آپ ﷺ کی شان میں اشعار

سیما علی

لائبریرین
شہدا ء بدر کی یاد میں کہی گئی اس دلسوز نظم میں حضرت حسان رضی اللہ عنہ میدانِ جہاد کی خوفناک فضا میں صحابہ کرام ک رضی اللہ عنہم کے جذبۂ وفا کی تصویر کشی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
تذکرت عصرًا قد مضی فتھافت
بنات الحشا وانھل منی المدامع
صبابۃ وجدٍ ذکر تنی احبۃ
قتلی مضوا فیھم نضیع ورافع
وفوا یوم بدرٍ للرسول وفوقھم
ضلال المنایا والسبوف اللوامع
(دیوانِ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ص ۱۹۷)

’’ مجھے ماضی یاد آیا تو میرا دل غمگین اور آنکھیں اشک بار ہوگئیں۔ یہ بے چینی میرے ان دوستوں کی یاد میں ہے جو (غزوہ بدر میں) شہید ہوگئے، جن میں (میرے قریبی ساتھی) نضیع اور رافع بھی تھے۔جب ان پر موت کے سائے منڈلارہے تھے اور چمکتی تلواریں ٹوٹ رہی تھیں، انہوں نے اس وقت بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھر پور وفاداری کی‘‘
 

یاسر شاہ

محفلین
وغدوا علینا قادرین بأیدیھم
ردّوا بغیضھم علی الاعقاب
بھبوب معصفۃ تفرق جمعھم
وجنودربک سید الارباب
وکفی الا لہ المومنین قتالھم
واثابھم فی الاجر خیر ثواب
(دیوانِ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ص ۶۶)
’’یہ لشکر پوری قوت کے ساتھ ہم پر چڑھ دوڑا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے تیز آندھیوں اور فرشتوں کے ذریعے ان کو الٹے پائوں بھاگنے پر مجبور کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے مومنین کو لڑے بغیر کامیابی دی اور بہترین ثواب بھی عطا فرمایا‘‘۔

ذکرِ رسول میں حضورﷺ اس صفت کو حضرت حسان رضی اللہ عنہ تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیے۔
بدل علی الرحمن من یقتدی بہ
وینقذ من ھول الخزایا ویرشد
’جو شخص بھی آپ کی اقتداء کرتا ہے آپ اسے اللہ تعالیٰ کا راستہ دکھاتے ہیں۔ اسے رسوائی کی مصیبت سے نجات دلواتے اور صحیح راہ نمائی فرماتے۔‘‘

ایک اور قصیدہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی لگن کو نمایاں کرتے ہیں۔
ثوی فی قریش بضع عشرۃ حجۃ
یذکر لویلقی صدیقا مئواتیا
ویعرض فی اھل المواسم نفسہ
فلم یر من یؤوی ولم یر داعیا
(دیوانِ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ص ۷۷)
’’حضور قریش کے درمیان دس سال سے زائد عرصہ اس کیفیت میں رہے کہ جو بھی دوست یا ہمدرد ملتا اسے دعوت دیتے۔آپ حج کے ایام میں مختلف قبائل کے پاس جاتے اور ان سے اسلام کی حمایت کی بات کرتے لیکن وہاں ا نہیں کوئی پناہ دینے والا یا ان کی دعوت کو آگے پہنچانے والا نہ ملا۔ ‘‘
واہ۔ ماشاء اللّٰہ ۔کتنا فرق ہے نہ صرف اصحاب اور ہماری طرز فکر میں بلکہ عربی شاعری اور عجمی شاعری میں کہ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی مدحت میں بھی ان کے مشن اور ان کے کاموں کو ہائلائٹ کیا جا رہا ہےتاکہ عشاق کو بھی ان کی نہج پہ کام کرنا نصیب ہو۔سبحان اللہ۔اور ہمارے ہاں سارا زور یادوں اور یادگارو ں کی چوما چاٹی پر ہے گو فائدے سے خالی نہیں مگر محض اسی پہ بس نہ ہو۔
جزاک اللہ خیر خالہ۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
اللہ۔اور ہمارے ہاں سارا زور یادوں اور یادگارو ں کی چوما چاٹی پر ہے گو فائدے سے خالی نہیں مگر محض اسی پہ بس نہ ہو۔
جزاک اللہ خیر خالہ۔
جیتے رہیے شاد و آباد رہیے ۔۔۔۔اور صاد کرتے ہیں آپکی بات کو کیونکہ اگر ہم نصیحت نہیں لیتے اور محض ظاہری عقیدت دکھانے پر یقین رکھتے ہیں تو منافیقین میں شمار ہونگے۔۔۔۔پروردگار ہمیں بچا لے ان میں شمار ہونے سے آمین ۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

هَجَوْتَ مُحَمَّدًا فَأجَبْتُ عَنْهُ وَعِنْدَ اللهِ فِيْ ذَاكَ الْجَزَآء
هَجَوْتَ مُحَمَّدًا بَرًّا تَقِيًّا رَسُوْلَ اللهِ شِمْحَتُهُ الْوَفَآء
فَإِنَّ أَبِيْ وَوَالِدَتِيْ وَعِرْضِيْ لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِّنْكُمْ وِقَآء

ترجمہ:تو نے محمد ﷺكی برائی بيان کی میں نے اس کا جواب دیا اور اس کا بدلہ اللہ کے پاس ہے۔تو نے محمد ﷺکی برائی بیان کی جو نیک اور متقی ہیں (وہ) اللہ کے رسول ہیں، ایفاے عہد آپ کی عادت و فطرت ہے۔میرے والدین اور میری آبرو محمدی وقار کے تحفظ کے لیے قربان ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام انبیاء میں بزرگی اور شان ختم نبوت کے حوالہ سے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے یہ ابیات ارشاد فرمائے:

شهدت باذن الله ان محمداً
رسول الذی فوق السماوات من عل

’’میں اللہ تعالیٰ کے اذن سے گواہی دیتا ہوں کہ محمد مصطفی اللہ تعالیٰ کے ایسے برگزیدہ رسول ہیں کہ جن کا مقام و مرتبہ آسمانوں سے بھی بلند ہے‘‘۔
 

سیما علی

لائبریرین
حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
وان ابا يحيیٰ ويحيیٰ کلاهما
له عمل فی دينه متقبل

وان اخا الاحقاف اذا قام فيهم
يقول بذات الله فيهم ويعدل

’’اور بلاشبہ ابو یحییٰ (یعنی حضرت زکریا علیہ السلام) اور حضرت یحییٰ علیہ السلام دونوں اپنے دین میں قبول کئے گئے ہیں۔ اور جب حضرت ہود علیہ السلام اپنی قوم میں کھڑے ہوئے تو فرماتے ہیں: اللہ کی قسم وہ (نبی آخرالزماں) ان میں ہی ہیں‘‘۔
 

سیما علی

لائبریرین

حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ​

حضرت کعب رضی اللہ عنہ اسلام کے عظیم شاعر تھے جن کی شاعری میں وہ تاثیر تھی کہ تلوار سے زیادہ سخت اور تیروں سے زیادہ مضبوط تھی۔ کتب تاریخ و سیر میں آپ رضی اللہ عنہ کی شاعری سے اسلام کو جو تقویت ملی اس کے تذکرے ملتے ہیں۔

حضرت ابن سیرین فرماتے ہیں مجھے بتایا گیا کہ قبیلہ دوس حضرت کعب رضی اللہ عنہ کے ان اشعار کی وجہ سے اسلام لے آیا:

قضينا من تهامة کل ريب
وخيبر تم اجمعنا السيوفا

نخيرها ولو نطقت لقالت
قواطعهن دوسااو ثقيفا

’’ہم نے تہامہ اور خیبر سے ہر شک کو دور کردیا، پھر ہم نے تلواریں جمع کیں۔ ہم نے تلواروں کو اختیار دیا اگر وہ بول سکتیں تو بلاشبہ یہ کہتیں کہ ان کی کاٹ قبیلہ دوس اور قبیلہ ثقیف ہیں۔

ان اشعار کے بارے راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، یہ اشعار ان کفار پر تیروں کے اثر انداز ہونے سے بھی زیادہ اثر رکھتے ہیں۔

  • ایک دفعہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے شعر کہنے کی اجازت طلب کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تو وہی ہے جس نے ھمت والا شعر کہا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے عرض کی: جی ہاں! وہ شعر یہ ہے:
همت سخينة ان تغالب ربها
فليغلبن مغالب الغلاب

’’قبیلہ سخینہ نے ارادہ کیا کہ وہ اپنے مربی پر غلبہ پالیں، پس چاہئے کہ بہت زیادہ غلبہ پانے والا شخص ہر مغلوب جگہ پر غالب آجائے‘‘۔
 

سیما علی

لائبریرین

حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ​

حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ عظیم صحابی تھے جو کفار پر کفر کا عیب لگاکر اشعار کہتے تھے اور انہیں کفر کے ساتھ منسوب کرتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کے ہاں کفر سے بڑھ کر کوئی چیز بری نہ تھی۔ علاوہ ازیں حضرت عبداللہ بن رواحہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن وجمال کو بہت ہی خوبصورت انداز میں یوں بیان کیا ہے:

فثبت الله ما اعطاک من حسن
تثبيت موسیٰ و نصرا مثل ما نصروا

’’پس اللہ رب العزت نے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حسن و جمال عطا کیا ہے وہ اسے ایسے سلامت رکھے جیسے اس نے حضرت موسیٰ کے حسن کو سلامت رکھا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد فرمائے جسے اس نے ان کی مدد فرمائی‘‘۔
 

سیما علی

لائبریرین

حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ عنہ​

قبول اسلام سے قبل حضرت کعب بن زہیر سے بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بے ادبی سرزد ہوئی، جب اس کی خبر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے کعب کے سر کی قیمت مقرر کردی۔ بعد ازاں کعب کو اس صورتحال کا علم ہوا تو تائب ہوکر بارگاہ میں حاضر خدمت ہوکر یوں معافی طلب کی۔

انبئت ان رسول الله او عدنی
والعفو عند رسول الله مامول

مهلا هداک الذی اعطاک ناقلة انی
قرآن فيها مواعيظ وتفصيل

’’مجھے خبر ملی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے سزا کا مستحق قرار دیا ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ہی معافی کی امید کی جاتی ہے۔ ٹھہریئے (میرے ساتھ نرمی برتیں) اس ذات کے واسطے جس نے آپ کو قرآن کا تحفہ دیا ہے جو نصائح اور تفصیل پر مشتمل ہے‘‘۔
 

سیما علی

لائبریرین

حضرت امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ​

حضرت امام بوصیری نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح سرائی کیلئے ایک پُروقار اورعظیم ادبی اسلوب کو اپنایا ہے۔ جس میں انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاقِ حمیدہ، خصائلِ شریفہ، شمائلِ مبارکہ اور خصائصِ عظیمہ کو نعتیہ پیرائے میں پیش کرنے کے علاوہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولات ِجمیلہ اور عادات ِمبارکہ کو بھی صفحہ قرطاس کے سینے میں شعروں کی لڑیوں کی صورت میں فنی و ادبی اسالیب میں پرویا ہے۔ ان عظیم تعبیرات سے آپ کی علمی ثقاہت اور ادبی نظم کی جھلکیاں تابندہ و روشن ستاروں کی مانند پے در پے قاری کے نصیب میں آتی ہیں۔ ذیل میں قصیدہ بردہ شریف سے کچھ اشعار :

ابان مولده عن طيب عنصره
ياطيب مبتدا منه ومختتم

’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت نے آپ کے جسد اقدس کی پاکی واضح کردی ہے۔ سبحان اللہ ہر پاکی کی ابتدا اور انتہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود مسعود سے ہوتی ہے‘‘۔
 

سیما علی

لائبریرین
مُحَمَّدٌّ سَيِّدُ الْکَوْنَيْنِ وَالثَّقَلَيْنِ
وَالْفَرِيْقَيْنِ مِنْ عُرْبٍ ومِنْ عَجَمِ

’’آقا و مولیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں جہانوں اور جن و انس کے سردار ہیں۔ اور عرب وعجم کے دونوں گروہوں کے آقاومولیٰ ہیں۔‘‘

تاجدار ِکون و مکان کی شان حدود و قیودسے بالا تر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا میں بھی تمام مخلوقات کے سردار ہیں اور آخرت میں بھی سب کے آقا و مولیٰ ہونگے۔ جنات بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کے دائرہ کار میں ہیں اور انسان بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تابع فرمان ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیادت کو محدود نہیں رکھا۔ بلکہ جغرافیائی حدود سے نکال کر خطہ عرب میں بسنے والے عرب باسیوں اور عجم میں رہنے والے لوگوں کو سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سرداری کے ماتحت کردیا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
رہی عمر بھر جو انیسِ جاں وہ بس آرزوئے نبی ﷺ رہی
کبھی اشک بن کے رواں ہوئی کبھی درد بن کے دبی رہی

شہِ دِیں کے فکرونگاہ سے مٹے نسل و رنگ کے تفرقے
نہ رہا تفاخُرِ منصبی نہ رعونتِ نسبی رہی

تھی ہزار تیرگئِ فتن نہ بھٹک سکا مرا فکر وفن
مری کائناتِ خیال پر نظرِ شہِ عربی ﷺ رہی

وہ صفا کا مہرِ منیر ہے طلب اُس کی نُورِ ضمیر ہے
یہی رُوزگارِ فقیر ہے یہی التجائے شبی رہی

حفیظ تائب
 

سیما علی

لائبریرین

جنہوں نے روشنی پائی مِرے پیمبرؐ ﷺسےسدا چمکتے رہے مہر و ماہ و اختر سے


چلے جو آپؐ ﷺکے ہمراہ پا گئے منزل
نہیں چلے تو جھگڑتے رہے مقدر سے

وگرنہ مجھ کو تہی دامنی ہی زیبا ہے
کہ چاہیے مجھے خیرات ایک ہی در سے

وہ آنکھ جس کا کہ سرمہ ہو خاکِ راہِ رسولؐﷺ
وہ ہو سکے گی نہ خیرہ زر و جواہر سے

نبیؐ ﷺ کی مدح سرائی وہ قرض ہے باصرِؔ
ادا ہوا نہ کبھی جو کسی سخن ور سے
باصر کاظمی
 

سیما علی

لائبریرین
شہرِ نبیﷺ کے سامنے آہستہ بولیے
دھیرے سے بات کیجیے، آہستہ بولیے

اُن کی گلی میں دیکھ کر رکھیے ذرا قدم
خود کو بہت سنبھالیے، آہستہ بولیے

ان سے کبھی نہ کیجیے اپنی صدا بلند
پیشِ نبیﷺ جو آیئے، آہستہ بولیے

شہرِ نبیﷺ ہے شہرِ ادب کان دھر کے دیکھ
کہتے ہیں اس کے راستے، آہستہ بولیے

ہر اک سے کیجیے گا یہاں مسکرا کے بات
جس سے بھی بات کیجیے، آہستہ بولیے

آداب یہ ہی بزمِ شہِ دو جہاں کے ہیں
سر کو جھکا کے آئیے، آہستہ بولیے

امجدؔ وہ جان لیتے ہیں سائل کے دل کی بات
پھر بھی جو دل مچل اُٹھے، آہستہ بولیے
امجد اسلام امجد
 

سیما علی

لائبریرین
پورے قد سے جو کھڑا ہوں تو یہ تیرا ہے کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا

تجھ سے پہلے کا جو ماضی تھا ہزاروں کا سہی
اب جو تا حشر کا فردا ہے وہ تنہا تیرا

ایک بار اور بھی طیبہ سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ہے مسجد اقصیٰ تیرا
احمد ندیم قاسمی
 
Top