ایران صدارتی انتخابات میں دھاندلی

ذرا یہ بھی پڑھیں یہ بی بی سی کی خبر ہے۔
احمدی نژاد آگے تھے: امریکی ادارہ
رائے عامہ کا جائزہ لینے والے بین الاقوامی اداروں کے گروپ نے کہا ہے کہ ایران میں انتخاب کے سرکاری نتائج کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ شاید یہ لوگوں کی رائے کی درست عکاسی کرتے ہیں۔

ان اداروں نے ایرانی انتخاب سے تین ہفتے قبل اپنے ایک تجزیے میں کہا تھا کہ محمود احمدی نژاد اپنے مخالف سے دو ایک کی نسبت سے آگے ہیں۔ ان اداروں میں امریکی تنظیم ’ٹیرر فری ٹومارو‘، ’دی نیو امریکین فاؤنڈیشن‘ اور ’کے اے یورپ‘ شامل ہیں۔

ایران میں ہار جانے والے صدارتی امیدوار حسین موسوی کا کہنا ہے کہ انتخاب میں دھاندلی ہوئی ہے۔

ٹیرر فری ٹومارو کے اہلکار کین بالن نے بی بی سی کی عالمی سروس سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہمارا تجزیہ تھا کہ صدر احمدی نژاد بھاری اکثریت سے آگے ہیں‘۔ ایران میں یہ تجزیہ گیارہ اور بیس مئی کے درمیان کیا گیا تھا اور اس میں ایران کے تیس صوبوں میں ایک ہزار ایک انٹرویو کیے گئے تھے۔ اس تجزیے میں غلطی کی گنجائش تین فیصد تھی۔
بالن نے کہا کہ اس تجزیے کے مطابق احمدی نژاد کو تینتیس اعشاریہ آٹھ فیصد اور میر حسین موسوی کو تیرہ اعشاریہ چھ فیصد لوگوں کی حمایت حاصل تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس میں دیکھنے والی بات یہ ہے کہ آیا احمدی نژاد یہ برتری انتخابات تک قائم رکھ سکے ہوں گے یا نہیں۔

ایران میں انتخاب کے سرکاری نتائج کے مطابق احمدی نژاد کو باسٹھ اعشاریہ چھ فیصد ووٹ ملے جبکہ ان کے مخالف امیدوار حسین موسوی کو تینتیس اعشاریہ آٹھ فیصد۔

بالن نے کہا کہ یہ نتیجہ درست ہو سکتا ہے لیکن جس طرح ایران کی حکوت نے اس معاملے سے نمٹنے کی کوشش کی ہے اس سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کے تجزیے کے مطابق کسی امیدوار کو پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ ملنے کا امکان نہیں تھا اور اس صورتحال میں پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدواروں کے درمیان دوبارہ مقابلہ ہونا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اب جو بہت بڑی تعداد میں طالب علم مظاہرے کر رہے ہیں یہ بھی ان کے تجزیے کے نتائج سے مطابقت رکھتا ہے اور یہ پورے ملک کے لوگوں کی رائے کے عکاس نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے تجزیے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ووٹر جن میں حسین موسوی کو حمایت حاصل تھی یا وہ کم سے کم احمدی نژاد کا مقابلہ کر سکتے تھے وہ یہی یونیورسٹیوں طالب علم اور متمول طبقے کے لوگ تھے۔

انہوں نے کہا کہ حسین موسوی آذری ہیں اور خیال تھا کہ انہیں ان لوگوں میں حمایت حاصل ہو گی لیکن وہ زیادہ تر احمدی نژاد کے حامی تھے۔ احمدی نژاد کے اکتیس فیصد کے مقابلے میں سولہ فیصد آذریوں نے کہا کہ وہ موسوی کو ووٹ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں انتخابی نتائج پر رائے دینے میں احتیاط برتنا ہوگی۔

بالن نے کہا کہ ’ہمیں معلوم ہے کہ انتخاب آزادانہ نہیں تھے لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کر نے کے لیے ہمارے پاس ٹھوس شواہد نہیں کہ موسوی بھاری اکثریت سے جیت سکتے تھے۔لیکن ہمارے پاس یہ شواہد ہیں جن کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ انتخابی نتائج درست تھے‘۔
بشکریہ بی بی سی اردو
 
ذرا ثقلین امام کا تجزیہ بھی پڑھیں۔ ثقلین امام نے پورے الیکشن کے دنوں میں ایران میں تھے۔
ایران: سماجی طبقوں کی جنگ؟
ثقلین امام
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن
ایران کے شہروں میں بارہ جون کے انتخابات کے نتائج کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں عوامی شرکت اگرچہ اس بات کا تو ثبوت ہے کہ وہاں تبدیلی کے خواہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، تاہم اگر چند بنیادی حقائق کو متواتر ذہن میں نہ رکھا جائے تو نشریاتی اداروں میں گردش کرنے والی خبریں بلا شبہ گمراہ کن ثابت ہو سکتی ہیں۔

انتخابی نتائج کو’تقلب‘ یعنی دھاندلی کہنے والے لوگ شہروں کے امیر یا متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔تہران میں یہ طبقے شہر کے شمال اور مرکزی علاقوں میں رہتے ہیں جبکہ جنوبی تہران میں کم آمدنی یا لوئر مڈل کلاس کی آبادیاں ملیں گی۔ تقریباً یہی تقسیم چھوٹے شہروں اور قصبوں میں دکھائی دیتی ہے۔
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو ایران کے امیر طبقے جنھیں مقامی اصطلاح میں’ ثروت مند‘ کہا جاتا ہے، دنیا بھر کے دوسرے معاشروں کی طرح صرف اپنی سہولت کے بارے میں فکر مند ہوتے ہیں۔ اگر آپ نے محسن حامد کا ناول ’دا ری لکٹنٹ فنڈامینٹلِسٹ‘ پڑھا ہو تو اس میں جس پاکستانی ائیر کنڈیشنڈ کلاس کا ذکر کیا گیا ہے وہی تہران کے شمالی علاقوں کا طبقہ ہے۔

ایران میں بادشاہت کے زمانے سے لے کر اور اب بھی، یعنی اسلامی انقلاب کے بعد کے دور میں، ان کی غرض صرف یہ رہتی ہے کہ ان کے کاروبار اور نفع کے رستے میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو۔ انقلاب کے دوران اور بعد میں جب اس طبقے نے دیکھا کہ ہوا کے ساتھ ہونے میں فائدہ ہے تو ان لوگوں نے اسلامی شعار اپنا لیے، مثلاً حجاب اوڑھ لیا یا داڑھی رکھ لی۔
اس طرح سے یہ طبقہ اسلامی انقلاب کے تیس برسوں میں ایرانی سیاست میں کسی نہ کسی طرح فعال رہا ہے۔ دوسرے ملکوں میں، خاص کر مغربی معاشروں میں، یہ سرمایہ دار طبقہ، عام طور پر عملی سیاست سے دور رہتا ہے۔ یہ طبقہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بیک وقت بظاہر متضاد سیاسی گروہوں کواستعمال کرتا رہتا ہے۔ لیکن ایرانی معاشرے میں اس قسم کے طبقے کے افراد کا عملی سیاست میں شرکت کرتے رہنا ذرا منفرد ہے۔

شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اسلامی انقلاب کے تیس برس ایرانی معاشرے سے وہ طبقاتی اثرات مکمل طور پر ختم نہیں کرسکے جو ایران کے بادشاہی نظام نے کئی صدیوں میں مرتب کیے تھے۔ اس کے نتیجے میں لیڈری صرف ایلیٹسٹ لوگوں کےلیے مخصوص سمجھی جاتی رہی ہے۔ ایسے کئی تاریخی شواہد موجود ہیں کہ ایران کی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت سے لے کر دیگر سیاسی جماعتوں کی قیادتیں اسی طبقے نے پیدا کی ہیں۔
انیس سو اناسی کے اسلامی انقلاب کے بعد ایران کے پسماندہ طبقوں کو پہلی مرتبہ قائدانہ کردار ادا کرنے کا موقع ملا مگر شروع شروع میں اسلامی انقلاب کے اندر بھی اس کے خلاف ثروت مند طبقے نے مزاحمت کی۔ مثلاً جب ابوالحسن بنی صدر ایران کے پہلے صدر منتخب ہوئے تو انھوں نے اس وقت کے ایک غریب خاندان سے تعلق رکھنے والے سکول ٹیچر، محمد علی رجائی، کو اپنی حکومت کے وزیر اعظم کے طور پر قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔

اس طرح انقلاب کے بعد بھی روایتی سرمایہ دار اور ان کے پروردہ طبقے کی فضیلت برقرار رہی۔ دوسرے لفظوں میں ایرانی معاشرہ اپنے اندر موجود برہمن طبقے کی برہمنیت ختم نہ کرسکا۔ لیکن بعد کے حالات کی پیش رفت نے آہستہ آہستہ اس طبقے کو کمزور کرنا شروع کردیا خاص کر جب ایرانی حکومت نے غریب طبقوں کی ترقی کے لیے بڑی بڑی رقمیں مختص کرنا شروع کردیں۔
جب اسلامی جمہوریہ ایران کے پہلے صدر ملک سے بھاگ گئے تو محمد علی رجائی صدر منتخب ہوئے۔ مگر انتخاب کے دو ہنتوں کے بعد ہی وہ اپنے وزیراعظم، جواد باہنر، کے ہمراہ اگست انیس سو اکیاسی میں ایک بم دھماکے میں قتل کردیے گئے۔ اس طرح امام خمینی کی زندگی میں ہی پسماندہ طبقے کے لوگوں کو اعلیٰ قیادت حاصل کرنے کا جو موقع ملا تھا وہ اس دھماکے کے ساتھ ہی پھر سے خواب بن گیا۔

رجائی کے بعد آنے والے تین صدور جنھوں نے مجموعی طور پر چوبیس برس تک حکومت کی ان سب کا تعلق براہ راست یا بالواسطہ ایران کے روایتی اعلیٰ طبقہ سے تھا۔ تا وقتیکہ ایرانی عوام نے اگست دو ہزار پانچ میں متومل طبقے کے ایک اہم ترین رکن، ہاشمی رفسنجانی، پر ترجیح دیتے ہوئے ایک غریب کاریگر کے بیٹے محمود احمدی نژاد کو اپنا چھٹا صدر منتخب کرلیا۔
تاہم اس دوران ایرانی معاشرے کے سرمایہ داروں اور ان کے پروردہ طبقوں کے مفادات کی حفاظت ایلیٹسٹ صدور کے ہونے کی وجہ سے خود بخود ہوتی رہی۔ اور اس طرح یہ طبقے اگرچہ خود تو سیاست میں صف اول کا کردار ادا کرتے نظر نہ آئے مگر انھیں ہر صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کے موقع پر اپنے ڈالے ہوئے ووٹوں کی بدولت اپنے مفادات کی حفاظت ہوتی نظر آتی رہی۔

خاص کر ہاشمی رفسنجانی کے آٹھ برسوں کے دور صدارت جتنی بھی اقتصادی ترقی ہوئی اس کا فائدہ سرمایہ داروں کے چند مخصوص گروہوں کو پہنچا۔ اس طرح ایران کی دولت چند لوگوں میں مرتکز ہوتی رہی۔ ان چند گروہوں میں کچھ علما بھی ہیں جن کی نمائندگی رفسنجانی کرتے ہیں۔

اپنی دو مدتی صدارت کے اختتمام پر جب وہ انتخاب نہ لڑ سکے تو ہاشمی رفسنجانی نے اپنی ہی طرح کہ ایک امیر عالم، ناطق نوری کو صدارتی امیدوار کے طور پر میدان میں اتارا۔ مگر عوام نے ناطق نوری کے برعکس اس وقت کے ایک صاف ستھرے اور قدرے غیر معروف امیدوار، سید محمد خاتمی کو منتخب کیا۔

خاتمی تھے تو صاف صدر مگر ان کا تعلق بھی روایتی طور پر اعلیٰ طبقے سے ہے۔ ان کے دور میں سیاسی اصلاحات کے لیے پیش رفت تو ہوئی مگر اقتصادی طور پر عدم مساوات کو دور کرنے کے لیے کوئی قابل ذکر کام نہ ہوا۔ امیر طبقے امیر ہوتے رہے اور غریبوں کیلئیے نسبتاً حالات تنگ ہی رہے۔

تاہم جب احمدی نژاد صدر بنے تو انھوں نے تیل کی برآمد سے حاصل ہونے والی دولت کو عوام میں برابری سے تقسیم کرنے کا نعرہ دیا اور صدر بننے کے بعد اس پر عمل درآمد شروع کردیا۔ ایران کے پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھنے والے اس صدر نے اپنے طبقے کی مقبول اقدار جنھیں ایران کے مذہبی لوگ اسلامی اقدار کہتے ہیں، انھیں پورے تہران کے معاشرہ پر لاگو کرنے کی کوشش کی۔

اس طرح انقلاب کے بعد پھر سے تہران کے سرمایہ دار اور اس کے پروردہ طبقے نے اپنے آپ کو سیاسی طاقت سے محروم سمجھنا شروع کردیا۔ ایسا لگنے لگا ہے کہ ان کے لیے صدر خواہ کوئی بھی ہو مگر ایک پسماندہ طبقے کا فرد صدر نہیں ہونا چاہیے۔ مثال کے طور پر بارہ جون سے قبل انتخابی مہم کے دوران احمدی نژاد کے خلاف جو نعرے لگے ان میں ایک مقبول نعرہ یہ تھا ’یک ہفتہ، دو ہفتہ، محمود حمام نہ رفتہ‘ یعنی ایک ہفتہ یا دو ہفتہ سے محمود حمام نہیں گیا ہے۔
اس طرح کے اور بھی کئی نعرے لگائے گئے جو محمود احمدی نژاد کے پسماندہ طبقے سے تعلق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان سے تہران کے ثروت مند طبقے کی بیزاری کا اظہار کرتے تھے۔ میر حسین موسوی جو اپنی ذات میں ایک شریف شخص ہیں، بہرحال روایتی طور پر شمالی تہران کے ثروت مند طبقے کے رکن ہیں۔ موسوی کے حامیوں میں تمام کی تمام بڑی شخصیات ثروت مند طبقے سے ہی تعلق رکھتی ہیں۔

ان لوگوں کی امید بندھی کہ بارہ جون کے انتخابات میں موسوی کی فتح سے وہ اپنی کھوئی ہوئی سیاسی قوت دوبارہ سے حاصل کرلیں گے۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ اب جب کہ قدرے پسماندہ طبقات اور دیہاتی ایران نے محمود احمدی نژاد کو دوبارہ چار برسوں کے لیے صدر منتخب کرلیا ہے تو اس ایلیٹسٹ سیاسی قیادت کے لیے یہ کسی طور بھی قابل قبول نہیں ہے۔

اس طبقے کی سیاسی محرومی صرف احمدی نژاد کے صدر منتخب ہونے کی وجہ سے ہی نہیں ہے بلکہ ایران کے پارلیمانی انتخابی نظام کا ایک خاص انداز بھی ہے۔ ایران میں پارلیمانی انتخاب جغرافیائی حلقوں کی صورت میں نہیں ہوتے ہیں بلکہ یہ متناسب نمائندگی کے نظام کے تحت ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے تہران کے متمول علاقے کے لوگ اس بڑے شہر کے تقریباً بیس اراکین پارلیمان میں سے کسی ایک کو بھی اپنے مفادات کا نمائندہ محسوں نہیں کرتے ہیں۔

صدارتی انتخاب میں ہی اب تک وہ کسی نہ کسی کو اپنے طبقے کا نمائندہ سمجھتے رہے ہیں۔ لیکن احمدی نژاد کے بعد سے وہ اپنے آپ کو ایران کے سیاسی نظام میں سے خارج سمجھتے ہیں۔ اور جب یہ طبقہ اپنی پوری طاقت کے باوجود ایک باہر کے شخص کو شکست نہ دے سکا تو یہ اپنے ہی بنائے گئے اصول و ضوابط کو توڑ کر حکمرانی اپنے طبقے میں لانے کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہے۔
بشکریہ بی بی سی اردو
 

زین

لائبریرین
یہ ایران کے بارے میں اتنی صفایاں دینے والے اپنے ملک کے دفاع میں کیوں‌کچھ نہیں لکھتے ؟؟
 

عسکری

معطل
کیوں کے ہم کو اپنا گھر اپنا نہیں لگتا ۔یار ایران جانے ایرانی ہمارا اپنا ملک بہت برے حال میں ہے :(
 

مہوش علی

لائبریرین
شکریہ سولنگی بھائی۔
مجھے ڈر ہے کہ ثقلین امام صاحب نے مسئلے کا صرف ذکر کیا ہے اور اسکی گہرائی میں نہیں گئے ہیں۔ بلکہ کہیے کہ مسئلے کا ذکر تو انہوں نے کر دیا ہے، مگر جو خطرہ اس وقت پیدا ہو گیا ہے اسکا ذکر نہیں کیا ہے۔

دوسری بات جو میرے دل کی ہے، وہ یہ کہ اگر احمدی نژاد صدر منتخب ہو بھی گئے ہیں تو وہ یہ رویہ دکھائیں کہ ان میں دوسروں سے مصالحت کرنے کا ٹیلنٹ بھی موجود ہے۔ انہوں نے اپنے بے لچک رویے سے پہلے ہی بہت سے دشمن پیدا کر لیے ہیں جو کہ دشمنی میں انتہا پر پہنچ رہے ہیں۔ پہلے یہ حال مغرب اور امریکہ سے ہوا، مگر اب اندرون ایران بھی فریق مخالف انتہا پر جا کر مخالفت کرنے والا ہے۔ چنانچہ یہ بات یقینی ہے کہ غلطی اس فریق مخالف کی ہی ہے، مگر کبھی کبھار انسان کو حالات کے تحت معاہدے کرنے پڑتے ہیں اور اسکی مثال اور تعلیم صلح حدیبیہ میں موجود ہے۔

نیز یہ کہ ملکی مفادات الگ بات ہے، مگر مجھے یقین ہے کہ صدر اوباما واقعی چاہتے ہیں کہ مغرب اور اسلام میں اچھے تعلقات پیدا ہوں۔ چنانچہ اس دنیا اور انسانیت کی بہتری اسی میں ہے کہ دونوں طرف سے تالی بجائی جائے اور ایک دوسرے سے تعاون کیا جائے، ۔۔۔۔۔۔ اور اگر ایسا نہیں کیا گیا تو غلط اور صحیح کی بحث ایک طرف، مگر نتیجہ یہ نکلنے والا ہے کہ مسلمانوں میں بھی انتہا پسند مضبوط ہوں گے اور مغرب میں بھی نفرت کرنے والے انتہا پسند مضبوط ہو کر اپنی حکومتوں پر قابض ہوں گے اور مجموعی طور پر انسان دوست قوتیں دونوں طرف خسارے میں رہیں گی۔
زین بھائی،
ایران کے حالات میں دلچسپی لینا کسی طرح پاکستان سے حب الوطنی کے خلاف نہیں ہے۔
بلکہ انسان ذرا کشادہ ذہن رہے تو وہ اقوام عالم اور انکی تاریخ اور حالات سے بہت سے اہم سبق سیکھ سکتا ہے۔ ہم ایران کے حالات سے بالکل الگ تھلگ نہیں رہ سکتے اور یہ ہم پر بالواسطہ طور پر اثر انداز ہوتا رہے گا۔
 

زین

لائبریرین
زین بھائی،
ایران کے حالات میں دلچسپی لینا کسی طرح پاکستان سے حب الوطنی کے خلاف نہیں ہے۔
بلکہ انسان ذرا کشادہ ذہن رہے تو وہ اقوام عالم اور انکی تاریخ اور حالات سے بہت سے اہم سبق سیکھ سکتا ہے۔ ہم ایران کے حالات سے بالکل الگ تھلگ نہیں رہ سکتے اور یہ ہم پر بالواسطہ طور پر اثر انداز ہوتا رہے گا۔
مجھے آپ کی اس بات سے اتفاق ہے لیکن یہاں لوگ ایران اور امریکہ کے حق میں حد سے بھی گزر جاتے ہیں جبکہ اپنے ملک پاکستان کے دفاع میں کچھ لکھنا تو دور کی بات ، الٹا زہر افشانی کرتے ہیں‌
 

مہوش علی

لائبریرین
مجھے آپ کی اس بات سے اتفاق ہے لیکن یہاں لوگ ایران اور امریکہ کے حق میں حد سے بھی گزر جاتے ہیں جبکہ اپنے ملک پاکستان کے دفاع میں کچھ لکھنا تو دور کی بات ، الٹا زہر افشانی کرتے ہیں‌

زین بھائی، اختلاف رائے کی گنجائش رکھئیے۔
دفاع پاکستان کا ہر کوئی حامی ہے، مگر یہ دفاع کس کے خلاف؟ کسی کے نزدیک طالبان کے خلاف دفاع پاکستان سب سے بڑا مسئلہ ہے جبکہ دوسرے کے نزدیک طالبان کو چھوڑ کر زیادہ زور امریکہ کے خلاف ہونا چاہیے۔
چنانچہ یہ اختلاف رائے تو ہے، مگر دفاع پاکستان پر سب متحد ہیں۔ مجھے یقین ہے جس دن آپ کو دل سے یقین ہو گیا کہ طالبان کا وجود واقعی ناسور ہے تو اس دن آپ طالبان کے خلاف دفاع پاکستان مجھ سے زیادہ کر رہے ہوں گے، ۔۔۔۔ اور اسی طرح یقین رکھئے جس دن مجھے یقین آ گیا کہ طالبان کا وجود پاکستان کے لیے زہر نہیں بلکہ امرت ہے، تو میں انکے خلاف نہیں لکھ رہی ہوں گی، اور اسی طرح اگر بھارت یا امریکہ کی طرف سے پاکستان کے خلاف سازشیں بڑھتی ہیں تو طالبان کو چھوڑ کر ان کے خلاف میرا قلم بھی اسی حساب سے زیادہ لکھنے لگے گا۔
اب اس موضوع کو ختم کرتے ہیں، اور ایران اور مغرب کی اس کشمکش اور اندرون ایران پیش آنے والے واقعات پر اپنی نظر رکھتے ہیں۔
 

زیک

مسافر
عمومی طور پر مغربی میڈیا کا رویہ آپ دیکھ چکے ہیں کہ وہ اب ایسی فضا قائم کریں گے جس میں ایک فریق کے موقف کو یکسر نظر انداز کیا جائے گا اور دوسرے کی قیاس آرائیوں کو ناقابل تردید ثبوت کے طور پر پیش کیا جائے گا۔

ایک طرف آپ یہ کہہ رہی ہیں دوسری طرف پوسٹ کے آخر میں مغربی میڈیا ہی کا حوالہ دے رہی ہیں۔

میں انتہا پسندی کے خلاف تھی اور اسی بنا پر خاتمی اور موسوی کیمپ کی طرف جھکاؤ رکھتی تھی۔ مگر جو رویہ ان لوگوں نے اپنایا ہے، اسے دیکھ کر بہت مایوسی ہوئی ہے۔

خاتمی یا موسوی کے حق میں آپ کی کوئ تحریر؟

اور موسوی صاحب کے کیمپ کے ایک حصے میں جو مغرب زدہ ایرانی موجود ہیں، ان سے تو شیطان بھی پناہ مانگتا ہو گا۔ جتنی نفرت، مادیت پرستی، ایرانی نسلی تعصب، اسلام دشمنی میں نے ان میں دیکھی ہے اسکا عشر عشیر بھی مغربی ممالک میں اسلام کے خلاف نہیں پائی جاتی۔

کچھ عجیب و غریب ایرانی میں نے بھی دیکھے ہیں مگر کیا ہر ایرانی کو اپنی مرضی کے امیدوار کو ووٹ دینے کا حق نہیں؟

اور ایرانی حکومت اگر مغرب سے آنیوالی ان انفارمیشن کے سیلاب پر پابندی لگا رہی ہے تو بالکل ٹھیک کر رہی ہے کیونکہ انکی نیتوں میں موجود کھوٹ دیکھ کر جانتے بوجھتے اپنے پاؤں پر کلہاڑی نہیں چلنی دینی چاہیے۔ یہ انفارمیشن نہیں بلکہ ڈس انفارمیشن ہے اور یہ حقیقت ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک پیسے کے بل بوتے پر اور میڈیا کے طویل نیٹ ورک کے بل بوتے پر اکیلے احمدی نژاد کو آسانی سے شکست دے سکتے ہیں۔

واہ کیا بات ہے۔

4۔ پچھلے الیکشن میں دو دور ہوئے تھے۔ پہلے دور میں تمام امیدوار انتخابات لڑے تھے اور یوں ووٹ تقسیم ہو گئے تھے۔ مگر ایرانی قانون کے مطابق چونکہ کوئی ایک امیدوار بھی 50 فیصد ووٹ نہیں حاصل کر پایا تھا اس لیے انتخابات کا دوسرا راؤنڈ ہوا جس میں صرف دو امیدوار ہی مدمقابل کھڑے ہوئے۔

اس دوسرے راؤنڈ میں احمدی نژاد کو 61 فیصد ووٹ ملے۔

پچھلے انتخابات کے برعکس، ان انتخابات میں صورتحال پہلے دن سے واضح تھی کہ اصل مقابلہ صرف دو امیدواروں کے ہی درمیان ہے اور بقیہ دو کو ووٹ دینا اپنا ووٹ ضائع کرنے کے برابر ہے۔

اس لیے احمدی نژاد کو ان الیکشن میں 62 فیصد ووٹ ملے جو کہ بالکل سمجھ میں آنے والی بات ہے۔

ایک لفظ: ٹرن آؤٹ۔ دوسری بات: ہاشمی رفسنجانی اصلاح‌پسند نہیں ہے۔

آغا خامنہ ای پر الزام ہے کہ انہوں نے الیکشن نتائج کے بعد مقررہ معیاد سے قبل ہی الیکشن نتائج کو قبول کرنے کا باضابطہ اعلان کر دیا، مگر مغربی میڈیا یہ نہیں بتا رہا کہ موسوی صاحب نے تو ووٹنگ ختم ہونے سے قبل ہی اپنی فتح کا اعلان کر دیا تھا، اور پھر ایک ٹیلی فون کال کا نام لے رہے ہیں کہ وہ ووٹنگ کے ایک گھنٹے بعد ہی وزارت داخلہ سے آئی جس میں موسوی صاحب کو کامیاب قرار دیا گیا وغیرہ وغیرہ۔

موسوی کی یہ بات واقعی عجیب ہے۔ اب کیا آپ بھی اعتراف کریں گی کہ خامنہ‌ای نے ایرانی قانون کی خلاف‌ورزی کی؟

بقیہ واشنگٹن پوسٹ کا یہ مضمون ان حقائق کو بہتر غیر جانبدارانہ طور پر پیش کر رہا ہے جن کا تذکرہ میں اوپر کر چکی ہوں۔


یہ مضمون میں بھی recommend کروں گا۔ اس کا عنوان ہی سب بتا رہا ہے۔ :)
 

زیک

مسافر
جو سات لوگ مارے گئے ہیں،اگرچہ کہ کہا جا رہا ہے کہ انہیں فوجی چوکی پر حملے کے بعد مارا گیا ہے، لیکن انہیں فورسز نے نہیں مارا ہے بلکہ سادہ لباس میں ملبوس لوگوں نے فائرنگ کی تھی۔

یہ فائرنگ کرنے والے کوئی بھی ہو سکتے ہیں۔

واہ کیا بات کی ہے۔ :rolleyes:
 

زیک

مسافر
ذرا یہ بھی پڑھیں یہ بی بی سی کی خبر ہے۔
احمدی نژاد آگے تھے: امریکی ادارہ
رائے عامہ کا جائزہ لینے والے بین الاقوامی اداروں کے گروپ نے کہا ہے کہ ایران میں انتخاب کے سرکاری نتائج کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ شاید یہ لوگوں کی رائے کی درست عکاسی کرتے ہیں۔

ان اداروں نے ایرانی انتخاب سے تین ہفتے قبل اپنے ایک تجزیے میں کہا تھا کہ محمود احمدی نژاد اپنے مخالف سے دو ایک کی نسبت سے آگے ہیں۔ ان اداروں میں امریکی تنظیم ’ٹیرر فری ٹومارو‘، ’دی نیو امریکین فاؤنڈیشن‘ اور ’کے اے یورپ‘ شامل ہیں۔

یہ رہا وہ سروے۔ اس میں خاص بات یہ ہے کہ الیکشن سے ایک ماہ پہلے کئے گئے اس سروے کے مطابق آدھے سے زیادہ ایرانیوں نے یہ فیصلہ ہی نہیں کیا ہوا تھا کہ وہ کس کو ووٹ دیں گے یا پھر وہ سروے ٹیم کو نہیں بتانا چاہتے تھے۔ احمدی‌نژاد کو 34 فیصد کی سپورٹ حاصل تھی۔ یاد رہے کہ یہاں امریکہ میں اگر کوئ پول کسی incumbent کو 50 فیصد سے کم دکھائے تو سمجھا جاتا ہے کہ وہ امیدوار ہارنے کے خطرے میں ہے۔

یہ بھی نوٹ کریں کہ اس سروے کے پریس ریلیز میں سروے ٹیم نے کہا تھا کہ رن‌آف کی امید ہے چونکہ احمدی‌نژاد آگے ہونے کے باوجود جیت نہیں رہا۔ اس کے علاوہ سروے سے یہ بھی ظاہر ہوا تھا کہ ایران کی اکثریت اصلاح‌پسند ہے۔

یہ رہا سروے ٹیم کے دو لوگوں کا واشنگٹن پوسٹ میں آرٹیکل جس میں انہوں نے وہی بات کی ہے جو بی‌بی‌سی اردو کے مضمون میں ہے۔ اس آرٹیکل کی تنقید کے لئے آپ یوآن کول، نیٹ سلور یا واشنگٹن پوسٹ ہی میں جان کوہن کے آرٹیکل پڑھ سکتے ہیں۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اردو فورمز پر ايران کے صدارتی انتخابات پر جاری بحث ميں کچھ افراد کی رائے سے يہ تاثر ملتا ہے کہ جيسے امريکہ ميڈيا پر جاری کوريج، رپورٹنگ اور رائے زنی سے براہ راست امريکہ حکومت کے سرکاری موقف اور نقطہ نظر کی ترجمانی ہوتی ہے۔

يہ بات ياد رہے کہ امريکہ ميں ميڈيا امريکی حکومت کے کنٹرول سے آزاد ہے۔ حقیقت يہ ہے کہ امريکی صدر اور حکومت پر جتنی تنقيد اور سخت جملے امريکی ميڈيا پر استعمال کيے جاتے ہیں شايد دنيا کی کسی حکومت کو اس کا سامنا نہيں کرنا پڑتا۔ اگر امريکی حکومت خود اپنی پاليسيوں پر ہونے والی کوريج کو کنٹرول نہيں کر سکتی تو يقينی طور پر يہ توقع نہيں کی جا سکتی کہ کسی دوسرے ملک ميں ہونے والے انتخابات کی کوريج کے لیے ايک مخصوص ايجنڈہ ميڈيا پر مسلط کيا جا سکے۔

آپ امريکی ميڈيا پر ايران کے صدارتی انتخابات کی کوريج سے اتفاق يا اختلاف کر سکتے ہیں ليکن يہ کوريج اس ايشو پر کسی بھی طرح امريکی حکومت کی پاليسی کی عکاس نہيں ہے۔

ايران کے انتخابات پر صدر اوبامہ کا بيان

"مجھے ايران کے انتخابات کے بارے ميں شديد خدشات ہيں۔ ميرے خيال ميں پوری دنيا ميں ان انتخابات کے بارے ميں خدشات پائے جاتے ہیں۔ ايران اور امريکہ کے مابين تاريخ کے تناظر ميں يہ تاثر خوش آئند نہيں ہو گا کہ امريکی صدر ايرانی انتخابات ميں دخل اندازی کر رہے ہيں۔ ميں جب بھی پرامن احتجاج يا اختلافی نقطہ نظر پر تشدد کا استعمال ديکھتا ہوں، چاہے وہ کہيں بھی ہوں تو ميرے اور امريکی عوام کے لیے يہ امر پريشان کن ہے۔ حکومتوں کو عوام کے ساتھ يہ طرز عمل اختيار نہيں کرنا چاہيے۔ مجھے اميد ہے کہ ايران کے عوام اپنی خيالات کے اظہار اور اپنے عزائم کی تکميل کے لیے درست قدم اٹھائيں گے۔ اگلے چند دنوں اور ہفتوں ميں کيا صورت حال سامنے آتی ہے، اس کا حتمی فیصلہ ايران کے لوگوں نے خود کرنا ہے۔"


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

arifkarim

معطل
اصل میں‌احمدی نژاد امریکی و مغرب کی کٹ پتلی نہیں بن رہا ہے۔ اسلئے انکو زیادہ پسو پڑھ رہے ہیں۔ انسے بندہ پوچھے، بھلا حامد قرزئی اور عراقی وزیر اعظم کی عوام میں‌کتنی اسپورٹ ہے؟ لیکن اسکے باوجود وہ مغرب میں‌ایکسپٹڈ ہیں‌کیونکہ انکو وہاں خود امریکہ نے "انسٹال" کیا ہے۔ اب جو کوئی امریکی سازش کو ہیک کرنے کی کوشش کرے گا۔ غبار و نزلہ بھی اسی پر گرے گا!
 
روزنامہ ایکسپریس 18 جون
اوریا مقبول جان
1100650400-2.gif
 
واضح رہے کہ ایران ایک جمہوری مملکت ہے جسے تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ مغربی میڈیا نے پاکستان میں جمہوریت کو مشرف با وردی بھی قبول کیا ہے اور آٹھ برس تک اُف تک نہ کی۔
 

arifkarim

معطل
جب الیکشن میں‌ہر بار دھاندلی ہوتی ہے تو الیکشن کروائے کیوں‌جاتے ہیں؟
جارج بش نے دو بار دھاندلی کی۔ پھر پریزڈنت نیکسن اور ریگن کی دھاندلیاں؟
امریکی پہلے اپنی گھر کی خبر لیں۔۔۔۔
 
ایران میں حالات مزید ابتر ہوتے جارہے ہیں تازہ اطلاعات کے مطابق موسوی اور ان کے حامیوں نے رہبر اعلی کے حکم کو نظر انداز کر کے مزید جلوسوں کے انعقاد کا علان کیا ہے اور موسوی نے کہا ہے کہ وہ شہادت کے لیے تیار ہیں۔
ایکسپریس 21 جون
1100652645-1.jpg

1100652645-2.gif
 
Top