اکیسویں صدی کی ایسٹ انڈیا کمپنی

زیک

مسافر
اگر حکومت حقیقی معنوں میں ملک کی معاشی صورت حال کو بہتر کرنا چاہتی ہے تو پرویز مشرف کے بنائے ہوئے قانون
"فسکل ریسپانسیبلیٹی اینڈ ڈیٹ لیمیٹیشن ایکٹ"
پر صحیح معنوں میں عمل درآمد کرے یہ قانون قرضے لینے کی حد کا تعین کرتا ہے کہ قرضوں کا حجم جی ڈی پی کے ساٹھ فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔
یہ تمام مسائل حد سے زیادہ قرضے لینے کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔
امریکہ میں debt limit ہے لیکن بیکار۔ قرضوں کو روکنے کا یہ صحیح اور کامیاب طریقہ نہیں
 

الف نظامی

لائبریرین
جس سے آپ بھاری قرضہ لیں گے اس کی شرائط تو ماننا پڑیں گی۔ یہ معاملہ صرف آئی ایم ایف کے ساتھ نہیں چین کے ساتھ بھی ہے۔ کوئی پاکستانی حکمران چین میں اویغور مسلمانوں پر ظلم کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہہ سکتا۔

لیکن یہ کمپنی بہادر کا سا معاملہ نہیں کہ دنیا کی صورتحال آجکل مختلف ہے۔
آپ سے مراد تحریک انصاف کی موجودہ حکومت ہے یا صرف سابقہ حکومتیں؟

یا

موجودہ و سابقہ حکومتیں جنہوں نے
fiscal responsibility and debt limitation act
کی خلاف ورزی کی۔
 
جس سے آپ بھاری قرضہ لیں گے اس کی شرائط تو ماننا پڑیں گی۔ یہ معاملہ صرف آئی ایم ایف کے ساتھ نہیں چین کے ساتھ بھی ہے۔ کوئی پاکستانی حکمران چین میں اویغور مسلمانوں پر ظلم کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہہ سکتا۔
بلاشبہ متفق ،
 

الف نظامی

لائبریرین
قرضہ لینے کے لیے شرائط ماننا اور بات ہے
اور
ادارہ آئی ایم ایف کے حوالے کرنا اور ان کے ملازم کو گورنر لگانا اور اس کو تحقیقاتی اداروں سے مستثنی کرنا اور بات ہے
ٹیکس اصلاحات لائیں ، اخراجات کم کریں ، ملکی وسائل کو تلاش کریں ، ایکسپورٹ بڑھائیں اور قرضوں سے جان چھڑانے کا پروگرام تشکیل دیں نہ کہ جو آئی ایم ایف کہے آنکھیں بند کر کے اس پر عمل کرتے جائیں۔
 
آخری تدوین:
اس لڑی پر اس قدر ٹرولنگ ہو چکی ہے کہ کچھ بھی کہا جائے، وہ فضول قسم کی ’’واٹ اباؤٹری‘‘ کی دھول میں گم ہو جائے گا۔
اسٹیٹ بینک کی نام نہاد خود مختاری کا مجوزہ قانون اپنی جگہ ۔۔۔ مگر ایسٹ انڈیا کمپنی ایسٹ انڈیا کمپنی کیوں بنی، یہ جاننا ضروری ہے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کو اصل طاقت تب حاصل ہوئی جب مقامی حکمرانوں نے اس کو مقامی لوگوں سے ٹیکس یا مالیہ وصول کرنے کا اختیار دے دیا، نتیجتاً مقامی فسکل پالیسز پر اس کی گرفت مضبوط ہوتی چلی گئی۔
جدید معاشیات میں ٹیکس کلیکشن اور فسکل پالیسی بنانا مرکزی بینک کے دائرۂ کار میں نہیں آتا ۔۔۔ اس لیے میرے خیال میں آئی ایم ایف کو ایسٹ انڈیا کمپنی سے تشبیہ دینا ٹھیک نہیں۔
یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ آخر آئی ایم ایف قرض کے بدلے میں اتنی کڑی اور سفاک شرائط کیوں عائد کرتا ہے؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف بنیادی طور پر حکومتوں کی اس وقت مالی معاونت فراہم کرتا ہے جب وہ اکنامک مس مینجمنٹ کی وجہ سے دیوالیہ ہونے کی قریب ہوں اور انہیں بیل آؤٹ پیکج کی ضرورت ہو۔
ظاہر ہے، جس کسی کو بھی دیوالیے کا سامنا ہو، قرض کے کاروبار کی دنیا میں اسے انتہائی ’’ہائی رسک‘‘ تصور کیا جاتا ہے۔ ایسی اینٹٹیز کو قرض کے حصول میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زیادہ تر کمرشل مالیاتی ادارے ایسی ہائی رسک اینٹٹیز کو قرض دیتے ہی نہیں، اور جو دیتے ہیں وہ یا تو کوئی اثاثہ بطور کولیٹرل رکھنے کی شرط رکھتے ہیں، یا پھر انتہائی بلند شرح سود پر قرضہ دیتے ہیں (یا دونوں کنڈیشنز پر عمل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں)، تاکہ ایک تو سامنے والے کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جائے، دوسرے یہ کہ اگر قرضدار قرض واپس نہ کر سکے تو کولیٹرل کو لیکویڈیٹ کر کے اپنا اصل زر وصول کیا جا سکے۔
آئی ایم ایف کا قیام ہی (کم از کم کاغذوں میں) ایسی معیشتوں کو سہارا دینے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا، اس لیے یہ انتہائی کم شرح سود پر قرض جاری کرتا ہے (جسے قرض کے کاروبار کی دنیا کے حساب سے مفت برابر بھی کہہ سکتے ہیں)۔ تاہم اصل زر کی واپسی اس کو بھی مطلوب ہوتی ہے اس لیے وہ بلند شرحِ سود اور کولیٹرل کے بدلے ’’اپنے تئیں‘‘ وہ شرائط عائد کرتا ہے جن پر عمل کر کے قرضدار اپنی معیشت کو دوبارہ کھڑا کر سکے اور پھر سے ان حالات سے دوچار نہ ہو جن کی وجہ سے اسے بیل آؤٹ کی ضرورت پڑی۔ لبرل معاشیات کے اصولوں پر سفاکانہ حد تک عمل پیرا ہونے کی وجہ سے آئی ایم ایف کی یہ شرائط اکثر اوقات ظالمانہ معلوم ہوتی ہیں۔ طویل بحث میں پڑے بغیر ان کا لب لباب عموماً یہی ہوتا ہے کہ جو چیز تم افورڈ نہیں کرسکتے وہ خریدو بھی نہیں ۔۔۔ چاہے وہ بجلی، پانی، گیس جیسی بنیادی ضرورت کی اشیا ہی کیوں نہ ہوں!
یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ آئی ایم ایف کا یہ طرز عمل کتنا ٹھیک یا غلط ہے اور جہاں لاکھوں کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کا معاملہ ہو وہاں آنکھیں بند اور عمرانیات کو نظر انداز کر کے نیو کلاسیکل اکنامکس کے اصولوں پر اصرار کرنا کس حد تک فائدہ مند ہو سکتا ہے؟ بہر حال، آخری بات وہی ہے جسے انگریزی میں ’’بیگرز کانٹ بی چوزرز‘‘ کہتے ہیں ۔۔۔ آئی ایم خود چل کر کبھی نہیں آتا کہ ہم سے قرض لے لو!
 

جاسم محمد

محفلین
قرضہ لینے کے لیے شرائط ماننا اور بات ہے
اور
ادارہ آئی ایم ایف کے حوالے کرنا اور ان کے ملازم کو گورنر لگانا اور اس کو تحقیقاتی اداروں سے مستثنی کرنا اور بات ہے
ٹیکس اصلاحات لائیں ، اخراجات کم کریں اور قرضوں سے جان چھڑانے کا پروگرام تشکیل دیں نہ کہ جو آئی ایم ایف کہے آنکھیں بند کر کے اس پر عمل کرتے جائیں۔
قرضہ لینے کی ایک شرط یہ ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کے دوران اسٹیٹ بینک کا گورنر ان کا اپنا ہوگا۔ اس میں اتنا پریشان ہونے والی کیا بات ہے؟ کاش اس وقت پریشان ہوتے جب پچھلی حکومت ملک کو ریکارڈ قرضوں اور خساروں میں ڈبو رہی تھی جس کی وجہ سے موجودہ حکومت کو پھر آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔






 

جاسم محمد

محفلین
یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ آخر آئی ایم ایف قرض کے بدلے میں اتنی کڑی اور سفاک شرائط کیوں عائد کرتا ہے؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف بنیادی طور پر حکومتوں کی اس وقت مالی معاونت فراہم کرتا ہے جب وہ اکنامک مس مینجمنٹ کی وجہ سے دیوالیہ ہونے کی قریب ہوں اور انہیں بیل آؤٹ پیکج کی ضرورت ہو۔
یہی بات سمجھانے کیلئے ۵ صفحے کالے ہو چکے ہیں لیکن پھر بھی پوری ڈھٹائی سے آئی ایم ایف کو ولن ثابت کیا جا رہا ہے۔ جبکہ اصل ولن وہ نااہل، کرپٹ حکمران ہیں جن کی معاشی و مالی پالیسیوں کی وجہ سے یہ ملک ۲۲ بار آئی ایم ایف کے پاس بھیک مانگنے گیا ہے۔ اب یہ حکومت اس حوالہ سے کچھ سخت اقدامات کر رہی ہے تو وہ بھی قبول نہیں۔ یعنی آئی ایم ایف سے آئیندہ بھی قرض لیتے رہنا ہے البتہ ان کی جانب سے لاگو کی گئی شرائط پر کبھی بھی پوری طرح سے عمل درآمد ہونے نہیں دینا۔ مطلب قرضہ لیتے وقت آئی ایم ایف محب وطن اور ساتھ شرائط لگاتے وقت ملک دشمن ادارہ ہوتا ہے :)
 

الف نظامی

لائبریرین
قرضہ لینے کی ایک شرط یہ ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کے دوران اسٹیٹ بینک کا گورنر ان کا اپنا ہوگا۔ اس میں اتنا پریشان ہونے والی کیا بات ہے؟ کاش اس وقت پریشان ہوتے جب پچھلی حکومت ملک کو ریکارڈ قرضوں اور خساروں میں ڈبو رہی تھی جس کی وجہ سے موجودہ حکومت کو پھر آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔
صرف آئی ایم ایف ولن نہیں بلکہ کرپٹ نظام کے موجودہ اور سابقہ سہولت کار بھی ولن ہیں۔ نواز شریف ، زرداری اور عمران خان۔ ان سب کی اندھی تقلید اور پرستش کرنے والے یہ فرض کرتے ہیں کہ حکمران فرشتہ ہے اور اس سے کوئی غلطی نہیں ہوتی اور اس پر تنقید بھی منع ہے۔

کاش اس وقت پریشان ہوتے کا جواب :

دسمبر 9, 2010
پاکستان میں 9 فیصد لوگ محصولات اداکرتے ہیں جبکہ ہندوستان میں یہ تناسب 16 فیصدی سے 18 فیصدی تک ہے۔ پاکستان کے لوگ اگر اپنے تمام محصولات ادا کردیں تو غیرملکی امداد اور قرضوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اس لڑی پر اس قدر ٹرولنگ ہو چکی ہے کہ کچھ بھی کہا جائے، وہ فضول قسم کی ’’واٹ اباؤٹری‘‘ کی دھول میں گم ہو جائے گا۔
اسٹیٹ بینک کی نام نہاد خود مختاری کا مجوزہ قانون اپنی جگہ ۔۔۔ مگر ایسٹ انڈیا کمپنی ایسٹ انڈیا کمپنی کیوں بنی، یہ جاننا ضروری ہے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کو اصل طاقت تب حاصل ہوئی جب مقامی حکمرانوں نے اس کو مقامی لوگوں سے ٹیکس یا مالیہ وصول کرنے کا اختیار دے دیا، نتیجتاً مقامی فسکل پالیسز پر اس کی گرفت مضبوط ہوتی چلی گئی۔
جدید معاشیات میں ٹیکس کلیکشن اور فسکل پالیسی بنانا مرکزی بینک کے دائرۂ کار میں نہیں آتا ۔۔۔ اس لیے میرے خیال میں آئی ایم ایف کو ایسٹ انڈیا کمپنی سے تشبیہ دینا ٹھیک نہیں۔
یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ آخر آئی ایم ایف قرض کے بدلے میں اتنی کڑی اور سفاک شرائط کیوں عائد کرتا ہے؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف بنیادی طور پر حکومتوں کی اس وقت مالی معاونت فراہم کرتا ہے جب وہ اکنامک مس مینجمنٹ کی وجہ سے دیوالیہ ہونے کی قریب ہوں اور انہیں بیل آؤٹ پیکج کی ضرورت ہو۔
ظاہر ہے، جس کسی کو بھی دیوالیے کا سامنا ہو، قرض کے کاروبار کی دنیا میں اسے انتہائی ’’ہائی رسک‘‘ تصور کیا جاتا ہے۔ ایسی اینٹٹیز کو قرض کے حصول میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زیادہ تر کمرشل مالیاتی ادارے ایسی ہائی رسک اینٹٹیز کو قرض دیتے ہی نہیں، اور جو دیتے ہیں وہ یا تو کوئی اثاثہ بطور کولیٹرل رکھنے کی شرط رکھتے ہیں، یا پھر انتہائی بلند شرح سود پر قرضہ دیتے ہیں (یا دونوں کنڈیشنز پر عمل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں)، تاکہ ایک تو سامنے والے کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جائے، دوسرے یہ کہ اگر قرضدار قرض واپس نہ کر سکے تو کولیٹرل کو لیکویڈیٹ کر کے اپنا اصل زر وصول کیا جا سکے۔
آئی ایم ایف کا قیام ہی (کم از کم کاغذوں میں) ایسی معیشتوں کو سہارا دینے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا، اس لیے یہ انتہائی کم شرح سود پر قرض جاری کرتا ہے (جسے قرض کے کاروبار کی دنیا کے حساب سے مفت برابر بھی کہہ سکتے ہیں)۔ تاہم اصل زر کی واپسی اس کو بھی مطلوب ہوتی ہے اس لیے وہ بلند شرحِ سود اور کولیٹرل کے بدلے ’’اپنے تئیں‘‘ وہ شرائط عائد کرتا ہے جن پر عمل کر کے قرضدار اپنی معیشت کو دوبارہ کھڑا کر سکے اور پھر سے ان حالات سے دوچار نہ ہو جن کی وجہ سے اسے بیل آؤٹ کی ضرورت پڑی۔ لبرل معاشیات کے اصولوں پر سفاکانہ حد تک عمل پیرا ہونے کی وجہ سے آئی ایم ایف کی یہ شرائط اکثر اوقات ظالمانہ معلوم ہوتی ہیں۔ طویل بحث میں پڑے بغیر ان کا لب لباب عموماً یہی ہوتا ہے کہ جو چیز تم افورڈ نہیں کرسکتے وہ خریدو بھی نہیں ۔۔۔ چاہے وہ بجلی، پانی، گیس جیسی بنیادی ضرورت کی اشیا ہی کیوں نہ ہوں!
یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ آئی ایم ایف کا یہ طرز عمل کتنا ٹھیک یا غلط ہے اور جہاں لاکھوں کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کا معاملہ ہو وہاں آنکھیں بند اور عمرانیات کو نظر انداز کر کے نیو کلاسیکل اکنامکس کے اصولوں پر اصرار کرنا کس حد تک فائدہ مند ہو سکتا ہے؟ بہر حال، آخری بات وہی ہے جسے انگریزی میں ’’بیگرز کانٹ بی چوزرز‘‘ کہتے ہیں ۔۔۔ آئی ایم خود چل کر کبھی نہیں آتا کہ ہم سے قرض لے لو!
پریگمیٹزم اور آئیڈیلزم کے درمیان کئی درجات ہیں۔ توازن یہ ہے کہ آپ کسی ایک انتہا پر نہ موجود ہوں۔
 

جاسم محمد

محفلین
ان سب کی اندھی تقلید اور پرستش کرنے والے یہ فرض کرتے ہیں کہ حکمران فرشتہ ہے اور اس سے کوئی غلطی نہیں ہوتی اور اس پر تنقید بھی منع ہے۔
آئی ایم ایف کی تمام پالیسیز عقل کل نہیں۔ سرکاری محصولات بڑھانے کیلئے جو بجلی و گیس کے بل بڑھائے جا رہے ہیں اس سے حکومت کی آمدن میں مزید کمی کا امکان ہے۔ کیونکہ جب عام استعمال کی چیزوں کی قیمتیں اتنا بڑھ جاتی ہیں کہ عوام اسے افورڈ نہیں کرسکتی۔ تو وہ بجائے بل بھرنے کے اس کا متبادل تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یا استعمال کم کر دیتے ہیں۔ یوں آئی ایم ایف کی مہنگائی کے ذریعہ محصولات بڑھانے والی پالیسیاں زہر قاتل ہیں۔ لیکن حکومت کی مجبوری ہے کیونکہ اگر وہ یہ نہ کرے تو آئی ایم ایف اپنا پروگرام معطل کر دے گا۔
Power tariff increase: Not worth it - BR Research - Business Recorder
 

الف نظامی

لائبریرین
جس سے آپ بھاری قرضہ لیں گے اس کی شرائط تو ماننا پڑیں گی۔ یہ معاملہ صرف آئی ایم ایف کے ساتھ نہیں چین کے ساتھ بھی ہے۔ کوئی پاکستانی حکمران چین میں اویغور مسلمانوں پر ظلم کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہہ سکتا۔

لیکن یہ کمپنی بہادر کا سا معاملہ نہیں کہ دنیا کی صورتحال آجکل مختلف ہے۔
"ایک تاریخ ساز لمحہ" یعنی امریکہ و چین کی "واٹ اباوٹری"
 
5 صفحات کی بحث و تکرار سے ہماری سمجھ جو بات آئی ہے وہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف دور جدید کی ایسٹ انڈیا کمپنی ہی ہے ۔اس کا طریقہ انداز سابقہ ایسٹ انڈیا کمپنی سے کچھ مختلف ہے ۔
نہ تو ہم ماہر معیشت ہیں اور نہ ہی ماہر اقتصادیات ۔
مہنگائی کی بڑھنے کی رفتاری شاید جزوی طور پر کم ہو جائے مگر مکمل ختم ہونے کی کوئی امید نظر نہیں آرہی ۔
ملکی ذخائرہ میں اضافے سے ایک عام آدمی کی گھریلوں زندگی پر کیا اثرات پڑے گے ؟
کیا وہ باآسانی اپنی معاشی مسائل ھل کر سکے گا ؟
 

الف نظامی

لائبریرین
آئیڈیلزم کا درس دینے والا پریگمیٹک امریکہ بہادر
سابق امریکی وزیر خارجہ "امریکی ایکسپیرمنٹس" کا تعارف کرا رہے ہیں۔ جو دوست انگریزی نہیں سمجھتے ان کے لئے عرض ہے کہ موصوف امریکی خارجہ پالیسی کے بنیادی ستون متعارف کراتے ہوئے فرما رہے ہیں
"میں سی آئی اے کا ڈائریکٹر تھا۔ ہم نے جھوٹ بولا، ہم نے دھوکے دئے، اور ہم نے چوریاں کیں۔ ہم نے اس کے لئے پورے پورے ٹریننگ کورس بنا رکھے ہیں"
جب ہم خارجہ پالیسی کے پس منظرمیں امریکی الزامات کے حوالے سے کبھی کہتے ہیں امریکہ بکواس کرتا ہے تو پاکستانی "دانشور" ہمیں جھٹلاتے ہوئے اپنے اس ناجائز باپ کا دفاع شروع کر دیتا ہے
 

زیک

مسافر
5 صفحات کی بحث و تکرار سے ہماری سمجھ جو بات آئی ہے وہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف دور جدید کی ایسٹ انڈیا کمپنی ہی ہے ۔اس کا طریقہ انداز سابقہ ایسٹ انڈیا کمپنی سے کچھ مختلف ہے ۔
نہ تو ہم ماہر معیشت ہیں اور نہ ہی ماہر اقتصادیات ۔
مہنگائی کی بڑھنے کی رفتاری شاید جزوی طور پر کم ہو جائے مگر مکمل ختم ہونے کی کوئی امید نظر نہیں آرہی ۔
ملکی ذخائرہ میں اضافے سے ایک عام آدمی کی گھریلوں زندگی پر کیا اثرات پڑے گے ؟
کیا وہ باآسانی اپنی معاشی مسائل ھل کر سکے گا ؟
آپ کی بات کو کچھ گھماتے ہیں: ایسٹ انڈیا کمپنی کے آنے سے عام ہندوستانی کو کیا فرق پڑا تھا؟
 

سیما علی

لائبریرین
آئی ایم ایف کی تمام پالیسیز عقل کل نہیں۔ سرکاری محصولات بڑھانے کیلئے جو بجلی و گیس کے بل بڑھائے جا رہے ہیں اس سے حکومت کی آمدن میں مزید کمی کا امکان ہے۔ کیونکہ جب عام استعمال کی چیزوں کی قیمتیں اتنا بڑھ جاتی ہیں

سٹیٹ بینک آف پاکستان: آئی ایم ایف شرائط کے تحت مرکزی بینک کی زیادہ خود مختاری پاکستان کی معاشی ترقی پر کیسے اثرانداز ہو گی؟
  • تنویر ملک
27 مار چ 2021
_117728484_96481546-694a-46ce-b8d2-d700edca48fa.jpg

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی پاکستان کو قرض دینے کی شرائط کے تحت حکومت سٹیٹ بینک آف پاکستان کو زیادہ خود مختاری دینے جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے سٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ 1956 میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں جن کے تحت سٹیٹ بینک زیادہ خود مختار ادارہ بن جائے گا۔

اگرچہ نوے کی دہائی میں ہونے والی ترامیم کے تحت سٹیٹ بینک کو خود مختاری حاصل ہے تاہم تازہ ترین ترامیم اسے بہت زیادہ خود متخار بنا دیں گی اور ماہرین معیشت کے مطابق اب مرکزی بینک کسی حکومتی ادارے کو اپنی پالییسوں کے لیے جوابدہ نہیں ہو گا۔

سٹیٹ بینک کی زیادہ خود مختاری کی ترامیم کے تحت اب اس کا پہلا کردار ملک میں داخلی طور پر قیمتوں میں استحکام لانا ہے یعنی مہنگائی کو کنٹرول کرنا ہے۔ دوسرا کردار مالیاتی استحکام ہو گا یعنی ایکسچینچ ریٹ کا استحکام جبکہ تیسرے نمبر پر حکومت کی معاشی ترقی کی کوششوں میں مدد دینا ہے۔

سٹیٹ بینک کے نئے کردار میں ملکی معاشی ترقی کو سب سے نیچے رکھا گیا ہے جو معیشت کے ماہرین کے نزدیک ایک خطرناک منظر نامے کی نشاندہی کرتا ہے۔

پاکستان کی معاشی ترقی اس وقت نچلی سطح پر ہے۔ گزشتہ مالی سال میں کورونا وارئرس اور دوسرے عوامل کی وجہ سے پاکستان کی معاشی ترقی ستر برسوں کے بعد منفی زون میں چلی گئی تھی جبکہ اس سال اس کا دو فیصد سے کچھ زیادہ رہنے کا حکومتی ہدف ہے۔
سٹیٹ بینک کی زیادہ خود مختاری پاکستان کی معاشی ترقی پر کیسے اثرانداز ہو گی؟ - BBC News اردو
 
Top