پانچویں سالگرہ ایک صفحہ کتنی دیر میں ۔ ۔ ۔

زین

لائبریرین
صفحہ نمبر 110


اوسکا قیام نہیں ہوسکتا اور ہر طرحکی درہمی و برہمی واقع ہوجاتی کذب سے نہ تو امور خانہ داری کا انتظام ہوسکتا ہے اور نہ کسی گروہ پر حکومت کیجاسکتی ہے ۔کذب کا شمار بدترین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سے ہے لیکن بعض لوگ اس جرم کو ایسا نا چیز و حقیر خیال کرتے ہین کہ وہ اپنے نوکرونکو دروغگوئی کا حکم دیتے ہین اور اپنے اس نا معقول تعلیم سے متعجب نہین ہوتے جب وہ نوکر خود اونھین سے فریب کرتے ہیں۔ اکثر لوگ ایسے جھوٹے خیال اور بے ایمان ہوتے ہین جو اپنی فریب آمیز چالاکی پر لاف زنی کرتے ہین اور اس بات کی بادہ گوئی کرتے ہین کہ وہ اپنے مبہم و مشکوک اقوال سے اپنا اصلی خیال اور اندرونی مطلب نہین ظاہر ہونے دیتے۔ لیکن یہہ طریق اور قاعدہ بھی دغا بازی و بے ایمانی کا ہے ۔ جارج ہربرٹ کا قول ہے کہ اگر چہ صریحی کذب بھی سخت گناہ و ذحصیت ہے لیکن تاہم اس قسم کی مکاری و حیلہ سازی سے اوسمین ذلت و خواری کم ہے ۔ کذب اپنے کو مختلف صورتونمین ظاہر کرتا ہے مثلآ تجاہل عارفانہ فصول گوئی بہانہ بازی اس قسم کا وعدہ کرنا جسکے ایفا کرنے کا خیال بھی نہہو۔ یا سچ کہنے سے ۔۔۔۔ جسکا اظہار ہر حال مین فرض ہے اور وہ لوگ جو کہتے کچھ ہین اور کرتے کچھ ہین اور گواونکا خیال ہے کہ وہ دوسرونکو فریب دیتے ہین لیکن فی الحقیقت وہ خود دھوکا کہاتے ہین۔ اکثر لوگ اسطرح۔۔۔۔۔۔جھوٹ بولتے ہین کہ جو اوصاف اونمین نہین ہین انکا دعوی کرتے ہین۔ لیکن برخلاف اسکے راستباز آدمی نہایت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہوتا ہے اور خود اپنی یا اپنے کام کی کبھی شان و شوکت نہین ظاہر کرتا۔ چنانچہ اخیر مرتبہ جب پٹ مرض الموت مین مبتلا ہوا اور اوسکے پاس انگلستان مین ڈیوک آف ولنگٹن کی دلیریونکی ہندوستان سے خبریں پہونچین تو اوسنے کہا کہ جسقدر مین اوسکی جراتونکو سنکر خوش ہوتا ہون اوسیقدر مین انکسار کو پسند



-------------------------------------------------------------

(نوٹ: یہ صفحہ میں نے یہاں بھی پیسٹ کردیا ہے )
 

زین

لائبریرین
اب صفحہ 150 اور 151 ہی بچے ہیں، وہ بھی میں ہی لکھ لیتا ہوں۔ اور کوئی رکن تو اسطرف آتا ہی نہیں۔

شمشاد بھائی میری خواہش ہے کہ میں ٹائپ میں آپ کے ساتھ مدد کروں لیکن کچھ دنوں سے مصروفیت بہت بڑھ گئی ہیں۔


152 سے 156 تک میں ٹائپ کرلوں گا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
صفحہ : 157

Tadbeer_page_0161.jpg

 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 157

سے ایک عشق کی کیفیت پیدا کر لین۔ قدرت نے یہ ایک ایسی مستحکم اور جزولانیفک قوت عورتونمین پیدا کر دی ہے جو اونکی تمامتر زندگی اور تاریخ پر منطبق ہے۔ اور گو مرد کی سوانح عمری مین اسکی حیثیت مثل ایک قصہ کے ہے اور اون لوگونکے واسطے باقی ہے جو بلا کسی روک ٹوک اور بغیر کسی رہنما کے اپنے میلان طبیعت کے مطابق حاصل کرتے ہین۔ اگرچہ قدرتی طور پر عشقیہ معاملات مین ابتدائی اصول و قواعد کی کچہہ ضرورت نہین ہے لیکن بہرکیف نوجوانون کے دلونمین چال چلن کی وہ ہیت تو ضرور نقش کر دینی چاہیے جسے وہ حق و باطل مین تمیز کر سکین۔ راستبازی اور پاکدامنی کے عزت کرنیکے عادی ہو جائین کیونکہ بغیر اس قوت کے انسان کی زندگی مثل ایک ایسے دائرہ کے ہے جو حدود ضرور گمراہی سےمحاظ ہے۔ یہ تو ممکن نہین کہ نوجوانونکو اسکی تعلیم دیجاے کہ وہ عقلمندی سے تعشق کرین لیکن والدین کی نصیحت اسقدر کارگر ہوتی تو ضروری ہے کہ وہ ایسے مبتذل و بے وقعت جوش سے جسے عشق کے نام کی بہی خرابی ہوتی ہے باز رہین۔ جن لوگون نے لفظ عشق کے معمولی معنی قیاس کر لئے ہین یہ اونکی غلطی ہے کیونکہ عشق فی نفسہ اپنی رفعت و پاکیزگی کا نتیجہ نہین بلکہ طبعی فضیلت کا ثبوت کامل ہے۔ اسکی وجہ سے جو ازالہ خود ستائی اور اضافہ حسن اخلاق ہو جاتا ہے اُس سے یہ امر ثابت ہے کہ اخلاقی تاثیرات بدرجہ غایت ہین اور یہہ ہمارے خود غرضانہ طبیعت پر قناعت و بے پروائی کی فیر ۔۔۔۔۔ ہے۔

عشق تعریف و عزت کی تمہید ہے اور اس سے چال چلن مین عمدگی و ترقی ہوتی ہے۔ یہ ہر شخص کو ذاتی غلامی سے مخلصی بخشی کی طرف مایل ہوتا ہے۔ یہہ رحمدلی۔ ہمدردی باہمی یقین و اعتبار پیدا کرتا ہے۔ محبت صادق سے دماگی قوت بہی بڑہتی ہے۔

کوئی مرد و عورت اوسوقت تک دنیاوی کاروبار مین پختہ و تجربہ کار نہین کہا جا سکتا جب تک کہ اوس نے کسی سے تعشق نکر لیا ہو۔ تا وقتیکہ عشق سے واقفیت نہ ہو لے مرد و عورت کسی مین انسانیت نہین ہو سکتی۔ فلاطون کا قول ہے کہ باہم عاشقونمین ایک قسم کی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 158

مشابہت ہوتی ہے یعنی عشق ایسا بقیہ حصہ ہے جو ابتدائی خلقت کے وقت ایک کا جزو دوسرے مین داخل کر دیا گیا۔ نہتبل ہاترن کہتا ہے کہ مردونکے بیچ مین ایک ایسا دشوارگزار فاصلہ ہے جو کسیطرح قطع نہین ہو سکتا پس جیسی اندرونی مدد و اعانت عورتونسے مل سکتی ہے ویسی آپسمین نہین حاصل ہو سکتی۔

آستانہ محبت مین قدم رکہتے ہی آدمی خوشی و ہمدردی اور باہمی فائدہ کی ایک نئی دنیا مین داخل ہو جاتا ہے۔ وہ دنیا کے ایک ایسے گہر مین داخل ہو جاتا ہے جو اوسکے خانہ طفولیت سے بالکل مختلف ہوتا ہے اور جہان روزمرہ جدید تجربے اور نئی مسرتین حاصل ہوتی ہین۔ وہ ایک ایسی تکلیف و صعوبت کی حالت مین بہی پڑ جاتا ہےہ کہ جسکے سبب سے اوسکو عمدہ ترین اصول و قواعد معلوم ہو جاتے ہین۔ خاندان مین زندگی بسر کرنے کی نسبت سنٹ بو کہتا ہے کہ گویا ایسے کانٹونکے بیچ مین رہتا ہے جسکے شگوفہ مین پھل بھی لگے ہوئے ہین۔ اور اگر کسی آدمی کے گہر مین ایک مدت معین تک بچے نہ ہوئے تو ظن غالب ہے کہ وہ گہر گناہون اور برائیونسے بہرا ہو گا ۔ آدمی کے چال و چلن کی اصلی حقیقت اور عقل کی پوری کیفیت جیسا کہ امور خانہ داری کے انتظام سے معلوم ہو سکتی ہے اوسقدر کسی دوسرے بڑے کامونکے بندوبست سے بہی نہین ظاہر ہو سکتی۔ اوسکا خیال گو کسی کام مین مشغول ہو لیکن اگر وہ خوش ہے تو اوسکی طبیعت گہر کی جانب ہو گی۔

امرسن۔ سر تہامس مور کے گہر کو بیان کرتا ہے کہ وہ ٹہیک ٹہیک مذہب عیسوی کا نمونہ تہا۔ کیونکہ اوسکے ہان نہ تو کوئی غیظ و غضب کی بات سنی جاتی تہی اور نہ کوئی شخص سست و کاہل رہتا بلکہ ہر شخص نہایت خوشی و خرمی سے اپنے اپنے فرایض پورا کرتا۔ سر تہامس نے اپنے حُسن اخلاق اور پسندیدہ برتاؤ سے خاندان والونکے دلونپر ایسا قابو حاصل کر لیا تہا کہ سب کے سب دل و جان سے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 159

اوسکی اطاعت و فرمانبرداری کرتے۔

لیکن وہ شخص جسکی محبت امور خانہ داری کے انتظام سے ترقی پذیر ہو گئی ہے کبہی اپنی ہمدردی کو ایسے چہوٹے دایرہ تک نہین محدود رکہیگا۔ اوسکی محبت خاندانمین بڑہتی جائیگی اور اُسی ذریعہ سے تمام دنیا مین پہیل جائیگی۔

امرسن کا قول ہے کہ مھبت پہلے صرف ایک شخص کے سینہ مین پیدا ہوتی ہے اور رفتہ رفتہ اپنا اثر دوسرے کے دل پر ڈالتی ہے یہانتک کہ ایک گروہ کے کی گروہ مین مشتعل ہو جاتی ہے اور اپنی عالمگیر شعاع پہلا دیتی ہے۔ یہہ امور خانہ داری کی محبت کا باعث ہے جس سے انسان کی طبیعت بطریق احسن درست و مرتب ہو جاتی ہے۔ گہر عورتونکے واسطے مثل ایک سلطنت ریاست اور دنیا کے ہے جسپر وہ شفقت و مہربانی اور رحمدلی سے حکومت کرتی ہین۔ کوئی جگہہ ایسی نہین ہے کہ جہان مرد کی تکلیف و صعوبت مبدل بہ عیش و راحت ہو جاے بجز اسکے کہ اوسکی فریق ایک عالی دماغ عورت ہو۔ اوسی سے آرام و آسایش قلبی و دماغی راحت میسر ہوتی ہے۔ وہ مرد کی ایک دانشمند مشیر ہو گی اور ایسی حالت مین اپنی فراست سے مرد کو راستی کی جانب رونمائی کریگی جب کہ وہ اپنی تنہا راے کی وجہ سے غلطی کی جانب مائل ہو گا تکلیف و صعوبت کے وقت مین صادق و محبت وار بی بی کی ذات امن و آسایش کی جگہ ہے کیونکہ وہ ہر طرحسے ہمدردی کریگی اور کُل تکلیفون مین ساتہہ دے گی۔ شباب کے زمانہ مین مرد کے پاس عورت کا ہونا مثل زر و جواہر کے ہے اور ایام شیب مین اوسکا وجود مثل ایک وفادار رفیق کے ہے۔ اس بارہ مین اڈمنڈ برک ایسا خوش نصیب تہا کہ وہ کہتا ہے کہ جب مین اپنے گہر مین داخل ہو جاتا تہا تو مجہے کسی قسم کا تردد تفکر نہین باقی رہتا تہا۔ اور لوتہر بہی جو محبت مین مخمور تہا اپنی بی بی کی نسبت کہتا تہا کہ اگرچہ مین افلاس کی حالت مین ہون لیکن اگر مجہے کوئی دنیا کی بیشمار
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 160

دولت بہی بخش دے تو مین اپنی بی بی سے کبہی مساولہ نکرون۔ اوسکا قول ہے کہ ایسے شخص پر خدا کی برکت ہے جسکی بی بی عفت ماب و پاکیزہ منش ہو جسکے ساتھ عیش و راحت سے وہ زندگی بسر کریگا اور جسکے اعتبار پر وہ اپنے کل مقبوضات حتے کہ صحت و زندگی بھی چہوڑ دیگا۔ موقع کو ہاتہہ سے جانے دینا اور نوجوان عورت کے ساتھہ شادی نکرنا ایسے افعال نہین ہین کہ کوئی شخص پسند کرے۔ مرد کو عورت کے ساتھ شادی کے بعد اصلی راحت و آسایش اوسیوقت مین ہو سکتی ہے جب اوسکی بی بی جسمانی رفاقت کے علاوہ روحانی مدد بہی دے۔ عورت کی عمدہ ترین صفت دماغی قوت پر نہین منحصرت ہے بلکہ اوسکی محبت پر ہے وہ اپنی ہمدردی سے زیادہ تر تسلی و تفریح دیسکتی ہے بہ نسبت اسکے کہ اپنے علم سے مدد دے۔

سر ہنری ٹیلر نے معاملات ازدواجی مین نہایت دانشمندی سے مضامین لکہے ہین۔ اوسکا قول ہے کہ اصلی بی بی وہی ہے جسمین یہ قابلیت ہو کہ اپنے گہر کو راحت و آسایش کی جگہہ بنا سکے اور اسقدر فہم و فراست ہو کہ امور خانہ داری کے انتظام مین جو دقتین واقع ہوتی ہین اوس سے اپنے شوہر کو باز رکہے اور حتے الامکان مقروض ہونے سے بہی محفوظ رکہے تب وہ اپنے شوہر کی نگاہونمین عزیز و محبوب ہو سکتی ہے۔

شادی کے بعد عمدہ ترین زندگی تحمل و تامل کے ساتہہ بسر ہو سکتی ہے کیونکہ یہ مثل ایک ایسی سلطنت کے ہے جسپر بمصالحت و مشارکت حکومت کی جا سکتی ہے۔ ایک کو دوسرے کی تقصیر و غلطی پر نکتہ چینی نہین کرنی چاہیے بلکہ نیک طینتی سے اوسپر تحمل کرنا چاہیے۔ پس جب خود اختیاری کے ساتہہ اسپر عملدرآمد کیا جایگا تو صبر و تحمل کی ایسی عادت ہو جایگی کہ کسی بات کا تلخ و ترش جواب ندیا جائیگا اور اوسوقت تک سکوت رہیگا جب تک کہ غصہ فرو نہولے۔ یہہ ایک سچا مقولہ ہے کہ نرم جواب غیظ و غضب کو ٹہنڈا کر دیتا ہے۔

برنس نے نیک بی بی کی اوصاف دس حصے مین تقسیم کئے ہین۔ چنانچہ چار تو اوسنے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 161

نیک خصلت کے لئے قایم کیا ہے۔ وہ سمجہدار کے واسطے ایک ذہن اور ایک حسن کے لئے جیسے پیاری صورت اور شرمگین آنکہین اور دو حصونمین بقیہ صفتین مثل تعلیم مال و جائداد وغیرہ کے۔ مشہور ہے کہ لڑکیان جال بنانا جانتی ہین لیکن بہت ۔۔۔۔ اگر وہ پنجرہ بنانا سیکہین مطلب یہہ کہ وہ مردونکی طبیعت کو اپنے طرف مائل کر لیتی ہین لیکن اونکے دلون پر قابو نہین حاصل کرتین اور دلداری نہین کر سکتین۔ پس جس بی بی مین یھہ قابلیت نہین ہے کہ وہ اپنے گہر کو خوشگوار و مسرت بخش بنا سکے جس سے اوسکے شوہر کو تکلیف و محنت کے بعد آرام و آسایش نصیب ہو تو اوس بیچارہ پر خدا رحم کرے کینوکہ اوسکے پاس مسکن و مادی کچہہ نہین ہے۔ کوئی دانشمند آدمی خاصکر خوبصورتی کی وجہ سے نہین شادی کریگا گو ابتدا مین تو اسکا دلفریب اثر بہت کچہہ ظاہر ہو گا لیکن بعد کو بالکل بے نتیجہ ثابت ہو گا۔ محض حسن صورت دیکہکر کسی عورت کو پسند کر لینا تا وقتیکہ اوس مین حُسن سیرت ہی نہو نہایت تاسف انگیز غلطی ہے کیونکہ یہہ ظاہری حسن بالکل چند روزہ ہوتا ہے اور بہت جلد زایل ہو جاتا ہے۔ برنس نے جو اوصاف ایک بی بی کے واسطے بیان کئے ہین وہ تو اوپر ذکر کر دیا گیا لیکن جو نصیحتین کہ لارڈ برلے نے اس بارہ مین اپنے بیٹے کو لکہے ہین وہ بہی ذیل مین درج کی جاتی ہین۔ "بہت شناخت اور پہچان کے عورت کو اپنی زوجیت کے واسطے منتخب کرو کیونکہ اوسکی صحبت سے آیندہ زندگی مین نیکیان اور برائیان پیدا ہوتی ہین۔ اوسکے مزاج سے اچہی طرح واقفیت حاصل کر لو۔ بالکل مفلس عورت سے بہی صحبت شادی نکرو اور نہ محض دولت کی وجہہ سے کمینی و ناہنجار عورت سے شادی کرو کیونکہ اوس سے تمکو طرح طرح کی تکلیفین اوٹہانی پڑینگی۔ شوہر کے اخلاق پر زوجہ کی صحبت کا باالضرور بہت کچہہ اثر ہوتا ہے۔ جو عورت کہ کمینہ خصلت ہے وہ اپنے شوہر کو حالت حیض مین ڈالدیگی اور پاکیزہ منش عورت
 
Top