محمد یعقوب آسی
محفلین
میرا مطلب یہ تھا کہ علامہ سرسری صاحب بہتر بتا سکتے ہیں۔ یہ وہ عربی زبان و ادب سے بھی شغف رکھتے ہیں۔
ابتذال: اس کا مادہ ’’ب ذ ل‘‘ ہے۔ اردو میں ’’توجہ مبذول کرانا‘‘، ’’بذلہ سنجی‘‘ وغیرہ معروف ہیں۔
ادب میں یہ ’’سطحیت‘‘، ’’اتھلاپن‘‘، ’’عامیانہ پن‘‘ اور ’’رکیک موضوعات‘‘ کے علاوہ بھی کئی معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ ایسے موضوعات یا ایسا لب و لہجہ جو ادب کے عمدہ ذوق کو نہ پا سکے یا جہاں لفظی یا معنوی سطح پر تکدر کی فضا پیدا ہو، ان سب کے لئے ’’ابتذال‘‘ جامع لفظ ہے۔
خالص مزاح میں اس کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں کہ وہاں بڑا مقصد ’’ہنسنا ہنسانا‘‘ ہوتا ہے اور انسان ایسی بات بھی کر جاتا ہے جو اعلیٰ انسانی اقدار سے یا معروف طرزِ اظہار سے لگا نہیں کھاتی۔ بسا اوقات کہنے والا خود بھی جان جاتا ہے کہ فلاں بات ’’کچھ غلط‘‘ ہو گئی ہے مگر ’’چلو یار جانے دو، مزاح ہی ہے نا!‘‘۔
اس سے بچنے کا ایک تو بہت جانا پہچانا طریقہ ہے کہ مزاح کو ایک رُخ دے دیا جائے، اسی کو ’’طنز‘‘ کہتے ہیں۔ اس میں طنز نگار کی توجہ مقصد کی طرف ہو جاتی ہے اور وہ اس ’’غیر ضروری عنصر‘‘ سے بچ جاتا ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ مستقل اور ہمہ گیر انسانی اقدار اور مسائل کو مزاح میں بیان کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس سے پیدا ہونے والا مزاح اپنے پیچھے عظیم سنجیدگی بلکہ تفکر لئے ہوئے ہوتا ہے اور اس کا حصار ادب کے سنجیدہ قاری تک محیط ہوتا ہے۔ ظاہر ہے یہ سارا کچھ ایک دم تو نہیں ہو سکتا، اس کے لئے وقت اور پختگی درکار ہے جو آتے آتے آتی ہے۔
امید ہے آپ اتفاق کریں گے۔
محمد خلیل الرحمٰن صاحب کیا فرماتے ہیں؟ پیچ اس مسئلے کے!
ابتذال: اس کا مادہ ’’ب ذ ل‘‘ ہے۔ اردو میں ’’توجہ مبذول کرانا‘‘، ’’بذلہ سنجی‘‘ وغیرہ معروف ہیں۔
ادب میں یہ ’’سطحیت‘‘، ’’اتھلاپن‘‘، ’’عامیانہ پن‘‘ اور ’’رکیک موضوعات‘‘ کے علاوہ بھی کئی معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ ایسے موضوعات یا ایسا لب و لہجہ جو ادب کے عمدہ ذوق کو نہ پا سکے یا جہاں لفظی یا معنوی سطح پر تکدر کی فضا پیدا ہو، ان سب کے لئے ’’ابتذال‘‘ جامع لفظ ہے۔
خالص مزاح میں اس کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں کہ وہاں بڑا مقصد ’’ہنسنا ہنسانا‘‘ ہوتا ہے اور انسان ایسی بات بھی کر جاتا ہے جو اعلیٰ انسانی اقدار سے یا معروف طرزِ اظہار سے لگا نہیں کھاتی۔ بسا اوقات کہنے والا خود بھی جان جاتا ہے کہ فلاں بات ’’کچھ غلط‘‘ ہو گئی ہے مگر ’’چلو یار جانے دو، مزاح ہی ہے نا!‘‘۔
اس سے بچنے کا ایک تو بہت جانا پہچانا طریقہ ہے کہ مزاح کو ایک رُخ دے دیا جائے، اسی کو ’’طنز‘‘ کہتے ہیں۔ اس میں طنز نگار کی توجہ مقصد کی طرف ہو جاتی ہے اور وہ اس ’’غیر ضروری عنصر‘‘ سے بچ جاتا ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ مستقل اور ہمہ گیر انسانی اقدار اور مسائل کو مزاح میں بیان کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس سے پیدا ہونے والا مزاح اپنے پیچھے عظیم سنجیدگی بلکہ تفکر لئے ہوئے ہوتا ہے اور اس کا حصار ادب کے سنجیدہ قاری تک محیط ہوتا ہے۔ ظاہر ہے یہ سارا کچھ ایک دم تو نہیں ہو سکتا، اس کے لئے وقت اور پختگی درکار ہے جو آتے آتے آتی ہے۔
امید ہے آپ اتفاق کریں گے۔
محمد خلیل الرحمٰن صاحب کیا فرماتے ہیں؟ پیچ اس مسئلے کے!