سیما علی
لائبریرین
ورقِ جاں پہ کوئی نعت لکھا چاہیے ہے
ایسی حسرت کوتقرب بھی سوا چاہیے ہے
ظرفِ بینائی کودیدارِ شہہ لوح وقلم
وصفِ گویائی کو توفیقِ ثنا چاہیے ہے
حرفِ مدحت ہوکچھ ایسا کہ نصیبہ کُھل جائے
ایسے ممکن کوفقط حُسنِ عطا چاہیے ہے
چشم آشفتہ کواک عہدِ یقیں ہے درکار
دلِ بے راہ کونقش کفِ پاچاہیے ہے
آنکھ نم ناک ہواور سانس میں اک اسم کی رو
زندہ رہنے کے لیے آب وہوا چاہیے ہے
مژدۂ غیب ہے اک بابِ حضوری مجھ کو
اتنے امکان کے بعد اب مجھے کیا چاہیے ہے
مژدۂ غیب ہے اک بابِ حضوری مجھ کو
اتنے امکان کے بعد اب مجھے کیا چاہیے ہے
اس شب وروز کے آشوبِ مسافت میں نصیر
اب مدینے کی طرف بھی تو چلا چاہیے ہے
ایسی حسرت کوتقرب بھی سوا چاہیے ہے
ظرفِ بینائی کودیدارِ شہہ لوح وقلم
وصفِ گویائی کو توفیقِ ثنا چاہیے ہے
حرفِ مدحت ہوکچھ ایسا کہ نصیبہ کُھل جائے
ایسے ممکن کوفقط حُسنِ عطا چاہیے ہے
چشم آشفتہ کواک عہدِ یقیں ہے درکار
دلِ بے راہ کونقش کفِ پاچاہیے ہے
آنکھ نم ناک ہواور سانس میں اک اسم کی رو
زندہ رہنے کے لیے آب وہوا چاہیے ہے
مژدۂ غیب ہے اک بابِ حضوری مجھ کو
اتنے امکان کے بعد اب مجھے کیا چاہیے ہے
مژدۂ غیب ہے اک بابِ حضوری مجھ کو
اتنے امکان کے بعد اب مجھے کیا چاہیے ہے
اس شب وروز کے آشوبِ مسافت میں نصیر
اب مدینے کی طرف بھی تو چلا چاہیے ہے