بھائی یہ سسٹم تو فلاپ ہو چکا ہے۔بڑے مسائل تھے اس میں۔ اسمبلی میں بھی ڈسکس ہوا۔
آخری خبریں آنے تک یہ صورتِ حال ہے۔
تابش بھائی! ٹیکس دینے کے بارے میں من حیث القوم ہمارے جو جذبات و خیالات ہیں، ان کو دیکھتے ہوئے یہاں کوئی بھی سسٹم فیل ہو جائے گا۔ حتٰی کہ زکوۃ یا وراثتی تقسیم تک کے سسٹم جن کو قرآن میں واضح الفاظ میں طریقہ کار کے ساتھ حکم ہے، وہ بھی یہاں فلاپ ہو چکا۔ تو ایف بی آر کس کھیت کی مولی ہے۔
اگر نیت سے چلایا جائے تو اس سے بدتر سسٹم بھی چل جاتے ہیں اور اگر بدنیتی کے ساتھ بہترین سسٹم کو بھی چلانے کی کوشش کی جائے تو وہ ایسے ہی فلاپ ہو گا۔
ہمارے ہاں کے بے شمار مسائل میں سے ایک سیاسی بلیک میلنگ بھی ہے۔ اگر ایک حکومت ٹیکس لگائے تو دوسری تمام جماعتیں تاجروں کے ساتھ جا کھڑی ہوتی ہے۔ اور ان کی واحد دلیل یہ ہوتی ہے کہ حکومت کو ٹیکس لگانے سے پہلے تاجروں سے پوچھنا چاہئے تھا۔ یہ دلیل ایسے ہی ہے جیسے کہا جائے کہ ویرات کوہلی کو چھکا لگانے سے پہلے آفریدی سے پوچھنا چاہئے تھا یا حفیظ کو سٹمپ کرنے سے پہلے دھونی کو اس سے پوچھنا چاہئے تھا۔
ٹیکس کے فیوض و برکات کے حوالے سے اپنی زندگی کی ایک مثال میں اکثر لوگوں کو بیان کرتا ہوں۔ یہاں بھی عرض کرتا چلوں۔
ایک دفعہ میں اپنی گاڑی میں موٹروے پر جا رہا تھا۔ میرا ایک دور دراز کا رشتہ دار بھی میرے ساتھ تھا۔ رستے میں بات چیت میں اس نے شکوہ شکایت کی کہ موٹروے پر ٹول ٹیکس بہت زیادہ ہے۔ یہ لوٹ شوٹ رہے ہیں۔ میں نے عرض کی کہ میں اس ٹول ٹیکس کو زیادہ نہیں سمجھتا کہ 150 روپے (اس وقت پنڈی لاہور کا اتنا ہی ٹول تھا) کے عوض اگر بہتر سفر کی سہولت مل رہی ہے تو یہ برا سودا نہیں ہے۔ تاہم اس نے شکوہ جاری رکھا کہ جناب میرا بھائی ٹرک ڈرائیور ہے وہ تو روتا ہی رہتا ہے کہ اتنا ٹول لگ گیا۔ وغیرہ وغیرہ
خیر خدا کا کرنا یوں ہوا کہ کچھ آگے جا کر میری گاڑی ریڈی ایٹر کا پانی لیک ہونے کی وجہ سے اوور ہیٹ ہو کے بند ہو گئی۔ ابھی ہم سائیڈ پہ ہو کر رکے ہی تھے کہ پیچھے سے موٹروے پولیس کی ورکشاپ والی گاڑی آئی۔ انہوں نے خوش اخلاقی سے بات چیت بھی کی۔ گاڑی کی ضروری مرمت بھی کی اور کہا کہ سر جی گڈی سٹارٹ کرو۔ ابھی ہم وہاں سے چلے ہی کہ میرا ہم سفر حیرانی سے بولا کہ بھائی پیسے نہیں دیئے آپ نے۔ اس پہ میں نے اس کو کہا کہ میں گزشتہ کئی سال سے جو 150 فی ٹرپ دے رہا ہوں وہ آج وصول گیا ہے۔
اسی کی نسبت کم از کم دو بار میری گاڑی لاہور شہر کے عین وسط میں خراب ہو چکی ہے اور ایک میٹروپولیٹن شہر میں کسی قسم کی ہیلپ لائن کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے سینکڑوں بلکہ ہزاروں روپے نالائق قسم کے جزوقتی مکینک سے عارضی مرمت کرانے پہ لگانے پڑے۔
سو قصہ مختصر یہ کہ ٹیکس کے کچھ فوائد بھی ہیں جو صرف وقت پڑنے پہ نظر آتے ہیں۔