سمجھ نہیں آرہا کیا ریٹنگ دوں مگر کیونکہ ایک ہی دی جا سکتی ہے تودوستانہ ہی صحیح کہ اچھی باتیں بھی کی ہیں چند ۔ ۔
آپ کے سوال کا جواب کیا دوں کہ آپ نے ایسی بے تکی بات کی ہے کہ اگر شادی نہ ہو تو خواتین خدانخواستہ پبلک پراپرٹی بن جاتی ہیں ۔ ۔ کتنی بے ہودہ بات ہے ۔ ۔ بجائے اس کے کہ آپ خواتین کی تعلیم اور معاشی ترقی میں اس کا حل ڈھونڈتے آپ نے ایک عجیب سی بات کر ڈالی ۔ ۔ میں بعض ایسی خواتین کو بھی جانتی ہوں کہ جنہوں نے ایسی بےتکی اور بے جوڑ شادیوں کے بجائے کنوارہ رہنا پسند کیا اور ان کو کوئی پشیمانی نہیں ۔ ۔ ہمارے پیارے نبیِؐ کی سنت تو یہ ہے کہ پہلی شادی ایک بیوہ خاتون سے کی جو عمر میں ان سے بڑی تھیں اور ان کی زندگی میں دوسری شادی نہ کی ۔ ۔ آپ اس سنت پر پہلے عمل کریں تو بھی بہت ہے ۔ ۔ اور دوسری خواتین کے بارے میں اتنا پریشان نہ ہوں ۔ ۔اور بھی دنیا کے مسائل ہیں ۔ ۔ جو افورڈ کر سکتا ہے وہ شادیاں کرتا پھرے مگر ہر ایک آدمی کو سہارا دینے کی ترغیب سمجھ سے بالاتر ہے ۔ ۔ کتنے نفسیاتی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں آپ کو اس کا ادراک ہی نہیں ۔ ۔ اور یہ معاشرہ پہلے اسلامی تو بنا لیں اور خود کو ہر اعتبار سے شرعی ۔ ۔ آپ کی تو شرعی داڑھی تک نہیں ۔ ۔ نبی کی اس سنت کا تو احترام نہیں ۔ ۔ بڑی بڑی باتیں دیکھیں ذرا ۔ ۔ یہاں عورتیں پہلی بیوی اور ان کے بچوں کی زندگیاں عذاب کر دیتی ہیں ۔ ۔ گھر ٹوٹ جاتے ہیں اور بھی فتنے سر اٹھاتے ہیں ۔ ۔ آپ کو زمینی حقائق سے کچھ لینا دینا نہیں ۔ ۔ کیا بات کی جائے آپ سے
ہر کسی کا اپنا نقطہ نظر ہے لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ گھروں دفاتر میں کام کرنے والی خواتین جن مسائل و مشکلات سے گزرتی ہیں اس سے میں بہن بیٹیوں کے لئے گھر میں رہنا زیادہ پسند کروں گا۔ اس کے علاوہ ہمارے معاشرے کا المیہ کہ خواتین کے سر پر دوپٹہ اوڑھانے کے لئے کوئی دس روپے خرچ نہیں کرتا لیکن دوپٹہ اتارنے کے لئے لاگ لاکھوں ہزاروں خرچ کرنے کی تاک میں لگے رہتے ہیں۔
آپ نے ہماری بات کو غلط سمجھا۔ ہم نے یہ نہیں کہا کہ ساری خواتین غلط کام کرتی ہیں۔ بلکہ ایک سوال تھا کہ
ایک خاتون جو کسی کی بہن بیٹی ہے اس کے لئے دوسری تیسری چوتھی بیوی بننا بہتر ہے یا مجبوری میں غلط اقدام۔
آپ اس کو ساری خواتین کے لئے سمجھ لیا حالانکہ اگر ایک صرف ایک خاتون بھی بامر مجبوری غلط راستہ اپناتی ہے تو ہم اس کے بھی خلاف ہیں۔ اگر کوئی خاتون کنوارہ رہنا پسند کرتی ہے تو اس کو کوئی پشیمانی نہ ہو یہ میں نہیں مانتا۔ اگر وہ خاتون ورکنگ وومن ہے تو بھی اس کو کام کرنے میں روزانہ کی بنیاد پر اوباش نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حتی کہ دفتر یا کام کی جگہ بھی کوئی نہ کوئی اس تاک میں لگا رہتا ہے ۔ لیکن اس کے مقابلے میں ایک شادی شدہ خاتون جو گھر میں ہے اور ہوم میکر ہے وہ زیادہ محفوظ ہے۔
رہی بات بے ہودہ کی تو میں اپنے بیس سالہ صحافتی کیریئر میں سینکڑوں خواتین سے انٹرویو کر چکا ہوں جن میں مشکلات کا سامنا غیر شادی شدہ خواتین کو زیادہ پڑتا ہے اور شادی شدہ خواتین اس کے مقابلے میں بہت سیکیور اور خوشحال زندگی گزار رہی ہیں۔ ایک مہینے پہلے پشاور کے ٹاپ سرکولیٹڈ اخبار کے لئے چند دوستوں نے سروے کیا تو پتہ چلا کہ ہر دوسرے تیسرے گھر میں اوسطا چار خواتین شادی کے انتظار میں بیٹھی ہیں اور ان میں زیادہ تر کے سروں میں چاندی آچکی ہے۔ کیا ان خواتین جو شادی کرنا چاہتی ہیں ان کا حق نہیں کہ وہ ازدواجی زندگی جی سکیں؟؟ انہوں نے تو سنگل رہنے کو ترجیح نہیں دی ۔ تو پھر اس کا کون ذمہ دار ہے۔
اور ہاں ان لیٹ شادیوں میں بحیثیت ایک معاشرہ ہم سب ذمہ دار ہیں۔ کہیں پر جہیز کی لعنت۔ کہیں پر لڑکا سرکاری نوکر نہیں، کہیں پر لڑکا ویل سیٹلڈ نہیں ، کہیں پر لڑکی تعلیم یافتہ نہیں، کہیں پر لڑکا ہائی کوالیفائیڈ نہیں۔ کہیں پر لڑکی کے بھائی یا والدین سنجیدہ نہیں تو کہیں پر جائیداد کی خاطر شادی پر توجہ نہیں دی جاتی۔
اور مذکورہ بالا ان تمام مسائل کی وجہ اسلامی معاشرے کا تشکیل نہ ہونا ہے جیسا کہ آپ نے بھی ذکر کیا ۔جس دن صحیح معنوں میں اسلامی معاشرے کی تشکیل ہوگی تمام مسائل خوش اسلوبی سے حل ہونے لگیں گے۔