اہل سنت و الجماعت پنجاب کے صدر مولانا شمس الرحمان قتل

قیصرانی

لائبریرین
چلیں جی دل کی بات بھی زبان پر آ ہی گئی آپ کے۔۔۔ ۔۔۔ بہت شکریہ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔مشورہ اچھا دیا ہے ۔
ظاہر ہے کہ محفل بری، اس کی انتطامیہ بری اور جانبدار، ہر بات آپ کی مرضی اور مزاج کے خلاف ہے تو بھائی اتنا بلڈ پریشر ہائی کرنا اور غصہ کس بات کا؟ میں آپ کی جگہ ہوتا تو اب تک کسی دیگر گوشے میں ہی جھانک لیتا کہ آیا یہ "اردو محفل" ہے کہ "اسلام کی سربلندی، میرے فرقے کی نظر میں" ہے؟
 

وجدان

محفلین
یہ ہوئی نا بات۔ چت بھی میری اور پٹ بھی میری۔ یعنی اگر انتظامیہ کو للکارا جائے اور جواب ملے تو غصہ، اور اگر جواب نہ ملے تو بھی غصہ
جیتے رہیئے اور اگر یہ محفل اتنی ہی بری ہے اور انتظامیہ اتنی ہی جانبدار، تو بھائی میرے اس سے بہتر بہت سی جگہیں انٹرنیٹ پر مل جائیں گی۔ لازمی اسی محفل پر اتنی مہربانی کیوں

جناب آپ کی کہی ہوئی کسی بھی بات پر انتظامیہ کو بالکل بھی غصہ نہیں آیا۔ اب یہ تو آپ شکایت سے الزام تراشی پر اُتر آئے ہیں۔


ویسے شکایت کر کے یا الزام لگا کر کیا حاصل ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ آپ نے مہذب طریقے سے کہہ دیا ہے کہ اگر ایسے ہی رہنا ہے تو رہو ورنہ اپنا راستہ ناپو :) تو تنیجہ یہ نکلا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ راستہ ناپا جائے۔ شکریا

آخر ی الفاظ یہی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ پاک سب کو ہدایت دئے۔ آمین ثم آمین
 
حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ایک بلند پایہ صحابی رسول تھے اور اہلسنت والجماعت (یعنی سنیوں) کے نزدیک یہ ان کی نجات کے لیے کافی و شافی بات ہے، اور اہل تسنن و اہل تشیع کے مابین یہی بات من جملہ کچھ اور باتوں کے باعث امتیاز بھی ہے۔ اس معاملے میں بنیادی طور پر اہل سنت، جو برصغیر میں بریلوی اور دیوبندی دو گرہوں میں منقسم ہیں ، متفق ہیں لہذا چاہے وہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان کی ذات ہو یا مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا محمد رشید احمدگنگوہی کی ذات، یہی فتویٰ دیتی ہیں، اور غیر مقلدین یا اہل حدیث حضرات کا بھی یہی مذہب ہے۔
مجھے حیرانی ہے ان لوگوں پر جو خود کو چاہے بریلوی کہیں یا دیوبندی، کسی بھی صحابی رسول اللہ کی ذات پر کیچڑ اچھالیں یا بدگمانی کا اظہار کریں کے ان کے اکابرین کا یہ طریقہ نہیں رہا ہے۔ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی فضیلت و ان کی محبت کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ حضرت معاویہ سے اظہار بغض کیا جائے کہ حضرت علی و حضرت حسن و حسین ان حضرت گرامی نے حضرت معاویہ سے نہ صرف صلح کر لی تھے بلکہ موخر الذکر حضرات نے بیعت معاویہ بھی کی تھی۔حضرت علی و حضرت معاویہ کی صلح کا ذکر طبری وغیرہ نے بھی چالیس ہجری کے واقعات میں کیا ہے۔
حضرت معاویہ صحابی رسول ہیں، برادر نسبتی رسول اللہ ہیں(حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے رشتے سے) اور ہم زلف رسول بھی ہیں(ام المومنین حضرت ام سلمہ کی بہن قریبہ صغریٰ آپ کے نکاح میں تھیں) ۔حضرت معاویہ کا حضرت حسین سے ایک اور رشتہ یہ ہے کہ سیدنا حسین کے صاحبزادے حضر ت علی اکبر کی نانی حضرت میمونہ، حضرت معاویہ کی ہمشیرہ تھیں۔
حضرت معاویہ کاتب وحی ہیں البدایہ والنہایہ جلد ۸ میں ان کے فضائل کے تحت اس بات کا ذکر موجود ہے۔
یزید کے عہد میں جو کچھ ہوا اس کا ذمہ دار صرف یزید ہی تھا حضرت معاویہ نے اس کو لائق جان کر اپنا ولی بنایا(اور جس میں کوئی شرعی قباحت موجود نہ تھی) تاہم جو کچھ بعد ازاں یزید نے کیا اس کا عذاب یزید اور کوفہ کے دغا بازوں کے سر جاتا ہے، عقلی طور پر و شرعی طور پر اس کی ذمہ داری ہر گز حضرت معاویہ پر عائد نہیں کی جاسکتی
تاریخ کبیراز امام بخاری میں رسول اللہ ﷺ کی ایک دعا جناب معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں منقول ہوئی ہے اے اللہ معاویہ کو ہادی بنا اور ہدایت یافتہ فرما اس کو ہدایت دے اور اس کے ذریعے سے دوسروں کو ہدایت نصیب فرما۔
پھر اگر کوئی حضرت معاویہ سے اپنی نسبت کا اظہار کرے تو اس میں کیا ہرج ہے؟؟ کیا ضروری ہے کہ ایسا کسی مقابلہ بازی میں کیا جائے؟؟ اور باریک بین بن کر اس بات کی کھود کرید کی جائے کہ ایسا کسی تعصب کے اظہار کے لیے تو نہیں کیا جا رہا؟؟ یعنی کتنی عجیب بات ہے کہ نقوی تقوی جعفری زیدی کاشفی کاظمی وغیرہ وغیرہ نسبتیں(اور جن میں کوئی ہرج نہیں) رکھنا تو گویا ایک معمول کی بات سمجھی جائے اور اگر کوئی اپنے نام کے ساتھ معاویہ کا نام جوڑ لے ان کی محبت میں، یا ان کے صحابی رسول اللہ ہونے کے احترام میں تو اس سلسلے میں شک و شبہات کا اظہار کیا جائے؟؟ کیا یہ تعصب و جانبداری نہیں؟؟
خدارا صحابہ کے گروہ کو اللہ اور اس کے رسول کی خاطر بخش دیجئے اور بہت کچھ ہےقابلیت و ذہانت کے اظہار کے لیے، تاریخ میں بہت کچھ اور ہے سبق سیکھنے و سکھانے کے مشاجرات صحابہ کے علاوہ۔
اللہ پاک کی بے شمار رحمت و برکتیں اور درود و سلام ہو رسول اللہ ﷺ پر آپ کے اہل بیت کرام پر خلفائے راشدین اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر۔ آمین
 
آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ایک بلند پایہ صحابی رسول تھے اور اہلسنت والجماعت (یعنی سنیوں) کے نزدیک یہ ان کی نجات کے لیے کافی و شافی بات ہے، اور اہل تسنن و اہل تشیع کے مابین یہی بات من جملہ کچھ اور باتوں کے باعث امتیاز بھی ہے۔ اس معاملے میں بنیادی طور پر اہل سنت، جو برصغیر میں بریلوی اور دیوبندی دو گرہوں میں منقسم ہیں ، متفق ہیں لہذا چاہے وہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان کی ذات ہو یا مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا محمد رشید احمدگنگوہی کی ذات، یہی فتویٰ دیتی ہیں، اور غیر مقلدین یا اہل حدیث حضرات کا بھی یہی مذہب ہے۔
مجھے حیرانی ہے ان لوگوں پر جو خود کو چاہے بریلوی کہیں یا دیوبندی، کسی بھی صحابی رسول اللہ کی ذات پر کیچڑ اچھالیں یا بدگمانی کا اظہار کریں کے ان کے اکابرین کا یہ طریقہ نہیں رہا ہے۔ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی فضیلت و ان کی محبت کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ حضرت معاویہ سے اظہار بغض کیا جائے کہ حضرت علی و حضرت حسن و حسین ان حضرت گرامی نے حضرت معاویہ سے نہ صرف صلح کر لی تھے بلکہ موخر الذکر حضرات نے بیعت معاویہ بھی کی تھی۔حضرت علی و حضرت معاویہ کی صلح کا ذکر طبری وغیرہ نے بھی چالیس ہجری کے واقعات میں کیا ہے۔
حضرت معاویہ صحابی رسول ہیں، برادر نسبتی رسول اللہ ہیں(حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے رشتے سے) اور ہم زلف رسول بھی ہیں(ام المومنین حضرت ام سلمہ کی بہن قریبہ صغریٰ آپ کے نکاح میں تھیں) ۔حضرت معاویہ کا حضرت حسین سے ایک اور رشتہ یہ ہے کہ سیدنا حسین کے صاحبزادے حضر ت علی اکبر کی نانی حضرت میمونہ، حضرت معاویہ کی ہمشیرہ تھیں۔
حضرت معاویہ کاتب وحی ہیں البدایہ والنہایہ جلد ۸ میں ان کے فضائل کے تحت اس بات کا ذکر موجود ہے۔
یزید کے عہد میں جو کچھ ہوا اس کا ذمہ دار صرف یزید ہی تھا حضرت معاویہ نے اس کو لائق جان کر اپنا ولی بنایا(اور جس میں کوئی شرعی قباحت موجود نہ تھی) تاہم جو کچھ بعد ازاں یزید نے کیا اس کا عذاب یزید اور کوفہ کے دغا بازوں کے سر جاتا ہے، عقلی طور پر و شرعی طور پر اس کی ذمہ داری ہر گز حضرت معاویہ پر عائد نہیں کی جاسکتی
تاریخ کبیراز امام بخاری میں رسول اللہ ﷺ کی ایک دعا جناب معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں منقول ہوئی ہے اے اللہ ہادی بنا اور ہدایت یافتہ بنا اس کو ہدایت دے اور اس کے ذریعے سے دوسروں کو ہدایت نصیب فرما۔
پھر اگر کوئی حضرت معاویہ سے اپنی نسبت کا اظہار کرے تو اس میں کیا ہرج ہے؟؟ کیا ضروری ہے کہ ایسا کسی مقابلہ بازی میں کیا جائے؟؟ اور باریک بین بن کر اس بات کی کھود کرید کی جائے کہ ایسا کسی تعصب کے اظہار کے لیے تو نہیں کیا جا رہا؟؟ یعنی کتنی عجیب بات ہے کہ نقوی تقوی جعفری زیدی کاشفی کاظمی وغیرہ وغیرہ نسبتیں(اور جن میں کوئی ہرج نہیں) رکھنا تو گویا ایک معمول کی بات سمجھی جائے اور اگر کوئی اپنے نام کے ساتھ معاویہ کا نام جوڑ لے ان کی محبت میں، یا ان کے صحابی رسول اللہ ہونے کے احترام میں تو اس سلسلے میں شک و شبہات کا اظہار کیا جائے؟؟ کیا یہ تعصب و جانبداری نہیں؟؟
خدارا صحابہ کے گروہ کو اللہ اور اس کے رسول کی خاطر بخش دیجئے اور بہت کچھ ہےقابلیت و ذہانت کے اظہار کے لیے، تاریخ میں بہت کچھ اور ہے سبق سیکھنے و سکھانے کے مشاجرات صحابہ کے علاوہ۔
اللہ پاک کی رحمت و برکتیں اور درود و سلام ہو رسول اللہ ﷺ پر آپ کے اہل بیت کرام پر خلفائے راشدین اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر۔ آمین
جزاک اللہ خیر۔

اپنا تعارف بھی دے دیں تو کیا ہی اچھا ہو۔
 

ساجد

محفلین
انا للہ و انا الیہ راجعون ۔
کسی اور پر نہیں یہاں کے ذمہ داران پر ۔
کرنے گئے تھے اُس سے تغافل کا ، ہم گلہ
کی ایک ہی نگاہ کہ ، بس خاک ہو گئے​
 

شمشاد

لائبریرین
حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ایک بلند پایہ صحابی رسول تھے اور اہلسنت والجماعت (یعنی سنیوں) کے نزدیک یہ ان کی نجات کے لیے کافی و شافی بات ہے، اور اہل تسنن و اہل تشیع کے مابین یہی بات من جملہ کچھ اور باتوں کے باعث امتیاز بھی ہے۔ اس معاملے میں بنیادی طور پر اہل سنت، جو برصغیر میں بریلوی اور دیوبندی دو گرہوں میں منقسم ہیں ، متفق ہیں لہذا چاہے وہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان کی ذات ہو یا مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا محمد رشید احمدگنگوہی کی ذات، یہی فتویٰ دیتی ہیں، اور غیر مقلدین یا اہل حدیث حضرات کا بھی یہی مذہب ہے۔
مجھے حیرانی ہے ان لوگوں پر جو خود کو چاہے بریلوی کہیں یا دیوبندی، کسی بھی صحابی رسول اللہ کی ذات پر کیچڑ اچھالیں یا بدگمانی کا اظہار کریں کے ان کے اکابرین کا یہ طریقہ نہیں رہا ہے۔ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی فضیلت و ان کی محبت کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ حضرت معاویہ سے اظہار بغض کیا جائے کہ حضرت علی و حضرت حسن و حسین ان حضرت گرامی نے حضرت معاویہ سے نہ صرف صلح کر لی تھے بلکہ موخر الذکر حضرات نے بیعت معاویہ بھی کی تھی۔حضرت علی و حضرت معاویہ کی صلح کا ذکر طبری وغیرہ نے بھی چالیس ہجری کے واقعات میں کیا ہے۔
حضرت معاویہ صحابی رسول ہیں، برادر نسبتی رسول اللہ ہیں(حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے رشتے سے) اور ہم زلف رسول بھی ہیں(ام المومنین حضرت ام سلمہ کی بہن قریبہ صغریٰ آپ کے نکاح میں تھیں) ۔حضرت معاویہ کا حضرت حسین سے ایک اور رشتہ یہ ہے کہ سیدنا حسین کے صاحبزادے حضر ت علی اکبر کی نانی حضرت میمونہ، حضرت معاویہ کی ہمشیرہ تھیں۔
حضرت معاویہ کاتب وحی ہیں البدایہ والنہایہ جلد ۸ میں ان کے فضائل کے تحت اس بات کا ذکر موجود ہے۔
یزید کے عہد میں جو کچھ ہوا اس کا ذمہ دار صرف یزید ہی تھا حضرت معاویہ نے اس کو لائق جان کر اپنا ولی بنایا(اور جس میں کوئی شرعی قباحت موجود نہ تھی) تاہم جو کچھ بعد ازاں یزید نے کیا اس کا عذاب یزید اور کوفہ کے دغا بازوں کے سر جاتا ہے، عقلی طور پر و شرعی طور پر اس کی ذمہ داری ہر گز حضرت معاویہ پر عائد نہیں کی جاسکتی
تاریخ کبیراز امام بخاری میں رسول اللہ ﷺ کی ایک دعا جناب معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں منقول ہوئی ہے اے اللہ معاویہ کو ہادی بنا اور ہدایت یافتہ فرما اس کو ہدایت دے اور اس کے ذریعے سے دوسروں کو ہدایت نصیب فرما۔
پھر اگر کوئی حضرت معاویہ سے اپنی نسبت کا اظہار کرے تو اس میں کیا ہرج ہے؟؟ کیا ضروری ہے کہ ایسا کسی مقابلہ بازی میں کیا جائے؟؟ اور باریک بین بن کر اس بات کی کھود کرید کی جائے کہ ایسا کسی تعصب کے اظہار کے لیے تو نہیں کیا جا رہا؟؟ یعنی کتنی عجیب بات ہے کہ نقوی تقوی جعفری زیدی کاشفی کاظمی وغیرہ وغیرہ نسبتیں(اور جن میں کوئی ہرج نہیں) رکھنا تو گویا ایک معمول کی بات سمجھی جائے اور اگر کوئی اپنے نام کے ساتھ معاویہ کا نام جوڑ لے ان کی محبت میں، یا ان کے صحابی رسول اللہ ہونے کے احترام میں تو اس سلسلے میں شک و شبہات کا اظہار کیا جائے؟؟ کیا یہ تعصب و جانبداری نہیں؟؟
خدارا صحابہ کے گروہ کو اللہ اور اس کے رسول کی خاطر بخش دیجئے اور بہت کچھ ہےقابلیت و ذہانت کے اظہار کے لیے، تاریخ میں بہت کچھ اور ہے سبق سیکھنے و سکھانے کے مشاجرات صحابہ کے علاوہ۔
اللہ پاک کی بے شمار رحمت و برکتیں اور درود و سلام ہو رسول اللہ ﷺ پر آپ کے اہل بیت کرام پر خلفائے راشدین اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر۔ آمین
حیرت ہے اس مراسلے کو کاشفی نے "پر مزاح" کی ریٹنگ دی ہے۔ کیا سوچ ہے۔ واہ واہ۔
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا۔
 

ساجد

محفلین
آپ پر میرا ایک سوال ابھی تک ادھار ہے۔ آپ نے جواب نہیں دیا۔
آپ کے سوال کا جواب میں نے تب ہی دے دیا تھا جبکہ آپ کا یہ سوال پیدا بھی نہیں ہوا تھا ۔ تب میں نے آپ اور ایک دیگر انتظامی فرد کے بارے میں منتظمین کو بتا دیا تھا کہ ان کی وجہ سے محفل کا کیا حشر ہونے جا رہا ہے ۔ اب آپ بات کو جتنا پھیلائیں گے اتنا ہی گند مچے گا ۔ بہتر ہے کہ اپنے کام پر توجہ دیں اور اسے بہتر انداز میں کرنے کے لئے اپنے اندر حوصلہ پیدا کریں ۔
 

شمشاد

لائبریرین
ساجد بھائی آپ پرانی بات کو چھوڑیں، یہ جو میں نے گزشتہ دنوں سوال پوچھا تھا، اس کا جواب مانگ رہا تھا۔
 
میرے خیال میں چونکہ ایک فرقہ ضد میں ا کر حضرت معاویہ (رض) اور یزید کی کچھ زیادہ ہی کردار کشی کرتا ہے ،اسی لئے دوسرا گروہ انہی ناموں کو اجاگر کرتا چلا آیا ہے۔ورنہ تو عام زندگی میں ان ناموں سے کوئی خاص سروکار شائد نہیں رکھتے۔

یزید پر لعنت کی بات بھی ایک فروعی اختلاف کی حد تک ہے ،بنیادی مسئلہ نہیں۔
حضرت معاویہ کی حد تک تو آپکا پوائنٹ درست تسلیم کیا جاسکتا ہے لیکن یزید کی کردارکشی پر کسی کو چڑنے کی کیا ضرورت ہے؟
 

باباجی

محفلین
اسلافِ اہلسنت کا موقف تو ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ صحابہ کے درمیان جو مشاجرات اور جھگڑے واقع ہوئے اور جنکا ذکر تاریخ میں ملتا ہے ان جھگڑوں کا فیصلہ اور معاملہ اللہ اور اسکے رسول پر چھوڑتے ہیں اور حضرت علی اور امیر معاویہ کے درمیان واقع ہونے والے اختلاف کے حوالے سے حضرت علی کا موقف حق تھا جبکہ حضرت امیر معاویہ سے خطائے اجتہادی کا صدور ہوا (یہ موقف ادب اور حسنِ ظن پر مبنی ہے )۔ قرآن پاک میں بھی آیت ہے جسکا مفہوم یہ ہے کہ اہلِ جنت تکیے لگائے ایک دوسرے کے ساتھ اور آمنے سامنے بیٹھے ہونگے اور دنیا میں انکے دلوں میں آپس میں جو کدورت یا رنجش تھی، جنت میں اللہ تعالیٰ انکی باہمی رنجشیں دور کردے گا۔
جہاں تک یزید ابن معاویہ کا تعلق ہے تو اسکی گمراہی اور بدکرداری پر سب متفق ہیں اور اختلاف اس بات پر ہوا ہے کہ اسکا نام آئے تو لعنت بھیجنی چاہئیے یا نہیں۔ کچھ علماء یزید پرلعنت بھیجنے کو جائز سمجھتے ہیں جبکہ کچھ علماّ اسکو گمرہ اور بد کردار تسلیم کرتے ہیں لیکن لعنت بھیجنا روا نہیں رکھتے۔
یہ تو ہوئی اسلاف اہلسنت کی بات۔۔۔
اب معاملے کو دوسرے پہلو سے دیکھتے ہیں۔ امام غزالی نے احیاء العلوم میں واقعہ لکھا ہے کہ ایک شخص ہمیشہ نماز میں سورہ عبس و تولیٰ کی ابتدائی آیات (جن میں بظاہر رسول پاک پر تنقید کا مضمون ہے) پڑھا کرتا تھا۔ حضرت عمر رضی الل عنہ کو جب اس بات کی خبر دی گئی تو انہوں نے تحقیق کرنے کے بعد اس کو قتل کرنے کا حکم سنایا کیونکہ اسکا یہ عمل توہین کے قصد سے تھا۔۔۔ اب مسلمانوں کے ایک خاص فرقے میں کچھ لوگ اپنے نام کے ساتھ یزید اور معاویہ کا لاحقہ لگاتے ہیں، گمان غالب یہی ہے کہ ایسا صرف فریقِ مخالف کی ضد میں کیا جاتا ہے ورنہ حضرت علی اور حضرت حسین و حسن کے مقابلے میں یزید اور حضرت معاویہ کی شخصیات کو اپنا آئیڈیل قرار دینا کبھی بھی اہلسنت کی روش نہیں رہی۔۔۔ اور ایسا صرف فتنہ انگیزی کیلئے کیا جاتا ہے
واللہ اعلم بالصواب
بہت شکریہ بھائی صاحب اتنی خوبصورتی سے بات سمجھانے اور واضح کرنے کا ۔۔۔ میں نے اپنے مراسلے میں یہی بات کی تھی ۔
 
حضرت معاویہؓ بن ابو سفیان ؓ کے گھوڑے کے نتھنوں میں پھنسے ہوئے گرد و غبار بھی تمام بزرگوں بشمول حضراتِ تابعین و تبع تابعین سے افضل مانے گئے ہیں، پھر حضرت امیر معاویہؓ تو صحابیٗ رسولﷺ ہیں ان کے مرتبے کا کیا کہنا۔ محفلین احتیاط کریں۔
اصل میں واقعہ کچھ یوں ہے کہ کسی نے حضرت امام ابو حنیفہ سے حضرت معاویہ کے بارے میں رائے دریافت کی۔ غالباّ پوچھنے والا شخص ان پر تنقید سننا چاہتا تھا لیکن امام ابو حنیفہ نے جواب میں فرمایا کہ " وہ صحابی رسول ہیں۔ ابو حنیفہ کی کیا مجال کہ کسی صحابی رسول کے اچھے یا برے ہونے کے بارے میں فیصلہ کرتا پھرے۔ ابو حنیفہ تو یہ جانتا ہے کہ حضرت معاویہ کے گھوڑے کے نتھنوں میں پھنسا ہوا گردو غبار ابوحنیفہ سے افضل ہے"۔۔۔
اگر آپ غور کریں تو یہ بات حضرت امام ابوحنیفہ کی تواضع، خداخوفی اور کسی بھی صحابہ کے مقام کی توقیر اور ادب کی مظہر ہے۔اور کسی بھی صحابیِ رسول کے بارے میں بعد کو آنے والے امتیوں کو زبانِ طعن دراز کرنے سے پہلے اپنا مقام دیکھ لینا چاہئیے اور صحابہ کے درمیان وقوع پذیر ہونے والے جھگڑوں کا فیصلہ اللہ اور اسکے رسول پر چھوڑدینا چاہئیے۔۔۔۔احتیاط ، ادب اور خوداحتسابی کا تقاضا یہی ہے۔
لیکن اس بات سے یہ نتیجہ نکالنا بھی غلط ہوگا کہ جو کچھ امام ابوحنیفہ نے اوپرمقامِ ادب سے بیان فرمایا، یہ فی الواقع ایک حقیقت ہے ۔۔۔ایسی بات نہیں ہے۔ یہ ایک خدارسیدہہ شخص کی تواضع اور بے نفسی کی دلیل ہے ناکہ فی الواقع حقیقت الامر کا بیان۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ بڑے بڑےاولیائے کرام نے اپنے آپ کو کئی مرتبہ مخلوق میں سب سے کمترین کہا ہے اور اپنے نفس کو سب سے زیادہ براسمجھا ہے۔۔۔اب اگر کوئی مرید انکی یہ بات سن کر یوں کہتا پھرے کہ حضرت جی دنیا کے سب سے برے آدمی تھے تو اس سے کیا نتیجہ نکالا جاسکتا ہے :)
 
بہت شکریہ بھائی صاحب اتنی خوبصورتی سے بات سمجھانے اور واضح کرنے کا ۔۔۔ میں نے اپنے مراسلے میں یہی بات کی تھی ۔
صدقے جاؤں فراز بھائی :) اب تو آپ سے مل کر ہی لاہور سے واپس آؤں گا بھلے کسی خونخوار حسینہ کے ہاتھوں مارا جاؤں۔

امام ابو حنیفہ کے تمام مقلدین کے ہاں حضرت امیر معاویہ کے لیے عزت ، تکریم اور محبت پائی جاتی ہے۔ خواہ دیو بندی ہوں یا بریلوی بعض اوقات انسان جب کسی قابلِ تکریم و محبت شخصیت کی حرمت پہ حرف آتے دیکھتا ہے تو اس کا بھی برملہ دل چاہتا ہے کہ جواباََ وہ بھی اپنی محبت اور انسیت کا کسی طرح اظہار کرے۔ میرے کراچی کے محلے میں کٹر بریلوی ہیں سنی تحریک کے ان کے22۔ 23 سالہ بیٹے کا نام واجد علی معایہ ہے۔اب آپ سمجھیں جو سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اہلِ تشیع حضرات کی دشمنی میں رکھا یا حضرت امیر معاویہ کی محبت میں۔

آپ ذرا یہ مراسلہ بھی ملاحظہ فرما لیں۔

حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ایک بلند پایہ صحابی رسول تھے اور اہلسنت والجماعت (یعنی سنیوں) کے نزدیک یہ ان کی نجات کے لیے کافی و شافی بات ہے، اور اہل تسنن و اہل تشیع کے مابین یہی بات من جملہ کچھ اور باتوں کے باعث امتیاز بھی ہے۔ اس معاملے میں بنیادی طور پر اہل سنت، جو برصغیر میں بریلوی اور دیوبندی دو گرہوں میں منقسم ہیں ، متفق ہیں لہذا چاہے وہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان کی ذات ہو یا مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا محمد رشید احمدگنگوہی کی ذات، یہی فتویٰ دیتی ہیں، اور غیر مقلدین یا اہل حدیث حضرات کا بھی یہی مذہب ہے۔
مجھے حیرانی ہے ان لوگوں پر جو خود کو چاہے بریلوی کہیں یا دیوبندی، کسی بھی صحابی رسول اللہ کی ذات پر کیچڑ اچھالیں یا بدگمانی کا اظہار کریں کے ان کے اکابرین کا یہ طریقہ نہیں رہا ہے۔ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی فضیلت و ان کی محبت کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ حضرت معاویہ سے اظہار بغض کیا جائے کہ حضرت علی و حضرت حسن و حسین ان حضرت گرامی نے حضرت معاویہ سے نہ صرف صلح کر لی تھے بلکہ موخر الذکر حضرات نے بیعت معاویہ بھی کی تھی۔حضرت علی و حضرت معاویہ کی صلح کا ذکر طبری وغیرہ نے بھی چالیس ہجری کے واقعات میں کیا ہے۔
حضرت معاویہ صحابی رسول ہیں، برادر نسبتی رسول اللہ ہیں(حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے رشتے سے) اور ہم زلف رسول بھی ہیں(ام المومنین حضرت ام سلمہ کی بہن قریبہ صغریٰ آپ کے نکاح میں تھیں) ۔حضرت معاویہ کا حضرت حسین سے ایک اور رشتہ یہ ہے کہ سیدنا حسین کے صاحبزادے حضر ت علی اکبر کی نانی حضرت میمونہ، حضرت معاویہ کی ہمشیرہ تھیں۔
حضرت معاویہ کاتب وحی ہیں البدایہ والنہایہ جلد ۸ میں ان کے فضائل کے تحت اس بات کا ذکر موجود ہے۔
یزید کے عہد میں جو کچھ ہوا اس کا ذمہ دار صرف یزید ہی تھا حضرت معاویہ نے اس کو لائق جان کر اپنا ولی بنایا(اور جس میں کوئی شرعی قباحت موجود نہ تھی) تاہم جو کچھ بعد ازاں یزید نے کیا اس کا عذاب یزید اور کوفہ کے دغا بازوں کے سر جاتا ہے، عقلی طور پر و شرعی طور پر اس کی ذمہ داری ہر گز حضرت معاویہ پر عائد نہیں کی جاسکتی
تاریخ کبیراز امام بخاری میں رسول اللہ ﷺ کی ایک دعا جناب معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں منقول ہوئی ہے اے اللہ معاویہ کو ہادی بنا اور ہدایت یافتہ فرما اس کو ہدایت دے اور اس کے ذریعے سے دوسروں کو ہدایت نصیب فرما۔
پھر اگر کوئی حضرت معاویہ سے اپنی نسبت کا اظہار کرے تو اس میں کیا ہرج ہے؟؟ کیا ضروری ہے کہ ایسا کسی مقابلہ بازی میں کیا جائے؟؟ اور باریک بین بن کر اس بات کی کھود کرید کی جائے کہ ایسا کسی تعصب کے اظہار کے لیے تو نہیں کیا جا رہا؟؟ یعنی کتنی عجیب بات ہے کہ نقوی تقوی جعفری زیدی کاشفی کاظمی وغیرہ وغیرہ نسبتیں(اور جن میں کوئی ہرج نہیں) رکھنا تو گویا ایک معمول کی بات سمجھی جائے اور اگر کوئی اپنے نام کے ساتھ معاویہ کا نام جوڑ لے ان کی محبت میں، یا ان کے صحابی رسول اللہ ہونے کے احترام میں تو اس سلسلے میں شک و شبہات کا اظہار کیا جائے؟؟ کیا یہ تعصب و جانبداری نہیں؟؟
خدارا صحابہ کے گروہ کو اللہ اور اس کے رسول کی خاطر بخش دیجئے اور بہت کچھ ہےقابلیت و ذہانت کے اظہار کے لیے، تاریخ میں بہت کچھ اور ہے سبق سیکھنے و سکھانے کے مشاجرات صحابہ کے علاوہ۔
اللہ پاک کی بے شمار رحمت و برکتیں اور درود و سلام ہو رسول اللہ ﷺ پر آپ کے اہل بیت کرام پر خلفائے راشدین اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر۔ آمین
 

حسینی

محفلین
آپ کے کئے گئے سوال کے کئی جواب آ گئے ۔ یہاں میرے بھی بیسیوں ایسے مراسلے ہیں جن کے جواب میں مکمل خاموشی رہی۔
وہاں بلیو ٹوتھ تھا شاید :)

جی نہیں ۔۔۔ میرے سوال کا جواب ٰ ٰ ٍ ٍ نہیں آیا۔
میرا سوال اپنی جگہ باقی ہے۔۔۔ سوال میں موجود اشکال ان احادیث پر بھی ہے جو آپ نے پیش کی ہیں۔
لہذا ان احادیث کی حجیت بھی مشکوک ہو جائے گی۔
اس کے علاہ کتنے ہی القاب ایسے ہیں جن کی کوئی واقعیت نہیں ہے۔۔۔ لہذا جذباتیات سے زیادہ تعقل کی ضرورت ہے۔
 
آخری تدوین:
Top