اپنے ہومیو پیتھی تجربات شئیر کریں!

شراب کے بارے میں قرآن کریم میں اللہ کریم کا حکم !
ترجمعہ : لوگ آپ سے شراب اور جوئے کا مسئلہ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجیئے ان دونوں میں بہت بڑا گناه ہے اور لوگوں کو اس سے دنیاوی فائده بھی ہوتا ہے، لیکن ان کا گناه ان کے نفع سے بہت زیاده ہے۔
قرآن کریم ، سورت البقرۃ، آیت نمبر 219
 

محمد وارث

لائبریرین
وعن أبي الدرداء قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الله أنزل الداء والدواء وجعل لكل داء دواء فتداووا ولا تداووا بحرام . رواه أبو داود .

اور حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ نے بیماری بھی اتاری ہے اور دوا بھی، اور ہر بیماری کے لئے دوا بھی ، اور ہر بیماری کے لئے دوا مقرر کی ہے لہٰذا تم دوا سے بیماری کا علاج کرو ، لیکن حرام چیز سے دوا علاج نہ کرو ۔" (ابوداؤد )
 
یہ بات واقعی اختلافی ہے۔انتہائی ضرورت اور موت سے بچنے کے لیے مردار کھا لینے کی اجازت اور چیز ہے جب کہ شراب کو بطور دوا استعمال کرنا دوسری چیز۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ایک حدیث ہے اس متعلق کہ کسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شراب کے بارے میں پوچھا کہ اس میں شفا بھی ہے اور اس کو بطور دوا استعمال کرنا کیسا ہے؟ تو آپ (ص) نے جواب میں شراب کو بطور دوا استعمال کرنے سے بھی منع فرمایا۔ یہ محض یاد داشت سے اور مفہوم لکھا ہے محفل کے مفتیان اور عالمان صحیح حدیث شاید بیان کر سکیں۔

عبید انصاری
سید عمران
لئیق احمد
میں محفل کے اندر اور باہر دونوں جگہوں پر نہ تو مفتی ہوں اور نہ عالم دین :) لیکن اپنی معلومات کی حد تک مسئلہ عرض کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ (فقہ حنفی کے مطابق) شریعت میں جس شراب کو حرام کہا گیا ہے اسے عام طور پر خمر کہتے ہیں ۔ خمر میں دو خرابیاں ہیں ایک تو یہ نشہ کرتی ہے اور دوسرا یہ ناپاک ہے ۔ اور نشہ آور اور ناپاک چیز دونوں طرح کی چیزوں کا کھانا یا پینا حرام ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دوا میں شراب (خمر) اتنی کم مقدار میں استعمال کی جائے جس سے نشہ نہ ہو تو کیا وہ جائز ہو جائے گی؟ تو جواب یہ ہوگا کہ پھر بھی حرام رہے گی کیونکہ نشہ نہیں ہے مگر ناپاکی موجود ہے۔
خمر انگور سے بنائی گئی شراب ہوتی ہے۔
مگر عام طور پر جو الکوحل ادویہ میں استعمال کی جاتی ہے وہ نشہ آور تو ہوسکتی ہے مقدار زیادہ ہونے کی صورت میں مگر ناپاک نہیں ہوتی کیونکہ یہ خمر نہیں ہوتی۔
اس لئے مختصرا یہ کہہ سکتے ہیں کہ پرفیوم اور ادویہ میں پائی جانے والی (معمولی مقدار) الکوحل استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
نشہ آور چیز الکوحل ہو یا کوئی اور اس کو نشہ کے لئے استعمال کرنا حرام ہے۔
 
ایسی ادویات کا استعمال جن میں الکحل استعمال کیا جاتا ہے، ان کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ الکحل کے بارے میں یہاں دو مسئلے ہیں،
1 : کیا الکحل نجس ہے یا پاک؟
2 : کیا الکحل کو دوائی وغیرہ یا کسی اور چیز میں ملانے سے اس کے اثرات متنقل ہوتے ہیں، یا نہیں؟
پہلی چیز : جمہور اہل علم شراب "الکحل" کو حسی طور پر نجس کہتے ہیں، جبکہ بعض دیگر علمائے کرام شراب کی نجاست کو معنوی نجاست کہتے ہیں۔

دوسری چیز : الکحل کو جب دیگر ادویہ کیساتھ ملایا جائے تو اسکی تاثیر یا تو بالکل واضح، قوی اور مؤثر ہوگی، یا نہیں ہوگی، چنانچہ اگر تو تاثیر بالکل واضح ہے تو الکحل سے بنا ہوا مرکب حرام ہوگا، اور ان ادویات کو استعمال کرنا بھی حرام ہوگا۔اگر الکحل کی ذاتی تاثیر ان ادویہ میں نہ ہو تو انہیں استعمال کرنا درست ہوگا، کیونکہ الکحل کو براہِ راست پینے اور دیگر کسی چیز میں ملا کر استعمال کرنے میں فرق ہے، اس لئے کہ خالص الکحل تھوڑی مقدار میں ہو یا زیادہ ہر حالت میں ناجائز ہے، اور اگر الکحل کو کسی دوسری چیز میں ملا دیا جائے تو مندرجہ بالا تفصیل کے مطابق حکم ہوگا۔
اس بارے میں علمائے دائمی فتوی کمیٹی کا فتوی سوال نمبر: (40530) کے جواب میں ملاحظہ کریں۔
اور اسی طرح شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کا تفصیلی فتوی سوال نمبر: (59899) کے جواب میں ملاحظہ کریں۔
مکمل تفصل کے لیے اس لنک پر کلک کریں ،
ہومیو پیتھک "علاج بالمثل " کا حکم ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
میں محفل کے اندر اور باہر دونوں جگہوں پر نہ تو مفتی ہوں اور نہ عالم دین :) لیکن اپنی معلومات کی حد تک مسئلہ عرض کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ (فقہ حنفی کے مطابق) شریعت میں جس شراب کو حرام کہا گیا ہے اسے عام طور پر خمر کہتے ہیں ۔ خمر میں دو خرابیاں ہیں ایک تو یہ نشہ کرتی ہے اور دوسرا یہ ناپاک ہے ۔ اور نشہ آور اور ناپاک چیز دونوں طرح کی چیزوں کا کھانا یا پینا حرام ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دوا میں شراب (خمر) اتنی کم مقدار میں استعمال کی جائے جس سے نشہ نہ ہو تو کیا وہ جائز ہو جائے گی؟ تو جواب یہ ہوگا کہ پھر بھی حرام رہے گی کیونکہ نشہ نہیں ہے مگر ناپاکی موجود ہے۔
خمر انگور سے بنائی گئی شراب ہوتی ہے۔
مگر عام طور پر جو الکوحل ادویہ میں استعمال کی جاتی ہے وہ نشہ آور تو ہوسکتی ہے مقدار زیادہ ہونے کی صورت میں مگر ناپاک نہیں ہوتی کیونکہ یہ خمر نہیں ہوتی۔
اس لئے مختصرا یہ کہہ سکتے ہیں کہ پرفیوم اور ادویہ میں پائی جانے والی (معمولی مقدار) الکوحل استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
نشہ آور چیز الکوحل ہو یا کوئی اور اس کو نشہ کے لئے استعمال کرنا حرام ہے۔
جی یہ بھی مختلف فقہوں کے درمیان ایک اختلافی چیز ہے کہ جو الکحل پرفیوم اور دواؤں میں استعمال ہوتی ہے وہ حرام ہے یا نہیں؟ کچھ کے نزدیک نہیں ہے اور کچھ کے نزدیک یہ بھی حرام ہی ہے!
 

محمد وارث

لائبریرین
ویسے برسبیل تفنن اور اس موضوع سے شاید ہٹ کر لیکن دلچسپ چیز ہے۔ اگر کچھ فتوؤں سے یہ اخذ کر لیا جائے کہ الکحل کو دوا کے ساتھ ملا کر اگر نشہ نہ ہو تو وہ جائز ہے تو پھر کچھ لوگوں کو کافی شراب پینے سے بھی نشہ نہیں ہوتا تو پھر ان کے لیے تو شراب حلال ہی ہو جائے گی۔ اتنی شراب لیں جس سے ان کو نشہ نہ ہو وہ دو تین چار پیگ بھی ہو سکتے ہیں ان کے ساتھ ڈسپرین لے لیں یا کچھ اور (اب شرابی کسی نہ کسی مرض میں مبتلا تو ہوتے ہی ہیں) سو حلال جان کر نوش فرمائیں! :)
 
جی یہ بھی مختلف فقہوں کے درمیان ایک اختلافی چیز ہے کہ جو الکحل پرفیوم اور دواؤں میں استعمال ہوتی ہے وہ حرام ہے یا نہیں؟ کچھ کے نزدیک نہیں ہے اور کچھ کے نزدیک یہ بھی حرام ہی ہے!
ظاہر ہے بالکل فقہاء کے درمیان اختلاف تو ہوتا ہے ۔ میں نے جو بات عرض کی ہے الکوحل کی تحقیق وہ دور حاضر کے (فقہ حنفی کے ) معروف علامہ غلام رسول سعیدی کی تحقیق کے مطابق ہے ۔ اسے ان کی کتاب مقالات سعیدی میں پڑھا جاسکتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین

سید عمران

محفلین
واقعی؟ شرابیں تو شاید بے شمار چیزوں سے بنتی ہیں، جیسے گندم، جو، چاول، مختلف پھلوں اور سبزیوں وغیرہ سے تو کیا باقی سب حلال ہیں؟
نص قطعی سے جو شراب فی نسفہ حرام و ناپاک ہے ، جس کا ایک ایک قطرہ ناپاک و حرام ہے، جو اگر کپڑے پر لگ جائے تو کپڑا ناپاک ہوجاتا ہے وہ انگور کی شراب ہے۔
یہاں بعض علماء بھی حرمتِ خمر کی علت محض نشہ آور ہونا سمجھ لیتے ہیں۔
حالاں کہ انگور کی شراب کی حرمت کی علت صرف نشہ آور ہونا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے بذاتہ حرام قرار دینا ہے۔
البتہ دیگر شراب کی حرمت ان کا نشہ آور ہونا ہے۔ جیسے دیگر نشہ آور چیزوں کا حکم ہے مثلاً چرس، ہیروئن وغیرہ۔
 
یہ بات واقعی اختلافی ہے۔انتہائی ضرورت اور موت سے بچنے کے لیے مردار کھا لینے کی اجازت اور چیز ہے جب کہ شراب کو بطور دوا استعمال کرنا دوسری چیز۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ایک حدیث ہے اس متعلق کہ کسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شراب کے بارے میں پوچھا کہ اس میں شفا بھی ہے اور اس کو بطور دوا استعمال کرنا کیسا ہے؟ تو آپ (ص) نے جواب میں شراب کو بطور دوا استعمال کرنے سے بھی منع فرمایا۔ یہ محض یاد داشت سے اور مفہوم لکھا ہے محفل کے مفتیان اور عالمان صحیح حدیث شاید بیان کر سکیں۔

عبید انصاری
سید عمران
لئیق احمد
محمد وارث بھائی فتوی کے معاملہ میں خاصا محتاط ہوں، یہاں چند نکات برائے غور وفکر پیش کررہا ہوں
  1. شراب اردو زبان میں عام طور پر ہر طرح کی نشہ آور چیز کے لیے بولا جاتا ہے، جبکہ عربی زبان میں بنیادی اجزاء کے اعتبار سے ان کے نام مختلف ہیں۔ انگور سے بنی ہوئی خمر کہلاتی ہے، اس کے علاوہ "نقیع التمر، نقیع الزبیب، منصَّف" شراب کی مشہور اقسام ہیں۔
  2. خمر (انگور کا رس جب نشہ آور ہوجائے اور اس میں جھاگ پیدا ہوجائیں) نجس العین ہے، فرمان باری تعالیٰ: انما الخمر والمیسر والانصاب والازلام رجس۔۔۔ جیسی بہت سی آیات کی وجہ سے۔
  3. بقیہ شرابوں کے بارے میں فقہاء کرام کا ضابطہ ہے: کل ما اسکر فھو حرام (ہر وہ چیز جو نشہ آور ہو، حرام ہے)
  4. اب لئیق احمد بھائی والی بات آجاتی ہے کہ خمر نجس العین ہے اور باقی شرابیں نجس العین نہیں ہیں۔ لہٰذا خمر پینا اور لگانا دونوں حرام ہیں، البتہ بقیہ شرابیں پینے کے علاوہ لگانے وغیرہ کے لیے استعمال ہوسکتی ہیں۔ اب رہ جاتا ہے ان کا پینا، تو چونکہ ان کے حرام ہونے کی علت "نشہ آور ہونا" ہے اس لیے اگر نشہ آور ہوگی تو پینا حرام ورنہ حلال۔:)
  5. اب بات آجاتی ہے الکوحل کی۔ الکوحل مختلف چیزوں سے تیار ہوتا ہے، اوپر کی تفصیل سے واضح ہوگیا کہ اگر بنیادی اجزاء کے اعتبار سے الکوحل "خمر" ہے تو ناپاک بھی ہے اور پینا بھی حرام۔ اور اگر خمر نہیں، بلکہ دوسرے اجزاء سے تیار کیا گیا ہے تو بات نشہ آور ہونے پر آجائے گی، سو اگر نشہ آور ہوگا تو حرام ورنہ حلال:)
  6. ہومیوپیتھی میں کن اجزاء سے تیار کیا گیا الکوحل شامل ہے؟ مجھے معلوم نہیں۔
  7. حالت اضطرار میں خمر کا استعمال کس حد تک جائز ہے؟؟ اس بارے میں مجھے خود کو ابھی شرح نہیں، سو معذرت!:)
  8. یہاں پر الکوحل کے متعلق بہت سے فتاوی اور تحقیقات موجود ہیں، دیکھی جاسکتی ہیں۔:)
 

سید عمران

محفلین
محمد وارث بھائی فتوی کے معاملہ میں خاصا محتاط ہوں، یہاں چند نکات برائے غور وفکر پیش کررہا ہوں
  1. شراب اردو زبان میں عام طور پر ہر طرح کی نشہ آور چیز کے لیے بولا جاتا ہے، جبکہ عربی زبان میں بنیادی اجزاء کے اعتبار سے ان کے نام مختلف ہیں۔ انگور سے بنی ہوئی خمر کہلاتی ہے، اس کے علاوہ "نقیع التمر، نقیع الزبیب، منصَّف" شراب کی مشہور اقسام ہیں۔
  2. خمر (انگور کا رس جب نشہ آور ہوجائے اور اس میں جھاگ پیدا ہوجائیں) نجس العین ہے، فرمان باری تعالیٰ: انما الخمر والمیسر والانصاب والازلام رجس۔۔۔ جیسی بہت سی آیات کی وجہ سے۔
  3. بقیہ شرابوں کے بارے میں فقہاء کرام کا ضابطہ ہے: کل ما اسکر فھو حرام (ہر وہ چیز جو نشہ آور ہو، حرام ہے)
  4. اب لئیق احمد بھائی والی بات آجاتی ہے کہ خمر نجس العین ہے اور باقی شرابیں نجس العین نہیں ہیں۔ لہٰذا خمر پینا اور لگانا دونوں حرام ہیں، البتہ بقیہ شرابیں پینے کے علاوہ لگانے وغیرہ کے لیے استعمال ہوسکتی ہیں۔ اب رہ جاتا ہے ان کا پینا، تو چونکہ ان کے حرام ہونے کی علت "نشہ آور ہونا" ہے اس لیے اگر نشہ آور ہوگی تو پینا حرام ورنہ حلال۔:)
  5. اب بات آجاتی ہے الکوحل کی۔ الکوحل مختلف چیزوں سے تیار ہوتا ہے، اوپر کی تفصیل سے واضح ہوگیا کہ اگر بنیادی اجزاء کے اعتبار سے الکوحل "خمر" ہے تو ناپاک بھی ہے اور پینا بھی حرام۔ اور اگر خمر نہیں، بلکہ دوسرے اجزاء سے تیار کیا گیا ہے تو بات نشہ آور ہونے پر آجائے گی، سو اگر نشہ آور ہوگا تو حرام ورنہ حلال:)
  6. ہومیوپیتھی میں کن اجزاء سے تیار کیا گیا الکوحل شامل ہے؟ مجھے معلوم نہیں۔
  7. حالت اضطرار میں خمر کا استعمال کس حد تک جائز ہے؟؟ اس بارے میں مجھے خود کو ابھی شرح نہیں، سو معذرت!:)
  8. یہاں پر الکوحل کے متعلق بہت سے فتاوی اور تحقیقات موجود ہیں، دیکھی جاسکتی ہیں۔:)
۷) اگر زندگی بچانے کا معاملہ آجائے تو بحالت مجبوری اضطراری صورت میں خمر استعمال کی جاسکتی ہے مثلاً آدمی کسی ایسی جگہ ہے جہاں پانی دستیاب نہیں اور پانی کی کمی کی وجہ سے موت واقع ہوسکتی ہے تو خمر پی جاسکتی ہے۔ لیکن ادویات وغیرہ میں اس کا استعمال جائز نہیں۔
خمر کے علاوہ دیگر اشیاء کا استعمال شرائط کے ساتھ ادویات وغیرہ میں کیا جاسکتا ہے۔
 
۷) اگر زندگی بچانے کا معاملہ آجائے تو بحالت مجبوری اضطراری صورت میں خمر استعمال کی جاسکتی ہے مثلاً آدمی کسی ایسی جگہ ہے جہاں پانی دستیاب نہیں اور پانی کی کمی کی وجہ سے موت واقع ہوسکتی ہے تو خمر پی جاسکتی ہے۔ لیکن ادویات وغیرہ میں اس کا استعمال جائز نہیں۔
خمر کے علاوہ دیگر اشیاء کا استعمال شرائط کے ساتھ ادویات وغیرہ میں کیا جاسکتا ہے۔
حوالہ؟ ذرا مفصل ہوتو اچھا ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
میں معذرت خواہ ہوں کہ بات ہومیوپیتھی سے ہو کر کہیں سے کہیں نکل چلی ہے، لیکن اب اس بات کو منطقی انجام تک پہنچانا بھی ضروری ہے۔

سو عالمین سے میرا اگلا سوال:

کیا کوئی ایسے مفسر یا محدث یا فقہیہ گزرے ہیں جنہوں نے "خمر" سے مراد خاص انگوری شراب مطلب نہ لیا ہو بلکہ ہر قسم کے نشہ آور مائع چیز کو مراد لیا ہو۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بولا تو کسی خاص چیز کو جاتا ہے لیکن مراد اس سے وہ خاص چیز نہیں ہوتی بلکہ پوری کی پوری جنس ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر آج سے بیس تیس سال پہلے جب پاکستان میں "ڈالڈا گھی" بولا جاتا تھا تو اس سے مراد خاص "ڈالڈا" برانڈ کا گھی نہیں ہوتا تھا بلکہ اس سے مراد مصنوعی یا بناسپتی گھی کی ساری جنس ہوتی تھی چاہے وہ گھی ڈالڈا والوں نے بنایا ہو یا کسی اور برانڈ نے۔ اسی طرح "سرف" بولنے سے مراد صرف خاص "سرف" برانڈ مقصود نہیں ہوتا تھا بلکہ سارے کے سارے ڈیٹرجنٹ مراد ہوتی تھی اور وہ اس لیے کہ "ڈالڈا" اور "سرف" اتنے عام تھے اور اتنے مشہور تھے کہ اپنی پوری جنس یعنی بالترتیب بناسپتی گھی اور ڈیٹرجنٹ کی نمائندگی کرتے تھے۔ اسی طرح حالیہ زمانے میں بچوں کے پیمپرز، یعنی ہیں تو وہ ڈائپرز لیکن پیمپرز برانڈ انتا مشہور ہو گیا کہ پیمپر کہہ کر سارے ڈائپرز مراد لیے جاتے ہیں۔

سو میں پوچھنا یہ چاہ رہا ہوں کہ کسی عالم، کسی مفسر، کسی محدث، کسی فقہیہ نے یہ کہا ہو کہ چونکہ اس زمانے میں عرب میں "خمر" یا خاص انگوری شراب (وائن) اتنی مشہور و مقبول تھی کہ "خمر" عرف عام میں ہر قسم کے نشہ آور سیال کے لیے بولا جاتا تھا نہ کہ خاص انگوری شراب کے لیے جیسا کہ اپنی ثقافت سے میں نے کچھ چیزوں کی مثال بھی دی؟
 

سید عمران

محفلین
حوالہ؟ ذرا مفصل ہوتو اچھا ہے
۷) اگر زندگی بچانے کا معاملہ آجائے تو بحالت مجبوری اضطراری صورت میں خمر استعمال کی جاسکتی ہے مثلاً آدمی کسی ایسی جگہ ہے جہاں پانی دستیاب نہیں اور پانی کی کمی کی وجہ سے موت واقع ہوسکتی ہے تو خمر پی جاسکتی ہے۔
وَمَا لَكُمْ أَلَّا تَأْكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ ۗ وَإِنَّ كَثِيرًا لَّيُضِلُّونَ بِأَهْوَائِهِم بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِينَ (الانعام: ۱۱۹)
خمر کے علاوہ دیگر اشیاء کا استعمال شرائط کے ساتھ ادویات وغیرہ میں کیا جاسکتا ہے۔
یرى أصحابه جواز التداوي بالمحرم أو النجس، على تفصيل بين بعضهم في ذلك.
إلى هذا ذهب بعض الحنفية، إذ يرون جواز الاستشفاء بالحرام، إذا أخبر طبيب مسلم أن فيه شفاء للمريض، ولم يوجد دواء مباح يقوم مقامه في التداوي به من المرض، وما عليه مذهب الشافعية وقطع به جمهورهم، هو جواز التداوي بالنجاسات مطلقاً غير المسكر، إذا لم يوجد طاهر يقوم مقامها في التداوي، وكان المتداوي عارفاً بالطب، يعرف أنه لا يقوم غير النجس مقامه في المداواة، أو كان يعرف ذلك من تجربة سابقة له مع المرض، أو أخبره طبيب مسلم بذلك، ومذهب الظاهرية جواز التداوي بالمحرم والنجس حاشا لحوم بني آدم وما يقتل من تناوله، فلا يحل التداوي به وإن دعت إليه الضرورة
( رد المحتار 4/15، المجموع 9/50، مغني المحتاج 4/188، المحلى 7/426)
 

فہد اشرف

محفلین
بات شراب کی چل رہی ہے تو اسلام میں شراب (خمر) حرام ہے الکحل نہیں۔ کیونکہ الکحل خود شراب نہیں ہے بلکہ شراب میں اس کا ایک کمپاؤنڈ ایتھنول پایا جاتا ہے جس کی مقدار 20 فیصد سے کم ہی ہوتی ہے۔ اب اس بنا پر اگر الکحل کو حرام قرار دیا جائے تو پھر پانی بھی حرام ہوگا کیونکہ سب سے زیادہ اسی کی مقدار ہوتی ہے۔اس لیے جس طرح انگور، جو اور کھجور وغیرہ کی شراب حرام ہے لیکن دوسرے پروڈکٹ حلال ہیں اسی طرح الکحل شراب میں حرام اور دوا وغیرہ میں حلال ہونی چاہیے۔
ایک اور بات یاد آ گئی سرکے کی، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مرغوب تھا ہمارے یہاں لوگ سرکہ کھانا سنت سمجھتے اب سرکے کا کیمکل کمپوزیشن دیکھیں تو ایسیٹک ایسڈ (ایک قسم کا تیزاب) ملتا ہے تو کیا تمام ایسڈ کو سنت سمجھ کے کھائیں گے؟
 

سید عمران

محفلین
میں معذرت خواہ ہوں کہ بات ہومیوپیتھی سے ہو کر کہیں سے کہیں نکل چلی ہے، لیکن اب اس بات کو منطقی انجام تک پہنچانا بھی ضروری ہے۔

سو عالمین سے میرا اگلا سوال:

کیا کوئی ایسے مفسر یا محدث یا فقہیہ گزرے ہیں جنہوں نے "خمر" سے مراد خاص انگوری شراب مطلب نہ لیا ہو بلکہ ہر قسم کے نشہ آور مائع چیز کو مراد لیا ہو۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بولا تو کسی خاص چیز کو جاتا ہے لیکن مراد اس سے وہ خاص چیز نہیں ہوتی بلکہ پوری کی پوری جنس ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر آج سے بیس تیس سال پہلے جب پاکستان میں "ڈالڈا گھی" بولا جاتا تھا تو اس سے مراد خاص "ڈالڈا" برانڈ کا گھی نہیں ہوتا تھا بلکہ اس سے مراد مصنوعی یا بناسپتی گھی کی ساری جنس ہوتی تھی چاہے وہ گھی ڈالڈا والوں نے بنایا ہو یا کسی اور برانڈ نے۔ اسی طرح "سرف" بولنے سے مراد صرف خاص "سرف" برانڈ مقصود نہیں ہوتا تھا بلکہ سارے کے سارے ڈیٹرجنٹ مراد ہوتی تھی اور وہ اس لیے کہ "ڈالڈا" اور "سرف" اتنے عام تھے اور اتنے مشہور تھے کہ اپنی پوری جنس یعنی بالترتیب بناسپتی گھی اور ڈیٹرجنٹ کی نمائندگی کرتے تھے۔ اسی طرح حالیہ زمانے میں بچوں کے پیمپرز، یعنی ہیں تو وہ ڈائپرز لیکن پیمپرز برانڈ انتا مشہور ہو گیا کہ پیمپر کہہ کر سارے ڈائپرز مراد لیے جاتے ہیں۔

سو میں پوچھنا یہ چاہ رہا ہوں کہ کسی عالم، کسی مفسر، کسی محدث، کسی فقہیہ نے یہ کہا ہو کہ چونکہ اس زمانے میں عرب میں "خمر" یا خاص انگوری شراب (وائن) اتنی مشہور و مقبول تھی کہ "خمر" عرف عام میں ہر قسم کے نشہ آور سیال کے لیے بولا جاتا تھا نہ کہ خاص انگوری شراب کے لیے جیسا کہ اپنی ثقافت سے میں نے کچھ چیزوں کی مثال بھی دی؟
آج کچھ مصروفیت ہے۔۔۔
تھوڑا موقع دیں ان شاء اللہ کل !!!
 
Top