واہ بھائی,واہراتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دم
امید ان کی میرا ٹوٹا ہوا دیا ہو
اقبالؒ
حبیب جالب کی یہ نظم پڑھ کے فیض کی نظم "و یبقیٰ وجہ ربک( ہم دیکھیں گے)" یاد آتی ہے۔شہرِ ظلمات کو ثبات نہیں
اے نظامِ کہن کے فرزندو!
اے شبِ تار کے جگر بندو!
یہ شبِ تار جاوداں تو نہیں،
یہ شبِ تار جانے والی ہے،
تا بکے تیرگی کے افسانے،
صبحِ نو مسکرانے والی ہے،
اے شبِ تار کے جگر گوشو!
اے سحر دشمنو، ستم کوشو!
صبح کا آفتاب چمکے گا،
ٹوٹ جائے گا جہل کا جادو،
پھیل جائے گی ان دیاروں میں،
علم و دانش کی روشنی ہر سو،
اے شبِ تار کے نگہبانو!
شمعِ عہدِزیاں کے پروانو!
شہرِ ظلمات کے ثناء خوانو!
شہرِ ظلمات کو ثبات نہیں،
اور کچھ دیر صبح پر ہنس لو،
اور کچھ دیر۔۔۔۔۔۔ کوئی بات نہیں!!