آپ ﷺ کی شان میں اشعار

سیما علی

لائبریرین
ڈوبتی جاتی ہیں نبضیں اور نظر بے نور ہے
اک مسافر ہے حرم کا جو تھکن سے چُور ہے

چند سانسیں اور باقی ہیں، ذرا جلدی کرو
قافلے والو!مدینہ اور کتنی دور ہے
 

سیما علی

لائبریرین
نہ پوچھو کہ کیا ہیں مدینے کی گلیاں
کسے کیا پتا ہیں مدینے کی گلیاں

ہر اک ذرے پر ماہ و انجم تصدق
بڑی پر‌ ضیا ہیں مدینے کی گلیاں

وہاں کا ہر اک ذرہ مشکل کشا ہے
مرا آسرا ہیں مدینے کی گلیاں

حقیقت نہ پوچھو حقیقت تو یہ ہے
حقیقت نما ہیں مدینے کی گلیاں

جبیں میری جھک جھک کے یہ کہہ رہی ہے
مرا مدعا ہیں مدینے کی گلیاں

نگاہیں ہیں بیتاب دید مدینہ
نظر کی دوا ہیں مدینے کی گلیاں

یہ بیمار ہجر نبی کو بتا دو
کہ دار الشفا ہیں مدینے کی گلیاں

چلو ساز و ساماں کی حاجت نہیں ہے
اگر دیکھنا ہیں مدینے کی گلیاں

میں بہزادؔ وہ بندگی کر رہا ہوں
کہ جن کا صلہ ہیں مدینے کی گلیاں
  • بہزاد لکھنؤی
 

سیما علی

لائبریرین
ہر درد کا ہوتا ہے درمان مدینے میں
خالق کا بھی ہوتا ہے عرفان مدینے میں

خاک در اقدس پر رکھتی ہے جبیں دنیا
اس طرح نکلتے ہیں ارمان مدینے میں

ایماں کی فضائیں ہیں ایماں کی ہوائیں ہیں
ہوتا ہے غرض کامل ایمان مدینے میں

وحدت کی وہاں تابش رحمت کی وہاں بارش
بخشش کا ہماری ہے سامان مدینے میں

یہ میرا عقیدہ ہے یہ دل کا عقیدہ ہے
ہوتی ہے ہر اک مشکل آسان مدینے میں

پھر جاتے ہیں دن اس کے مل جاتی ہے جاں اس کو
جاتا ہے اگر کوئی بے جان مدینے میں

بہزادؔ گزرتے ہیں یوں زیست کے دن میرے
میں ہند میں رہتا ہوں ہے جان مدینے میں
 

سیما علی

لائبریرین
درِ خیرالورا ہے اور میں ہوں
میرے غم کی دوا ہے اور میں ہوں

مُرادوں کو ملی ہے منزلِ شوق
دُعاؤں کا صلہ ہے اور میں ہوں

خوشا قسمت کہ محرابُ النّبی میں
کسی کا نقشِ پا ہے اور میں ہوں

درِ اقدس کے آگے دل ہے لرزاں
کہ اُن کا سامنا ہے اور میں ہوں

ہوا ہوں بابِ رحمت سے جو داخل
عطاؤں پہ عطا ہے اور میں ہوں

دکھا بہزادؔ کو ہر سال بطحا
یہی پیہم دُعا ہے اور میں ہوں
 

سیما علی

لائبریرین
حضور ایسا کوئی انتظام ہوجائے
سلام کیلئے حاضرغلام ہوجائے
نظر سے چوم لوں اک بار سبز گنبد کو
بلا سے پھرمیری دنیا میں شام ہوجائے
 

سیما علی

لائبریرین
خلد مری صرف اس کی تمنا صلی اللہ علیہ والہ وسلم
وہ مرا سدرہ ، وہ مرا طوبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم

اس کا جلال ہے بحر و بر میں ، اس کا جمال ہے کوہ و قمر میں
اس کی گرفت میں عالمِ اشیا صلی اللہ علیہ والہ وسلم

کتنے صحیفے میں نے کھنگالے ، نصف اندھیرے ، نصف اجالے
تو ہی حقیقت ، تو ہی صداقت ، باقی سب کچھ صرف ہیولا

تو نے دیا مفہوم نمو کو ، تو نے حیات کو معنی بخشے
تیرا وجود اثبات خدا کا ، تو جو نہ ہوتا ، کچھ بھی نہ ہوتا
احمد ندیم قاسمی
 

سیما علی

لائبریرین
محشر میں کام آئے گی نسبت حضور ﷺکی
ڈوبا ہوا گناہ میں گر بال بال ہو

خاکیؔ اُنہی کی مدح و ثناء میرے لب پہ ہو
ہر وقت میرے ذہن میں اُن کا خیال ہو
  • عزیز الدین خاکی
 

سیما علی

لائبریرین
شبِ فرقت کٹے کیسے سحر ہو
کرم کی یا محمد ﷺ اک نظر ہو

سکوتِ دوجہاں ہے اور میں ہوں
فقط میری فغاں ہے اور میں ہوں

رسول اللہﷺ سنو فریاد میری !
ہو کشتِ آرزو آباد میری

مصیبت ہے بڑا مجبور ہوں میں
ستم ہے تیرے در سے دور ہوں میں

ازل سے آرزو میری یہی ہے
تمہاری یاد میری بندگی ہے

جبینِ شوق تجھ کو ڈھونڈتی ہے
نظر اپنی ترے در پہ لگی ہے

مرادوں سے مرے کاسے کو بھردے
تو اپنے فیض کو اب عام کردے

غریبوں کو عطا کر کجکلاہی
فقیروں کو ملے اب چتر شاہی
واصف علی واصف
 

سیما علی

لائبریرین
شادؔ عظیم آبادی کے غیر منقوط نعتیہ قصیدے کا مطلع

طلوعِ مطلعِ مدحِ مراد ہر دوسرا
دہد دلِ علما را لموعِ مہرِ ولا
سوارِ عرصۂ لولاک سرورِ والا
اساسِ عالمِ ارواح ، روحِ کلِ ورا

رسولِ داور و دلدارِ آدم و حوّا

شادؔ نے اپنے اس قصیدے کا آغاز بڑے شان دار اور جان دار طریقے سے کیا ہے اور ممدوحِ کائنات جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شایانِ شان تعریف و توصیف بیان کی ہے اور آپ کو مطلعِ مدح ، مرادِ کونین ، صاحبِ لولاک ، عظیم المرتبت سرور و سردار ، اساسِ عالمِ ارواح ، جملہ خلقت کے روحِ رواں ، رسولِ خدا اور دلدارِ آدم و حوا جیسے رفیع الشان القاب سے یاد کیا ہے ، جو حقیقت کے عین مطابق ہے ۔ مذکورہ پانچوں مصرعے شاعر کے بلند تخیل ، اس کے گہری مذہبی شعور اور دینی بصیرت پر دال ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم محمدؔ بھی ہیں اور احمدؔ و محمودؔ بھی ۔ اسی طرح آپ کی ذاتِ گرامی تمام انبیا و رسل علیہم الصلوٰۃ و التسلیم کی سالارِ اعظم ہے ۔ آپ اکرمؔ ( بہت زیادہ معزز و مکرم ) بھی ہیں اور اعلؔم ( بہت زیادہ عالم والا ) بھی ۔ آپ کی نظیر و مثیل محال ہے ۔ آپ مرادِ طٰہٰ و یٰسین ہیں ۔ امرا و سلاطین اور رؤسائے دہر کے سر ان کی دہلیز کے آگے خم ہیں ۔ نیز قرآن کریم کی وضاحت کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام کو من جانب اللہ جملہ اسما کی جو تعلیم دی گئی تھی ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تمام چیزیں معلوم ہیں ۔ انہیں حقائق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شادؔ عظیم آبادی نغمہ طراز ہیں :
 

سیما علی

لائبریرین
حاجیو! آوٴ، شہنشاہ کا روضہ دیکھو
کعبہ تو دیکھ چکے کعبے کا کعبہ دیکھو
غور سے سُن تو رضا! کعبہ سے آتی ہے صدا
میری آنکھوں سے مرے پیارے کا روضہ دیکھو
شاہ احمد رضا خاں علیہ الرحمۃ
 

سیما علی

لائبریرین
کہوں بات یہ میں تو بے جا نہیں ہے
نبی کوئی ختم الرسل ﷺسا نہیں ہے

ہزار انبیاء ایک سے ایک بڑھ کر
پہ کوئی سراجاً منیرا نہیں ہے

وہ ختمِ نبوت، امام انبیاء کے
علو مرتبت کوئی ان سا نہیں ہے

وہ خلقِ مجسم وہ رحمت سراپا
کوئی اور میرے نبی سا نہیں ہے

نقوشِ قدم اس کے عرشِ بریں پر
جہاں آج تک کوئی پہنچا نہیں ہے

ہے معراج کا واقعہ منفرد ہی
کسی اور قصہ سے ملتا نہیں ہے

تری بزم کے لوگ عقبیٰ کے طالب
کوئی ان میں دنیا کا بھوکا نہیں ہے

پلایا ہے وحدت کا ساغر جو اس نے
اتر جائے کیف اس کا ایسا نہیں ہے

لگی دل کو ہے آستانے پہ پہنچوں
مگر واپسی کی تمنا نہیں ہے

طرف دارِ امت وہی ایک ہو گا
نظرؔ کوئی جس دن کسی کا نہیں ہے
محمد عبد الحمید صد یقی نظر لکھنوئ
 

سیما علی

لائبریرین
مصطفیﷺ جانِ رحمت پے لاکھوں سلام
شمع بزم ہدایت پے لاکھوں سلام

شہریارِ ارم تاجدارِحرم
نوبہارِشفاعت پے لاکھوں سلام

جس کے ماتھے شفاعت کا سہرا رہا
اس جبینِ سعادت پے لاکھوں سلام

جس کے سجدے کو محرابِ کعبہ جھکی
ان بھنووں کی لطافت پے لاکھوں سلام

جس طرف اُٹھ گئی دم میں دم آ گیا
اُس نگاہِ عنایت پے لاکھوں سلام

جس سے تاریک دل جگمگانے لگیں
اس چمک والی رنگت پے لاکھوں سلام


وہ زباں جس کو سب کُن کی کُنجی کہیں
اُس کی نافذ حکومت پے لاکھوں سلام

جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑیں
اُس تبسم کی عادت پے لاکھوں سلام

جس کو بارِ دوعالم کی پرواہ نہیں
ایسے بازو کی قوت پے لاکھوں سلام

کل جہاں مِلک اور جَو کی روٹی غذا
اُس شِکم کی قناعت پے لاکھوں سلام

جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اُس دل افروز ساعت پے لاکھوں سلام

اس بتول جگر پارۂ مصطفیﷺ
جملہ آرائے عفت پے لاکھوں سلام

سیدہ زاہرہ طیبہ طاہرہ
جانِ احمد کی راحت پے لاکھوں سلام

وہ دسوں جن کو جنت کا مژدہ ملا
اس مبارک جماعت پے لاکھوں سلام

کاش محشر میں جب اُن کی آمد ہو اور
بھیجیں سب اُن کی شوکت پے لاکھوں سلام

مجھ سے خدمت کے قدسی کہیں ہاں رضاؔ
مصطفیﷺ جانِ رحمت پے لاکھوں سلام
 

سیما علی

لائبریرین
کھلا ہے سبھی کے لیے بابِ رحمت وہاں کوئی رتبے میں ادنیٰ نہ عالی
مرادوں سے دامن نہیں کوئی خالی، قطاریں لگائے کھڑے ہیں سوالی

میں پہلے پہل جب مدینے گیا تھا، تو تھی دل کی حالت تڑپ جانے والی
وہ دربار سچ مچ مرے سامنے تھا، ابھی تک تصور تھا جس کا خیالی

جو اک ہاتھ سے دل سنبھالے ہوئے تھا، تو تھی دوسرے ہاتھ میں سبز جالی
دعا کے لیے ہاتھ اٹھتے تو کیسے ، نہ یہ ہاتھ خالی نہ وہ ہاتھ خالی

جو پوچھا ہے تم نے ، کہ میں نذر کرنے ، کو کیا لے گیا تھا، تو تفصیل سن لو
تھا نعتوں کا اک ہار اشکوں کے موتی، درودوں کا گجرا، سلاموں کی ڈالی

دھنی اپنی قسمت کا ہے تو وہی ہے ، دیارِ نبیؐ جس نے آنکھوں سے دیکھا
مقدر ہے سچا مقدر اسی کا، نگاہِ کرم جس پہ آقاؐ نے ڈالی

میں اُس آستانِ حرم کا گدا ہوں، جہاں سر جھکاتے ہیں شاہانِ عالم
مجھے تاجداروں سے کم مت سمجھنا، مرا سر ہے شایانِ تاجِ بلالی

میں توصیفِ سرکارؐ تو کر رہا ہوں مگر اپنی اوقات سے باخبر ہوں
میں ایک ادنیٰ ثنا خواں ہوں اُن کا ، کہاں میں کہاں نعتِ اقبال و حالی
پروفیسر اقبال عظیم
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھی تھیں۔ آپ نے بارگاہ رسالت میں چند اشعار کہے ہیں واضح ہو کہ حضرت عبدالمطلب کی آٹھ بیٹیاں تھیں اور سب کی سب برجستہ شعر کہنے والی تھیں۔ حضرت صفیہ کے اس قصیدے میں اس زمانے کی سادگی اظہار غم اور زبان ترکیب میںیک رنگی ملتی ہے۔

اِلَّا یَارَسُولَ اللّهِ کُنْتَ رَجَاءَ نَا
وَکُنْتَ بِنَا بِرًا وَلَمْ تَکُ جَافِیَا

وَکَنْتَ بِنَا رُؤوفًا رَحِیْمًا نَبِینَا
لیبک عَلَیْکَ الْیَوْمَ مَنْ کان بَاکِیَا

یارسول اللہ آپ ہماری امیدوں کا آسرا ہیں۔ آپ ہمارے لیے رہنما ہیں اور ہم آپ سے بے وفائی کرنے والے نہیں ہیں۔ آپ ہمارے لیے ہم پر بہت زیادہ مہربانی کرنے والے اور رحم کرنے والے ہیں۔ میں آپ کی خدمت میں آج روتے ہوئے حاضر ہوں۔
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت عاتکہ بنت عبدالمطلب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری پھوپھی ہیں۔ آپ نے بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں مرثیہ کے چند اشعار کہے ہیں۔ برجستہ کہے گئے اشعار میں عقیدت کی روانی اور جذبات کا بہائو دیکھئے ان اشعار میں اس زمانے کی سادگی اور اظہار کا پہلو بہت نمایاں ہیں۔

اعینی جوادا بالد موع السواجم
علی المصطفٰی بالنور من آل هاشمی

علی المصطفٰی بالحق والنور والهدی
والرشد بعد المندیات العظائم

(شہزاد احمد، 2016ء، ص: 4)

کیا میری آنکھ سخی بنی ہوئی ہے۔ اس سخی کے پیچھے اور آنسو بہارہی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کہ آل ہاشم کے نور ہیں اور وہ مصطفی جس کو اللہ تعالیٰ نے حق نور اور ہدایت کے ساتھ بھیجا اور رشد و ہدایت کے لیے بھیجا تاریکی کو مٹانے والا۔
 

سیما علی

لائبریرین
ڈاکٹر سید رفیع الدین اشفاق نے مدینہ کی بچیوں کے خیر مقدمی گیت کو اولیت کا درجہ دیا ہے وہ کہتے ہیں:

عربی نعت میں ہم سب سے پہلے مدینہ کی بچیوں کا وہ گیت پیش کرتے ہیں جونہایت معصوم انداز میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدینہ میں استقبال کے موقع پر گایا گیا۔

طلع البدر علینا من ثنیات الوداع
وجب الشکر علینا مادعی لله داع
ایها المبعوث فینا جئت بالامر المطاع

’’چاند ہم پر طلوع ہوا ودع کی پہاڑیوں سے ہم پر شکر کرنا لازم ہوا جب تک اللہ کی طرف بلانے والے بلائے آپ تشریف لائے ہمارے درمیان(اللہ کے حکم سے آپ آئے کہ آپ کو حکم دیا گیا‘‘۔

ان اشعار میں بیان کی گئی سادگی کے ساتھ خلوص اور محبت کی فراوانی پائی جاتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بدر سے تشبیہہ دی گئی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکر کا اظہار ہے کہ اس نے انہیں ہدایت سے نوازا اور ساتھ ہی اطاعت رسول کے عزم کا بیان بھی سادہ اور پرعظمت ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت فاطمۃ الزہراء علیہا السلام کے اشعار:

ماذا علی من شم تریة احمد
الایشم مدی الزمان عنوالیا

جس نے ایک مرتبہ بھی خاک پائے احمد مجتبیٰ سونگھ لیا تعجب کیا ہے اگر وہ ساری عمر کوئی اور خوشبو نہ سونگھے۔ بلاشبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح سرائی مومنین کی روح کی غذا ہے اور بہت خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کی ثناء خوانی کے لیے چن لیتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں بھی اپنے محبوب کی مدح سرائی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ماخوذ از ماہنامہ دختران اسلام، جنوری 2018
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے اشعار:

متی بیدو فی الدجی البهیم جبینه
یلح مثل مصباح الدجی المتوقد

اندھیری رات میں ان کی پیشانی نظر آتی ہے تو اس طرح چمکتی ہے جیسے روشن چراغ۔

فمن کان اومن قد یکون کاحمد
نظام لحق او نکال لملحد

احمد مجتبیٰ کے جیسا کون تھا اور کون ہوگا حق کا نظام قائم کرنے والا ملحدوں کو سراپا عزت بنادیتا ہے۔
 
Top