قیصرانی صاحب تو ٹھیک لیکن عارف کریم نام کی کمی صرف محسوس ہورہی ہے.اس دھاگے میں قیصرانی بھائی اور عارف کریم کی کمی شدت سے محسوس ہورہی ہے۔
اللہ انھیں خوش رکھے۔آمین!
ہمارے دادا جان مرحوم شہر کے مایہ ناز ہومیو پیتھک ڈاکٹر تھے۔ انکے مطابق ہومیوپیتھک ادویات سائنسی اصولوں پر قائم نہیں البتہ ان میں اثر موجود ہوتا ہے۔ بڑے ہو کر تحقیق کی تو پتا چلا کہ یہ محض پلیس بو افیکٹ ہے۔
میرے دادا جان شہر کے نامور ہومیوپیتھ تھے۔ لوگ دور دراز سے علاج کروانے آتے۔ اور اوپر کچھ کیسز کی طرح ایلوپیتھی سے جواب یافتہ بھی ہوالشافی شفایاب ہو گئے۔ جبکہ وہی ہومیوپیتھی انکے اپنے بچوں اور آگے سے مجھ پر کوئی کام نہیں کرتی تھی۔ جہاں دیگر بہن بھائیوں کو نزلہ زکام بخار میں میٹھی گولیاں مل رہی ہوتی وہاں مجھے اسمغول، کڑوی گولیاں کھانا پڑتی۔ محلے میں سب کو پتا تھا کہ یہ ڈھیٹ سائنسی و مادی جسم ہے۔ روحانی علاج اس پر اثر نہیں کرنا۔ اسلئے بچپن میں جب کبھی کوئی بیماری، چوٹ، زخم وغیرہ ہوتا تو سب اٹھا کر ایلوپیتھ کے پاس ہی لیکر جاتے۔ اس بدنامی کی وجہ سے دادا جان مرحوم اکثر ناراض رہتے۔ اللہ تعالی انکے درجات بلند فرمائے۔
کیا اب بھی عارف کی کمی محسوس ہو رہی ہے؟اس دھاگے میں قیصرانی بھائی اور عارف کریم کی کمی شدت سے محسوس ہورہی ہے۔
اللہ انھیں خوش رکھے۔آمین!
سارا ردعمل سمجھ آگیا اب آپ کی بر محل بغاوت کا۔میرا اپنا سارا گھرانہ ہومیوپیتھی کی برکات و فیوض سمیٹتا اور بانٹتا ہے۔
ابو کی اپنی دکان ہے یعنی الکوحل بھری شیشیوں اور چینی کی گولیوں کے انبار لگے ہوتے ہیں جو وہ خود بھی اپنی علامات پر رات دن کھاتے ہیں اور باقی اہل خانہ کو بھی کھلاتے ہیں۔
اسی طرح چھوٹے بھائی کی اپنی فیکٹری ہے جو ایک الماری میں بنی ہوئی ہے، وہ بھی یہی کام کرتا ہے کہ بیوی بچوں میں معجزاتی گولیوں کا پرساد اور قطروں کا تبرک تقسیم کرتا ہے، میں نے تو اسے کئی مرتبہ کہا ہے کہ بچوں کو شراب کا عادی بنا دو گےاتنی الکوحل پلا پلا کے۔
بس ایک میں ہی "منکر" ہوں۔
میری بغاوت کا رد عمل یا ماخذ؟سارا ردعمل سمجھ آگیا اب آپ کی بر محل بغاوت کا۔
بھئی سارے گھرانے کا عمل اور آپ کا رد عمل سب کے مجموعی عمل کے برابر ۔میری بغاوت کا رد عمل یا ماخذ؟
ایک کے دادا "مایہ ناز" ہومیوپیتھ تھے اور دوسرے کے دادا "نامور"۔۔۔ یہ بہت بڑا فرق ہےعجب اتفاق ہے:
کیا اب بھی عارف کی کمی محسوس ہو رہی ہے؟
ہاہاہا۔مجھے بہت اچھی طرح اندازہ تھا لیکن ڈرتی تھی کہ کہیں پھر سے نہ بھیج دیے جائیں۔عجب اتفاق ہے:
کیا اب بھی عارف کی کمی محسوس ہو رہی ہے؟
عارف کی پوسٹ کے مطابق ہومیوپیتھی محض پلیس بو ہے۔ جبکہ میرے مشاہدے میں اسمیں واقعی شفا ہے، بیشک وہ اپنے جسم پر پوری نہ اترے۔ اور سائنسی بنیادوں پر بھی ناکارہ ہی ہو۔عجب اتفاق ہے:
کیا اب بھی عارف کی کمی محسوس ہو رہی ہے؟
انکی مشہوری کا اندازہ اسی بات سے لگا لیں کہ انکے ۷ بیٹوں میں سے کسی ایک نے بھی اپنے ابا کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش نہیں کیایک کے دادا "مایہ ناز" ہومیوپیتھ تھے اور دوسرے کے دادا "نامور"۔۔۔ یہ بہت بڑا فرق ہے
ویسے کیا فرماتے ہیں علمائے "ہوم یُو پیتھی" بیچ اس مسئلے کے کہ ہومیوپیتھی کی دوائیوں میں الکحل بھی شامل ہوتی ہے چاہے ایک قطرے کا ہزارواں حصہ ہی کیوں نہ ہو کیونکہ مفتیانِ دین کے مطابق الکحل کا ایک قطرہ بھی حرام ہی ہوتا ہے اور جیسے پیشاب کا ایک قطرہ ہزاروں من دودھ کو بھی ناپاک کر دیتا ہے اسی طرح الکحل کا ایک قطرہ بھی پاک چیز کو ناپاک کر دیتا ہے، سو دوائیوں کے لیے کیا حکم ہے؟میرا اپنا سارا گھرانہ ہومیوپیتھی کی برکات و فیوض سمیٹتا اور بانٹتا ہے۔
ابو کی اپنی دکان ہے یعنی الکوحل بھری شیشیوں اور چینی کی گولیوں کے انبار لگے ہوتے ہیں جو وہ خود بھی اپنی علامات پر رات دن کھاتے ہیں اور باقی اہل خانہ کو بھی کھلاتے ہیں۔
اسی طرح چھوٹے بھائی کی اپنی فیکٹری ہے جو ایک الماری میں بنی ہوئی ہے، وہ بھی یہی کام کرتا ہے کہ بیوی بچوں میں معجزاتی گولیوں کا پرساد اور قطروں کا تبرک تقسیم کرتا ہے، میں نے تو اسے کئی مرتبہ کہا ہے کہ بچوں کو شراب کا عادی بنا دو گےاتنی الکوحل پلا پلا کے۔
بس ایک میں ہی "منکر" ہوں۔
دنگل فلم کا ایک سین یاد آ گیا۔ جب پہلوان صاحب پہلی بیٹی کی پیدائش کے بعد دوسرے بچے کے لیے پورے گاؤں سے "پُتر منتر" لیتے پھرتے ہیں اور پھر بیٹی پیدا ہو جاتی ہے تو گاؤں والوں کی تاویلات کمال کی ہوتی ہیں۔ بس یہی کچھ تاویلات یہاں ہیں، کہ دوائی کو مریض کے "نا محرم" نے ہاتھ لگا دیا پس دوائی کا اثر ختم ہو گیا۔ اللہ اللہ خیر صلیٰ۔ہومیوپیتھی کے سنہرے اصولوں کے مطابق تو پیگی کی رفع حاجت کی "یاد" بھی آپ کے ہاتھ میں موجود گولیوں میں شامل ہو گئی ہو گی۔ اب کون جانے سر درد ٹھیک ہونے کا باعث ان دو گولیوں کا اثر تھا یا اس ہومیوپیتھی "پیگیانا رفع حاجتیکا" دوا کا جو اس دوران "وقوع پذیر" ہوئی۔
ایسی کچھ بات صاحبِ لڑی نے بھی شروع میں کی تھی کہ جن کا مقصد نہیں ہے وہ یہاں کیوں آ جاتے ہیں۔بچپن میں جب ہم گلی محلہ میں کھیلا کرتے تھے تو کوئی شرارتی بچہ جو کھیل میں ہمارے ساتھ شریک نہیں ہوتا تھا۔اچانک آکے کھچ مچا کے چلا جاتا تھا۔ہم ہکا بکا دیکھتے رہ جاتے تھے۔پھر صبر سے وہیں سے کھیل شروع کرتے تھے جہاں پہ رکا ہوتا تھا۔
ایسے ہی یہ دو شرارتی بچے بار بار آرہے ہیں۔رانا بھائی ہماری کام کی باتیں ان کی شرارتوں کی وجہ سے رکنی نہیں چاہییں۔
ایلوپیتھی والے تو موت کے بعد بھی انسان کو نہیں چھوڑتے،مردے کے پوسٹ مارٹم سے کتنے ہی حقائق منظر عام پر لاتے ہیں، جب کہ نبض اور علامتیں پوچھ کر علاج کرنے والے مردے کی نبض کہاں سے دیکھیں اور علامتیں کس سے پوچھیں سو کیسے بتائیں کہ جہاں پناہ کو کیا ہوا تھا؟ پس ثابت ہوا کہ ہومیوپیتھی اگلے جہان کی چیز ہے، اس دنیا کی نہیں!جہاں ایلوپیتھی ختم ہوتی ہے وہاں سے ہومیوپیتھی شروع ہوتی ہے۔
سر جس طرح ایلوپیتھی میں دواؤں کو محفوظ رکھنے کے کچھ اصول ہوتے ہیں اسی طرح ہومیوپیتھی میں ہیں کہیہی تو میرا سوال تھا کہ دنیا بھر کے زیر زمین اور بالائے زمین پانی کے ذخیروں میں موجود پانی کروڑوں اربوں طرح کے مادوں کو چھوتے ہوئے یہاں تک پہنچے ہیں، کیا ان مادوں کی "ہلکی سی یاد" ان پانیوں میں موجود ہے؟
آپ کی کونیم زہر والی مثال کو ہی لے کر وضاحت کرتا ہوں: برسات ہوئی، کونیم کے پودوں کے آس پاس پانی زہریلا ہو گیا، دھوپ لگنے سے وہ زہریلا پانی بخارات بن کے اڑ گیا، واٹر سائکل شروع ہو گیا، بادل، بارش، پانی ، بخارات، بادل بارش پانی۔۔۔
گذشتہ صرف ایک ملین سالوں کا ہی حساب لگائیں تو پانی کا ایک ایک قطرہ نجانے کتنے بلین "ایم"پوٹینسی کی ہومیوپیتھی دوا بن چکا ہے۔ اتنی شدید ہائی پوٹینسی ہم روزانہ پیتے ہیں۔ کسی بھی قسم کا کوئی اثر ندارد۔ کیوں؟
نہ تو خاکسار نے کوئی سنی سنائی بات پیش کی ہے اور نہ جاسمن بہنا نے۔ جب تک یہ واقعات معمولی ہوتے ہیں اور پلیسبو سے وضاحت پیش کی جاسکتی ہے تو آپ لوگ کرتے رہتے ہیں لیکن جب بڑی اور لاعلاج بیماریوں میں پلیسبو وضاحت دینے سے عاجز آجائے تو تو آپ کنٹرولڈ سٹڈیز کی بات لے آتے ہیں۔ پہلے بھی عرض کیا تھا کہ کنٹرولڈ اسڈیز کرنے والوں کی ہومیوپیتھی میں کیا تجربہ اور مہارت ہوتی ہے۔ یہاں تو چار سال کا کورس کرنے کے بعد بھی جو ہومیوپیتھ محنت اور تجربے سے محروم ہو تو اس کو نتائج نہیں ملتے تو ایسے میں بے چارے کنٹرولڈ ریسرچ کرنے والوں کی ریسرچ کی کیا حیثیت ہے۔میں نے ایسے منہ زبانی قصے تو بچپن میں چڑیلوں، بھوتوں، پچھل پیریوں، سو سال کے ناگ اور ناگنوں وغیرہ کے بھی بہت سنے ہیں۔ نہ ان قصوں پر اور نہ ہومیوپیتھی کے ان قصوں پر مجھے یقین ہے جب تک کنٹرولڈ سائنٹفک سٹڈیز اور ان کے نتائج نہ ملیں۔ وہ آپ لوگ دینے کو تیار نہیں اور ان سنی سنائی گپوں پر ایمان لانے کو کہتے ہیں۔
سر بجا ارشاد فرمایا اس میں کوئی کلام نہیں۔ لیکن آپ تو خود منتظم رہے ہیں، سمجھتے ہیں کہ ہر شخص کو اظہار رائے کی اجازت ہے لیکن موضوع زیربحث کی حدود کو دیکھتے ہوئے۔ بات صرف واقعات جمع کرنے کی ہورہی تھی ناکہ ہومیوپیتھی کے صحیح اور غلط ہونے پر۔ اس پر دوسرا دھاگہ شروع کردیا جاتا تو چنداں حرج نہ تھا۔ دوسری بات کہ علمی گفتگو کے ساتھ ساتھ نوک جھونک بھی ہوتی رہے تو اچھی بات ہے لیکن علمی گفتگو سے خالی ہوکر صرف مذاق اڑانے میں حصہ ڈالنا بھی نامناسب ہے۔ایسی کچھ بات صاحبِ لڑی نے بھی شروع میں کی تھی کہ جن کا مقصد نہیں ہے وہ یہاں کیوں آ جاتے ہیں۔
یہ پبلک فورم ہے، جہاں اگر کوئی تھریڈ شروع ہوگا تو پھر کوئی کسی پر روک ٹوک نہیں لگا سکتا۔ اگر کسی نے مجمع لگا لیا ہے تو پھر دل بھی بڑا رکھنا ہوگا، مجمع میں جہاں لوگ داد کے ڈونگرے برسائیں گے، اور پھول پتیاں نچھاور کریں گے وہیں، گندے انڈے، سڑے ٹماٹر اور پتھر بھی برسیں گے سو ہر چیز کے لیے تیار رہنا چاہیئے۔
دوا میں جو الکحل ڈالی جاتی ہے تو یہ دوا کے طور پر ہے اور اسی طرح جائز سمجھی جائے گی جیسے بھوک سے مجبور شخص کو اضطراری طور پر سور کا گوشت کھانے کی اجازت ہے صرف جان بچانے کی خاطر۔ سور کا گوشت تو اضطراری پر کھانے سے نقصان بھی پہنچا سکتاہے لیکن دوا میں موجود لکحل تو مریض میں کوئی نشہ نہیں لاتی سوائے اس کے کوئی زیادہ مقدار پی لے۔ بہرحال یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے اس لئے پر تو خاموش رہنا ہی بہتر ہے کم از کم اس دھاگے میں۔ویسے کیا فرماتے ہیں علمائے "ہوم یُو پیتھی" بیچ اس مسئلے کے کہ ہومیوپیتھی کی دوائیوں میں الکحل بھی شامل ہوتی ہے چاہے ایک قطرے کا ہزارواں حصہ ہی کیوں نہ ہو کیونکہ مفتیانِ دین کے مطابق الکحل کا ایک قطرہ بھی حرام ہی ہوتا ہے اور جیسے پیشاب کا ایک قطرہ ہزاروں من دودھ کو بھی ناپاک کر دیتا ہے اسی طرح الکحل کا ایک قطرہ بھی پاک چیز کو ناپاک کر دیتا ہے، سو دوائیوں کے لیے کیا حکم ہے؟
یہ بات واقعی اختلافی ہے۔انتہائی ضرورت اور موت سے بچنے کے لیے مردار کھا لینے کی اجازت اور چیز ہے جب کہ شراب کو بطور دوا استعمال کرنا دوسری چیز۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ایک حدیث ہے اس متعلق کہ کسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شراب کے بارے میں پوچھا کہ اس میں شفا بھی ہے اور اس کو بطور دوا استعمال کرنا کیسا ہے؟ تو آپ (ص) نے جواب میں شراب کو بطور دوا استعمال کرنے سے بھی منع فرمایا۔ یہ محض یاد داشت سے اور مفہوم لکھا ہے محفل کے مفتیان اور عالمان صحیح حدیث شاید بیان کر سکیں۔دوا میں جو الکحل ڈالی جاتی ہے تو یہ دوا کے طور پر ہے اور اسی طرح جائز سمجھی جائے گی جیسے بھوک سے مجبور شخص کو اضطراری طور پر سور کا گوشت کھانے کی اجازت ہے صرف جان بچانے کی خاطر۔ سور کا گوشت تو اضطراری پر کھانے سے نقصان بھی پہنچا سکتاہے لیکن دوا میں موجود لکحل تو مریض میں کوئی نشہ نہیں لاتی سوائے اس کے کوئی زیادہ مقدار پی لے۔ بہرحال یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے اس لئے پر تو خاموش رہنا ہی بہتر ہے کم از کم اس دھاگے میں۔