محمد یعقوب آسی
محفلین
’’کیوں‘‘ آخر کیوں ۔۔۔۔۔ بھئی!آخر کیوں بھئی؟
’’کیوں‘‘ آخر کیوں ۔۔۔۔۔ بھئی!آخر کیوں بھئی؟
میں دور نظارت پہ ایک طویل دورانیے کا تمثیل دیکھنے میں محو تھا کہ رواں دُور گفتن کی سطح منور ہوئی ، ربط کے اعداد تو نامانوس تھے مگر بلاوا موصول کرنے پر ادراک ہوا کہ دوسری طرف اپنا ہی دیرینہ دوست ہے
’’کیوں‘‘ آخر کیوں ۔۔۔ ۔۔ بھئی!
مجھے ایک بات سچ سچ بتائیں، کیا یہ وقعی غلط ہے کہ اپنی زبان کو انگریزی ملاؤٹ سے پاک کیا جائے؟
اسی لیئے تو پاکستان بننے کے اتنے عرصے بعد تک بھی "اگلے 15 سال تک انگریزی ملک کی قومی زبان رہے گی" والے 15 سال نہیں ختم ہوئے۔
میرے سر نے کہا سیمنار انگریزی میں دینا ہو گا۔
میں نے کہا سر زبان کی قید نہیں رکھی جاسکتی، اردو قومی زبان ہے، آپ نمبر کاٹ لیں میں اردو میں ہی بولوں گی (اصطلاحات کے علاوہ)۔
سر نے کچھ نہیں کہا۔
اب مجھے بتا دیں کیا میں واقعی محض ایک مسئلہ پال رہی ہوں؟
مجھے ایک بات سچ سچ بتائیں، کیا یہ وقعی غلط ہے کہ اپنی زبان کو انگریزی ملاؤٹ سے پاک کیا جائے؟
اسی لیئے تو پاکستان بننے کے اتنے عرصے بعد تک بھی "اگلے 15 سال تک انگریزی ملک کی قومی زبان رہے گی" والے 15 سال نہیں ختم ہوئے۔
میرے سر نے کہا سیمنار انگریزی میں دینا ہو گا۔
میں نے کہا سر زبان کی قید نہیں رکھی جاسکتی، اردو قومی زبان ہے، آپ نمبر کاٹ لیں میں اردو میں ہی بولوں گی (اصطلاحات کے علاوہ)۔
سر نے کچھ نہیں کہا۔
اب مجھے بتا دیں کیا میں واقعی محض ایک مسئلہ پال رہی ہوں؟
ہمارا خیال ہے کہ تکنیکی نوعیت کے مضامین میں بھی اس بات کی پوری پوری گنجائش موجود ہونی چاہیے کہ مباحثہ، وضاحت اور تدریس کی زبان علاقائی رکھی جائے بس اصطلاحات وہ برتے جائیں جو مقبول عام ہوں یا عالمی سطح پر جانے جاتے ہوں۔ اس بات کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ضروری ہے کہ بول چال کے لیے انگریزی زبان میں علیحدہ سے مہارت حاصل کی جائے تا کہ میدان عمل میں آ کر اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنے میں مشکل نہ ہو۔مجھے ایک بات سچ سچ بتائیں، کیا یہ وقعی غلط ہے کہ اپنی زبان کو انگریزی ملاؤٹ سے پاک کیا جائے؟
اسی لیئے تو پاکستان بننے کے اتنے عرصے بعد تک بھی "اگلے 15 سال تک انگریزی ملک کی قومی زبان رہے گی" والے 15 سال نہیں ختم ہوئے۔
میرے سر نے کہا سیمنار انگریزی میں دینا ہو گا۔
میں نے کہا سر زبان کی قید نہیں رکھی جاسکتی، اردو قومی زبان ہے، آپ نمبر کاٹ لیں میں اردو میں ہی بولوں گی (اصطلاحات کے علاوہ)۔
سر نے کچھ نہیں کہا۔
اب مجھے بتا دیں کیا میں واقعی محض ایک مسئلہ پال رہی ہوں؟
میں سنجیدہ ہو کر پوچھ رہی ہوں، کہہ سکتے ہیں صلاح مانگ رہی ہوں۔اچھے سوالات ہیں جن کا بدقسمتی سے کوئی جواب نہیں ہے۔
سیاسی بیان!!!!ہمارا خیال ہے کہ تکنیکی نوعیت کے مضامین میں بھی اس بات کی پوری پوری گنجائش موجود ہونی چاہیے کہ مباحثہ، وضاحت اور تدریس کی زبان علاقائی رکھی جائے بس اصطلاحات وہ برتے جائیں جو مقبول عام ہوں یا عالمی سطح پر جانے جاتے ہوں۔ اس بات کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ضروری ہے کہ بول چال کے لیے انگریزی زبان میں علیحدہ سے مہارت حاصل کی جائے تا کہ میدان عمل میں آ کر اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنے میں مشکل نہ ہو۔
میں سنجیدہ ہو کر پوچھ رہی ہوں، کہہ سکتے ہیں صلاح مانگ رہی ہوں۔
صرف یہ چاہتی تھی کہ اپنے حصے کی کوشش کر کے جاؤں، پر شاید یہ مشکل ترین عمل ہے، میرے پاپا ہی صحیح کہتے ہیں کہ "یہاں کچھ نہیں ہوسکتا"۔۔۔
بالکل یہی میرا نقتہ نظر ہےپاپا اس لئے کہتے ہیں کہ انہوں نے کوشش کر کے دیکھ لیا ہو گا لیکن آپ اپنی کوشش جاری رکھو۔ کچھ نہ کچھ تبدیلی تو آ ہی جائے گی۔
مجھے ایک بات سچ سچ بتائیں، کیا یہ وقعی غلط ہے کہ اپنی زبان کو انگریزی ملاؤٹ سے پاک کیا جائے؟
اسی لیئے تو پاکستان بننے کے اتنے عرصے بعد تک بھی "اگلے 15 سال تک انگریزی ملک کی قومی زبان رہے گی" والے 15 سال نہیں ختم ہوئے۔
میرے سر نے کہا سیمنار انگریزی میں دینا ہو گا۔
میں نے کہا سر زبان کی قید نہیں رکھی جاسکتی، اردو قومی زبان ہے، آپ نمبر کاٹ لیں میں اردو میں ہی بولوں گی (اصطلاحات کے علاوہ)۔
سر نے کچھ نہیں کہا۔
اب مجھے بتا دیں کیا میں واقعی محض ایک مسئلہ پال رہی ہوں؟
جن اشیاء کا ذکر ہؤا ہے یہ جب آئی تھیں تو ان کا یہی نام تھا‘ اب آپ لفظ ”موبائل فون“ کو ہی لے لیں جب سے یہ آیا ہے اسکا یہی نام ہے اس کا ترجمہ کر نے سے کیا حاصل ؟ ہم اردو کو انگریزی کی مدد کے بغیر بول نہیں سکتے ” ہمیں بہت سی پرابلمز فیس کرنا پڑتی ہیں“ تو ایسی کیا مجبوری ہے کہ اس طرح کے انگریزی الفاظ اردو جو پہلے ہی ایک ”لشکری زبان “ ہے‘ میں نہ سمو ئے جائیں۔پیچیدگی کی کیا بات؟
جب انگریزی استعمال شروع ہوا ہو گا تب کیا مشکل نہ آئی ہو گی؟
اور شعر کا مطلب بھی بتا دیں
۔۔۔آپ کے جذبات اور اردو سے آپ کا اُنس یقیناً قابلَ قدر ہیں، لیکن ۔۔۔
زبان کی ترویج کے لئے میری یا آپ کی انفرادی کوششیں محسوساتی سطح پر کچھ نہ کچھ اثر رکھتی ضرور ہیں، مگر عملی اطلاق کا حکم نہیں رکھتیں۔ بہت سارے کام سرکار کے کرنے کے ہوتے ہیں۔ ایک بہت پرانی مگر تکلیف دہ بات یاد آ گئی۔ میں ان دنوں ایک کالج میں پرنسپل صاحب کا پی اے تھا۔ صدرِ پاکستان کے وفتر سے ایک حکم نامہ جاری ہوا کہ آج سے تمام سرکاری خط وکتابت اردو میں ہو گی۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ وہ حکم نامہ انگریزی میں ٹائپ کیا ہوا تھا۔
چلئے ، ایک لطیفہ بھی سن لیجئے:
’’مِس! وہ جو انگلش والی میڈم ہیں وہ انگلش میں بات کرتی ہیں، اور اردو والی مس اردو میں۔ آپ میتھ میں بات کیا کریں نا‘‘
’’زیادہ تین پانچ مت کرو اور یہاں سے نو دو گیارہ ہو جاؤ‘‘
معاملات بہت دکھ دینے والے رہے ہیں، بی بی! ہم پینسٹھ برس میں ایک قوم نہیں بن پائے! ایک ملت کی بات تو پتہ نہیں کوئی سمجھتا بھی ہے یا نہیں سمجھتا۔
مایوس نہیں ہونا ۔ اپنا کام جاری رکھئے، ظاہری سطح پر کچھ بھی اثر دکھائی نہ دے، اندر ہی اندر بہت سے ذہن آپ کی بات قبول کر رہے ہوں گے۔ اس کے اثرات ہو سکتا ہے آپ عمر بھر نہ دیکھ سکیں، لیکن ہوں گے ضرور!بالکل یہی میرا نکتہ نظر ہے
جانے کیوں بٹیا کو سیاسی بیان لگا، جبکہ ہم نے اپنے خیال سے میانہ روی اختیار کرتے ہوئے وہ بات کہی ہے جو ہمیں درست لگتی ہے۔سیاسی بیان!!!!
لشکری زبان کہیں اور سب قابلِ قبول۔جن اشیاء کا ذکر ہؤا ہے یہ جب آئی تھیں تو ان کا یہی نام تھا‘ اب آپ لفظ ”موبائل فون“ کو ہی لے لیں جب سے یہ آیا ہے اسکا یہی نام ہے اس کا ترجمہ کر نے سے کیا حاصل ؟ ہم اردو کو انگریزی کی مدد کے بغیر بول نہیں سکتے ” ہمیں بہت سی پرابلمز فیس کرنا پڑتی ہیں“ تو ایسی کیا مجبوری ہے کہ اس طرح کے انگریزی الفاظ اردو جو پہلے ہی ایک ”لشکری زبان “ ہے‘ میں سمو لئے جائیں۔
شعر کے پس منظر میں ایک (شائد فرضی) قصہ ہے۔ ایک دیہاتی عورت کا اکلوتابیٹا شہر میں پڑھنے کےلئے گیا‘ ان دنوں درس گاہوں میں فارسی کا چلن عام تھا۔ لڑکے کی عام گفتگو میں آہستہ آہستہ فارسی کے بہت سے الفاظ عادتاً شامل ہو گئے۔(جیسے آجکل انگریزی کے ہیں) ۔ لڑکا چھٹی کے دوران گھر گیا۔ پیاس لگی‘ ماں سے پانی مانگنا تھا ”آب‘ آب“ کہنے لگا۔ ماں کو سمجھ نہیں آئی بیچارہ یہی الفاظ کہتا کہتا دم توڑ گیا۔ بعد میں اسے کسی نے آب کا مطلب سمجھایا تو ماں کی زبان سے یہ شعر سرزد ہؤا:
آب آب کر موئیوں بچڑا
اینہاں فارسیاں گھر گالے
(بیٹے تم آب آب کہتے مر گئے۔ اس فارسی زبان نے اسی طرح کئی گھر تباہ کئے ہیں )
۔۔۔ ماحول خاصا سنجیدہ بلکہ رنجیدہ ہو رہا ہے‘ چھوڑیں یہ بتائیں jugاور glass کو کیا کہیں گے ؟!
ہمارا خیال ہے کہ تکنیکی نوعیت کے مضامین میں بھی اس بات کی پوری پوری گنجائش موجود ہونی چاہیے کہ مباحثہ، وضاحت اور تدریس کی زبان علاقائی رکھی جائے بس اصطلاحات وہ برتے جائیں جو مقبول عام ہوں یا عالمی سطح پر جانے جاتے ہوں۔ اس بات کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ضروری ہے کہ بول چال کے لیے انگریزی زبان میں علیحدہ سے مہارت حاصل کی جائے تا کہ میدان عمل میں آ کر اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنے میں مشکل نہ ہو۔
اگر ہم اپنی توقعات کو معیاری سطح سے نیچے لا کر دیکھیں تو پائیں گے کہ کئی مقامات پر دانستہ یا غیر دانستہ طور پر کم و بیش ویسا ہی ہوتا ہے جیسا ہم نے بیان کیا۔معاملات اتنے آسان نہیں رہے محترمی! اور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ہم مزید بہت کچھ کھو رہے ہیں۔ حقائق بہت تلخ ہیں اور آپ کی ان تجاویز کو جو ادارے عملی جامہ پہنا سکتے ہیں وہ ’’کچھ اور ہی‘‘ کر رہے ہیں، اور ’’کچھ اور ہی‘‘ کرتے رہیں گے۔