محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
اور مرغِ باد نما کی طرح بار بار اپنا قبلہ بدلتا ہے!!!کپتان ہوا کے رُخ پر چلتا ہے
اور مرغِ باد نما کی طرح بار بار اپنا قبلہ بدلتا ہے!!!کپتان ہوا کے رُخ پر چلتا ہے
مطلب پاکستان میں مارشل لاؤں کے بعد بکنے والی مٹھائیاں عوام کی امنگوں کے مطابق نہیں تھی۔متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب بادشاہتیں ہیں۔ بادشاہوں کو اپنے عوام کی امنگوں کا خیال رکھنے قطعاً ضرورت نہیں۔
پاکستان میں اس وقت مارشل لا ہے؟مطلب پاکستان میں مارشل لاؤں کے بعد بکنے والی مٹھائیاں عوام کی امنگوں کے مطابق نہیں تھی۔
اسرائیل کو زور زبردستی تسلیم کرنے کے چکر میں طاقتور سابق جرنیل بھی اپنا سافٹویر اپڈیٹ کروا کر بیٹھ گئے ہیںکپتان ہوا کے رُخ پر چلتا ہے اور اِس وقت مُلک میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوئی فضا ہی موجُود نہیں۔ پاپولر لیڈر نے سب سے پہلے اپنا ووٹ بینک دیکھنا ہوتا ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لِیے کِسی قدر آئیڈیل حالات مُشرف دَور میں تھے مگر تب بھی مذہبی جماعتوں اور عوام کے رد عمل کے خوف سے مشرف بھی دُبکا رہا۔
۹۹ میں جب مارشل لا لگا تھا تو عوام نے مٹھائی کھائی تھی۔ اب بھی اگر لگے گا تو اس حکومت سے جان چھڑانے پر مٹھائی کھائی جائے گی۔پاکستان میں اس وقت مارشل لا ہے؟
پاکستان میں اس وقت مصر اور کچھ سال قبل ترکی جیسا ھائیبرڈ نظام ہے۔ اصل زمام حکومت محکمۂ زراعت کے پاس ہے۔پاکستان میں اس وقت مارشل لا ہے؟
عمران خان اپنی منزل سے کبھی تبدیل نہیں کرتا۔ ہاں منزل تک پہنچنے کا راستہ بار بار بدلتا ہے جسے یوٹرن کہتے ہیںاور مرغِ باد نما کی طرح بار بار اپنا قبلہ بدلتا ہے!!!
لش پش تو دیکھو، یہ جرنیل کم، دُولہا مِیاں زیادہ لگ رہا ہے۔اسرائیل کو زور زبردستی تسلیم کرنے کے چکر میں طاقتور سابق جرنیل بھی اپنا سافٹویر اپڈیٹ کروا کر بیٹھ گئے ہیں
بالکل۔ ریاست کے تمام ستون ایک طاقت کے نیچے ہیں یا عرف عام میں ایک پیج پر ہیں۔پاکستان میں اس وقت مصر اور کچھ سال قبل ترکی جیسا ھائیبرڈ نظام ہے۔ اصل زمام حکومت محکمۂ زراعت کے پاس ہے۔
حکیم سعید نے کسی سازش کا ذکر کیا تھا جس میں یہودی ایجنٹ کا کردار بھی تھا۔ ہمارے پاس ان کی کتاب کے اس صفحے کا عکس موجود ہے لیکن ہمارے ڈیجٹل ذخیرے میں کہیں گم ہے ۔
عمران خان ۱۹۹۶ میں سیاست میں آئے تھے۔ تب سے ان کے خلاف سازشی نظریات چل رہے ہیں۔ اس کے باوجود آج وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ اور عین ممکن ہے ۲۰۲۳ کے بعد بھی رہیں۔سنتے ہیں کہ یہ بات اُنہوں نے اپنی کتاب "جاپان کہانی" میں لکھی ہے۔ لیکن یہ جاپان کہانی والی کتاب کہیں ملتی نہیں ہے۔
حکیم سعید صاحب کا سفرنامہ جاپان "سعید سیاح جاپان میں " کے عنوان سے ریختہ پر موجود ہے۔ تاہم اُس میں یہ بات غالباً مذکور نہیں ہے۔ لیکن میں نے سرسری دیکھی ہے۔ ممکن ہے کہ اسی میں اس بات کا ذکر ہو۔
کیا اس کے بعد بھی کسی ثبوت کی ضرورت ہے؟عمران خان ۱۹۹۶ میں سیاست میں آئے تھے۔ تب سے ان کے خلاف سازشی نظریات چل رہے ہیں۔ اس کے باوجود آج وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ اور عین ممکن ہے ۲۰۲۳ کے بعد بھی رہیں۔
پراپیگنڈہ لگتا ہے، کِتاب میں ایسا واقعہ ہے بھی نہیں۔ یُوں بھی قیاس اور گُمان پر اِتنا بڑا الزام غلط ہے۔ کپتان نے جب کہہ دیا، اسرائیل کو تسلیم نہیں کرنا ہے تو بات ختم ہو جانی چاہیے۔سنتے ہیں کہ یہ بات اُنہوں نے اپنی کتاب "جاپان کہانی" میں لکھی ہے۔ لیکن یہ جاپان کہانی والی کتاب کہیں ملتی نہیں ہے۔
حکیم سعید صاحب کا سفرنامہ جاپان "سعید سیاح جاپان میں " کے عنوان سے ریختہ پر موجود ہے۔ تاہم اُس میں یہ بات غالباً مذکور نہیں ہے۔ لیکن میں نے سرسری دیکھی ہے۔ ممکن ہے کہ اسی میں اس بات کا ذکر ہو۔
بھائی ہم سُنی سُنائی نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ ہم نے خود عبارت دیکھی ہے۔ اب حکیم سعید اور ڈاکٹر اسرار اس پروپیگنڈے سے متاثر ہوگئے ہوں تو کیا عجب!پراپیگنڈہ لگتا ہے، کِتاب میں ایسا واقعہ ہے بھی نہیں۔ یُوں بھی قیاس اور گُمان پر اِتنا بڑا الزام غلط ہے۔ کپتان نے جب کہہ دیا، اسرائیل کو تسلیم نہیں کرنا ہے تو بات ختم ہو جانی چاہیے۔
اس کی حیثیت ایک اخباری تراشہ سے زیادہ نہیں ہے۔کیا اس کے بعد بھی کسی ثبوت کی ضرورت ہے؟
یِہ نوائے وقت کا فونٹ نہیں تھا جو مُستعمل رہا۔ مزید یِہ کہ خبر کا معیار نوائے وقت کا ایسا پست نہیں۔ شہ سُرخی اور ذیلی سُرخی کے آخر میں ختمہ کا نشان کِسی اناڑی کا کرشمہ ہے۔ شہ سُرخی میں 'اثر و رسوخ' کی جگہ 'اثر رسوخ' بھی پروف ریڈر کی نظر سے رہ گیا اور مزید یِہ کہ صاف معلوم ہو رہا ہے کہ دو تصویروں کو آپس میں مِلایا گیا ہے۔عمران خان ۱۹۹۶ میں سیاست میں آئے تھے۔ تب سے ان کے خلاف سازشی نظریات چل رہے ہیں۔ اس کے باوجود آج وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ اور عین ممکن ہے ۲۰۲۳ کے بعد بھی رہیں۔
اور حکیم سعید سے زندگی بھر اس معاشرے کے تمام ناسوروں کو دل کڑا کے بےنقاب کیا ۔حکیم سعید نے اپنی کتاب میں ایک ہی یہودی ایجنٹ کے بارے میں لکھا تھا اور وہ نیازی صاحب تھے۔
جی اپنی پسند کی بات جو بھی کہے وہ سب سے اچھا۔ ورنہ کسی بھی بودی بات کو سمجھنے اور پرکھنے کے کیا ضرورت۔تو کیا حکیم صاحب کا فرمانا مستند ہو گیا؟
جب بغض شدید ہو تو ادھر ادھر ٹامک ٹوئیاں مارنے کے علاوہ کیا کام رہ جاتا ہے ۔یہ لیں، ابھی آپ حکیم سعید کی بات کر رہے تھے، اب جمائمہ پر جا پہنچے۔ِ
یِہ نوائے وقت کا فونٹ نہیں تھا جو مُستعمل رہا۔ مزید یِہ کہ خبر کا معیار نوائے وقت کا ایسا پست نہیں۔ شہ سُرخی اور ذیلی سُرخی کے آخر میں ختمہ کا نشان کِسی اناڑی کا کرشمہ ہے۔ شہ سُرخی میں 'اثر و رسوخ' کی جگہ 'اثر رسوخ' بھی پروف ریڈر کی نظر سے رہ گیا اور مزید یِہ کہ صاف معلوم ہو رہا ہے کہ دو تصویروں کو آپس میں مِلایا گیا ہے۔
جی آپ کی بات درست ہے۔ اصل خبر یہ رہی:کیا اس کے بعد بھی کسی ثبوت کی ضرورت ہے؟