کتنی مدت بعد ملا تھا اُ س سے میرا نصیبٰ
مار دیا میرے یار کو تو نے جا بےدرد رقیبٰ
کسی حُسن کے ہے اسیر ہم، خوشی ایک ہے تو ہے ایک غم
جو خلش تُجھے ہے مجھے بھی ہے، کہ ہے ایک جیسی ہی آنکھیں نم
ہے تیری طرح میری آرزو، کہ کسی کو دیکھوں قریب سے
میں بکھر گیا ہوں مگر نہیں، گلہ کوئی مجھکو رقیب سے
دیا درد کوئی دوا نہ دی ، میری جان مجھ میں نہیں رہی
کوئی رنگ رہ گیا ان چھوا ، کوئی بات رہ گی ان کہی
کہ میرے خدا ہے تیرا سوا، یہ سبھی مسیحا عجیب سے
میں بکھر گیا ہوں مگر نہیں، گلہ کوئی مجھکو رقیب سے