یہ کہتے ہی انھوں نے ہمیں دعوتِ کلام دی۔ ایک لمحے کو تو ہم گھبرا گئے کہ عوام سے خطاب کا تجربہ کچھ خاص نہیں تھا۔ خیر پھر ہمت سے کام لیتے ہوئے اپنے منہ سے میاں مٹھوکا کام لیا، ڈھیر ساری خامیوں سے کنی کتراتے ہوئے اپنی سلیکٹڈ خوبیاں بیان کیں، اپنے تعلیمی معرکے بیان کیے اور ساتھ میں یہ رعب بھی جھاڑ دیا کہ ہم صحافی ہیں، گوکہ فی الحال گوشہ نشین ہیں۔ یہ بھی بتایا کہ ہم نے زندگی کے ابتدائی بیس سال پنجاب میں گزارے ہیں۔ خیر یہ سب ذکر پھر سہی۔

اس کے بعد ہمارے پڑوسی کاظم رضا صاحب کی باری آئی۔ ہمیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ہمارے ہمسائے انجینئر ہیں۔چلو ہم تو بن نہ سکے، کوئی تو بنا۔ پھر نادیدہ مائیک فاخر رضا صاحب کے پاس آیا۔ یہ جان کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ فاخر رضا صاحب طبیب ہیں اور SIUT میں خدمات انجام دیتے ہیں۔ یہ وہ ادارہ ہے جہاں ۲۰۰۴ سےلے کر ۲۰۱۶ تک میری والدہ مرحومہ گاہے بگاہے اپنے علاج کے سلسلے میں رجوع کرتی رہیں۔ اس ادارے کے ہم پر بڑے احسان ہیں، اور اس ادارےسے منسلک ہر شخص ہمارے لیے قابلِ احترام ہے۔ SIUT کی اوپی ڈی نمبر ۱۴ سے خاص طور پر بڑی یادیں وابستہ ہیں۔خیر یہ ذکر پھر سہی۔

پھر باری آئی جوانِ رعنا برادرم فہیم کی۔ عمر میں یہ ہم سے تھوڑے ہی چھوٹے ہیں لیکن محفل میں بہت سینئر ہیں۔ انھوں نے بھی خوبصورت الفاظ میں اپنا تعارف پیش کیا۔ یہ اور بات ہے کہ دھیمی آواز اور ارد گرد کے شور کی وجہ سے ہم بغیر سمجھے ہی سر دھنا کیے۔ اب میز کےدوسرےجانب ہم سے دور کونے پر بیٹھے ہوئے جنابِ مابدولت یعنی امین صدیق بھائی کی باری تھی۔ امین بھائی نے بتایا کہ وہ بلوچ ہیں اور لیاری میں رہتے ہیں۔ یہ سن کر ہمیں خوش گوار حیرت ہوئی کہ اتنی اچھی اردو لکھنے والے صاحب کی مادری زبان اردو نہیں ہے۔خلیل بھائی کی زبانی مزید انکشاف ہوا کہ امین بھائی خوبصورت آواز کے مالک ہیں۔ امین بھائی کے برابر میں سید عمران بھائی بیٹھے تھے۔ عمران بھائی نے اپنے مختصر تعارف میں دریا کو کوزے میں بند کر دیا۔ا ب باری جناب محمد خلیل الرحمٰن بھائی کی تھی۔ ان کی گفتگو سے انکشاف ہوا کہ وہ بھی انجینئر ہیں، اور شعرو ادب کی دنیا کے بھی پرانے باسی ہیں، اورمحفل کو اپنی نگارشات سے نوازتے رہتے ہیں۔ ساتھ ہی ادارت کے منصبِ جلیلہ پر بھی فائز ہیں۔ اور پھر آخر میں جناب سید عاطف علی کی باری آئی۔ یہ بھی انجینئر نکلے۔ مداح تو ہم ان کی اُردو کے تھے، یہ پتہ نہ تھا کہ انھوں نے دوسرے میدانوں میں بھی جھنڈے گاڑے ہوئے ہیں۔ عاطف بھائی سے یہ بھی پتہ چلا کہ وہ اندرونِ سندھ (ویسے بعض اہلِ سندھ اس بات پر ناراض ہوتے ہیں کہ یہ اندرون اور بیرون سندھ کیا ہوتا ہے۔ بالائی اور زیریں سندھ کہا جائے۔ ) کے ایک شہر میں پلے بڑھے ہیں اور اب ریاض میں بسلسلہِ ملازمت مقیم ہیں۔

اور یوں سب کا تعارف ختم ہوا۔ اتنے میں ناشتہ لگ گیا۔ ہمارا شمار چونکہ نوواردان میں تھا، اس لیے ہم نے کھانے پر ذرا ہلکا ہاتھ رکھا اور اپنے بھاری تن و توش کے برعکس محفلین پر یہ تاثر جمانے کی کوشش کی کہ ہم خوش خوراک نہیں ہیں۔ ناشتے کے دوران بھی محفلین باتیں کرتے رہے۔ بیچ میں ایک بار سید عمران بھائی نے ٹوکا کہ عدنان بھائی یہ حلوہ پوری بھی موجود ہے۔ ہم اسی اشارے کے منتظر تھے۔ ایک پوری، پوری فوراً اپنی پلیٹ میں سمیٹ لی اور خلافِ معمول سہج رفتاری سے کھانے لگے۔ ناشتے کے بعد بیرا ایک بار پھر حاضر ہوا اور پوچھا کہ لسی، کولڈ ڈرنک یا چائے، بتا تیری رضا کیا ہے۔ ہم نے چائے کی درخواست کی اور جب چائے آئی تو وہ واقعی چائے تھی۔ ہمیں تو ناشتے سے زیادہ لطف چائے پینے میں آیا۔ ہاں بعض نئی سوچ کے حامل محفلین کو کولڈ ڈرنک پیتے بھی پایا لیکن ہم چپ رہے اور سوچا کیے کہ ایسی مزیدار چائے کے آگے یہ مُوا کاربن آلود مشروب کیا بیچتا ہے۔

ناشتے کے بعد جناب فاخر رضا اور جناب کاظم رضا دوبارہ ملاقات کا وعدہ کرکے روانہ ہوگئے۔ اب ہم چھ لوگ بچے تھے۔فیصلہ ہوا کہ باہر چائے کے ہوٹل میں بیٹھ کر چائے پی جائے۔ یوں ہم ریستوران سے نکلے اور باہر فٹ پاتھی ریستوران میں براجمان ہوئے۔وہاں عملے نے بتایا کہ یہاں چائے نہیں بنتی لیکن آپ بیٹھیں ہم سامنے سے منگائے دیتے ہیں۔ یوں چائے کا انتظار شروع ہوا اور ساتھ ہی وہ اٹھک بیٹھک بھی ہوئی جس کا ذکر سید عمران بھائی کرچکے ہیں۔ خیر چائے آئی اور پی گئی۔ یہیں بیٹھے بیٹھے ناشتے پر اٹھنے والے اخراجات کا بھی حساب کتاب صاف ہوا۔

یہیں فہیم بھائی نے بتایا کہ قریب ہی کڈنی ہل پارک ہے جس کا حال ہی میں افتتاح ہواہے، وہاں چلتے ہیں۔ اس پارک کے بارے میں ہم بھی جانتے تھے کہ لیکن یہ نہ جانتے تھے کہ پارک اسی علاقے میں ہے۔ خیر ریستوران سے روانہ ہوئے اور چند منٹ میں ہم ایک پہاڑی پر چڑھنا شروع ہوگئے، جہاں سبزہ زار تو نہیں تھالیکن شجر کاری کا آغاز ہوچکا تھا۔یہی کڈنی ہل پارک تھا۔ یہاں کچھ دیر قیام رہا۔ یہیں جناب امین بھائی نے اپنی خوبصورت آواز میں چند گیت سنائے۔ یہ گیت امین بھائی کی آواز میں اور بھی اچھے لگے۔ دو تین گیت ہم نے بھی سنے اور پھر کان لپیٹ کر دور کھڑے سید عمران بھائی کے پاس چلے گئے کہ کلام اور آواز کتنی ہی اچھی ہو،مزامیر یعنی آلاتِ موسیقی بہرحال ہمارے دین میں حرام ہیں۔

اب ملک ریستوران کی جانب واپسی کا سفر شروع ہوا۔ اس دوران امین بھائی، سید عمران بھائی، سید عاطف علی بھائی ، محمد خلیل الرحمان بھائی اور فہیم بھائی سے نہایت مفید گفتگو ہوئی۔ امین بھائی کا یہ انداز بہت بھایا کہ انھوں نے شروع سے ہی بزرگانہ شفقت فرمائے ہوئے ہمیں آپ کے بجائے تم سے مخاطب کیا۔ پیدا کہا ں اب ایسے خلیقانہ طبع لوگ۔

ملک ریستوران پہنچے تو محفلین سے الوداعی مصافحے و معانقے ہوئے اورپھر ملنے کے وعدے ہوئے۔ تین رفقاء روانہ ہوگئے۔ میرے ہمراہ سید عمران بھائی اور سید عاطف علی بھائی رہ گئے۔ ان سے رخصت چاہی تو عمران بھائی نے پوچھا کہ واپس کیسے جائیں گے، ہم نے بتایا کہ پبلک ٹرانسپورٹ سے آئے تھے ، اسی ذریعے سے جائیں گے۔ انھوں نے کمال شفقت سے کام لیتے ہوئے کہا کہ پھر ہمارے ساتھ چلیں۔ ساتھ میں یہ بھی کہا کہ آپ اُوبر ، کریم وغیرہ استعمال نہیں کرتے، ہم نے بتایا کہ ہمارا اسمارٹ فون اس وقت وائی فائی کنکشن سے محروم ہے، اس لیے یہ سہولت حاصل نہیں کی جاسکتی۔ اب انھیں کیا بتاتے کہ ہمیں سردیوں کے دنوں میں پیدل چلنے اور بس میں سفر کرنے میں بہت مز ا آتا ہے۔ نہ پسینہ آتا ہے اور نہ گرمی لگتی ہے۔ اور پھر بس اسٹاپ تک پیدل چل کر وزن کومزید بڑھنے سے روکنے کی اپنی سی کوشش بھی ہوتی ہے۔ اور پھر پیدل چلنا تو ہمیں بہت مرغوب ہے۔ لاہور میں کالج کے دنوں میں طویل چہل قدمی کرنا اور بعض اوقات بلاسبب تین چار گھنٹے پیدل چلنا ہمارا معمول تھا۔ ایک دفعہ ایسے ہی پیدلی موڈ میں ہم کالج سےگھر بذریعہ گیارہ نمبر یعنی پیدل جا رہے تھے کہ ہمارے ایک کالج فیلو نے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا کہ وہ اسی اسٹاپ کے قریب رہتے تھے جہاں سے دلکی چال چلتےہم گزر رہے تھے۔ بڑی مشکل سے انھیں یقین دلایا کہ ہم کرایہ نہ ہونے کے باعث پیدل نہیں چل رہے ، بس ایسے ہی شغل میں چل رہے تھے۔ دوست کی مزید تسلی کے لیے سامنے سے آتی ہوئی ویگن میں فوراً بیٹھے اور باعزت طریقے سے گھر کو روانہ ہوئے۔

خیر اب واپس آتے ہیں روانگی کی طرف۔ سید عاطف علی بھائی کی کار میں سید عمران بھائی اور ہم براجمان ہوئے۔ سید عمران بھائی یونیورسٹی روڈ پر اتر گئے اور ہمیں تاکید کرگئے کہ عاطف بھائی کو گلشن چورنگی پر اتارنا ہے، اوہ سوری، گلشن چورنگی پر ہمیں خود اترنا ہے اور عاطف بھائی کو الوداع کہنا ہے۔ ہم نے فوراً سرِ تسلیم خم کیا۔ یہ اور بات ہے کہ آگے جاکر عاطف بھائی کو کہہ بیٹھے کہ کار فلائی اوور کےاوپر چڑھا دیجیے۔ جب گاڑی فلائی اوور سے نیچے اتری تو احساس ہوا کہ ہم اپنا راستہ کھوٹا کر بیٹھے ہیں اوراب گاڑی گلشن چورنگی کی جانب موڑی نہیں جاسکتی۔ خیر اپنی حماقت کو تسلیم کرتے ہوئے ہم عاطف بھائی کو متبادل روٹ سے لے کر چلے۔عاطف بھائی کی قیام گاہ سے کچھ دور گاڑی رکوا کر ان سے اجازت چاہی،اور دو گاڑیاں بدلتے اور سفر کو انجوائے کرتے ہوئے مزے سے اپنے گھر پہنچ گئے۔


یہ تھی محفلین سے ہماری پہلی ملاقات...

پہلی اور یادگار ملاقات...

پھر ملیں گے اگر خدا لایا۔ وما علینا الا بلاغ۔
 
آخری تدوین:
اس کہانی کا آغاز ۲۷ دسمبر۲۰۱۹ سے ہوتا ہے، جب ہمیں جناب سید عمران کی جانب سے ذاتی مکالمات میں ایک پیغام موصول ہوا۔ یہ پیغام کیا تھا، ایک مژدہِ جانفزا تھا جس میں ہمیں کراچی کے محفلین سے ملاقات کی دعوت دی گئی تھی۔ یہ جان کر مزید خوشی ہوئی کہ جناب سید عاطف علی، ریاض کےبجائے کراچی میں موجود ہیں، اور یہ بزم ان سے ملاقات کا ایک بہانہ ہے۔ بس پھر کیا تھا، ہم نے فوراً ہامی بھر لی۔( خبردار ! کوئی دل میں یہ خیال نہ لائے کہ ہم نے ہامی بھرنے سے پہلے وزارتِ داخلہ سے این او سی لیا ہوگا۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔)

اور پھر اتوار،۲۹ دسمبر کی صبح آن پہنچی۔ ہمیں وقت پہ پہنچنے کی بہت فکر تھی۔ گھرمیں کہہ رکھا تھا کہ ہم ٹھیک نو بجے روانہ ہو جائیں گے۔ نو بجے کے قریب جب ہم تیاری کے آخری مراحل میں تھے ، ہماری اہلیہ نے نوٹ کیا کہ ہم خلافِ معمول سنگھار میز کے سامنے سے ہٹنے کا نام نہیں لے رہے۔ اب بیبیوں کی زبان کون روکے، فوراً بول پڑیں، ’’اوہو بڑی تیاریاں ہیں، کیا بر دکھوے کو جارہے ہیں؟‘‘ یہ سن کر غصہ تو بہت آیا لیکن در گزر سے کام لیتے ہوئے ہم نے سرزنش کا ارادہ ترک کر دیا، کیونکہ تاخیر کا اندیشہ تھا۔

اور یوں نو بجے گھر سے روانہ ہوئے۔ رکشہ میں بیٹھ کر بس اسٹاپ پہنچے اور لی مارکیٹ جانے والی بڑی بس کا انتظار کرنے لگے۔ چند منٹ بعد بس آگئی۔ سید عمران بھائی نے بتایا تھا کہ منزل مقصود بہادر آباد چورنگی کے قریب ہے، اس لیے ہم نےکنڈکٹر سے پوچھا کہ بہادر آباد چورنگی جانے کے لیے کس اسٹاپ پر اترنا موزوں تر ہوگا۔ کنڈکٹر کے بجائے ایک ہمراہی نے بتایا کہ لیاقت نیشنل اسپتال اترجائیے، وہاں سے زیادہ دور نہیں۔اور یوں ہم اسپتال کے بالمقابل اتر گئے ۔ ابھی دس بجنے میں کوئی بیس منٹ تھے۔ ہم نے سوچا ابھی تو بہت ٹائم ہے۔ خراماں خراماں چلتے ہوئے ایک صاحب سے بہادر آبادچورنگی کا راستہ پوچھا۔ انھوں نے رہنمائی کی۔ چورنگی کے قریب پہنچے تو ایک اور صاحب نے بتایا کہ عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ ، بہادر آباد چورنگی سے اور تھوڑا آگے ہے۔ اب ہم ذرا گھبرائے کہ کہیں لیٹ نہ ہوجائیں۔ قدرے تیز چلتے ہوئے بہادر آباد چورنگی کو پار کیا اور عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ کی جانب بڑھے۔ ٹرسٹ کے سامنے ایک صاحب ٹرسٹ کی گاڑی دھو رہے تھے۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ ملک ہوٹل کہاں ہے۔ انھوں نے سامنے کی جانب اشارہ کیا۔ ان کی نظرو ں کا تعاقب کیا تو دیکھا کہ سڑک کے پار ایک عمارت کے اوپر لکھا ہے Malik’s restaurant ۔ ہم یہ سوچتے ہوئے کہ یہ ’مالک‘ ہے یا ’ملک‘، ریستوران کی جانب بڑھے۔ وہاں پہنچ کر وقت دیکھا تو ٹھیک دس بج رہے تھے۔

ریستوران کے باہر کیا دیکھتے ہیں کہ ایک صاحب پتلون قمیض اور بے آستین کی جیکٹ میں ملبوس اپنے موبائل پر نظریں گاڑے کھڑے ہیں۔ ہمارے دل میں خیال آیا کہ کہیں یہ سید عمران بھائی تو نہیں۔ ان صاحب نے ہم پر ایک گہری نظر ڈالی اور پھر مشغول ہوگئے۔ ہم نے بھی سوچا کہ یہ وہ گوہرِ مقصود نہیں ہیں۔ بہر حال باہر کھڑے کھڑے سید عمران بھائی کو میسج کیا کہ ہم ریستوران کے باہر پہنچ گئے ہیں۔ جب میسج کا فوری جواب نہیں آیا تو ہم نے سوچا کہ اندر جا کر بیٹھا جائے۔ باہر کھڑے کچھ اچھا نہیں لگتا۔

اندرجا کر کونے میں رکھی ایک ٹیبل سنبھالی اور دروازے پر نظریں گاڑ دیں۔ کچھ ہی دیر میں سید عمران بھائی کا فون آگیا۔ انھوں نے بتایا کہ وہ ابھی راستے میں ہیں، ایک اور محفلین بھی ہوٹل کے باہر موجود ہیں، وہ انھیں میرا نمبر دے رہے ہیں۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے۔ لیکن پھر ہم انتظار ہی کرتے رہ گئے۔ ہم نے بور ہونے سے بہتر یہ سمجھا کہ اپنے محبوب مشغلے یعنی اپنے اسمارٹ فون میں کتاب بینی کا کام شروع کردیں۔ ابھی کتاب کھولی ہی تھی کہ ایک صاحب سادہ لباس (یعنی بغیر وردی) میں آن دھمکے اور ہم سے پوچھا کہ کتنے آدمی ہیں آپ۔ ہم نے بتایا کہ ہمیں خود نہیں پتہ کہ اور کتنوں نے آناہے۔ فرمانے لگے کہ آپ جس ٹیبل کو گھیرے بیٹھے ہیں، وہاں چھ سے زائد آدمی نہیں بیٹھ سکتے۔ ہم نے پھر اظہارِ لاعلمی کیا کہ ہمیں آنے والوں کی تعداد نہیں معلوم۔ یہ سن کر وہ رخصت ہوئے۔ ابھی انھیں گئےدو چار منٹ ہوئے تھے کہ ایک باوردی صاحب آن پہنچے۔انھوں نے بھی یہی پوچھا کہ کتنے آدمی ہیں آپ۔ ہم نے پھر سے آموختہ دہرا دیا۔ وہ بھی نامراد لوٹے۔

اور پھر خوبیٔ قسمت، ہماری موبائل اسکرین سید عمران بھائی کے نام سے جگمانے لگی۔ کال ریسیو کی تو نادر شاہی حکم جاری ہوا کہ اپنے جگہ سےاٹھ کھڑے ہوں۔ ہم اٹھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ شرعی وضع قطع اور باوقار شخصیت کے حامل ایک صاحب ریستوران کےاندر داخلی دروازے کے پاس کھڑے ہیں۔ ہمیں دیکھتے اور شناخت کرتے ہی ان صاحب نے یوں منہ موڑا کہ چند لمحے تو ہم سمجھے کہ یہ درویش، بندے کے باطن میں جھانکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن پھر اس خیال کو ذہن سے جھٹکا اور سید عمران بھائی کی جانب بڑھے۔ عمران بھائی تک پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ صاحب جو ہمیں ریستوران کے باہر کھڑے ملے تھے، وہ بھی موجود ہیں۔ سید عمران بھائی اور ان صاحب سے مصافحہ و معانقہ ہوا تو انکشاف ہوا کہ یہ صاحب سید عاطف علی ہیں۔ ہم نے دل میں کہا ، ہت تیرے کی، پہلے پتہ ہوتا تو ہم عاطف بھائی کی تحریر کی طرح ان کی تقریر سے بھی فیض یاب ہوتے۔ سید عمران بھائی نے ایک اور صاحب سے تعارف کروایا تو پتہ چلا کہ یہ تو محفل کےہر دل عزیز جناب ِ مابدولت یعنی محمد امین صدیق بھائی ہیں۔ اتنے میں جوانِ رعنا فہیم بھائی بھی آگئے۔ اب ہم نے ایک بڑی ٹیبل گھیر لی۔ ابھی بیٹھے ہی تھی کہ کیا دیکھتے ہیں کہ جناب محمد خلیل الرحمٰن بھائی اپنے ہنستے مسکراتے چہرے کے ساتھ جلوہ افروز ہورہے ہیں۔ وہ بھی ملے اور بہت اپنائیت سے ملے۔ کچھ ہی دیر میں جناب فاخر رضا صاحب اپنے دوست کاظم رضا صاحب کے ہمراہ تشریف لے آئے۔ دونوں صاحبان سےپرجوش ملاقات ہوئی۔ اب بس محمد عدنان اکبری نقیبی بھائی کا انتظار تھا۔ہم بھی بے صبری سے ان کا انتظار کرنے لگے لیکن کچھ دیر بعد پتہ چلا کہ وہ بوجوہ تشریف نہیں لاسکیں گے۔

(یہ داستان ابھی ختم نہیں ہوئی۔)​
خیر محفلین کے مابین گفتگو کا ڈول ڈلا۔ شروع میں تو ہم منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے رہے کہ سبھوں سے یہ پہلی ملاقات تھی، اس لیےبولے کم اور زیادہ سنا کیے۔دریں اثناء، جناب خلیل بھائی نے اعلان کیا کہ محفلین کی ریت ہے کہ جب بھی ملتے ہیں تو اپنا باقاعدہ تعارف کرواتے ہیں۔ سو آج یہ روایت پھر سےتازہ کی جائے گی۔ یہ کہتے ہی انھوں نے ہمیں دعوتِ کلام دی۔ ایک لمحے کو تو ہم گھبرا گئے کہ عوام سے خطاب کا تجربہ کچھ خاص نہیں تھا۔ خیر پھر ہمت سے کام لیتے ہوئے اپنے منہ سے میاں مٹھوکا کام لیا، ڈھیر ساری خامیوں سے کنی کتراتے ہوئے اپنی سلیکٹڈ خوبیاں بیان کیں، اپنے تعلیمی معرکے بیان کیے اور ساتھ میں یہ رعب بھی جھاڑ دیا کہ ہم صحافی ہیں، گوکہ فی الحال گوشہ نشین ہیں۔ یہ بھی بتایا کہ ہم نے زندگی کے ابتدائی بیس سال پنجاب میں گزارے ہیں۔ خیر یہ سب ذکر پھر سہی۔

اس کے بعد ہمارے پڑوسی کاظم رضا صاحب کی باری آئی۔ ہمیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ہمارے ہمسائے انجینئر ہیں۔چلو ہم تو بن نہ سکے، کوئی تو بنا۔ پھر نادیدہ مائیک فاخر رضا صاحب کے پاس آیا۔ یہ جان کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ فاخر رضا صاحب طبیب ہیں اور SIUT میں خدمات انجام دیتے ہیں۔ یہ وہ ادارہ ہے جہاں ۲۰۰۴ سےلے کر ۲۰۱۶ تک میری والدہ مرحومہ گاہے بگاہے اپنے علاج کے سلسلے میں رجوع کرتی رہیں۔ اس ادارے کے ہم پر بڑے احسان ہیں، اور اس ادارےسے منسلک ہر شخص ہمارے لیے قابلِ احترام ہے۔ SIUT کی اوپی ڈی نمبر ۱۴ سے خاص طور پر بڑی یادیں وابستہ ہیں۔خیر یہ ذکر پھر سہی۔

پھر باری آئی جوانِ رعنا برادرم فہیم کی۔ عمر میں یہ ہم سے تھوڑے ہی چھوٹے ہیں لیکن محفل میں بہت سینئر ہیں۔ انھوں نے بھی خوبصورت الفاظ میں اپنا تعارف پیش کیا۔ یہ اور بات ہے کہ دھیمی آواز اور ارد گرد کے شور کی وجہ سے ہم بغیر سمجھے ہی سر دھنا کیے۔ اب میز کےدوسرےجانب ہم سے دور کونے پر بیٹھے ہوئے جنابِ مابدولت یعنی امین صدیق بھائی کی باری تھی۔ امین بھائی نے بتایا کہ وہ بلوچ ہیں اور لیاری میں رہتے ہیں۔ یہ سن کر ہمیں خوش گوار حیرت ہوئی کہ اتنی اچھی اردو لکھنے والے صاحب کی مادری زبان اردو نہیں ہے۔خلیل بھائی کی زبانی مزید انکشاف ہوا کہ امین بھائی خوبصورت آواز کے مالک ہیں۔ امین بھائی کے برابر میں سید عمران بھائی بیٹھے تھے۔ عمران بھائی نے اپنے مختصر تعارف میں دریا کو کوزے میں بند کر دیا۔ا ب باری جناب محمد خلیل الرحمٰن بھائی کی تھی۔ ان کی گفتگو سے انکشاف ہوا کہ وہ بھی انجینئر ہیں، اور شعرو ادب کی دنیا کے بھی پرانے باسی ہیں، اورمحفل کو اپنی نگارشات سے نوازتے رہتے ہیں۔ ساتھ ہی ادارت کے منصبِ جلیلہ پر بھی فائز ہیں۔ اور پھر آخر میں جناب سید عاطف علی کی باری آئی۔ یہ بھی انجینئر نکلے۔ مداح تو ہم ان کی اُردو کے تھے، یہ پتہ نہ تھا کہ انھوں نے دوسرے میدانوں میں بھی جھنڈے گاڑے ہوئے ہیں۔ عاطف بھائی سے یہ بھی پتہ چلا کہ وہ اندرونِ سندھ (ویسے بعض اہلِ سندھ اس بات پر ناراض ہوتے ہیں کہ یہ اندرون اور بیرون سندھ کیا ہوتا ہے۔ بالائی اور زیریں سندھ کہا جائے۔ ) کے ایک شہر میں پلے بڑھے ہیں اور اب ریاض میں بسلسلہِ ملازمت مقیم ہیں۔

اور یوں سب کا تعارف ختم ہوا۔ اتنے میں ناشتہ لگ گیا۔ ہمارا شمار چونکہ نوواردان میں تھا، اس لیے ہم نے کھانے پر ذرا ہلکا ہاتھ رکھا اور اپنے بھاری تن و توش کے برعکس محفلین پر یہ تاثر جمانے کی کوشش کی کہ ہم خوش خوراک نہیں ہیں۔ ناشتے کے دوران بھی محفلین باتیں کرتے رہے۔ بیچ میں ایک بار سید عمران بھائی نے ٹوکا کہ عدنان بھائی یہ حلوہ پوری بھی موجود ہے۔ ہم اسی اشارے کے منتظر تھے۔ ایک پوری، پوری فوراً اپنی پلیٹ میں سمیٹ لی اور خلافِ معمول سہج رفتاری سے کھانے لگے۔ ناشتے کے بعد بیرا ایک بار پھر حاضر ہوا اور پوچھا کہ لسی، کولڈ ڈرنک یا چائے، بتا تیری رضا کیا ہے۔ ہم نے چائے کی درخواست کی اور جب چائے آئی تو وہ واقعی چائے تھی۔ ہمیں تو ناشتے سے زیادہ لطف چائے پینے میں آیا۔ ہاں بعض نئی سوچ کے حامل محفلین کو کولڈ ڈرنک پیتے بھی پایا لیکن ہم چپ رہے اور سوچا کیے کہ ایسی مزیدار چائے کے آگے یہ مُوا کاربن آلود مشروب کیا بیچتا ہے۔

ناشتے کے بعد جناب فاخر رضا اور جناب کاظم رضا دوبارہ ملاقات کا وعدہ کرکے روانہ ہوگئے۔ اب ہم چھ لوگ بچے تھے۔فیصلہ ہوا کہ باہر چائے کے ہوٹل میں بیٹھ کر چائے پی جائے۔ یوں ہم ریستوران سے نکلے اور باہر فٹ پاتھی ریستوران میں براجمان ہوئے۔وہاں عملے نے بتایا کہ یہاں چائے نہیں بنتی لیکن آپ بیٹھیں ہم سامنے سے منگائے دیتے ہیں۔ یوں چائے کا انتظار شروع ہوا اور ساتھ ہی وہ اٹھک بیٹھک بھی ہوئی جس کا ذکر سید عمران بھائی کرچکے ہیں۔ خیر چائے آئی اور پی گئی۔ یہیں بیٹھے بیٹھے ناشتے پر اٹھنے والے اخراجات کا بھی حساب کتاب صاف ہوا۔

یہیں فہیم بھائی نے بتایا کہ قریب ہی کڈنی ہل پارک ہے جس کا حال ہی میں افتتاح ہواہے، وہاں چلتے ہیں۔ اس پارک کے بارے میں ہم بھی جانتے تھے کہ لیکن یہ نہ جانتے تھے کہ پارک اسی علاقے میں ہے۔ خیر ریستوران سے روانہ ہوئے اور چند منٹ میں ہم ایک پہاڑی پر چڑھنا شروع ہوگئے، جہاں سبزہ زار تو نہیں تھالیکن شجر کاری کا آغاز ہوچکا تھا۔یہی کڈنی ہل پارک تھا۔ یہاں کچھ دیر قیام رہا۔ یہیں جناب امین بھائی نے اپنی خوبصورت آواز میں چند گیت سنائے۔ یہ گیت امین بھائی کی آواز میں اور بھی اچھے لگے۔ دو تین گیت ہم نے بھی سنے اور پھر کان لپیٹ کر دور کھڑے سید عمران بھائی کے پاس چلے گئے کہ کلام اور آواز کتنی ہی اچھی ہو،مزامیر یعنی آلاتِ موسیقی بہرحال ہمارے دین میں حرام ہیں۔

اب ملک ریستوران کی جانب واپسی کا سفر شروع ہوا۔ اس دوران امین بھائی، سید عمران بھائی، سید عاطف علی بھائی ، محمد خلیل الرحمان بھائی اور فہیم بھائی سے نہایت مفید گفتگو ہوئی۔ امین بھائی کا یہ انداز بہت بھایا کہ انھوں نے شروع سے ہی بزرگانہ شفقت فرمائے ہوئے ہمیں آپ کے بجائے تم سے مخاطب کیا۔ پیدا کہا ں اب ایسے خلیقانہ طبع لوگ۔

ملک ریستوران پہنچے تو محفلین سے الوداعی مصافحے و معانقے ہوئے اورپھر ملنے کے وعدے ہوئے۔ تین رفقاء روانہ ہوگئے۔ میرے ہمراہ سید عمران بھائی اور سید عاطف علی بھائی رہ گئے۔ ان سے رخصت چاہی تو عمران بھائی نے پوچھا کہ واپس کیسے جائیں گے، ہم نے بتایا کہ پبلک ٹرانسپورٹ سے آئے تھے ، اسی ذریعے سے جائیں گے۔ انھوں نے کمال شفقت سے کام لیتے ہوئے کہا کہ پھر ہمارے ساتھ چلیں۔ ساتھ میں یہ بھی کہا کہ آپ اُوبر ، کریم وغیرہ استعمال نہیں کرتے، ہم نے بتایا کہ ہمارا اسمارٹ فون اس وقت وائی فائی کنکشن سے محروم ہے، اس لیے یہ سہولت حاصل نہیں کی جاسکتی۔ اب انھیں کیا بتاتے کہ ہمیں سردیوں کے دنوں میں پیدل چلنے اور بس میں سفر کرنے میں بہت مز ا آتا ہے۔ نہ پسینہ آتا ہے اور نہ گرمی لگتی ہے۔ اور پھر بس اسٹاپ تک پیدل چل کر وزن کومزید بڑھنے سے روکنے کی اپنی سی کوشش بھی ہوتی ہے۔ اور پھر پیدل چلنا تو ہمیں بہت مرغوب ہے۔ لاہور میں کالج کے دنوں میں طویل چہل قدمی کرنا اور بعض اوقات بلاسبب تین چار گھنٹے پیدل چلنا ہمارا معمول تھا۔ ایک دفعہ ایسے ہی پیدلی موڈ میں ہم کالج سےگھر بذریعہ گیارہ نمبر یعنی پیدل جا رہے تھے کہ ہمارے ایک کالج فیلو نے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا کہ وہ اسی اسٹاپ کے قریب رہتے تھے جہاں سے دلکی چال چلتےہم گزر رہے تھے۔ بڑی مشکل سے انھیں یقین دلایا کہ ہم کرایہ نہ ہونے کے باعث پیدل نہیں چل رہے ، بس ایسے ہی شغل میں چل رہے تھے۔ دوست کی مزید تسلی کے لیے سامنے سے آتی ہوئی ویگن میں فوراً بیٹھے اور باعزت طریقے سے گھر کو روانہ ہوئے۔

خیر اب واپس آتے ہیں روانگی کی طرف۔ سید عاطف علی بھائی کی کار میں سید عمران بھائی اور ہم براجمان ہوئے۔ سید عمران بھائی یونیورسٹی روڈ پر اتر گئے اور ہمیں تاکید کرگئے کہ عاطف بھائی کو گلشن چورنگی پر اتارنا ہے، اوہ سوری، گلشن چورنگی پر ہمیں خود اترنا ہے اور عاطف بھائی کو الوداع کہنا ہے۔ ہم نے فوراً سرِ تسلیم خم کیا۔ یہ اور بات ہے کہ آگے جاکر عاطف بھائی کو کہہ بیٹھے کہ کار فلائی اوور کےاوپر چڑھا دیجیے۔ جب گاڑی فلائی اوور سے نیچے اتری تو احساس ہوا کہ ہم اپنا راستہ کھوٹا کر بیٹھے ہیں اوراب گاڑی گلشن چورنگی کی جانب موڑی نہیں جاسکتی۔ خیر اپنی حماقت کو تسلیم کرتے ہوئے ہم عاطف بھائی کو متبادل روٹ سے لے کر چلے۔عاطف بھائی کی قیام گاہ سے کچھ دور گاڑی رکوا کر ان سے اجازت چاہی،اور دو گاڑیاں بدلتے اور سفر کو انجوائے کرتے ہوئے مزے سے اپنے گھر پہنچ گئے۔


یہ تھی محفلین سے ہماری پہلی ملاقات...

پہلی اور یادگار ملاقات...

پھر ملیں گے اگر خدا لایا۔ وما علینا الا بلاغ۔
دوران مطالعۂ احوال ملاقات مابدولت ان لمحات روح پرور کو بار دیگر محسوس کرتے رہے جن کا تذکرہ عزیزی عدنان عمر نے کمال مہارت سے مراسلہ جات بالا میں کیا ہے ۔ واہ ، حق ادا کردیا عدنان ۔ خوش رہو ۔:):)
 

عدنان عمر

محفلین
دوران مطالعۂ احوال ملاقات مابدولت ان لمحات روح پرور کو بار دیگر محسوس کرتے رہے جن کا تذکرہ عزیزی عدنان عمر نے کمال مہارت سے مراسلہ جات بالا میں کیا ہے ۔ واہ ، حق ادا کردیا عدنان ۔ خوش رہو ۔:):)
جنابِ عالی! یہ آپ کی ذرہ نوازی ہے کہ آپ ہم پرمائل بہ کرم ہیں، ورنہ من آنم کہ من دانم۔ بس یوں ہی آپ کی سرپرستی اور دعائیں چاہئیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
نہ ہم شاہجہاں ہیں نہ دیگر ممتاز محل کہ اِدھر ہم نے آواز دی جو وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا، اُدھر جھٹ صدا آئی تم نے جب بھی پکارا ہم کو آنا پڑے گا
واہ واہ کمال لکھا ۔مگر یہ شاہجہاں بننے کا شوق؀
ممتاز کی پہلی اور شاہ جہان کی تیسری شادی تھی۔تاریخ سے اقتباس۔
ممتاز ہر لحاظ سے ’ممتاز‘ تھیں، وہ شاہ جہان کی سب سے محبوب بیوی تھیں، ان کو حکومتی معاملات میں دخل اندازی کی بھی اجازت حاصل تھی۔۔۔کبھی عالیہ کبھی عظمیٰ کبھی ممتاز۔۔یہ آپ کے ارادے نیک نہیں:cool2::cool2:
 

سیما علی

لائبریرین
ہمارے ارادے کی بدی فی الفور ظاہر کی جائے!!!
یہ ممتاز محل اور شاہ جہاں بننے کا شوق؀
دل کو اک جوش ارادوں کو جوانی دی ہے
اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
اور یہ بڑی چھوٹی کا فتور بھی نیا نہیں ؀
وقت کرتا ہے پرورش برسوں:shameonyou:
 
Top