محمد امین
لائبریرین
کچھ عرصہ قبل اردو محفل کی ایک ہونہار اور قابل رکن نازنین ناز سے میری ایک معاملے پر خاصی تعمیری گفتگو ہوئی تھی۔ اور وہ موضوع تھا انگریزی الفاظ کے اردو میں تلفظ اور ٹرانس لٹریشن کا۔ کافی عرصے سے میں سوچ رہا تھا اس گفتگو کو ایک جگہ جمع کردوں یا نئے سرے سے اس پر ایک مستقل مضمون لکھا جائے۔ آج سیدہ شگفتہ آپی کی یاددہانی پر یہ کام کرنے بیٹھا ہوں۔
دراصل ہوتا کچھ یوں ہے کہ انگریزی کے ایسے الفاظ جن میں عموماً "o" آتا ہے ان کو اردو میں لکھتے وقت انکا تلفظ "ا" یا "آ" سے ظاہر کیا جاتا ہے، جو کہ ہمیشہ درست نہیں ہوتا۔
آئیے پہلے تو میرے اور کچھ احباب کے محفل میں موجود مکالمات پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
نازنین ناز:"
میرا حالیہ تبصرہ: http://dictionary.reference.com/browse/office?s=t پر اوفس کے تلفظ میں یہ درج ہے: [aw-fis,of-is] ۔۔۔۔۔ اور یہ کہیں سے بھی "آ" کا تلفظ نہیں دیتا۔۔۔ اس لفظ کے ساتھ بنے اسپیکر پر کلک کر کے اس کا تلفظ سنیے۔
امین:"
امین:"
دراصل ہوتا کچھ یوں ہے کہ انگریزی کے ایسے الفاظ جن میں عموماً "o" آتا ہے ان کو اردو میں لکھتے وقت انکا تلفظ "ا" یا "آ" سے ظاہر کیا جاتا ہے، جو کہ ہمیشہ درست نہیں ہوتا۔
آئیے پہلے تو میرے اور کچھ احباب کے محفل میں موجود مکالمات پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
نازنین ناز:"
اور امین بھائی! آپ فرنگی الفاظ کی اردو املا میں ’’الف‘‘ کے بجائے واو کو کیوں درست سمجھتے ہیں؟ جیسے آفس کو اوفس، بلاگ کو بلوگ، سافٹ کو سوفٹ، اسکاٹ کو اسکوٹ وغیرہ؟
یقینا اس کے لئے آپ کے پاس کوئی مضبوط دلیل ہوگی۔ اگر مناسب سمجھیں تو ہمیں بھی بتادیں تاکہ اگر آپ کی دلیل دل کو لگے تو ہم بھی آپ کے ہم خیال ہوجائیں۔ " ربط
امین: "
امریکی لہجے میں تو "ا" ہی درست ہوگا۔ دراصل بہت سے الفاظ میں "ا" درست نہیں بھی ہوتا مگر ہمارے ہند و پاک کے انگریزی بولنے والے بالخصوص پرانے لوگ، انگریزی حرف "O" کی آواز کو ہمیشہ "ا" یا "آ" سے ظاہر کرتے ہیں، جو کہ ہمیشہ درست نہیں ہوتا۔ چاہے لہجہ امریکی ہو یا برطانوی۔ یہ صرف "او" پر ہی موقوف نہیں، بہت سے انگریزی الفاظ کا تلفظ ہی غلط لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔
جیسا کہ "آف"۔۔۔ اس میں تو "ف" کی آواز ہی نہیں نکلتی، بلکہ واو کی آواز نکلتی ہے آخر میں۔اور شروع کے لیے اگر برطانوی لہجے میں دیکھا جائے تو یہ "اوو" ہے، جسے اردو میں "اوف" لکھنا بھی قرینِ قیاس ہے۔
یا فقط "اَو" بولا جاتا ہے اسے، بغیر طویل کئے۔
ہاں امریکی یا آئرش لہجے میں اسے "آو" لکھا جا سکتا ہے طویل تلفظ کی صورت میں مگر مختصر تلفظ ان دونوں لہجوں میں بھی "اَو" ہی ہوتا ہے۔
یہ نیچے دیا گیا ربط برطانوی لہجے میں انگریزی لفظ "O" والے الفاظ کو وضاحت سے سنا دے گا، "آڈیو" ہے اس میں چند سیکنڈز کی۔ (اور یہ آڈیو نہیں۔۔۔ اوڈیو ہونا چاہیے
۔۔۔ )
متن: " ڈوکٹر اوسکر اوفٹن اوپَریٹس اون اوپوزیشن پولٹیشنز" ۔۔۔ ۔۔ Dr. Oscar often operates on opposition politicians
مزید اس پر میں ایک مضمون لکھ سکتا ہوں انگریزی لغات کے حوالوں سے، کوشش کروں گا جلد ہی لکھوں۔۔ویسے ہوسکتا ہے میں غلط انداز میں سوچ رہا ہوں، کوئی صاحب یا صاحبہ میری اصلاح فرمانا چاہیں تو بصد شوق۔۔۔" ربط
میرا حالیہ تبصرہ: http://dictionary.reference.com/browse/office?s=t پر اوفس کے تلفظ میں یہ درج ہے: [aw-fis,of-is] ۔۔۔۔۔ اور یہ کہیں سے بھی "آ" کا تلفظ نہیں دیتا۔۔۔ اس لفظ کے ساتھ بنے اسپیکر پر کلک کر کے اس کا تلفظ سنیے۔
امین:"
Not کو بھی ہمارے یہاں "ناٹ" لکھا اور بولا جاتا ہے، جبکہ برطانوی لہجے میں یہ "نَوٹ" ہے۔۔۔
اور تو اور۔۔۔ Horse کو "ہارس" لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔۔جبکہ یہ دنیا کے کسی بھی انگریزی لہجے میں "ہااااارس" نہیں ہے۔۔۔ "ہورس" ہے۔۔۔" ربط
امین:"
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ "واو" کی آواز ہماری اردو میں موجود ہے۔۔۔ "سو"۔۔۔ ۔"نو"۔۔۔ ۔یہ الفاظ بھی تو اردو میں ہیں۔۔۔ تو اس ہی تلفظ پر انگریزی الفاظ کو منطبق کیوں نہیں کیا جاتا؟" ربط
امین: "
ہم کریں نا کریں مگر ہم تلفظ ضرور درست کروادیں گے سب کا۔۔۔ یہ سنیں:
جو لوگ "بلاااااگ" لکھتے ہیں وہ سوچیں کہ وہ کیوں "بلاااگ" لکھتے ہیں؟؟؟ ربط
نازنین ناز: "
شکریہ امین بھیا۔
اشکال یہ ہے کہ انگلش کے بہت سارے الفاظ جو سین ساکن سے شروع ہوتے ہیں، اسے اردو میں بجائے سین سے لکھنے کے اس لفظ کے شروع میں ایک الف کا اضافہ کردیا جاتا ہے جیسے:
سٹوڈنٹ کو اسٹوڈنٹ، سکائی کو اسکائی، سٹور کو اسٹور، سٹار کو اسٹار، سکول کو اسکول، سٹینڈ کو اسٹینڈ، سٹاف کو اسٹاف وعلیٰ ہٰذا القیاس
آپ کی نظر میں انگریزی کے ایسے الفاظ اُردو میں کس طرح لکھے جانے چاہئیں، ویسے آپ کے سابقہ بتائے گئے قاعدے کے مطابق اگر اسی کسوٹی پر یہ الفاظ بھی پرکھے جائیں تو ان کے ساتھ الف نہیں لکھنا چاہئے۔ اس سلسلہ میں بھی آپ کی ماہرانہ رائے درکار ہے۔ " ربط
امین: "اس کا سمپل سا جواب یہ ہے کہ انگریزی میں سین سے شروع ہونے والے ایسے الفاظ جن میں سین پر حرکت نہیں ہوتی۔ انگریزی تلفظ فقط سین کی آواز نکالنے سے ادا ہوتا ہے ایسے الفاظ میں۔ جبکہ اردو میں (اور عربی میں بھی) ایسا ہو نہیں سکتا کہ لفظ کے پہلے حرف کو ساکن پڑھا جائے۔ لہٰذا ایسے الفاظ کے شروع میں الف لگا کر اسے فتحہ کی حرکت دے دی جاتی ہے۔
اور اگر اردو میں ایسے الفاظ سے پہلے الف نہ لگایا جائے تو ہمارے بھائی لوگ سین پر ہی فتحہ لگا کر اسے مجہول کردیتے ہیں۔۔
ویسے سوال آپکا بہت اچھا ہے کیوں کہ میری پچھلی ابحاث اس کی زد میں آتی ہیں " ربط
امین: "شمشاد بھیا۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ :
اب بھلا بتائیے۔۔۔ یہ تلفظ ہمارے اردو کے لفظ "نو" سے نہیں شروع ہورہا کیا؟؟؟ تو کیا وجہ ہے اسے "نااااااااا" سے شروع کرنے کی؟؟" ربط
شمشاد بھائی: "جناب انگریزی بڑی عجیب زبان ہے۔
but بَٹ ہوتا ہے اور
put پُٹ ہوتا ہے
یہ بَٹ اور پَٹ یا پھر بُٹ اور پُٹ کیوں نہیں ہوتا؟" ربط
امین: "کیوں کہ انگریز ایسے ہی بولتے ہیں۔۔۔ یہ اہلِ زبان پر موقوف ہے کہ وہ کیا بولتے ہیں۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ الفاظ دوسری زبانوں میں آ کر تلفظ اور تو اور معنیٰ بھی تبدیل کرلیتے ہیں مگر "ٹرانلٹریشن" میں تو تلفظ تبدیل نہیں کرنا چاہیے۔۔۔ یوں بھی ہمارے بہت سے بھائی لوگ مکمل انگریزی بھی اسی طرح بولتے ہیں جس کی میں مخالفت کر رہا ہوں یہاں۔۔
اگر تو آپ کسی انگریزی لفظ کو اردو میں شامل کرنا چاہتے ہیں یا وقت کے ساتھ وہ خود شامل ہوگیا ہے تو اس پر کلام ہوسکتا ہے مگر انگریزی بولنے میں تو تلفظ پر کلام نہیں ہے۔۔۔" ربط
امین: "اردو میں رائج کے لیے میں نے کہا نا اس پر بات ہوسکتی ہے۔۔۔ مگر انگریزی بولنے میں تلفظ کی درستگی پر کیا کلام کیا جائے۔۔۔
اردو میں رائج ہونے کے حوالے سے میری دلیل وہی اردو الفاظ "نو" ۔۔۔ ۔اور "سو" والی ہے۔۔۔ ان الفاظ کا تلفظ "اوفس" کے "او" سے ملتا جلتا ہے تو اردو میں اوفس کے بجائے آفس کیوں لکھا جاتا ہے؟ جبکہ اردو میں ہی اسے ۹۰ فیصد سے زائد افراد اوفس کے تلفظ پر ہی ادا کرتے ہیں۔۔" ربط
شمشاد بھائی: "جناب بات اردو اور انگریزی زبان کی ہے۔ انگریزی میں جب بات کریں گے تو office ہی کہیں گے لیکن جب اردو میں بات کریں گے تو آفس ہی رائج ہے۔
پنجابی میں تو اور بُری صورتحال ہے۔ پہلے تو اسٹیشن کا پہلا حرف الف اُڑ گیا، سٹیشن رہ گیا، پھر سین بھی اُڑ گیا اور اب صرف ٹیشن بولتے ہیں۔" ربط
امین: "ہاہاہاہاہا صحیح کہا۔۔۔
ویسے میں قبولِ عام کے خلاف نہیں جانا چاہتا، مگر مجھے ذاتی طور پر یہ "آفس" والا تلفظ پسند نہیں کیوں کہ اس کےانگریزی تلفظ کا مقابل اردو میں پہلے ہی موجود ہے۔
ترمیم اس وقت کی جاتی ہے عموماً کہ جب آپ تلفظ کے معاملے میں تھوڑے غریب ہوں۔
نہ ہی اصل تلفظ اردو زبان کے لیے ثقیل ہے، تو کوئی وجہ بظاہر سمجھ نہیں آتی ایسے الفاظ کے غلط تلفظ کی۔" ربط
اور اب نازنین ناز کا علمیت اور تدبر سے بھرپور مراسلہ:
"السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
گوکہ یہ لڑی اُردو الفاظ کی دُرست ادائیگی اور املا کے حوالہ سے ہے تاہم محفل کے ایک انتہائی معزز ومحترم رکن کی شفقت آمیز ہدایت کے بموجب اس علمی اختلاف کے سلسلہ میں وضاحت پیش کر رہی ہوں جس کا اشکال انگریزی الفاظ کی اُردو املا کے سلسلہ میں مجھے درپیش ہوا تھا۔ اشکال کی اجمالی تفصیل یہ ہے کہ آیا انگریزی کے وہ الفاظ جن کی صوتی ادائیگی واؤ کے ساتھ ہوتی ہے انہیں اُردو میں الف کے ساتھ لکھنا درست ہے یا واؤ کے ساتھ۔ مثلاً ’’آفس، آڈیو، بلاگ‘‘ درست ہے یا ’’اوفس، اوڈیو، بلوگ‘‘ وغیرہ۔ اس ضمن میں مَیں اپنی ناقص عقل کے مطابق جو دُرست سمجھتی ہوں، اسے حوالہ محفل کررہی ہوں جس میں زیادہ احتمال اس بات کا ہے کہ میرا مفروضہ غلط ہی ہوگا لیکن اسے یہاں پیش کرنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ میرے اس مفروضے کو سمجھ کر اس کی اصلاح کی جائے۔
دوسری درخواست منتظمین سے ہے کہ اس کے لئے اگر یہ لڑی مناسب نہ ہو تو اسے کسی مناسب زمرہ میں منتقل فرمادیں۔
اس سلسلہ میں پہلے انگریزی کے اُن الفاظ کی تھوڑی سی وضاحت ہوجائے جو ’’سین ساکن‘‘ سے شروع ہوتے ہیں اور اُردو میں املا لکھتے وقت ایسے الفاظ کے شروع میں ’’الف وصلی‘‘ لگا دیا جاتا ہے۔
مثلاً: ’’سکول کو اسکول، سٹوڈنٹ کو اسٹوڈنٹ، سٹیشن کو اسٹیشن، سکائی کو اسکائی، سٹار کو اسٹار، سٹون کو اسٹون، سٹیم کو اسٹیم، سپیڈ کو اسپیڈ، سپین کو اسپین‘‘ وغیرہ۔
ایسے فرنگی الفاظ اُردو میں دونوں طرح سے لکھے جاتے ہیں یعنی ’’سین ساکن‘‘ سے بھی اور ابتدا میں ہمزہ یا الف وصلی لگا کر بھی۔ صوبہ پنجاب اور خیبر پختون خوا (سابقہ صوبہ سرحد) میں ایسے الفاظ عموماً الف کے بغیر لکھے جاتے ہیں (جیسے ’’سکول، سٹوڈنٹ، سٹیشن‘‘وغیرہ) جبکہ صوبہ سندھ خصوصاًکراچی میں ایسے الفاظ الف کے اضافہ سے لکھے جاتے ہیں(جیسے ’’اسکول، اسٹوڈنٹ، اسٹیشن‘‘وغیرہ) کراچی اور ایسے علاقوں میں جہاں مادری زبان اُردو ہے، وہاں اس طرح لکھنا مجبوری بھی ہے اور اُردو قواعد کے مطابق بھی کیوں کہ اُردو زبان میں ’’سین ساکن‘‘ سے کوئی لفظ شروع نہیں ہوتا اور سین ساکن سے پہلے ایک الف مکسورہ کا اضافہ کرکے اسے سین ساکن سے جوڑا جاتا ہے تاکہ اسے (اُردو قواعد کے مطابق) پڑھا جاسکے۔ برخلاف صوبہ پنجاب اور خیبر پختون خوا کے کہ وہاں بغیر الف کے ایسے الفاظ لکھے جاتے ہیں۔ صوبہ خیبر پختون خوا کی حد تک تو بات کسی قدر سمجھ میں آتی ہے کیوں کہ پشتو زبان میں بھی سین ساکن سے الفاظ شروع ہوتے ہیں مثلاً: ’’ستا نوم سہ دے‘‘ (اُردو ترجمہ: آپ کا نام کیا ہے؟) اس میں ’’ستا‘‘ سین ساکن سے شروع ہوتا ہے، لہٰذا سین ساکن سے شروع ہونے والے فرنگی الفاظ بغیر الف کے لکھنے کے باوجود وہ اسے دُرست پڑھتے ہیں کیوں کہ ان کی مادری زبان میں بھی سین ساکن سے شروع ہونے کا قاعدہ موجود ہے۔ اس کے برخلاف صوبہ پنجاب میں جب ایسے الفاظ بغیر الف کے لکھے جاتے ہیں تو مجھ جیسے کم خواندہ اس کی ادائیگی میں غلطی کربیٹھتے ہیں۔ ایسے کئی الفاظ سننے میں آئے جو لکھے تو (انگریزی کے حوالے سے) بالکل دُرست تھے لیکن چونکہ ان کے ابتدا میں الف موجود نہ تھا اور نہ ان کی زبان میں سین ساکن سے الفاظ شروع ہونے کا قاعدہ موجود ہے، لہٰذا اپنے طور پر وہ سین پر فتحہ کی کی حرکت دے کر اس کی ادائیگی کرتے ہیں۔ مثلاً ’’اسکول کو سہ کول، اسٹوڈنٹ کو سہ ٹوڈنٹ، اسٹیشن کو سہ ٹیشن، اسپرے کو سَپْ رے‘‘ وغیرہ۔
اس احتمالی غلطی سے بچنے کے لئے (میری ناقص عقل کے مطابق) سین ساکن سے شروع ہونے والے انگریزی کے الفاظ کو اُردو میں لکھتے ہوئے ’’الف‘‘ کا اضافہ کیا جاتا ہے۔
(نوٹ: ایسی غلطیاں عموماً انگریزی سے نابلد افراد ہی کرتے ہیں، ورنہ تھوڑی بہت انگلش جاننے والا مذکورہ الفاظ چاہے الف کے ساتھ ہوں یا بغیر الف کے بالکل دُرست پڑھتے ہیں)
نوٹ ۲: یہ ضروری نہیں کہ انگریزی میں سین سے شروع ہونے والے تمام الفاظ سین ساکن سے ہی شروع ہوں بلکہ متحرک سین سے بھی شروع ہوسکتے ہیں جیسے:
سافٹ وئیر، سانتا کلاز، سفاری، سن، سینٹر، سنیٹر، سائنس، ساؤتھ افریقا وغیرہ۔
لیکن یہاں چونکہ اشکال سین ساکن سے شروع ہونے والے الفاظ کے متعلق ہے، لہٰذا ان کا صرف اجمالاً ذکر کردیا ہے۔
اس تمہید کے بعد اب اصل موضوع (انگریزی کے وہ الفاظ جن کی صوتی ادائیگی واؤ کے ساتھ ہوتی ہے، انہیں اُردو میں الف کے ساتھ لکھنا درست ہے یا واؤ کے ساتھ) کی طرف آتے ہیں۔
جس طرح سابقہ قاعدہ میں ذکر ہوا کہ سین ساکن سے شروع ہونے والے انگریزی الفاظ کی اُردو املا الف مکسورہ کے ساتھ لکھنا (میری ناقص عقل کے مطابق) دُرست ہے، اسی طرح یہاں بھی یہی قاعدہ کار فرما ہے۔
انگریزی کے ایسے الفاظ جن کی صوتی ادائیگی واؤ کے ساتھ ہوتی ہے، اس میں اُردو قاعدہ کے مطابق نہ تو فتحہ کی حرکت ہوتی ہے، نہ ضمہ کی بلکہ ان دونوں کے درمیان کی حرکت سے ان کی دُرست ادائیگی ہوتی ہے۔ مثلاً: ’’اس کے جھوٹ کا ’’پَول‘‘ کھل گیا‘‘، ’’اسے ’’پُھول‘‘ بہت پسند ہیں‘‘، رچرڈ اور ’’پال‘‘ (Paul) گہرے دوست ہیں۔‘‘
ان تینوں جملوں میں پہلے جملے کا پول ’’پ‘‘ پر فتحہ (زبر) کی آواز، دوسرے جملے کا پھول ’’پ‘‘ پر ضمہ (پیش) کی آواز جبکہ تیسرے جملے کے انگریزی لفظ پال کے ’’پ‘‘ پر فتحہ اور ضمہ کی درمیانی آواز نکلتی ہے جس کے لئے اُردو کا کوئی قاعدہ موجود نہیں۔ (فرق سمجھنے کے کے لئے اُردو کے پَول اور انگریزی کے پال کی صوتی ادائیگی کرکے محسوس کی جاسکتی ہے۔)
اس صورت میں انگریزی کے ایسے تمام الفاظ جن کی صوتی ادائیگی واؤ ساکن ماقبل مفتوح ومضموم کی درمیانی شکل کی صورت میں ہو، اسے اُردو میں الف کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ جیسے:
اوفس کو آفس، اوسکر کو آسکر، اوکسفورڈ کو آکسفورڈ، اوڈیو کو آڈیو، بوس کو باس، ڈوکٹر کو ڈاکٹر،بوڈی کو باڈی، سوفٹ کو سافٹ، لوٹ کو لاٹ، اوسٹریلیا کو آسٹریلیا وغیرہ۔
علاوہ ازیں انگریزی کے وہ تمام الفاظ جن کا واؤ ساکن ماقبل مفتوح یا مضموم ہو، ایسے الفاظ کی اُردو املا واؤ کے ساتھ ہی لکھی جاتی ہے۔ جیسے واؤ ساکن ماقبل مفتوح کی مثال:
کوٹ، بوٹ (Boat)، نوٹ، ووٹ (بروزن ’’اوٹ‘‘) وغیرہ۔
واؤ ساکن ماقبل مضموم کی مثال:
بُوٹ، سُوٹ، شُوٹ، رُوٹ (بروزن ’’لُوٹ‘‘) وغیرہ۔
انگریزی کے واؤ ساکن ماقبل مفتوح ومضموم کی درمیانی شکل کے صوتی ادائیگی والے الفاظ کو ’’الف‘‘ سے لکھنے کی دوسری اہم وجہ اس احتمالی غلطی سے بچنے کے لئے اختیار کی جاتی ہے جس کا تذکرہ ’’سین ساکن‘‘ والے تمہیدی پیراگراف میں گزر چکا کہ انگریزی سے نابلد افراد اُردو میں پڑھتے ہوئے اس کی ادائیگی میں اس بناء پر غلطی کربیٹھتے ہیں کہ اس کا کوئی قاعدہ (مفتوح ومضموم کی درمیانی حرکت والا) اُردو میں موجود نہیں، لہٰذا یا تو وہ اسے فتحہ کے ساتھ یا ضمہ کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ ذیل میں اس کی چند مثالیں درج کی گئی ہیں:
مثلاً انگریزی کا لفظ ’’پال‘‘ یہ تینوں طرح سے ادا ہوتا ہے یعنی فتحہ اور ضمہ کی درمیانی حرکت کے ساتھ، فتحہ کے ساتھ اور ضمہ کے ساتھ۔
انگریزی کے واؤ ساکن ماقبل مفتوح ومضموم کی درمیانی شکل کے صوتی ادائیگی والے الفاظ کو ’’واؤ‘‘ سے لکھنے کی بناء پر ان میں فرق نہیں رہے گا کہ اس سے کونسا پال مراد ہے مثلاً:
پول (Paul) پول (Pole) پول (Pool) (اس میں تفریق نہیں کی جاسکتی کہ کونسا پال یا پول مراد ہے)
پال (Paul) پَول (Pole) پُول (Pool) (فرق صاف ظاہر ہے)
ایسی ہی مثال کال (Call) کَول (Coal) کُول (Cool)
کہ ان تینوں کو کول (Call) کول (Coal) کول (Cool) یعنی واؤ سے لکھنے کی صورت میں مفہوم سمجھنے اور پڑھنےیا بولنے کی غلطی کا احتمال ہے۔
اسی طرح گاگل (Gaugle) اور گوگل (Google) دونوں کو واؤ سے لکھنے کی صورت میں بعض افراد گاگل کو بھی گوگل (Google) پڑھ سکتے ہیں۔
یہی مثال لاء (Law) لو (Low)، شاٹ (Shot) شوٹ (Shoot) اور آنرز (Honors) اونرز (Owners) کی بھی ہے کہ ’’لا کو لو، شاٹ کو شوٹ اورآنرز کو اونرز‘‘ لکھنے کی بناء پر ان کا غلط مفہوم سمجھے جانے کا احتمال ہے۔
اور بات صرف مفہوم ہی کی نہیں بلکہ ان کی ادائیگی میں بھی مجھ ایسے انگریزی سے نابلد افراد غلطی کرسکتے ہیں۔
نوٹ: اوپر ذکر کی گئی باتوں کو قاعدہ کلیہ نہ سمجھا جائے بلکہ یہ ایک مبتدی کا اپنا ناقص خیال ہے جس کا غلط ہونا عین قرین قیاس ہے بلکہ یوں سمجھیے کہ ایک غلط قاعدہ اپنی طرف سے پیش کرکے آپ اہل علم وفن کی خدمت میں اس لئے پیش کیا ہے کہ اس کو علمی دلائل سے ردّ کرکے میری اصلاح فرمائیں۔
جزاکم اللہ احسن الجزاء" ربط
میرا جواب:
"نازنین: جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ آپ کی تحریر بہت اچھی ہے۔ آپ دلائل دینا بھی جانتی ہیں اور لکھنا بھی۔ آپ کی تحریر تمہید سے تو مجھے قطعاً اختلاف نہیں۔
غالباً میں پہلے درست انداز میں آپ تک پہنچا نہیں پایا۔ میں تحریر کے معاملے میں خاصا بے ربط سا آدمی ہوں۔ بہرحال:
جہاں تک بات تفریق کی ہے، تو ایسا ہی تو اردو الفاظ میں بھی نہیں ہے کیا؟ بہت سے الفاظ لکھے ایک ہی طرح جاتے ہیں مگر بولے مختلف انداز میں جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر: "تو" بفتحِ اول اور "تو" بضمِ اول۔۔۔ ۔
ایسی ہی بہت سی مثالیں ہوسکتی ہیں۔
آپ نے یہ لکھا ہے کہ :
"یہی مثال لاء (Law) لو (Low)، شاٹ (Shot) شوٹ (Shoot) اور آنرز (Honors) اونرز (Owners) کی بھی ہے کہ ’’لا کو لو، شاٹ کو شوٹ اورآنرز کو اونرز‘‘ لکھنے کی بناء پر ان کا غلط مفہوم سمجھے جانے کا احتمال ہے۔
اور بات صرف مفہوم ہی کی نہیں بلکہ ان کی ادائیگی میں بھی مجھ ایسے انگریزی سے نابلد افراد غلطی کرسکتے ہیں۔"
تو اس سلسلے میں میری گزارش صرف اتنی تھی کہ اردو میں الف ساکن ماقبل مفتوح کا تلفظ کسی بھی طور درمیانی آواز نہیں ہوسکتا (فتحہ اور ضمہ کی درمیانی آواز)۔ جب کہ اردو میں اس درمیانی آواز کے لیے ہمیشہ واؤ کا استعمال ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر:
سو (تعداد) ۔۔ نو (تعداد)۔۔۔ شوہر (بیچارہ) ۔۔۔ ۔ طور (بفتحِ اول)۔۔۔ ۔ اور ۔۔۔ ۔۔
آپ غور کیجیے ۔۔۔ (اس لفظ غور پر بھی غور کیجیے) ۔۔۔ کہ اوفس کا تلفظ کیا لفظ "اور" سے ملتا جلتا نہیں ہے؟
جب اردو میں ایک تلفظ کے لیے پہلے سے ایک رائج طریقہ (یا حرف) موجود ہے ۔۔ (اس موجود کے "مو" پر بھی غور کریں)۔۔ تو اس کے لیے الف جو کہ ایک بالکل مختلف آواز ہے، کا استعمال مجہول تلفظ پر کیوں؟
ہاں اگر آپ امریکی لب و لہجے میں بولنا چاہیں تو میری تمام بحث بیکار ہے کیوں کہ امریکی تلفظ ایسا ہی ہوتا ہے جیسا اردو میں لکھا جاتا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں کہ اردو پر امریکی انگریزی کے اثرات رہے ہیں۔ اردو پر تو ہمیشہ سے برطانوی انگریزی کے اثرات تھے۔ اردو ادب کے ابتدائی دور (اس دور پر بھی غور ضروری ہے) میں ادباء اور معلمین انگریزی سے اس قدر واقف نہیں تھے تو یہ بنیاد وہیں غلط پڑی تھی۔ بہرحال "غلط العام صحیح" مانا جاتا ہے ۔ ہاں میں نے کچھ ادیبوں کے ہاں ایسا ہی لکھا دیکھا ہے جیسا میں کہتا ہوں۔۔۔
تدوین: نازنین ناز بہن اور دوسروں کے لیے ایک وضاحت بھی کرتا چلوں۔ یہ بحث مباحثہ خدانخواستہ کسی کی پگڑی اچھالنے کے لیے یا علمی رعب جھاڑنے کے لیے نہیں ہے۔ کیوں کہ میں ایک جاہل سا انسان ہوں مگر سیکھنے کے لیے بحث کرتا ہوں۔" ربط
نازنین ناز: "جزاکم اللہ خیراً احسن الجزاء
آپ نے بہت اچھی طرح سمجھایا امین بھیا! میرا اشکال بڑی حد تک دُور ہوگیا ہے تاہم ایک بات کی وضاحت مزید فرمادیں کہ بعض الفاظ واؤ سے لکھنے کی صورت میں اسے غلط پڑھے جانے کا احتمال نہیں رہے گا، مثلاً:
کال کو کول لکھنے سے انگریزی سے نابلد فرد کو اسے کُول یا پال کو پول لکھنے سے اسے پُول، یا شاٹ کو شوٹ لکھنے سے اسے شُوٹ، اسی طرح گاگل کو گوگل لکھنے سے اسے گُوگل پڑھنے سے کس طرح روکا جائے۔ یہ پھر وہی بات نہیں ہوجائے گی جیسے اسکول کو سہ کول، اسٹیشن کو سہ ٹیشن وغیرہ کی مثال میں عرض کیا تھا۔ جبکہ دوسری صورت میں ایسے الفاظ انگلش سے واقف شخص تو ہر دو صورتوں میں درست پڑھے گا ہی لیکن محض اُردو پڑھنے والا بھی کسی حد تک دُرست ادائیگی کرسکے گا۔
یہ آپ کے جواب پر اعتراض نہیں بلکہ محض ذہن میں دَر آنے والا اشکال ہے جسے آپ سے اسی احسن طریقے سے دُور کرنے کی اُمید ہے جس طرح آپ نے سابقہ اشکالات دُور کیے ہیں۔ " ربط
امین: "آپکا اعتراض بجا۔ مگر کیا یہ ایسا نہیں ہے کہ جب میں چھوٹا تھا تو "بَر اُفروختہ" کو "بَرَا فَروختہ" پڑھتا تھا۔ مگر جب لغت دیکھی تو معلوم ہوا۔ ایسے ہی میں "ہنوز" کو "ہَنوَز" پڑھتا تھا، نون کو ساکن کر کے غنہ کر کے۔
جو لوگ انگریزی نہیں جانتے وہ اس سلسلے میں سماع پر ہی بھروسہ کرسکتے ہیں۔ ورنہ تو میں ایک جگہ مثال دی تھی نا کہ جب ہر جگہ درمیانی آواز کے تلفظ میں الف لگا دیا جاتا ہے تو horse جسے دنیا بھر کی انگریزی میں "ہورس" ہی پڑھا جاتا ہے، کو لوگ "ہارس" لکھتے اور پڑھتے ہیں اردو میں (ہارس پاور- موٹر کی طاقت کا پیمانہ) ۔کیوں کہ انہیں ہر جگہ الف الف دیکھ کر مغالطہ ہوجاتا ہے کہ غالباً "آف" کی طرح جہاں جہاں انگریزی O (او) آئے گا اسکا تلفظ الف سے ہی ادا ہوگا۔" ربط
امین: "ایک اور بات۔ جو الفاظ اردو کے لیے اجنبی ہیں یعنی ایسے انگریزی الفاظ جو اردو میں رائج نہیں انہیں اردو املا میں لکھتے وقت قوسین میں انکا انگریزی املا بھی لکھنا ضروری ہے۔ جیسے کہ کسی غیر ملکی کا نام ہے یا کوئی بھی نیا لفظ۔۔
اردو سائنس کے حوالے سے عرصے سے میری یہ رائے رہی ہے کہ سائنس کو مشرف بہ اردو کرنے کے بجائے اصطلاحات کی حد تک انگریزی سے استفادہ کیا جائے۔"