نہ پوچھو کہ کیا ہیں مدینے کی گلیاں
کسے کیا پتا ہیں مدینے کی گلیاں
ہر اک ذرے پر ماہ و انجم تصدق
بڑی پر ضیا ہیں مدینے کی گلیاں
وہاں کا ہر اک ذرہ مشکل کشا ہے
مرا آسرا ہیں مدینے کی گلیاں
حقیقت نہ پوچھو حقیقت تو یہ ہے
حقیقت نما ہیں مدینے کی گلیاں
جبیں میری جھک جھک کے یہ کہہ رہی ہے
مرا مدعا ہیں مدینے کی گلیاں
نگاہیں ہیں بیتاب دید مدینہ
نظر کی دوا ہیں مدینے کی گلیاں
یہ بیمار ہجر نبی کو بتا دو
کہ دار الشفا ہیں مدینے کی گلیاں
چلو ساز و ساماں کی حاجت نہیں ہے
اگر دیکھنا ہیں مدینے کی گلیاں
میں بہزادؔ وہ بندگی کر رہا ہوں
کہ جن کا صلہ ہیں مدینے کی گلیاں