وقت کی کمی کے باعث میں ایرانی الیکشن اور حالات پر زیادہ پڑھ نہیں پائی ہوں [بلکہ بہت ہی کم وقت ملا ہے]۔ بہرحال، دوسری سائیڈ کی سٹوری میرے سامنے یہ آئی تھی کہ:
1۔ جو سات لوگ مارے گئے ہیں، انکے متعلق میں تھوڑی دیر میں لکھوں گی۔
2۔ عمومی طور پر مغربی میڈیا کا رویہ آپ دیکھ چکے ہیں کہ وہ اب ایسی فضا قائم کریں گے جس میں ایک فریق کے موقف کو یکسر نظر انداز کیا جائے گا اور دوسرے کی قیاس آرائیوں کو ناقابل تردید ثبوت کے طور پر پیش کیا جائے گا۔
3۔ امریکہ اس سے قبل اعلانیہ طور پر کئی ملین ڈالر کا بجٹ ایرانی حکومت کے خلاف پروپیگنڈہ مہم پر خرچ کر چکا ہے۔
اب بھی امریکہ سے ایرانی چینل اور دیگر انفارمیشن بھرپور طریقے سے پھیلائی جا رہی ہیں۔
میں انتہا پسندی کے خلاف تھی اور اسی بنا پر خاتمی اور موسوی کیمپ کی طرف جھکاؤ رکھتی تھی۔ مگر جو رویہ ان لوگوں نے اپنایا ہے، اسے دیکھ کر بہت مایوسی ہوئی ہے۔
اور موسوی صاحب کے کیمپ کے ایک حصے میں جو مغرب زدہ ایرانی موجود ہیں، ان سے تو شیطان بھی پناہ مانگتا ہو گا۔ جتنی نفرت، مادیت پرستی، ایرانی نسلی تعصب، اسلام دشمنی میں نے ان میں دیکھی ہے اسکا عشر عشیر بھی مغربی ممالک میں اسلام کے خلاف نہیں پائی جاتی۔
یہ سب باتیں مجبور کر رہی ہیں کہ میں اپنے مؤقف پر نظر ثانی کروں۔
اور ایرانی حکومت اگر مغرب سے آنیوالی ان انفارمیشن کے سیلاب پر پابندی لگا رہی ہے تو بالکل ٹھیک کر رہی ہے کیونکہ انکی نیتوں میں موجود کھوٹ دیکھ کر جانتے بوجھتے اپنے پاؤں پر کلہاڑی نہیں چلنی دینی چاہیے۔ یہ انفارمیشن نہیں بلکہ ڈس انفارمیشن ہے اور یہ حقیقت ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک پیسے کے بل بوتے پر اور میڈیا کے طویل نیٹ ورک کے بل بوتے پر اکیلے احمدی نژاد کو آسانی سے شکست دے سکتے ہیں۔
**************
4۔ پچھلے الیکشن میں دو دور ہوئے تھے۔ پہلے دور میں تمام امیدوار انتخابات لڑے تھے اور یوں ووٹ تقسیم ہو گئے تھے۔ مگر ایرانی قانون کے مطابق چونکہ کوئی ایک امیدوار بھی 50 فیصد ووٹ نہیں حاصل کر پایا تھا اس لیے انتخابات کا دوسرا راؤنڈ ہوا جس میں صرف دو امیدوار ہی مدمقابل کھڑے ہوئے۔
اس دوسرے راؤنڈ میں احمدی نژاد کو 61 فیصد ووٹ ملے۔
پچھلے انتخابات کے برعکس، ان انتخابات میں صورتحال پہلے دن سے واضح تھی کہ اصل مقابلہ صرف دو امیدواروں کے ہی درمیان ہے اور بقیہ دو کو ووٹ دینا اپنا ووٹ ضائع کرنے کے برابر ہے۔
اس لیے احمدی نژاد کو ان الیکشن میں 62 فیصد ووٹ ملے جو کہ بالکل سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ احمدی نژاد کی اقتصادی پالیسیاں ایک طرف، مگر یہ حقیقت ہے کہ جس طبقے نے انہیں پچھلے الیکش میں ووٹ دیا تھا، انہیں احمدی نژاد نے ہمیشہ فوقیت دی اور امیر لوگوں کی بجائے وہ ہمیشہ غریبوں کے ساتھ نظر آئے۔ چنانچہ ان 4 سالہ حکومت میں وہ غریب اور متوسط طبقے میں اور زیادہ مقبول ہوئے لہذا اگر انہیں 61 کی بجائے 62 فیصد ووٹ ملے ہیں تو کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔
5۔ مسئلہ یہ ہے کہ مجھے موسوی صاحب اب مغربی طاقتوں کے ہاتھوں میں مکمل طور پر کھیلتے نظر آ رہے ہیں۔
پہلے انہوں نے بیلٹ باکس کے دوبارہ گنتی کروانے کی بات کی، ۔۔۔۔ مگر پھر اس سے مکر کر دوبارہ الیکشن کروانے کی بات کرنے لگے۔
6۔ اور آغا خامنہ ای پر الزام ہے کہ انہوں نے الیکشن نتائج کے بعد مقررہ معیاد سے قبل ہی الیکشن نتائج کو قبول کرنے کا باضابطہ اعلان کر دیا، مگر مغربی میڈیا یہ نہیں بتا رہا کہ موسوی صاحب نے تو ووٹنگ ختم ہونے سے قبل ہی اپنی فتح کا اعلان کر دیا تھا، اور پھر ایک ٹیلی فون کال کا نام لے رہے ہیں کہ وہ ووٹنگ کے ایک گھنٹے بعد ہی وزارت داخلہ سے آئی جس میں موسوی صاحب کو کامیاب قرار دیا گیا وغیرہ وغیرہ۔
7۔ اور اب ویسٹرن میڈیا سے ایک اور شک کو تقویت دی جا رہی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ووٹنگ ختم ہونے کے چند گھنٹوں بعد ہی الیکشن کے نتائج آنا شروع ہو گئے۔ حالانکہ پہلے دو گھنٹے کے بعد صرف 19 فیصد علاقوں کے نتائج کا اعلان ہوا تھا [وہ بھی چھوٹے علاقوں کا] اور مکمل نتائج نو دس گھنٹے کے بعد ہی مکمل ہوئے تھے، اور پاکستان میں بھی ایسا ہوتا ہے کہ چھوٹے علاقوں کے نتائج جلد موصول ہو جاتے ہیں۔ْ
بہرحال، ویسٹرن میڈیا کو یہ ایشو بنانا تھا اور وہ اس میں مکمل کامیاب ہیں۔
بقیہ واشنگٹن پوسٹ کا یہ مضمون ان حقائق کو بہتر غیر جانبدارانہ طور پر پیش کر رہا ہے جن کا تذکرہ میں اوپر کر چکی ہوں۔