پہلی بات
تو یہ کہ فتح مکہ کے بعد ہجرت ختم ہوگئی تھی،کیونکہ تقریبا تمام عرب دار الاسلام بن گیا تھا،تو ہجرت کیسی۔
دوسری بات
یہ کہ کتابت وحی کے بارے میں بات اسی دھاگے کے
مراسلہ نمبر 52 اور
مراسلہ نمبر 60 پر کی گئی ہے کہ ابن حزم وغیرہ اور بیہقی کی ایک حدیث میں بھی ابن عباس (رض) نے اسکی کتابت وحی کی بات کی ہے، بلکہ ابن عباس والی حدیث میں تو صاف ذکر ہے کہ حضور (ص) نے مجھے حضرت معاویہ کو بُلانے کیلئے بھیجا تھا۔
تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضور (ص) اور حضرت معاویہ (رض) کی رہایش ایک ساتھ تھی ،یا کم از کم ایک مدت تک دونوں حضرات ایک جگہ رہ رہے تھے۔
نیز کتابت وحی کیلئے مدینہ شرط اسلئے نہیں کہ وحی صرف مدینہ کے ساتھ خاص نہیں تھی،بلکہ جہاں جہاں حضور جاتے ،وہی ضرورت کے موافق وحی نازل ہوتی۔
تیسری بات یہ کہ خود ابن ابی الحدید شیعہ (شارح نہج البلاغہ ) نے بھی حضرت معاویہ(رض) کیلئے حضور (صل اللہ علیہ وسلم) کے دوسرے ملکوں کے بادشاہوں کے کاتب ہونے کا اقرار کیا ہے۔ جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضور (صل اللہ علیہ وسلم) اور حضرت معاویہ کئی مجالس میں ایک ساتھ رہے ہیں،کہ جس میں حضور (صل اللہ علیہ وسلم) نے حضرت معاویہ سے خطوط لکھوائے ہیں۔
تو اگر حضرت معاویہ کی حضور (صل اللہ علیہ وسلم) کے مجالس میں شرکت ثابت نہ ہوتی ،تو شیعہ ابن ابی الحدید نہج البلاغہ میں اسکا اقرار نہ کرتا۔
تیسری بات
یہ کہ امام بخاری (رح) کا حضرت معاویہ (رض) کے مناقب نقل نہ کرنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ حضرت معاویہ کیلئے مناقب ثابت ہی نہیں ہے۔اور نا ہی یہ بات درست ہے کہ بخاری شریف کے علاوہ صحیح احادیث دوسری کتب احادیث میں سے نہیں مل سکتی۔بلکہ بے شمار صحیح احادیث ہیں جو امام بخاری کو نہ مل سکے،اور دوسرے کتب احادیث میں موجود ہیں۔