(ظاہر ہے اس کام کی فیس بھی ہوتی ہے
نہایت افسوس ناک! یااللہ رحم فرما۔
جنازہ، اذان، غسل، کفن دفن کا بھی کاروبار شروع ہوگیا۔ افسوس صد افسوس!
میں یہاں عرض کروں کہ سبھی جگہ ایسا نہیں، اور یہ تو انتہائی قبیح فعل ہے کہ جنازے کے بھی پیسے لیے جائیں۔ یا اللہ ایسے کاروباریوں سے امت کو بچائیے۔
میں بذات خود کئی مردوں کو غسل دے چکا ہوں اور کئی جنازے پڑھائے ہیں الحمد للّٰہ ایک پائی کا مطالبہ نہیں کیا۔ اور اذان کے لیے تو کوئی بھی کھینچ کر لے جاتا ہے کہ "
او مفتی صاحب! آ یار، بچے کے کان میں اذان دینی ہے۔ (اچھا ابھی آیا) ارے چھوڑ! بیٹھ بائیک پر، ابھی آجائیں گے۔
بلکہ ایک دلچسپ واقعہ لاہور گنگارام ہسپتال میں پیش آیا کہ میرا بیٹا وہاں سترہ دن نرسری میں رہا، میں وہیں راہداری (انتظار گاہ) میں پڑا رہتا تھا۔ اس دوران روزانہ کئی بچے آتے اور کئی وفات پاتے، بہت سے بچوں کے کان میں اذان پڑھی۔ ایک صاحب آئے اور کہنے لگے کہ بچے کے کان میں اذان پڑھ دیں گے؟ عرض کیا جی ضرور!
نرسری میں جاکر اذان دی، باہر آئے تو وہ سرگوشی میں کہنے لگے: مولوی صاحب کوئی فیس وغیرہ؟ میں مسکرا دیا اور جیب سے (غالبا) سو روپے نکال کر انہیں دیے کہ آپ کا بچہ میرا بچہ، میری طرف سے بچے کو دیجیے۔ اس پر وہ سخت حیران ہوئے کہ اچھا! ایسا بھی ہوتا ہے؟ اور پھر بہت دیر تک کاروباریوں کی "مدح وثنا" بیان کرتے رہے۔
اللہ رحم فرمائے۔