سید عاطف علی
لائبریرین
جی وہ تو معلوم ہے ۔۔۔مطلب ۔۔ ’’خورد حیات‘‘جرثوموں وغیرہ کےلئے۔جیسا کہ محترم محمد یعقوب آسی صاحب نے فرمایا۔جراثیم کا واحد۔
جی وہ تو معلوم ہے ۔۔۔مطلب ۔۔ ’’خورد حیات‘‘جرثوموں وغیرہ کےلئے۔جیسا کہ محترم محمد یعقوب آسی صاحب نے فرمایا۔جراثیم کا واحد۔
صرف ہمارے لیےپھر کہیں گے درجہ بندی میں کاٹے ہی دکھتے ہیں محترمہ کو۔
اچھا میں نے سر کے ساتھ تاج کا اضافہ کردیا۔
بھئی وہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں نا! خوردبین سے نظر آتے ہیں اس لیئے "خورد" حیات مطلب "زندگی"۔ وہی مائکرو آرگینزم والی بات ہو گئی۔جی وہ تو معلوم ہے ۔۔۔ مطلب ۔۔ ’’خورد حیات‘‘جرثوموں وغیرہ کےلئے۔جیسا کہ محترم محمد یعقوب آسی صاحب نے فرمایا۔
ان کےلیے ۔۔۔پیما۔۔۔ وغیرہ کا لاحقہ لگا نا چاہیے۔جیسا کہ بیرو میٹر کے لیے باد پیما۔حرارت پیماآلہ وغیرہ نام کا حصہ بنانا کوئی بہتر تجویز تو نہیں۔ جیسے تھرما میٹر کو بخار جانچنے والا آلہ کہنا عجیب سا لگے گا
ان کے لیے ہم نے یک خلوی جاندار پڑھا تھا۔ یعنی ۔ unicellular organism۔بھئی وہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں نا! خوردبین سے نظر آتے ہیں اس لیئے "خورد" حیات مطلب "زندگی"۔ وہی مائکرو آرگینزم والی بات ہو گئی۔
اور ٹیوب لائٹ کے لیے صراحی دار قندیل کیسا رہے گا؟؟ان کےلیے ۔۔۔ پیما۔۔۔ وغیرہ کا لاحقہ لگا نا چاہیے۔جیسا کہ بیرو میٹر کے لیے باد پیما۔حرارت پیما
وہ تو یونی سیلولر ہیں نا۔ان کے لیے ہم نے یک خلوی جاندار پڑھا تھا۔ یعنی ۔ unicellular organism۔
اور ڈائنمکس ۔کے لیے حرکیات اور تھرمو ڈائنمکس کے لیے حر حرکیات بھی مقبول ہے۔۔۔ڈائنامکس سے خیال آیا:
ڈائینمو ۔۔۔ لفظاً تو اس کا تعلق حرکت سے ہے کہ جب اس کو گھماتے ہیں تو وہ کرنٹ دیتا ہے۔ اس کے لئے ہمارے پاس بہت عمدہ لفظ ’’برق زا‘‘ موجود ہے۔
اور ہم اس کو ایک بائیسکل والی ڈائینمو دے لے کر کسی بڑے پاور ہاؤس کے بڑے جنریٹر کے لئے بھی بول سکتے ہیں۔
ٹیوب لائٹ صراحی سے مماثلت رکھتی ہے؟؟؟؟؟؟اور ٹیوب لائٹ کے لیے صراحی دار قندیل کیسا رہے گا؟؟
وہ شعروں میں صراحی نما گردن کا ذکر جو لوگ کرتے آئے ہیں ان کو کیا مماثلت نظر آتی تھی؟؟؟ٹیوب لائٹ صراحی سے مماثلت رکھتی ہے؟؟؟؟؟؟
نمبر ایک: سوال برائے سوال کی نہیں ہو رہی۔وہ شعروں میں صراحی نما گردن کا ذکر جو لوگ کرتے آئے ہیں ان کو کیا مماثلت نظر آتی تھی؟؟؟
لیکن استادِمحترم اپنے حصے کی سعی کرتے رہنا ہمارا مقصد ہے اب کب کہاں کیسے اور کس حد تک کامیابی ہوتی ہے یہ وقت فیصلہ کرے۔سید قاسم محمود مرحوم نے ایک بہت بڑا کام شروع کیا تھا: ’’انسائیکلوپیڈیا معلومات‘‘ نام تھا اس سلسلے کا؛ یہ ماہانہ قسط وار شائع ہوتا تھا۔ اردو زبان میں تیار ہونے والا یہ کام دنیا کی کسی بھی زبان کے مقابلے میں پورے اعتماد کے ساتھ رکھا جا سکتا تھا۔
ادھر ’’ آ‘‘ کی پٹی مکمل ہوئی، ادھر سید صاحب کا عرصہء حیات پورا ہو گیا۔ اس کے بعد کام ٹھپ!
میں اس کا باضابطہ خریدار تھا۔ میرے پاس جو پرچے آ چکے تھے، میں نے ان کو ایک جلد میں باندھا اور اپنی یونیورسٹی کی لائبریری کو دے دیا۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ سال بھر یا اس سے زیادہ عرصہ تک اس کا کہیں اندراج ہی نہیں ہوا، قارئین تک کیسے پہنچتا! وہ تو شکر ہے، ادھر ادھر نہیں ہو گیا۔ ایک دن اتفاق سے میں نے وہ مکمل جلد لائبریرین صاحب کے دفتر میں دیکھ لی، پتہ نہیں کتنے دنوں کی گرد اُس پر جم چکی تھی۔ میں نے اصرار کر کے اُس کا اندراج کرایا اور اس کے کوئی دس پندرہ دن بعد وہ مجھے قارئین والے ایک رَیک میں پڑا دکھائی دیا۔
ہمارے رویے ایسے ہوں گے تو پھر ہمارے ساتھ ہو گا بھی ایسا ہی۔
میں تو اب تک باز نہیں آیا، محترمی! اب تک جب کہ ہڈیاں چٹخنے لگی ہیں۔ اور یہ باتیں احباب تک پہنچانے کا مقصد یہ بھی ہے کہ کوئی تو ہو جو مری وحشتوں کا ساتھی ہو۔لیکن استادِمحترم اپنے حصے کی سعی کرتے رہنا ہمارا مقصد ہے اب کب کہاں کیسے اور کس حد تک کامیابی ہوتی ہے یہ وقت فیصلہ کرے۔