انکم ٹیکس

چلیں مسٹر عارف ایک بار پھر پر مزاح کی ریٹنگ دے کر آپ نے ثابت کر دیا آپ کے پاس سمجھنے کی صلاحیت ویسے ہی یا تو ختم ہوچکی ہے یا پھر آپ استعمال ہی نہیں کرنا چاہتے۔شکریہ۔
ہادیہ ، پر مزاح رینکنگ سے دل آزاری نہیں ہونی چاہئیے ۔۔۔ اس کے لئے مضحکہ خیز رینکنگ ہے۔ آپ اپنا دل بڑا کریں چھوٹا نا کریں کہ آپ کی بات پر کوئی خوش ہوا ، مسکرایا اور پر مزاح کی ریٹنگ دی ۔۔۔۔ :)
 

arifkarim

معطل
اور انکم ٹیکس ایک بندے کا دیتے ہیں ۔۔ آپ پر تو ڈبل انکم ٹیکس ہونا چاہئیے :)
36 فیصد انکم ٹیکس، 25 فیصد سیلز ٹیکس، روڈ ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، پانی ٹیکس، بجلی ٹیکس یہ سب ملا کر بتائیں باقی کتنے فیصد تنخواہ بچے گی؟
 

arifkarim

معطل
میں بھی ٹیکسز ہی کررہا ہوں -- سب سے سستا کونسا سوفٹ وئیر ہے؟؟؟ مفتا ہو تو اور بھی اچھا ہے :)
حیرت ہے امریکی اسکام کیلئے قیمتاً سافٹوئیر استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے پاس تو آن لائن ٹیکس گوشوارہ آتا ہے جسپر مختلف پوسٹس پر اعداد درج ہوتے ہیں۔ ان میں بس رد و بدل کرنا ہوتی ہے اور سینڈ بٹن دبا تے ہی درست ٹیکس خود ہی حل ہو کر ٹیکس اتھارٹی کو پہنچ جاتا ہے۔
 

زیک

مسافر
اکثر میں فروری ہی میں ٹیکس فائل کر دیا کرتا ہوں اور اب تک ریفنڈ بھی مل چکا ہوتا ہے۔ مگر اس بار ٹیکس کے لئے تمام دستاویزات اکٹھے کرتے وقت لگ گیا اور فائل کرتے کرتے کافی دیر ہو گئی۔ اب فائل کرنے کا نقصان یہ ہے کہ بہت لوگ آخری دنوں میں فائل کرتے ہیں اور یوں رش زیادہ ہونے کی وجہ سے ریفنڈ میں دیر لگتی ہے۔
 

arifkarim

معطل
اکثر میں فروری ہی میں ٹیکس فائل کر دیا کرتا ہوں اور اب تک ریفنڈ بھی مل چکا ہوتا ہے۔ مگر اس بار ٹیکس کے لئے تمام دستاویزات اکٹھے کرتے وقت لگ گیا اور فائل کرتے کرتے کافی دیر ہو گئی۔ اب فائل کرنے کا نقصان یہ ہے کہ بہت لوگ آخری دنوں میں فائل کرتے ہیں اور یوں رش زیادہ ہونے کی وجہ سے ریفنڈ میں دیر لگتی ہے۔
آپکو اتنی جلدی ری فنڈ کیسے مل جاتا ہے؟ کیا تمام گوشوارے خودکار چیک ہوتے ہیں؟ ہمارے ہاں تو گوشوارے جمع کروانے کے دو سے تین ماہ بعد ٹیکس ریٹرن کا فارم ملتا ہے ۔ جو کہ اکثر کسی ٹیکس اتھارٹی سے مینولی گزر کر آتا ہے۔ اگر ٹیکس کا بقایا ہو تو اسے چند ماہ کے اندر اندر ادا کرنا ہوتا ہے۔ اور اگر زیادہ ادا کر دیا ہو تو ری فنڈ بھی تقریباً اتنی مدت میں مل جاتا ہے۔
 

زیک

مسافر
آپکو اتنی جلدی ری فنڈ کیسے مل جاتا ہے؟ کیا تمام گوشوارے خودکار چیک ہوتے ہیں؟ ہمارے ہاں تو گوشوارے جمع کروانے کے دو سے تین ماہ بعد ٹیکس ریٹرن کا فارم ملتا ہے ۔ جو کہ اکثر کسی ٹیکس اتھارٹی سے مینولی گزر کر آتا ہے۔ اگر ٹیکس کا بقایا ہو تو اسے چند ماہ کے اندر اندر ادا کرنا ہوتا ہے۔ اور اگر زیادہ ادا کر دیا ہو تو ری فنڈ بھی تقریباً اتنی مدت میں مل جاتا ہے۔
یہاں اگر کسی وجہ سے ریٹرن فلیگ نہ ہو یا آڈٹ کی زد میں نہ آئے تو آٹومیٹکلی ریفنڈ مل جاتا ہے۔
 
جھوٹ موٹ کی خوشی سے نا:p
یہ مراسلہ عارف نے اس لیے لکها ہے کہ کہیں ناروے کی گورنمنٹ پڑھ نا لے ۔۔۔;)
چوہدری صاحب اگر ناروے گورنمنٹ کو ہی یہ مراسلہ پڑھنا ہے تو عارف کریم بھائی کو کچھ ایسے لکھنا چاہیے تھا اردو میں نہیں
Vi betaler skatt så alle fornøyde. Og at regjeringen ikke ville tillate disse trinnene for å kunne treffe straffen.
 

ہادیہ

محفلین
ہادیہ ، پر مزاح رینکنگ سے دل آزاری نہیں ہونی چاہئیے ۔۔۔ اس کے لئے مضحکہ خیز رینکنگ ہے۔ آپ اپنا دل بڑا کریں چھوٹا نا کریں کہ آپ کی بات پر کوئی خوش ہوا ، مسکرایا اور پر مزاح کی ریٹنگ دی ۔۔۔۔ :)
بات دل آزاری کی نہیں ہے سر ۔آپ کو کیسا لگے گا اگر آپ بہت سریس ہوں اور دوسرا بندہ آپ کی بات پر صرف پرمزاح کی ریٹنگ کر رہا ہو باربار۔پرمزاح کا مطلب خوش ہونا نہیں بلکہ دوسرے کی بات کو نان سریس سمجھنا ہوتا ہے۔
میری مسٹر عارف سے کوئی لڑائی نہیں ہے ۔مگر یہ یہاں صرف ایک بٹن دبانے آتے ہیں "پرمزاح" کا۔جو جتنا بھی سریس ہو،پریشان ہو انہوں نے بس اسی بٹن کو بار بار دبا دینا ہوتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
جیسا کہ دوست جانتے ہیں کہ ٹیکسز دو طرح کے ہوتے ہیں، ڈائریکٹ ٹیکس اور اِن ڈائریکٹ ٹیکس۔ ڈائڑیکٹ ٹیکس کی مثال انکم ٹیکس، ویلتھ ٹیکس وغیرہ ہیں جب کہ اِن ڈائریکٹ ٹیکس کی مثال سیلز ٹیکس، ایکسائز ڈیوٹی، امپورٹ ڈیوٹی وغیرہ۔

ایک اچھی حکومت (بالخصوص ترقی پذیر ممالک کی) ہمیشہ ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکسوں میں توازن رکھتی ہے بلکہ کوشش کرتی ہے کہ ڈائریکٹ ٹیکس زیادہ جمع ہو کیونکہ ڈائریکٹ ٹیکس کا مطلب ہے کہ جو جتنا کماتا ہے اسی حساب سے ٹیکس دیتا ہے جب کہ ان ڈائریکٹ ٹیکس کا مطلب ہے کہ بغیر آمدن کے حساب کے ہر کہ و مہ کو کسی چیز کے استعمال پر ایک جتنا ہی ٹیکس دینا پڑتا ہے۔

پاکستان میں ٹیکسوں کا یہ توازن بہت زیادہ بگڑا ہوا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان حکومت کی ٹیکس آمدن میں 25 فیصد ڈائریکٹ جب کہ 75 فیصد ان ڈائریکٹ ٹیکس ہے۔ یہ ایک انتہائی بگڑا ہوا توازن ہے اس کو الٹ ہونا چاہیے۔ اس کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں، اگر کوئی شخص پاکستان میں سالانہ چار لاکھ روپے تک کماتا ہے تو اسے کوئی انکم ٹیکس نہیں دینا پڑے گا لیکن اگر وہ اس سے زیادہ کماتا ہے مثال کے طور پر دس لاکھ یا بیس لاکھ یا پچاس لاکھ تو اس کو اسی حساب سے ٹیکس دینا پڑے گا اور ٹیکس بڑھتا جائے گا۔ یہ مناسب انتظام ہے اور یہاں تک سب ٹھیک ہے، لیکن دوسری طرف پیٹرول پر کوئی 20 فیصد سیلز ٹیکس ہے اور اس کے علاوہ دیگر ڈیوٹیاں بھی، عام استعمال کی چیزیں مثلا گھی چینی صابن وغیرہ وغیرہ، یوٹیلٹی کی چیزیں بجلی، گیس، فون وغیرہ سبھی پر سیلز ٹیکس اور کئی کئی قسم کی ڈیوٹیاں ہیں، جو کہ صارف دیتا ہے اور یہیں گڑ بڑ ہے کہ ہر صارف کو بغیر اس کی آمدن کے حساب کے یہ ٹیکس دینا پڑتا ہے۔

دراصل ان ڈائریکٹ ٹیکس ایک شارٹ کٹ ہوتا ہے کیونکہ اس میں حکومت اور حکومتی مشینری کو کم محنت کرنی پڑتی ہے ایک حکم دینا پڑتا ہے اور سبھی صارفین کو ہر صورت میں یہ ٹیکس دینا ہی پڑتا ہے۔ ڈائریکٹ ٹیکس جمع کرنے میں حکومتی کارندوں کو "کام" کرنا پڑتا ہے اور یہی کام وہ نہیں کرتے۔

پاکستان میں متوسط طبقہ سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے، ایک تو وہ سارے ان ڈائریکٹ ٹیکس دیتے ہیں جو غریب بھی دیتے ہیں امیر بھی دوسرے وہ ڈائریکٹ ٹیکس بھی دیتے ہیں مثلا تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بینکوں کے ذریعے دی جاتی ہیں جس میں سے ٹیکس اسی وقت منہا ہو جاتا ہے اسی طرح کافی حد تک پرائیوٹ سیکٹر بھی اور بڑی بڑی تمام پرائیوٹ کمپنیاں بھی بینکوں کے ذریعے تنخواہ دیتی ہیں سو متوسط طبقے کا ڈائریکٹ ٹیکس بھی یہیں سے جمع ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف امیر طبقہ ٹیکس ہمیشہ ہی بچاتا ہے۔

پاکستان میں بھی آن لائن ٹیکس جمع کروانے کی سہولت موجود ہے لیکن اس کا استعمال بہت حد تک کم ہے۔ ہر حکومت یہی کہتی ہے کہ ہم ٹیکس نیٹ کو بڑھا رہے ہیں مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم ڈائریکٹ ٹیکس زیادہ جمع کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ صرف بیان بازی ہوتی ہے اور اس کا اختتام یہ ہوتا ہے کہ وہ چپکے سے ان ڈائریکٹ ٹیکس لگا دیتے ہیں یا بڑھا دیتے ہیں، اللہ اللہ خیر صلیٰ۔
 

یاز

محفلین
پاکستان میں ٹیکس جمع کرانے کے لئے ایف بی آر نے کافی اچھا اور بہتر کام ہے۔ آئرِس نام کا آنلائن سوفٹ ویئر ہے جس پہ رجسٹر کروا کے ٹیکس فائل کروا سکتے ہیں۔
یہ سسٹم کافی آسان ہے اور ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں اس پہ ٹیکس ریٹرن فائل کی جا سکتی ہے۔ میں نے اپنے ساتھ ساتھ بہت سے دیگر لوگوں کو بھی اس پہ آمادہ کر کے ان کی ریٹرنز بھی فائل کی ہیں۔

اور جہاں تک تعلق ہے ٹیکس ریفنڈ کا۔ اس پہ کوشش کی جائے تو ریفنڈ وصول پایا جا سکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہ کام جوئے شیر لانے کے مترادف ہے یہاں۔ لہٰذا یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ ریفنڈ ہے کتنا۔ اگر چند ہزار ہو تو اس پہ فاتحہ پڑھ لینا زیادہ بہتر سمجھا جاتا ہے بہ نسبت اس پہ وقت اور توانائی ضائع کرنے کے۔ تاہم کچھ لوگ اس کام کے پیچھے پڑ کے ریفنڈ لینے میں کامیاب بھی ہوتے ہیں۔
 
پاکستان میں ٹیکس جمع کرانے کے لئے ایف بی آر نے کافی اچھا اور بہتر کام ہے۔ آئرِس نام کا آنلائن سوفٹ ویئر ہے جس پہ رجسٹر کروا کے ٹیکس فائل کروا سکتے ہیں۔
یہ سسٹم کافی آسان ہے اور ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں اس پہ ٹیکس ریٹرن فائل کی جا سکتی ہے۔ میں نے اپنے ساتھ ساتھ بہت سے دیگر لوگوں کو بھی اس پہ آمادہ کر کے ان کی ریٹرنز بھی فائل کی ہیں۔

اور جہاں تک تعلق ہے ٹیکس ریفنڈ کا۔ اس پہ کوشش کی جائے تو ریفنڈ وصول پایا جا سکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہ کام جوئے شیر لانے کے مترادف ہے یہاں۔ لہٰذا یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ ریفنڈ ہے کتنا۔ اگر چند ہزار ہو تو اس پہ فاتحہ پڑھ لینا زیادہ بہتر سمجھا جاتا ہے بہ نسبت اس پہ وقت اور توانائی ضائع کرنے کے۔ تاہم کچھ لوگ اس کام کے پیچھے پڑ کے ریفنڈ لینے میں کامیاب بھی ہوتے ہیں۔
بھائی یہ سسٹم تو فلاپ ہو چکا ہے۔بڑے مسائل تھے اس میں۔ اسمبلی میں بھی ڈسکس ہوا۔
آخری خبریں آنے تک یہ صورتِ حال ہے۔
 

یاز

محفلین
بھائی یہ سسٹم تو فلاپ ہو چکا ہے۔بڑے مسائل تھے اس میں۔ اسمبلی میں بھی ڈسکس ہوا۔
آخری خبریں آنے تک یہ صورتِ حال ہے۔

تابش بھائی! ٹیکس دینے کے بارے میں من حیث القوم ہمارے جو جذبات و خیالات ہیں، ان کو دیکھتے ہوئے یہاں کوئی بھی سسٹم فیل ہو جائے گا۔ حتٰی کہ زکوۃ یا وراثتی تقسیم تک کے سسٹم جن کو قرآن میں واضح الفاظ میں طریقہ کار کے ساتھ حکم ہے، وہ بھی یہاں فلاپ ہو چکا۔ تو ایف بی آر کس کھیت کی مولی ہے۔
اگر نیت سے چلایا جائے تو اس سے بدتر سسٹم بھی چل جاتے ہیں اور اگر بدنیتی کے ساتھ بہترین سسٹم کو بھی چلانے کی کوشش کی جائے تو وہ ایسے ہی فلاپ ہو گا۔
ہمارے ہاں کے بے شمار مسائل میں سے ایک سیاسی بلیک میلنگ بھی ہے۔ اگر ایک حکومت ٹیکس لگائے تو دوسری تمام جماعتیں تاجروں کے ساتھ جا کھڑی ہوتی ہے۔ اور ان کی واحد دلیل یہ ہوتی ہے کہ حکومت کو ٹیکس لگانے سے پہلے تاجروں سے پوچھنا چاہئے تھا۔ یہ دلیل ایسے ہی ہے جیسے کہا جائے کہ ویرات کوہلی کو چھکا لگانے سے پہلے آفریدی سے پوچھنا چاہئے تھا یا حفیظ کو سٹمپ کرنے سے پہلے دھونی کو اس سے پوچھنا چاہئے تھا۔

ٹیکس کے فیوض و برکات کے حوالے سے اپنی زندگی کی ایک مثال میں اکثر لوگوں کو بیان کرتا ہوں۔ یہاں بھی عرض کرتا چلوں۔
ایک دفعہ میں اپنی گاڑی میں موٹروے پر جا رہا تھا۔ میرا ایک دور دراز کا رشتہ دار بھی میرے ساتھ تھا۔ رستے میں بات چیت میں اس نے شکوہ شکایت کی کہ موٹروے پر ٹول ٹیکس بہت زیادہ ہے۔ یہ لوٹ شوٹ رہے ہیں۔ میں نے عرض کی کہ میں اس ٹول ٹیکس کو زیادہ نہیں سمجھتا کہ 150 روپے (اس وقت پنڈی لاہور کا اتنا ہی ٹول تھا) کے عوض اگر بہتر سفر کی سہولت مل رہی ہے تو یہ برا سودا نہیں ہے۔ تاہم اس نے شکوہ جاری رکھا کہ جناب میرا بھائی ٹرک ڈرائیور ہے وہ تو روتا ہی رہتا ہے کہ اتنا ٹول لگ گیا۔ وغیرہ وغیرہ
خیر خدا کا کرنا یوں ہوا کہ کچھ آگے جا کر میری گاڑی ریڈی ایٹر کا پانی لیک ہونے کی وجہ سے اوور ہیٹ ہو کے بند ہو گئی۔ ابھی ہم سائیڈ پہ ہو کر رکے ہی تھے کہ پیچھے سے موٹروے پولیس کی ورکشاپ والی گاڑی آئی۔ انہوں نے خوش اخلاقی سے بات چیت بھی کی۔ گاڑی کی ضروری مرمت بھی کی اور کہا کہ سر جی گڈی سٹارٹ کرو۔ ابھی ہم وہاں سے چلے ہی کہ میرا ہم سفر حیرانی سے بولا کہ بھائی پیسے نہیں دیئے آپ نے۔ اس پہ میں نے اس کو کہا کہ میں گزشتہ کئی سال سے جو 150 فی ٹرپ دے رہا ہوں وہ آج وصول گیا ہے۔
اسی کی نسبت کم از کم دو بار میری گاڑی لاہور شہر کے عین وسط میں خراب ہو چکی ہے اور ایک میٹروپولیٹن شہر میں کسی قسم کی ہیلپ لائن کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے سینکڑوں بلکہ ہزاروں روپے نالائق قسم کے جزوقتی مکینک سے عارضی مرمت کرانے پہ لگانے پڑے۔
سو قصہ مختصر یہ کہ ٹیکس کے کچھ فوائد بھی ہیں جو صرف وقت پڑنے پہ نظر آتے ہیں۔
 
آخری تدوین:
تابش بھائی! ٹیکس دینے کے بارے میں من حیث القوم ہمارے جو جذبات و خیالات ہیں، ان کو دیکھتے ہوئے یہاں کوئی بھی سسٹم فیل ہو جائے گا۔ حتٰی کہ زکوۃ یا وراثتی تقسیم تک کے سسٹم جن کو قرآن میں واضح الفاظ میں طریقہ کار کے ساتھ حکم ہے، وہ بھی یہاں فلاپ ہو چکا۔ تو ایف بی آر کس کھیت کی مولی ہے۔
اگر نیت سے چلایا جائے تو اس سے بدتر سسٹم بھی چل جاتے ہیں اور اگر بدنیتی کے ساتھ بہترین سسٹم کو بھی چلانے کی کوشش کی جائے تو وہ ایسے ہی فلاپ ہو گا۔
ہمارے ہاں کے بے شمار مسائل میں سے ایک سیاسی بلیک میلنگ بھی ہے۔ اگر ایک حکومت ٹیکس لگائے تو دوسری تمام جماعتیں تاجروں کے ساتھ جا کھڑی ہوتی ہے۔ اور ان کی واحد دلیل یہ ہوتی ہے کہ حکومت کو ٹیکس لگانے سے پہلے تاجروں سے پوچھنا چاہئے تھا۔ یہ دلیل ایسے ہی ہے جیسے کہا جائے کہ ویرات کوہلی کو چھکا لگانے سے پہلے آفریدی سے پوچھنا چاہئے تھا یا حفیظ کو سٹمپ کرنے سے پہلے دھونی کو اس سے پوچھنا چاہئے تھا۔

ٹیکس کے فیوض و برکات کے حوالے سے اپنی زندگی کی ایک مثال میں اکثر لوگوں کو بیان کرتا ہوں۔ یہاں بھی عرض کرتا چلوں۔
ایک دفعہ میں اپنی گاڑی میں موٹروے پر جا رہا تھا۔ میرا ایک دور دراز کا رشتہ دار بھی میرے ساتھ تھا۔ رستے میں بات چیت میں اس نے شکوہ شکایت کی کہ موٹروے پر ٹول ٹیکس بہت زیادہ ہے۔ یہ لوٹ شوٹ رہے ہیں۔ میں نے عرض کی کہ میں اس ٹول ٹیکس کو زیادہ نہیں سمجھتا کہ 150 روپے (اس وقت پنڈی لاہور کا اتنا ہی ٹول تھا) کے عوض اگر بہتر سفر کی سہولت مل رہی ہے تو یہ برا سودا نہیں ہے۔ تاہم اس نے شکوہ جاری رکھا کہ جناب میرا بھائی ٹرک ڈرائیور ہے وہ تو روتا ہی رہتا ہے کہ اتنا ٹول لگ گیا۔ وغیرہ وغیرہ
خیر خدا کا کرنا یوں ہوا کہ کچھ آگے جا کر میری گاڑی ریڈی ایٹر کو پانی لیک ہونے کی وجہ سے اوور ہیٹ ہو کے بند ہو گئی۔ ابھی ہم سائیڈ پہ ہو کے رکے ہی تھے کہ پیچھے سے موٹروے پولیس کی ورکشاپ والی گاڑی آئی۔ انہوں نے خوش اخلاقی سے بات چیت بھی کی۔ گاڑی کی ضروری مرمت بھی کی اور کہا کہ سر جی گڈی سٹارٹ کرو۔ ابھی ہم وہاں سے چلے ہی کہ میرا ہم سفر حیرانی سے بولا کہ بھائی پیسے نہیں دیئے آپ نے۔ اس پہ میں نے اس کو کہا کہ میں گزشتہ کئی سال سے جو 150 فی ٹرپ دے رہا ہوں وہ آج وصول گیا ہے۔
اسی کی نسبت کم از کم دو بار میری گاڑی لاہور شہر کے عین وسط میں خراب ہو چکی ہے اور کسی قسم کی ہیلپ لائن کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے سینکڑوں بلکہ ہزاروں روپے نالائق قسم کے جزوقتی مکینک سے عارض مرمت کرانے پہ لگانے پڑے۔
سو قصہ مختصر یہ کہ ٹیکس کے کچھ فوائد بھی ہیں جو صرف وقت پڑنے پہ نظر آتے ہیں۔
میں نے مئی جون میں تمام گوشوارے بھر دیے تھے، ابھی تک ایکٹو ٹیکس پیئرز میں نام نہیں آیا۔ پھر یہ مسئلہ بھی ہو گیا۔
ہمارے ہاں اس حوالے سے لوگوں کو تعلیم دینے کا بھی فقدان ہے۔ اور عمومی طور پر کمپنیز اور ادارے ٹیکس تو تنخواہ میں سے کاٹ لیتے ہیں، لیکن ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کے حوالے سے ملازمین کی کوئی مدد نہیں کی جاتی اور نہ ہی زور دیا جاتا ہے۔
 

یاز

محفلین
میں نے مئی جون میں تمام گوشوارے بھر دیے تھے، ابھی تک ایکٹو ٹیکس پیئرز میں نام نہیں آیا۔ پھر یہ مسئلہ بھی ہو گیا۔
ہمارے ہاں اس حوالے سے لوگوں کو تعلیم دینے کا بھی فقدان ہے۔ اور عمومی طور پر کمپنیز اور ادارے ٹیکس تو تنخواہ میں سے کاٹ لیتے ہیں، لیکن ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کے حوالے سے ملازمین کی کوئی مدد نہیں کی جاتی اور نہ ہی زور دیا جاتا ہے۔

ایکٹو ٹیکس پیئر میں نام آنے کے لئے آپ کو دو سال کے گوشوارے بھرنا ضروری ہیں۔ آپ یا تو دوہزار تیرہ-چودہ کے گوشوارے بھریں یا پھر دو ہزار پندرہ-سولہ کے وسط مدتی گوشوارے بھریں۔ اگر جمعے کی شام 6 بجے تک گوشوارے بھر دیں تو سوموار کو صبح آپ ایکٹیو ٹیکس پیئر کے طور پہ جاگیں گے۔
 

یاز

محفلین
ہم نے اوپر ٹیکس دینے کے فوائد بھی تو بیان کئے ہیں۔ کہ بیمار ہونے یا جاب لیس ہونے کی صورت میں حکومت کی طرف سے تنخواہ ملتی ہے۔ اور جو ٹیکس نہیں دیتے انہیں کچھ نہیں ملتا۔

دیگر محکمہ جات یا صوبوں کا تو علم نہیں،لیکن پنجاب گورنمنٹ کے ایک ادارے "پیسی" کے بارے میں کچھ عرصہ قبل آگاہی ہوئی۔ پیسی پنجاب ایمپلائز سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن کا مخفف ہے اور یہ ادارہ صوبائی وزارت محنت یعنی منسٹری آف لیبر کے ماتحت ہے۔
اس میں کچھ یوں ہے کہ ہر انڈسٹری یا کاروبار اس میں رجسٹر ہو سکتا ہے جس کے ملازمین کی تعداد ایک معینہ حد سے کم نہ ہو۔ مجھے صحیح یاد نہیں لیکن یہ شاید معیاد 6 یا 8 ملازمین کی ہے، تو اس میں بہت چھوٹے ادارے جیسے پیٹرول پمپ یا چھوٹے ریسٹورنٹ یا بیکریاں وغیرہ بھی رجسٹر ہو سکتی ہیں۔ رجسٹر ہونے کے بعد اپنے ملازمین کی تنخواہ کا ایک بہت قلیل حصہ کٹوتی کر کے پیسی کو جمع کرانا ہوتا ہے ہر ماہ۔ اس کے عوض ان ملازمین کا اہلِ خانہ سمیت علاج معالجہ سوشل سیکیورٹی کے ہسپتالوں میں مفت ہوتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اگر مزدور یا ملازم ہسپتال میں داخل رہے اور اس کی نوکری کی نوعیت دیہاڑی والی (یعنی روزانہ کی بنیاد پہ تنخواہ) ہو تو اس کو اتنے دن کی تنخواہ پیسی کی جانب سے دی جاتی ہے، جن سے وہ ہسپتال میں داخل ہونے کی وجہ سے محروم ہو جاتا ہے۔
دیکھا جائے تو یہ ایک مناسب یا کافی بہتر نظام ہے (تھیوریٹیکلی)، لیکن جیسا کہ میں نے اوپر عرض کی کہ بدنیتی سے جو بھی نظام چلایا جائے، وہ نہیں چلتا۔
 
Top