خلیل جبران تو یہ کہتے ہیں کہ دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک کام اپنا تعارف کرانا ہے!!!!!!!!
منیر نیازی صاحب یہ شعر ہماری زندگی کی عکاسی کرتا ہے
چاہتا ہوں میں منیرؔ اس عمر کے انجام پر
ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ
ہو
!!!!!!@جاسمن بٹیا کہہ رہی تو کچھ ٹوٹا کچھ ادھورا سا لکھنے کی کوشش کرتے !!!!! پر آج دل چاہ رہا ہے کہ بتائیں کے ہم تو آپ سب کو اپنے خاندان کا حصہ سمجھنے لگے ہیں ! اُردو محفل ہمارے گھر کا ایک لازمی حصہ بن گئی ہے بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ اُردو محفل اور ہم لازم و ملزوم یا ہم نے اُردو محفل اپنا اُوڑھنا بچھونا بنا لیا اب جب کہ نہ ہم نئے ہیں اُردو محفل کے لئیے نہ اُردو محفل ہمارے لئیے!!!!اکثر سوچتے ہیں کہ کہ اتنی دیر کیوں ہوئی یہاں آنے میں اور اُردو محفل کے نورتن بالکل اکبرِ اعظم کے نو رتن کی طرح ہیں جیسے وہ ہر ایک اپنی جگہ باکمال تھا !!!بالکل اسی طرح ہماری اُردو محفل کے باکمال نورتن ہیں !!
نو جواہر یعنی نو صاحبِ کمال :
ان سب سے پہلے ہمارے پہلے ہمارے اُستادِ محترم
پہلا، محمد خلیل الرحمٰن ہمارے اچھے بھیا۔
دوسرا۔ چرچلِ ثانی ہفت ہزاری
تیسرا۔ ظہیراحمدظہیر ملک الشعرا
چوتھا سید عاطف علی ہمارے بہت ہی پیارے بھیا!
پانچواں فاخر رضا
چھٹا۔ شمشاد صدر دیوان
ساتواں! محمد عدنان اکبری نقیبی بھیا سہ ہزاری
آٹھواں نیرنگ خیال ابولفضل۔
!نواں اور آخری، زیک پنج ہزاری
یہ تو ہوئی جناب نو عقلمند آدمیوں کی انجمن ۔۔۔۔اس کا قعطناً یہ مطلب نہیں کہ جن کا نام نورتن میں شامل نہں وہ عقلمند نہیں ہر نگینہ اپنی جگہ نادر و نایاب خوبیوں کے ساتھ اُردو محفل میں جڑُا ہو ا ہیے اور ہم اس سے پہلے بھی کئی جگہ تھوڑا تھوڑا اپنے بارے میں بتا چکے ہیں !بالکل مینگو بندے ہیں سو آپ سب ہمیں جانتے ہیں !ہم ہیں اور آپ ہیں اب جیسے ہیں یہی
سیما علی ہیں قبول کیجے ۔@جاسمن بٹیا بتائیں گی
نور وجدان ماہی احمد بٹیا بتائں گی آنی کیسی ہیں
گُلِ یاسمیں بٹیا
جاسم محمد محمد تابش صدیقی میاں
اکمل زیدی بھیا بتائیں گے
محمد وارث میاں بھی تھوڑا تھوڑا ہمیں جانتے ہیں !!
بہت پرانا قصہ ہے جب ابھی موبائل فون، لیپ ٹاپ حتیٰ کہ کیلکولیٹر بھی ایجاد نہ ہوئے تھے۔ دہلی سے نیویارک کیلئے جہاز فضا میں بلند ہوا تو حسب روایت مسافروں نے حفاظتی بیلٹ کھول لیے۔ کچھ مسافر اخبارات و رسائل کے مطالعہ میں محو ہو گئے کچھ آپس میں گپ شپ کرنے لگے۔ جہاز کی کلب کلاس میں ساتھ ساتھ بیٹھے دو مسافروں میں سے ایک نے اپنا بریف کیس کھولا، فائلیں نکالیں اور ان میں محو ہو گیا اور اس نے سر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا کہ اس کے پہلو میں کون بیٹھا ہوا ہے۔ ادھر دوسرا مسافر اخبارات پڑھتے اور بار بار ان کی ورق گردانی سے عاجز آ چکا تھا اور فطری خواہش کے تحت اپنے ہمسائے مسافر سے گفتگو کا متمنی تھا۔ اس کا مسئلہ یہ بھی تھا کہ وہ اس خطہ کا ایک مقبول، معروف اور مشہور آدمی تھا، جسے ہنوز ساتھی مسافر نے آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا تھا کہ اس کے پہلو بہ پہلو کون نامی گرامی شخصیت موجود ہے۔ بہرطور اس نامی گرامی اور مشہور و معروف شخص نے موقع ملتے ہی اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے مسافر سے گفتگو کا آغاز کر دیا۔ یہ معروف شخصیت انڈین فلم انڈسٹری کے سپرسٹار دلیپ کمار تھے مگرمدمقابل شخصیت بالکل سپاٹ چہرے اور کسی تاثر کے بغیر یہ پوچھ رہی تھی کہ آپ کیا کرتے ہیں؟ دلیپ کمار سے یہ پوچھنا کہ آپ کیا کرتے ہیں، بجائے خود ان کی توہین کے مترادف تھا مگر دلیپ اسے برداشت کر گئے اور کہا میں پرفارمنگ آرٹ سے وابستہ ہوں۔ پھر سوال ہوا ’’کیا تصویریں وغیرہ بناتے ہیں‘‘۔ دلیپ صاحب نے جواب دیا نہیں، میں فلموں میں کام کرتا ہوں۔ فلم میں تو یقیناً کئی شعبے ہوتے ہیں، آپ کس شعبہ سے وابستہ ہیں، دلیپ سے پوچھا؟ اس پر انہوں نے بتایا کہ میں ایکٹر ہوں، میں دلیپ کمار ہوں۔ اس پر سوال پوچھنے والی شخصیت نے کہا، میں ٹاٹا ہوں، فلمیں نہیں دیکھتا۔ دراصل میرے پاس ان فروعات کیلئے وقت ہی نہیں ہوتا۔بعض احباب کا یہ کہنا ہے کہ ٹاٹا جیسے بڑے کامیاب صنعتکار سے منسوب یہ واقعہ من گھڑت ہے اور اتنے بڑے کاروباری شخص کیلئے ممکن ہی نہیں کہ وہ دلیپ کمار جیسی شخصیت سے متعارف نہ ہو جبکہ ایک دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ ٹاٹا اس خطے کا سب سے بڑا صنعتکار تھا ہی اس لیے کہ وہ فلموں جیسی فروعات اور دیگر معاملات سے دور رہا۔ بہرحال اگر یہ واقعہ سچ ہے تو پھر یہ بات سپرسٹار دلیپ کمار ہی بتا سکتے ہیں کہ پہچاننے سے انکار پر ان پر کیا گزری ہو گی؟
تو ہم ایک عام پاکستانی ہیں اور سونے پہ سہاگہ ریٹائیریڈ ہیں تو اور بھی ادنیٰ
نہ میں عربی نہ لاہوری
نہ میں ہندی شہر نگوری
نہ ہندو نہ ترک پشوری
نہ میں رہندا وچ ندون
بلھا کیہ جاناں میں کون