صابرہ امین
لائبریرین
آپ نے جن مسائل کا ذکر کیا ہے ان کا تعلق جہالت اور ذہنی پسماندگی سے ہے ۔ ۔ اور اس کو علم کی روشنی دور کر سکتی ہے ۔ ۔ پاکستان میں اوباش مردوں کو شدید تربیت کی ضرورت ہے کہ ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ صرف اپنی ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کی نہیں تمام عورتوں کی عزت کرنی چاہیے۔ ۔ دنیا میں کہیں بھی آپ کسی کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس طرح نہیں دیکھ سکتے ۔ ۔ لوگوں کو تمیز ہے ۔ ۔ یہاں اسلام کا حکم کہ نظریں نیچی رکھی جائیں وہ کسی نام نہاد مسلمان کو کیسے یاد رہ سکتا ہے ۔ ۔ جاہل معاشرے میں عورتیں تو گھروں میں بھی محفوظ نہیں ۔ ۔ہر کسی کا اپنا نقطہ نظر ہے لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ گھروں دفاتر میں کام کرنے والی خواتین جن مسائل و مشکلات سے گزرتی ہیں اس سے میں بہن بیٹیوں کے لئے گھر میں رہنا زیادہ پسند کروں گا۔ اس کے علاوہ ہمارے معاشرے کا المیہ کہ خواتین کے سر پر دوپٹہ اوڑھانے کے لئے کوئی دس روپے خرچ نہیں کرتا لیکن دوپٹہ اتارنے کے لئے لاگ لاکھوں ہزاروں خرچ کرنے کی تاک میں لگے رہتے ہیں۔
آپ نے ہماری بات کو غلط سمجھا۔ ہم نے یہ نہیں کہا کہ ساری خواتین غلط کام کرتی ہیں۔ بلکہ ایک سوال تھا کہ
ایک خاتون جو کسی کی بہن بیٹی ہے اس کے لئے دوسری تیسری چوتھی بیوی بننا بہتر ہے یا مجبوری میں غلط اقدام۔
آپ اس کو ساری خواتین کے لئے سمجھ لیا حالانکہ اگر ایک صرف ایک خاتون بھی بامر مجبوری غلط راستہ اپناتی ہے تو ہم اس کے بھی خلاف ہیں۔ اگر کوئی خاتون کنوارہ رہنا پسند کرتی ہے تو اس کو کوئی پشیمانی نہ ہو یہ میں نہیں مانتا۔ اگر وہ خاتون ورکنگ وومن ہے تو بھی اس کو کام کرنے میں روزانہ کی بنیاد پر اوباش نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حتی کہ دفتر یا کام کی جگہ بھی کوئی نہ کوئی اس تاک میں لگا رہتا ہے ۔ لیکن اس کے مقابلے میں ایک شادی شدہ خاتون جو گھر میں ہے اور ہوم میکر ہے وہ زیادہ محفوظ ہے۔
رہی بات بے ہودہ کی تو میں اپنے بیس سالہ صحافتی کیریئر میں سینکڑوں خواتین سے انٹرویو کر چکا ہوں جن میں مشکلات کا سامنا غیر شادی شدہ خواتین کو زیادہ پڑتا ہے اور شادی شدہ خواتین اس کے مقابلے میں بہت سیکیور اور خوشحال زندگی گزار رہی ہیں۔ ایک مہینے پہلے پشاور کے ٹاپ سرکولیٹڈ اخبار کے لئے چند دوستوں نے سروے کیا تو پتہ چلا کہ ہر دوسرے تیسرے گھر میں اوسطا چار خواتین شادی کے انتظار میں بیٹھی ہیں اور ان میں زیادہ تر کے سروں میں چاندی آچکی ہے۔ کیا ان خواتین جو شادی کرنا چاہتی ہیں ان کا حق نہیں کہ وہ ازدواجی زندگی جی سکیں؟؟ انہوں نے تو سنگل رہنے کو ترجیح نہیں دی ۔ تو پھر اس کا کون ذمہ دار ہے۔
اور ہاں ان لیٹ شادیوں میں بحیثیت ایک معاشرہ ہم سب ذمہ دار ہیں۔ کہیں پر جہیز کی لعنت۔ کہیں پر لڑکا سرکاری نوکر نہیں، کہیں پر لڑکا ویل سیٹلڈ نہیں ، کہیں پر لڑکی تعلیم یافتہ نہیں، کہیں پر لڑکا ہائی کوالیفائیڈ نہیں۔ کہیں پر لڑکی کے بھائی یا والدین سنجیدہ نہیں تو کہیں پر جائیداد کی خاطر شادی پر توجہ نہیں دی جاتی۔
اور مذکورہ بالا ان تمام مسائل کی وجہ اسلامی معاشرے کا تشکیل نہ ہونا ہے جیسا کہ آپ نے بھی ذکر کیا ۔جس دن صحیح معنوں میں اسلامی معاشرے کی تشکیل ہوگی تمام مسائل خوش اسلوبی سے حل ہونے لگیں گے۔
ہماری ماسی کی بہو گھر سے اس لیے بھاگ گئی تھی کہ اس کا شوہر اس پر تشدد کرتا تھا اور اس کی تنخواہ بھی چھین لیتا تھا ۔ ۔ اس پر ہماری ماسی کا کہنا تھا کہ کیا ہوا اگر میرے بیٹے نے کبھی کبھی مار لیا ۔ ۔ "مردوں" کو تو غصہ آ ہی جاتا ہے ۔ ۔ اب اس "مرد" کی چار شادیاں کر دی جائیں تاکہ ایک عورت ہی کیوں مار کھائے ۔ ۔ چار عورتیں مار کھائیں تو زیادہ بہتر ہے ۔ ۔ بھائی ہوائی قلعے نہ بنائیں ۔ ۔ ہمارے معاشرے میں آدمیوں کی شدید تربیت کی کمی کو چار شادیوں سے پورا نہ کریں ۔ ۔ ملائیت ختم کیجیے اور اسلام میں "پورے کے پورے داخل ہوں" ۔ ۔ اپنی پسند کی چند باتوں کو اپنے اوپر نافذ کرنے کا نام اسلام نہیں ہے ۔ ۔
آخری تدوین: