ظہور احمد سولنگی
محفلین
ذرا یہ بھی پڑھیں یہ بی بی سی کی خبر ہے۔
احمدی نژاد آگے تھے: امریکی ادارہ
رائے عامہ کا جائزہ لینے والے بین الاقوامی اداروں کے گروپ نے کہا ہے کہ ایران میں انتخاب کے سرکاری نتائج کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ شاید یہ لوگوں کی رائے کی درست عکاسی کرتے ہیں۔
ان اداروں نے ایرانی انتخاب سے تین ہفتے قبل اپنے ایک تجزیے میں کہا تھا کہ محمود احمدی نژاد اپنے مخالف سے دو ایک کی نسبت سے آگے ہیں۔ ان اداروں میں امریکی تنظیم ’ٹیرر فری ٹومارو‘، ’دی نیو امریکین فاؤنڈیشن‘ اور ’کے اے یورپ‘ شامل ہیں۔
ایران میں ہار جانے والے صدارتی امیدوار حسین موسوی کا کہنا ہے کہ انتخاب میں دھاندلی ہوئی ہے۔
ٹیرر فری ٹومارو کے اہلکار کین بالن نے بی بی سی کی عالمی سروس سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہمارا تجزیہ تھا کہ صدر احمدی نژاد بھاری اکثریت سے آگے ہیں‘۔ ایران میں یہ تجزیہ گیارہ اور بیس مئی کے درمیان کیا گیا تھا اور اس میں ایران کے تیس صوبوں میں ایک ہزار ایک انٹرویو کیے گئے تھے۔ اس تجزیے میں غلطی کی گنجائش تین فیصد تھی۔
بالن نے کہا کہ اس تجزیے کے مطابق احمدی نژاد کو تینتیس اعشاریہ آٹھ فیصد اور میر حسین موسوی کو تیرہ اعشاریہ چھ فیصد لوگوں کی حمایت حاصل تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس میں دیکھنے والی بات یہ ہے کہ آیا احمدی نژاد یہ برتری انتخابات تک قائم رکھ سکے ہوں گے یا نہیں۔
ایران میں انتخاب کے سرکاری نتائج کے مطابق احمدی نژاد کو باسٹھ اعشاریہ چھ فیصد ووٹ ملے جبکہ ان کے مخالف امیدوار حسین موسوی کو تینتیس اعشاریہ آٹھ فیصد۔
بالن نے کہا کہ یہ نتیجہ درست ہو سکتا ہے لیکن جس طرح ایران کی حکوت نے اس معاملے سے نمٹنے کی کوشش کی ہے اس سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کے تجزیے کے مطابق کسی امیدوار کو پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ ملنے کا امکان نہیں تھا اور اس صورتحال میں پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدواروں کے درمیان دوبارہ مقابلہ ہونا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اب جو بہت بڑی تعداد میں طالب علم مظاہرے کر رہے ہیں یہ بھی ان کے تجزیے کے نتائج سے مطابقت رکھتا ہے اور یہ پورے ملک کے لوگوں کی رائے کے عکاس نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے تجزیے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ووٹر جن میں حسین موسوی کو حمایت حاصل تھی یا وہ کم سے کم احمدی نژاد کا مقابلہ کر سکتے تھے وہ یہی یونیورسٹیوں طالب علم اور متمول طبقے کے لوگ تھے۔
انہوں نے کہا کہ حسین موسوی آذری ہیں اور خیال تھا کہ انہیں ان لوگوں میں حمایت حاصل ہو گی لیکن وہ زیادہ تر احمدی نژاد کے حامی تھے۔ احمدی نژاد کے اکتیس فیصد کے مقابلے میں سولہ فیصد آذریوں نے کہا کہ وہ موسوی کو ووٹ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں انتخابی نتائج پر رائے دینے میں احتیاط برتنا ہوگی۔
بالن نے کہا کہ ’ہمیں معلوم ہے کہ انتخاب آزادانہ نہیں تھے لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کر نے کے لیے ہمارے پاس ٹھوس شواہد نہیں کہ موسوی بھاری اکثریت سے جیت سکتے تھے۔لیکن ہمارے پاس یہ شواہد ہیں جن کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ انتخابی نتائج درست تھے‘۔
بشکریہ بی بی سی اردو
احمدی نژاد آگے تھے: امریکی ادارہ
رائے عامہ کا جائزہ لینے والے بین الاقوامی اداروں کے گروپ نے کہا ہے کہ ایران میں انتخاب کے سرکاری نتائج کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ شاید یہ لوگوں کی رائے کی درست عکاسی کرتے ہیں۔
ان اداروں نے ایرانی انتخاب سے تین ہفتے قبل اپنے ایک تجزیے میں کہا تھا کہ محمود احمدی نژاد اپنے مخالف سے دو ایک کی نسبت سے آگے ہیں۔ ان اداروں میں امریکی تنظیم ’ٹیرر فری ٹومارو‘، ’دی نیو امریکین فاؤنڈیشن‘ اور ’کے اے یورپ‘ شامل ہیں۔
ایران میں ہار جانے والے صدارتی امیدوار حسین موسوی کا کہنا ہے کہ انتخاب میں دھاندلی ہوئی ہے۔
ٹیرر فری ٹومارو کے اہلکار کین بالن نے بی بی سی کی عالمی سروس سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہمارا تجزیہ تھا کہ صدر احمدی نژاد بھاری اکثریت سے آگے ہیں‘۔ ایران میں یہ تجزیہ گیارہ اور بیس مئی کے درمیان کیا گیا تھا اور اس میں ایران کے تیس صوبوں میں ایک ہزار ایک انٹرویو کیے گئے تھے۔ اس تجزیے میں غلطی کی گنجائش تین فیصد تھی۔
بالن نے کہا کہ اس تجزیے کے مطابق احمدی نژاد کو تینتیس اعشاریہ آٹھ فیصد اور میر حسین موسوی کو تیرہ اعشاریہ چھ فیصد لوگوں کی حمایت حاصل تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس میں دیکھنے والی بات یہ ہے کہ آیا احمدی نژاد یہ برتری انتخابات تک قائم رکھ سکے ہوں گے یا نہیں۔
ایران میں انتخاب کے سرکاری نتائج کے مطابق احمدی نژاد کو باسٹھ اعشاریہ چھ فیصد ووٹ ملے جبکہ ان کے مخالف امیدوار حسین موسوی کو تینتیس اعشاریہ آٹھ فیصد۔
بالن نے کہا کہ یہ نتیجہ درست ہو سکتا ہے لیکن جس طرح ایران کی حکوت نے اس معاملے سے نمٹنے کی کوشش کی ہے اس سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کے تجزیے کے مطابق کسی امیدوار کو پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ ملنے کا امکان نہیں تھا اور اس صورتحال میں پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدواروں کے درمیان دوبارہ مقابلہ ہونا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اب جو بہت بڑی تعداد میں طالب علم مظاہرے کر رہے ہیں یہ بھی ان کے تجزیے کے نتائج سے مطابقت رکھتا ہے اور یہ پورے ملک کے لوگوں کی رائے کے عکاس نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے تجزیے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ووٹر جن میں حسین موسوی کو حمایت حاصل تھی یا وہ کم سے کم احمدی نژاد کا مقابلہ کر سکتے تھے وہ یہی یونیورسٹیوں طالب علم اور متمول طبقے کے لوگ تھے۔
انہوں نے کہا کہ حسین موسوی آذری ہیں اور خیال تھا کہ انہیں ان لوگوں میں حمایت حاصل ہو گی لیکن وہ زیادہ تر احمدی نژاد کے حامی تھے۔ احمدی نژاد کے اکتیس فیصد کے مقابلے میں سولہ فیصد آذریوں نے کہا کہ وہ موسوی کو ووٹ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں انتخابی نتائج پر رائے دینے میں احتیاط برتنا ہوگی۔
بالن نے کہا کہ ’ہمیں معلوم ہے کہ انتخاب آزادانہ نہیں تھے لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کر نے کے لیے ہمارے پاس ٹھوس شواہد نہیں کہ موسوی بھاری اکثریت سے جیت سکتے تھے۔لیکن ہمارے پاس یہ شواہد ہیں جن کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ انتخابی نتائج درست تھے‘۔
بشکریہ بی بی سی اردو