آپ ﷺ کی شان میں اشعار

سیما علی

لائبریرین
فَاِنَّهُ شَمْسُ فَضْلٍ هُمْ کَوَاکِبُهَا
يُظْهِرْنَ اَنْوَارَهَا لِلنَّاسِ فِی الظُّلَمِ

’’کیونکہ آپ فضیلت و برتری میں (روشن) آفتاب کی مانند ہیں وہ سب (انبیاء ) (روشن) ستارے ہیں جو اس آفتاب (نبوت) کے انوار کو لوگوں کیلئے تاریکیوں میں ظاہر کرتے رہے ہیں۔‘‘

امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ بات کو مکمل کرتے ہوئے ایک مثال سے سمجھاتے ہیں کہ تمام انبیاء علیہم السلام ان ستاروں کی مانند ہیں جنہوں نے آفتاب محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اکتساب نور کیا اور تاریکیوں میں گم لوگوں کو ہر زمانہ نورِ ہدایت مہیا کیا۔ جس طرح آفتاب طلوع ہوتا ہے تو تمام ستارے چھپ جاتے ہیں اسی طرح جب شریعت محمدی کا نورطلوع ہوا تو سابقہ تمام شریعتیں منسوخ ہو گئیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھی تھیں۔ آپ نے بارگاہ رسالت میں چند اشعار کہے ہیں واضح ہو کہ حضرت عبدالمطلب کی آٹھ بیٹیاں تھیں اور سب کی سب برجستہ شعر کہنے والی تھیں۔ حضرت صفیہ کے اس قصیدے میں اس زمانے کی سادگی اظہار غم اور زبان ترکیب میںیک رنگی ملتی ہے۔

اِلَّا یَارَسُولَ اللّهِ کُنْتَ رَجَاءَ نَا
وَکُنْتَ بِنَا بِرًا وَلَمْ تَکُ جَافِیَا

وَکَنْتَ بِنَا رُؤوفًا رَحِیْمًا نَبِینَا
لیبک عَلَیْکَ الْیَوْمَ مَنْ کان بَاکِیَا

یارسول اللہ آپ ہماری امیدوں کا آسرا ہیں۔ آپ ہمارے لیے رہنما ہیں اور ہم آپ سے بے وفائی کرنے والے نہیں ہیں۔ آپ ہمارے لیے ہم پر بہت زیادہ مہربانی کرنے والے اور رحم کرنے والے ہیں۔ میں آپ کی خدمت میں آج روتے ہوئے حاضر ہوں۔
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت عاتکہ بنت عبدالمطلب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری پھوپھی ہیں۔ آپ نے بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں مرثیہ کے چند اشعار کہے ہیں۔ برجستہ کہے گئے اشعار میں عقیدت کی روانی اور جذبات کا بہائو دیکھئے ان اشعار میں اس زمانے کی سادگی اور اظہار کا پہلو بہت نمایاں ہیں۔

اعینی جوادا بالد موع السواجم
علی المصطفٰی بالنور من آل هاشمی

علی المصطفٰی بالحق والنور والهدی
والرشد بعد المندیات العظائم

(شہزاد احمد، 2016ء، ص: 4)

کیا میری آنکھ سخی بنی ہوئی ہے۔ اس سخی کے پیچھے اور آنسو بہارہی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کہ آل ہاشم کے نور ہیں اور وہ مصطفی جس کو اللہ تعالیٰ نے حق نور اور ہدایت کے ساتھ بھیجا اور رشد و ہدایت کے لیے بھیجا تاریکی کو مٹانے والا۔
 

سیما علی

لائبریرین
ڈاکٹر سید رفیع الدین اشفاق نے مدینہ کی بچیوں کے خیر مقدمی گیت کو اولیت کا درجہ دیا ہے وہ کہتے ہیں:

عربی نعت میں ہم سب سے پہلے مدینہ کی بچیوں کا وہ گیت پیش کرتے ہیں جونہایت معصوم انداز میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدینہ میں استقبال کے موقع پر گایا گیا۔

طلع البدر علینا من ثنیات الوداع
وجب الشکر علینا مادعی لله داع
ایها المبعوث فینا جئت بالامر المطاع

’’چاند ہم پر طلوع ہوا ودع کی پہاڑیوں سے ہم پر شکر کرنا لازم ہوا جب تک اللہ کی طرف بلانے والے بلائے آپ تشریف لائے ہمارے درمیان(اللہ کے حکم سے آپ آئے کہ آپ کو حکم دیا گیا‘‘۔
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ کی گلیوں سے گزرے تو چند لڑکیاں دف بجا رہی تھیں اور گاکر کہہ رہی تھیں۔

نحن جوار من بنی النجار
یا حبندا محمد من جار

ہم بنو نجار کی بچیاں کتنی خوش نصیب ہیں کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (جیسی ہستی) ہماری پڑوسی ہے۔تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (ان کی نعت سن کر) فرمایا (اللہ خوب جانتا ہے کہ میں بھی تم سے بے حد محبت رکھتا ہوں۔

(رواه ابو نعیم و ابو یعلیٰ والنسائی) (سنن، ماجه، کتاب النکاح، باب الغناء والدق، 1899ء، 1/ 612)
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے اشعار:

متی بیدو فی الدجی البهیم جبینه
یلح مثل مصباح الدجی المتوقد

اندھیری رات میں ان کی پیشانی نظر آتی ہے تو اس طرح چمکتی ہے جیسے روشن چراغ۔

فمن کان اومن قد یکون کاحمد
نظام لحق او نکال لملحد

احمد مجتبیٰ کے جیسا کون تھا اور کون ہوگا حق کا نظام قائم کرنے والا ملحدوں کو سراپا عزت بنادیتا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت فاطمۃ الزہراء علیہا السلام کے اشعار:

ماذا علی من شم تریة احمد
الایشم مدی الزمان عنوالیا

جس نے ایک مرتبہ بھی خاک پائے احمد مجتبیٰ سونگھ لیا تعجب کیا ہے اگر وہ ساری عمر کوئی اور خوشبو نہ سونگھے۔ بلاشبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح سرائی مومنین کی روح کی غذا ہے اور بہت خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کی ثناء خوانی کے لیے چن لیتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں بھی اپنے محبوب کی مدح سرائی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ماخوذ از ماہنامہ دختران اسلام، جنوری 2018
 

سیما علی

لائبریرین
سرِعرش پر ہے تری گذر ، دلِ فرش پر ہے تری نظر
ملکوت و ملک میں کوئی شئے نہیں وہ جو تجھ پہ عیاں نہیں

احمد رضا خان بریلوی​

 

سیما علی

لائبریرین
نہ حجاب چرخِ مسیح پر ، نہ کلیم وطور نہاں مگر
جو گیا ہے عرش سے بھی ادھر وہ عرب کا ناقہ سوار ہے

احمد رضا خان بریلوی​

 

سیما علی

لائبریرین
ہاں حالیء گستاغ نہ بڑھ حدِ ادب سے
باتوں سے ٹپکتا تری اب صاف گلا ہے

ہے یہ بھی خبر تجھ کو کہ ہے کون مخاطب
یاں جنبشِ لب خارج از آہنگ خطا ہے

اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے

مو لانا الطاف حسین حالی​

 

سیما علی

لائبریرین
بنے ہیں مدحت سلطان دو جہاں کیلئے
سخن زباں کیلئے اور زباں دہاں کیلئے

وہ شاہ جس کا عدو جیتے جی جہنم میں
عداوت اس کی عذاب الیم جاں کیلئے

وہ شاہ جس کا محب امن و عافیت میں مدام
محبت اس کی حصار حصیں اماں کیلئے

گھر اس کا مورد قرآن و مہبط جبریل
در اس کا کعبہ مقصود انس و جاں کیلئے

سپہر گرم طواف اس کی بارگاہ کے گرد
زمین سر بسجود اس کے آستاں کیلئے

مدینہ مرجع و ماوائے اہل مکہ ہوا
مکین سے رتبہ یہ حاصل ہوا مکاں کیلئے

اسی شرف کے طلبگار تھے کلیم و مسیح
نوید امت پیغمبر زماں کیلئے

شفیع خلق سراسر خدا کی رحمت ہے
بشارت امت عاصی و ناتواں کیلئے

شفاعت نبیﷺ ہے وہ برق عصیاں سوز
کہ حکم خس ہے جہاں کفر دو جہاں کیلئے

خدا کی ذات کریم اور نبیﷺ کا خلق عظیم
گنہ کریں تو کریں رخصت انس و جاں کیلئے

حریف نعت پیمبر نہیں سخن حالی
کہاں سے لایئے اعجاز اس بیاں کیلئے
مولانا الطاف حسین حالی
 

سیما علی

لائبریرین
ذکر سرور سے دل بھرا نہ کرے
بھول جاؤں انہیں خدا نہ کرے

ذکر محبوب جو سنا نہ کرے
امتی خود کو وہ کہا نہ کرے

راہ تکتے نظر تھکا نہ کرے
وہ نہ آئیں ارے خدا نہ کرے

کام آئے گا کچھ نہ ذکر خدا
جب تلک ذکر مصطفیٰؐ نہ کرے

جانے والا نبی کی چوکھٹ پر
سسکیاں لے مگر صدا نہ کرے

میں ہوں بیمار عشق احمد کا
کوئی میرے لئے دعا نہ کرے

عشق احمد میں ہیں مزے ہی مزے
کوئی اس درد کی دوا نہ کرے

شاہ کون و مکاں پہ تنقیدیں
جا رے تیرا خدا بھلا نہ کرے

قلب مضطر کو چین ملتا ہے
کیوں بشر ذکر مصطفیٰؐ نہ کرے

وہ نہیں آدمی خدا کی قسم
اپنے آقا سے جو وفا نہ کرے

ہاں وفا کا یہی تقاضہ ہے
مرتا مر جائے پر گلہ نہ کرے

ہے یہی آرزو نیازیؔ کی
ان کے در سے خدا جدا نہ کرے

عبد الستار نیازی
 

سیما علی

لائبریرین
اُسوہ ہمیں سرکار کا محبوب ہوا ہے
اللہ کو بھی پیاری محمد ﷺ کی ادا ہے

پڑھتا ہے درود احمدِ مختار ﷺ پہ جو بھی
سمجھو کہ صفوں میں وہ ملائک کی کھڑا ہے

رہتے ہیں مرے خانۂ دل میں وہ ہمہ دم
سرکار کے رہنے کو یہ دل کُنجِ حِرا ہے

یہ طرزِ سخن بھی ہے کرم شاہِ اُمم کا
مدحت کا قرینہ بھی اسی دَر کی عطا ہے

دیتا ہے توانائی مجھے حمد و ثنا کی
وہ نورِ محبت جو مرے دل میں بسا ہے

ہر لمحہ مرا ہو جو بسر نعتِ نبی میں
سمجھوں گا کہ دنیا میں بڑا کام کیا ہے

یہ کیف ثناؤں کا جو ہے مجھ کو ودیعت
سب صدقۂ بوصیریؒ و حسانؓ و رضاؒ ہے

الفاظ و تراکیب و معانی یہ تخیل
بس ان کی عنایت سے قصیدہ یہ لکھا ہے

ہمذالیؔ ہے فیضانِ نگاہِ شہِ عالم
جس کو بھی ملا، جتنا ملا، جو بھی ملا ہے

{انجینئر اشفاق حسین ہمذالیؔ}
 

صاد الف

محفلین

ہزار شمس و قمر راہ شوق سے گزرے
خیال‌ حسن محمدؐ جو بار بار آیا

عرب کے چاند نے صحرا بسا دئے ساغرؔ
وہ ساتھ لے کے تجلی کا اک دیار آیا
ساغر صدیقی
 

سیما علی

لائبریرین
کھلا ہے سبھی کے لیے بابِ رحمت وہاں کوئی رتبے میں ادنیٰ نہ عالی
مرادوں سے دامن نہیں کوئی خالی، قطاریں لگائے کھڑے ہیں سوالی


میں پہلے پہل جب مدینے گیا تھا، تو تھی دل کی حالت تڑپ جانے والی
وہ دربار سچ مچ مرے سامنے تھا، ابھی تک تصور تھا جس کا خیالی

جو اک ہاتھ سے دل سنبھالے ہوئے تھا، تو تھی دوسرے ہاتھ میں سبز جالی
دعا کے لیے ہاتھ اٹھتے تو کیسے ، نہ یہ ہاتھ خالی نہ وہ ہاتھ خالی

جو پوچھا ہے تم نے ، کہ میں نذر کرنے ، کو کیا لے گیا تھا، تو تفصیل سن لو
تھا نعتوں کا اک ہار اشکوں کے موتی، درودوں کا گجرا، سلاموں کی ڈالی

دھنی اپنی قسمت کا ہے تو وہی ہے ، دیارِ نبیؐ جس نے آنکھوں سے دیکھا
مقدر ہے سچا مقدر اسی کا، نگاہِ کرم جس پہ آقاؐ نے ڈالی

میں اُس آستانِ حرم کا گدا ہوں، جہاں سر جھکاتے ہیں شاہانِ عالم
مجھے تاجداروں سے کم مت سمجھنا، مرا سر ہے شایانِ تاجِ بلالی

میں توصیفِ سرکارؐ تو کر رہا ہوں مگر اپنی اوقات سے باخبر ہوں
میں ایک ادنیٰ ثنا خواں ہوں اُن کا ، کہاں میں کہاں نعتِ اقبال و حالی
جناب پروفیسر اقبال عظیم
 

سیما علی

لائبریرین
سوزِ دل چاہیے، چشمِ نم چاہیے اور شوقِ طلب معتبر چاہیے
ہوں میسر مدینے کی گلیاں اگر، آنکھ کافی نہیں ہے نظر چاہیے

ان کی محفل کے آداب کچھ اور ہیں، لب کشائی کی جرات مناسب نہیں
ان کی سرکار میں التجا کے لئے،جنبشِ لب نہیں، چشمِ تر چاہیے

اپنی رو داد غم میں سناوؔں کسے، میرے دکھ کو کوئی اور سمجھے گا کیا؟
جس کی خاکِ قدم بھی ہے خاکِ شفا، میرے زخموں کو وہ چارہ گر چاہیے

رونقیں زندگی کی بہت دیکھ لیں، اب میں آنکھوں کو اپنی کروں گا بھی کیا
اب نہ کچھ دیدنی ہے، نہ کچھ گفتنی، مجھ کو آقا کی بس اک نظر چاہیے

میں گدائے درِ شاہِ کونین ہوں، شیش محلوں کی مجھ کو تمنّا نہیں
ہو میسر زمیں پہ کہ زیرِ زمیں، مجھ کو طیبہ میں اک اپنا گھر چاہیے

ان نئے راستوں کی نئی روشنی، ہم کو راس آئی ہے اور نہ راس آئے گی
ہم کو کھوئی ہوئی روشنی چاہیے، ہم کو آئیںِ خیر البشر چاہیے

گوشہ گوشہ مدینےکا پر نور ہے، سارا ماحول جلووؔں سے معمور ہے
شرط یہ ہے کہ ظرفِ نظر چاہیے، دیکھنے کو کوئی دیدہ ور چاہیے

مدحتِ شاہِ کون و مکاں کے لیے صرف لفظ وبیاں کا سہارا نہ لو
فنِ شعری ہے اقبال اپنی جگہ، نعت کہنےکو خونِ جگر چاہیے

پروفیسر اقبال عظیم
 

سیما علی

لائبریرین
عشقِ آقاؐ کا تقدس دل میں جو محفوظ ہے
نعت میں ڈھل کر مرے حسنِ بیاں تک آ گیا
پروفیسر اقبال عظیم
 
Top