سید رافع
محفلین
پہلا سین (پارٹ) - ایک کہانی۔قسط 1
بچہ پیدا ہوا، باپ تھا۔ باپ پیدا ہوا، باپ نہ تھا۔ بچے کو پتہ تھا کہ باپ جیسا بننا ہے۔ باپ کو پتہ نہیں تھا کس جیسا بننا تھا۔ باپ بننا چاہتا تھا۔ لوگ بناتے جا رہے تھے، باپ جو نہ تھا۔ سین چینج ہوا۔ بچہ پیدا ہوا۔ ماں تھی۔ ماں پیدا ہوی، باپ تھا۔ بچے کو پتہ تھا کہ باپ جیسا بننا ہے۔ باپ کو پتہ نہیں تھا کس جیسا بننا ہے ، بچے کی ماں جیسا بن گیا۔ پیدائش مکمل ہوئی۔پہلا سین، سین پارٹ اختتام کو پہنچا۔
- میاں ظہوری
بیوہ کا یتیم - ایک کہانی
کیا بیوہ کھلواڑ ہوتی اور یتیم کھیل ہوتا ہے؟ہاں۔
لیکن بیوہ کمزور اور یتیم معصوم ہوتا ہے۔ تو۔
کیا بیوہ کا مال کحلواڑ ہوتی اوریتیم کی زمین کحیل ہوتا ہے؟ ہاں۔
لیکن بیوہ ضرورت مند اور یتیم بے آسرا ہوتا ہے۔ تو۔
کیا بیوہ گحر کی کمتر اور یتیم غیر حساس ہوتا ہے؟ ہاں۔
لیکن بیوہ معصوم عورت اور یتیم خوبصورت بچہ ہوتا ہے۔ تو۔
سین چینج ہوا۔ بیوہ کا یتیم دس سال کا ہو جاتا ہے۔
- میاں ظہوری
کمزوریتیم کندھا - ایک کہانی
کھانا مضبوط اور احساس کندھا بناتا ہے۔ دس سال من پسند کھانا نہ ملے تو جسم کمزور ہوتا ہے۔ دس سال محبت نہ ملے تو کندھا کمزور ہو جاتا ہے۔ کھانے کا سامان دکان سے ملتا ہے۔ کندھا بنانے کا سامان دل سے ملتا ہے۔ تبھی کھانے کی بھوک ختم ہو جاتی ہے۔ کندھے کی بھوک باقی رہ جاتی ہے۔کھانا جسم بناتا رہتا ہے، کندھا کمزور ہی رہتا ہے۔
سین چینج ہوتا ہے۔دس سال کا یتیم اپنا باقی ماندہ کندھا لے کر بیوہ کی بیٹیوں سمیت الگ ہوتا ہے۔
- میاں ظہوری
خون - ایک کہانی
خون سفر کرتے ہیں۔ نیک خون آسمانوں کی طرف، بد خون زمینوں کی طرف۔
خون ظاہر ہوتے ہیں۔ نیک خون شرافت کی شکل میں، بدخون ذلالت کی شکل میں۔
خون توجہ کرتے ہیں۔ نیک خون علم کی طرف، بد خون ظلم کی طرف۔
یتیم کا خون سعود کرتے کرتے بنت نبی تک جا پہنچا۔جہاں سے تمام راستے آسمانوں کے ہیں۔
یتیم روح کی نہیں جسم کی پرورش میں مصروف تھا۔ بیوہ اور اسکی بیٹیاں بھی تو تھیں۔
یتیم کا کلام حق کے لیے تھا۔ لیکن جسم کی عمر دس سال تھی اسے کلام کی کیا معرفت۔جماعت ششم میں جو تھا۔
سین چینج ہوتا ہے۔یتیم تو بہت ذہین ہے۔زمین ہے۔ ہاں۔تو زہر دو۔
- میاں ظہوری
زہر - ایک کہانی
زن، زر، زمین زہر لاتے ہیں۔
وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔
سولہ سال میں بچہ لڑکا بن جاتا ہے۔بانک پن اور جولانی دکھاتا ہے۔ آنکھیں بھی۔
اپنا ہو تو دعایں دیتے ہیں، اپنا نہ ہو اور زمین بھی اپنی نہ ہو تو زہر دیتے ہیں۔
زہر منہ میں جانے سے پہلے دلوں میں آتا ہے، پھر ہاتھوں میں۔
لڑکا تو مرجھا سا گیا۔دو سال ہوگے ہیں، کندھا کمزور تھا لیکن سخت جان تھا۔
جان بچ گی، کندھا اورکمزور ہو گیا۔
اب کے سے جسم بھی کمزور ہو گیاتھا۔
سین چینج ہوا۔ بٹوارے زدہ ملک میں آمد۔
- میاں ظہوری
فرار - ایک کہانی
بچے کے باپ کا یتیم۔بلکہ اسکا دادا بھی یتیم۔
سو ایک خوش گوار بنت نبی کے خون میں نہ جانے کون کون رشتے دار بن بیٹھا۔
کسی کی محبتیں مقیم رکھتیں ہیں۔کسی کی نفرت ہجرت کراتی ہے۔
جبکہ لاتعلقی کندھا کمزور کرتی ہے اور فرار کی کشمکش لاتی ہے۔
ٹرین اسٹیشن پر کھڑا لڑکا گھر لوٹتا ہے۔
نہ اسے معلوم کہ کہاں جانا تھا، نہ گھر والوں کو علم کہ یہ کہیں جانے والا تھا۔
یہ ہوتا رہتا۔ہر واپسی بوجھ کو مذید بوجھل کر دیتی۔
کچھ رشتے دار عورتیں آنسو بہاتِیں۔ لیکن عورتیں تو کمزور غم کی شریک ہوتی ہیں۔وہ مرد تو نہیں ہوتیں!
لڑکے کی بہنوں کی شادیاں جیسے تیسے ہوتیں ہیں۔
یہاں تک کہ بٹوارے والے مسلم ملک سے لڑکے کو ایک محسن مرد رشتے دار چٹھی آتی ہے۔
لڑکا ماں کو لے کر پہنچتا ہے۔ گھر کرتا ہے۔ وہ رشتے دار دعا بھی کرتے اور پیار بھی۔ کندھا مضبوط ہوا۔
سین چینج ہوتا ہے۔ رشتے دار اللہ کو پیارے۔
- میاں ظہوری
پہلی خوشی - ایک کہانی
ستر کی دھای۔
آہ۔ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔یہ ایک سیل رواں کی طرح آگے کی طرف بہتا ہے۔
کب بچہ، مرد اور مرد سے شادی شدہ بن جاتا ہے پتہ ہی نہیں چلتا۔
آخر یتیم کی زندگی میں بھی خوشی کا دن آنے والا تھا۔
لیکن اگر کو ی سوٹ پہنے تو اک زمانے کو اچھا لگتا ہے۔سوٹ بہرحال چھپا جاتا ہے۔
بہنوئ سوٹ بوٹ والے لیکن بنت نبی کے خون والی احتیاطیں ہر ایک کے بس کی نہیں۔
ایک بات چلتی ہے اور یتیم کی شادی ہو جاتی ہے۔
کیا خوشی کا دن ہے۔
محبت بلکہ عشق کا آغاز۔ وہ کندھا جو کبھی نہ ملا تھا ہر وقت میسر۔جو بات ان کہی تھی سب کہہ دی۔
دن خوشبو۔ رات مسکراہٹ بن گی۔یوں بھی ہو سکتی تھی زندگی معلوم نہ تھا۔
کتنی حسین تحی ستر کی دھای۔
سین چینج ہوتا ہے۔ خون معاش کے آڑے آتا ہے۔
- میاں ظہوری
حرام - ایک کہانی
حلال، زندگی بدل دیتا ہے۔
حرام،زندگی تبدیل کر دیتا ہے۔
حلال استعمال میں ہو تو حرام کا لقمہ قریب آنے سے تیور تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ نوکری کے مکر کا تحمل بھی ناممکنات میں سے تھا۔یہاں ٹیکس ڈپارٹمنٹ کی نوکری کی آفر محض رشوت کے خوف سے چھوڑی جا رہی ہے۔وہاں رشتہ دار، دوست مشتبہ مال سے بنگلے بنا رہے ہیں۔جب بچپن کٹھن ہو تو کانٹے قسمت معلوم ہوتے ہیں اور صبر زندگی گذارنے کا واحد ذریعہ۔ٹیوشن کی آمدن میں پلا بڑھا ذہن اذیت اٹھاتے اٹھاتے سن سا ہو جاتا ہے۔ لمحے گزرتے ہیں لیکن پتہ ہی نہیں چلتا کیوں اور کب۔
معاش کی تگ و دو میں یتیم کا خون آڑے آ رہا ہے۔بچے تین۔ ہم راز و ہم سفر نے بھی شادی سے پہلے کیا کیا خواب دیکحے اور کیا ہوا۔ حقیقت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔
سو غریب کرے سو کیا نہ کرے۔ بہنوی کے ساتھ کاروبار جو کڑوی گولی بنا۔جو محبت کی چند محفلیں تھیں وہ بھی لٹتی دکھای دے رہیں تھیں۔ بہن بھای ہی تو آخری کندھے تھے، وہ بھی جدا ہو رہے تھے۔
سین چینج ہوا۔ جدای۔
- میاں ظہوری
جدای - ایک کہانی
اک ننھی کونپل جب درخت کی جھنڈ میں اپنا رخ نکالتی ہے تو وہ مسکرا رہی ہوتی ہے۔
درخت کا ہر پتہ اسکو سایہ دے رہا ہوتا ہے۔ وہ سورج میں اٹھلاتی ہے اور بارش کے قطروں کو چوم چوم کر جوان ہوتی ہے۔
لیکن درخت چلا گیا۔ کونپل زمین پر آ گری تھی کچھ ننھی کونپلوں کے ساتھ۔ انہوں نے ڈرتے ڈرتے مٹی کو چیر کر جوان ہونا شروع کر دیا۔ اب کونپلوں کی جدای کا لمحہ آن پہنچا تھا کہ کچھ کانٹے پیدا ہو گے تھے۔ وہ سال ہا سال ساتھ گزارے تھے ، اب دوری میں بدلنے والے تھے۔زندگی طلوع ہو رہی تھی لیکن سیاہی کے ساتھ۔
یتیم اپنی رفیق حیات، والدہ اور تین بچوں تنہا سا ہو گیا تھا۔اب ہم راز کو بھی اپنے خواب چکنا چور ہوتے دکھای دے رہے تھے۔ستر کے اوئل کی جنوری کی وہ خوبصورت سرد شام اب محض یک طرفہ عشق میں تبدیل ہو رہی تھی۔
سین چینج ہوا۔ بچے۔
- میاں ظہوری
بچے - ایک کہانی
ہر عورت بچے کی خواہش نہیں رکھتی لیکن ہو جایں تو پیار کرتی ہے۔پھر جس مرد کو خود محبت کی خواہش تھی اب اس پر ایک نیا قصہ آن پڑا تھا کہ اسے محبت باٹنی تھی۔
زندگی عجیب تماشہ ہے۔ جس مضمون کی تیاری نہ ہو اسکا بھی امتحان سامنے آ جاتا ہے۔جس کونپل کو خود سایہ نہ ملا ہو بھلا وہ درخت کیونکر ایک حد سےزاید تپش روک جا سکے گا۔ وہ تو خود ساے کی تلاش میں تھا اور اس کھڑی دھوپ میں تین ننھی کونپلوں کا سابان بننا تھا۔ یہ عجیب منظر رہا۔بنت نبی کا خون، کندھے کی تلاش، حلال کی دوڑ دھوپ، جدای، یک طرفہ عشق اور اب یہ جوان ہوتے پھول۔
سین چینج ہوا۔آسمان نیا منظر دیکھنے جا رہا تھاگھبراہٹ۔
- میاں ظہوری
گبھراہٹ - ایک کہانی
بعض اوقات انتہای ذہین مرد کی عام خاتون سے شادی ہو جاتی ہے۔ کچھ بچے ماں پر پڑ جاتے ہیں کچھ باپ پر۔ یوں قدرت زندگی تقسیم کرتی جاتی ہے۔وہ مرد جو جلسے، مناظرے اور لکھتا لکھاتا ہو وہ جہاں چاہے مجلس لگا لے اور جسے چاہے دوست بنا لے۔ جبکہ عام خاتون جہاں تک ممکن ہو معاش میں ساتھ دیتی ہے، معاشرت میں ساتھ دیتی ہے۔ لیکن دہایوں کی حق تلفی کی تلافی کس انسان کے بس میں ہے۔
اب وہ مرحلہ آن پہنچا تھا جب نوے کی دھای آ چکی تھی۔ ساری امیدیں بچوں سے وابستہ ہو چکی تھیں۔ کندھا بنیں تو بچے، محبت اور خوشگوار باتیں ملیں تو بچیں اور معاش کی کثرت ہو تاکہ وہ ادھورے خواب پورے ہوں جن کو کبھی کا دل میں ڈوبتے دیکھا جا چکا تھا۔
قدرت اپنے چکر کو کہیں دوہرانے تو نہیں جا رہی تھی؟ نہیں لیکن امیدوں کا وہ سمندر ان الڑھ بچوں کو بوجھ تلے دباے دے رہا تھا۔ جس کی حد و حدود، جس کے قواید و ضوابط کا بھی انکو علم نہ تھا۔ وہ فکروں میں گھلنے لگے۔سیر سپاٹے بے معنی معلوم ہونے لگے۔ دل اس مخلص مرد و خاتون پر نچھاور تھا،
سین چینج ہوا فکریں جوان ہویں قبل اسکے لڑکا جوان ہوتا۔
- میاں ظہوری
جوانی - ایک کہانی
یتیم کا ایک لڑکا اسکی امیدوں کا مرکز تھا اور اسکی رفیق حیات کا نور نظر۔
محبت میں بعض اوقات امید کی ملاوٹ ہو تو دل چاہتا ہے جلدی سے وہ سب امیدیں اور مایوسیوں کے اندھیروں کو دور کر دیں کہ جو مسکراہٹوں کو بوڑھا کر رہے ہیں۔ لیکن محض امیدیں ادھورے خواب ہوتے ہیں اگر ان میں ماحول کی نرمی نہ ہو، اگر ان میں غم میں کثیر ملاوٹ ہو، جس کے اظہار میں شدت ہو، جس سے پیچھے ہٹنا ناقابل تلافی جرم ہو، جس میں کوی مثال نہ ہو، جس میں اظہار کی آزادی نہ ہو الا کہ دھورایا جاے، جس میں طاقت کی جانچ نہ کی گی ہو، جس میں تجزیہ اور تفصیل نہ ہو، اور سب سے بڑھ کر سوچنے کے ہر موقعے کو زور دار آوازیں دبا رہی ہوں۔
ایسے میں بادل بھی آتے ہیں، گھٹا بھی چھاتی ہے، امیدیں بھی بنتیں ہیں لیکن بادل بارش کی رحمت سے خالی ہوچکا ہوتا ہے۔
سین چینج ہوا کمپیوٹر اور قرآن آ رہا ہے۔
- میاں ظہوری
کمپیوٹر اور قرآن - ایک کہانی
لڑکا جوان ہو رہا تھا۔ خوامخوہ جنس دیگر اچھی لگتیں۔ لیکن کوی لطیف پیراے کا علم ہی نہیں تھا۔ ہر لطف بلند شور میں دبا ہوا تھا۔ ہر سوچ کے اظہار پر انجانے خوف کے پہرے تھے۔
یوں تو زندگی نہ بنای ہو گی بنانے والے نے!
بہرحال جب سب رابطے کٹ جایں یا کسی انجانے خوف سے ان کو مسترد کر دیا جاے تو قدرت کمپیوٹر بھیجتی ہے۔جا لالے دن رات کحیل اس سے۔ جب اصول کا ماحول میں غلبہ ہو تو اللہ نے لکھانے والوں سے تفسیر فہم القرآن لکھوا دی او رلڑکے کی نانی کے ایک جاننے والی کے پاس بھیج دی۔ بنت نبی کے بیٹوں پر نہ جانے کیوں اصول پسندی اور قرآن فہمی کا جذبہ بلا کسی کے کہے ہوتا ہے۔
سین چینج ہوا قرآن غلط سمجھنا شروع۔
- میاں ظہوری
جوانی - ایک کہانی
علما اپنے اپنے حصے کے لڑکوں کو اغوا کر رہے تھے۔ یتیم اغوا ہوا لیکن علمی اغوا کا علم بہت دیر میں ہوتا ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ بعض لوگ محبت میں پروی ہر تسبح اپنے قلم کی نوک اور بزور طاقت کاٹ رہے تھے۔ انکا ارادہ تھا کہ غلام بنانے کا سب سے آسان طریقہ کم از کم نبی کے برابر عمل کرنے کی تبلیغ کرنا تھا۔ طریقہ واردات بے حد آسان اور مصروف مردوں اور سادہ لوح عورتوں کی سمجھ سے بالا تر تھا۔ کھانے کھلانے کے محبت بھرے انداز کو تہہ تیغ کیا جا رہا تھا۔ انکو وہ لڑکے درکار تھے جو ہاتھ میں ہتھیار اٹھا کر لوگوں کی جان کے درپے ہوں اور ملکوں ملکوں گھومیں۔ ماں باپ کے واحد سہاروں کو دو ممالک کے سرکردہ دوسروں کے اشاروں پر چھین رہے تھے۔ کیسا ہولناک منظر تھا۔
یتیم کا نور نظر بھی ایک ایسی ہی تفسیر کے جال میں پھسنا شروع ہو چکا تھا۔ غیر لطیف مذید کثافت میں بلا جانے پھنس رہا تھا۔ لیکن جب تفریح کے تمام مواقعے اس گھر سے ایسے ناآشنا تھے جیسے قبرستان کا مردہ کسی خوشی کے موقعے سے تو تمام تر توانای اسی سمت ہی بہنی تھی۔تفسیر پڑھنا قابل تعریف ٹہرا اور کمپیوٹر کا استعمال جاننا قابل فخر۔
وہ فخر جو پنپنے والا نہ تھا۔
سین چینج ہوا یورنیورسٹی۔
- میاں ظہوری
یورنیورسٹی - ایک کہانی
یورنیوسٹی میں داخلے کی خبر دیدنی تھی۔سب بے حد مسرور تھے۔
ایسی ہی زبردست دھوم تھی یتیم باپ کے گھر جب اسکا لڑکا میٹرک میں امتیازی نمبروں سے پاس ہوا۔شیرنی کی اسقدر کثرت ہوی کہ سمجھ نہ آتا کہ اب کس کو بھیجیں۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ باپ کے قابل فخر تذکروں نے پورے خاندان میں ایک خوشی کی کوند بھر دی ہو۔ تمتماتے چہرے مسرت سے لڑکے کو دیکھتے۔ اور واقعی کی اعتبار سے نتیجہ بے حد شاندار تھا۔
لیکن۔ لیکن وہ لڑکا قطعی بے بہرہ رہا کتاب سے باہر کے کسی امتحان سے۔ اسے علم نہیں تھا کہ وہ باپ کے ساے میں پل رہا ہے۔ لڑکا کمپیوٹر کے سحر میں تھا لیکن پڑھای کسی اور سمت کی۔ وہ چار سال۔
سین چینج ہوا چار سال۔
- میاں ظہوری
دو دوست - ایک کہانی
یورنیوسٹی آہ کیا خشک جگہ تھی۔ ایک پھول۔ دو محبتیں اور چالیس مضامین۔
بس کچھ دوست بنا لیے۔ ان میں سب سے زیادہ محبت لڑکے کو دو دوستوں سے تھی۔انکو اس نے بعد میں اپنی شادی میں بھی بلایا۔ دل چاہتا ہے کہ چار سال گزر جایں اور میں اپنی محبت پا لوں۔ لیکن سینے میں کچھ یادیں ہیں کہ جب بڑوں کی آوازیں اتنی بلند ہویں کہ ہمت جواب دے گی تو ہاسٹل کا سوچا۔ ایک دوست کے ساتھ مل کر ساری تفصیلات جمع کیں لیکن ہمت نے ساتھ نہ دیا کہ اس بات کو گھر میں کرتے۔ لڑکے کو معلوم ہو چکا تھا کہ اس دلدل سے نکلنا بے حد مشکل ہے۔
یورنیورسٹی ختم ہوی۔ اب ان کہے امتحانوں کا وقت شروع ہو چکا تھا۔
سین چینج ہوا سولہ نومبر انیس سو ستانویں۔
- میاں ظہوری
بچہ پیدا ہوا، باپ تھا۔ باپ پیدا ہوا، باپ نہ تھا۔ بچے کو پتہ تھا کہ باپ جیسا بننا ہے۔ باپ کو پتہ نہیں تھا کس جیسا بننا تھا۔ باپ بننا چاہتا تھا۔ لوگ بناتے جا رہے تھے، باپ جو نہ تھا۔ سین چینج ہوا۔ بچہ پیدا ہوا۔ ماں تھی۔ ماں پیدا ہوی، باپ تھا۔ بچے کو پتہ تھا کہ باپ جیسا بننا ہے۔ باپ کو پتہ نہیں تھا کس جیسا بننا ہے ، بچے کی ماں جیسا بن گیا۔ پیدائش مکمل ہوئی۔پہلا سین، سین پارٹ اختتام کو پہنچا۔
- میاں ظہوری
بیوہ کا یتیم - ایک کہانی
کیا بیوہ کھلواڑ ہوتی اور یتیم کھیل ہوتا ہے؟ہاں۔
لیکن بیوہ کمزور اور یتیم معصوم ہوتا ہے۔ تو۔
کیا بیوہ کا مال کحلواڑ ہوتی اوریتیم کی زمین کحیل ہوتا ہے؟ ہاں۔
لیکن بیوہ ضرورت مند اور یتیم بے آسرا ہوتا ہے۔ تو۔
کیا بیوہ گحر کی کمتر اور یتیم غیر حساس ہوتا ہے؟ ہاں۔
لیکن بیوہ معصوم عورت اور یتیم خوبصورت بچہ ہوتا ہے۔ تو۔
سین چینج ہوا۔ بیوہ کا یتیم دس سال کا ہو جاتا ہے۔
- میاں ظہوری
کمزوریتیم کندھا - ایک کہانی
کھانا مضبوط اور احساس کندھا بناتا ہے۔ دس سال من پسند کھانا نہ ملے تو جسم کمزور ہوتا ہے۔ دس سال محبت نہ ملے تو کندھا کمزور ہو جاتا ہے۔ کھانے کا سامان دکان سے ملتا ہے۔ کندھا بنانے کا سامان دل سے ملتا ہے۔ تبھی کھانے کی بھوک ختم ہو جاتی ہے۔ کندھے کی بھوک باقی رہ جاتی ہے۔کھانا جسم بناتا رہتا ہے، کندھا کمزور ہی رہتا ہے۔
سین چینج ہوتا ہے۔دس سال کا یتیم اپنا باقی ماندہ کندھا لے کر بیوہ کی بیٹیوں سمیت الگ ہوتا ہے۔
- میاں ظہوری
خون - ایک کہانی
خون سفر کرتے ہیں۔ نیک خون آسمانوں کی طرف، بد خون زمینوں کی طرف۔
خون ظاہر ہوتے ہیں۔ نیک خون شرافت کی شکل میں، بدخون ذلالت کی شکل میں۔
خون توجہ کرتے ہیں۔ نیک خون علم کی طرف، بد خون ظلم کی طرف۔
یتیم کا خون سعود کرتے کرتے بنت نبی تک جا پہنچا۔جہاں سے تمام راستے آسمانوں کے ہیں۔
یتیم روح کی نہیں جسم کی پرورش میں مصروف تھا۔ بیوہ اور اسکی بیٹیاں بھی تو تھیں۔
یتیم کا کلام حق کے لیے تھا۔ لیکن جسم کی عمر دس سال تھی اسے کلام کی کیا معرفت۔جماعت ششم میں جو تھا۔
سین چینج ہوتا ہے۔یتیم تو بہت ذہین ہے۔زمین ہے۔ ہاں۔تو زہر دو۔
- میاں ظہوری
زہر - ایک کہانی
زن، زر، زمین زہر لاتے ہیں۔
وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔
سولہ سال میں بچہ لڑکا بن جاتا ہے۔بانک پن اور جولانی دکھاتا ہے۔ آنکھیں بھی۔
اپنا ہو تو دعایں دیتے ہیں، اپنا نہ ہو اور زمین بھی اپنی نہ ہو تو زہر دیتے ہیں۔
زہر منہ میں جانے سے پہلے دلوں میں آتا ہے، پھر ہاتھوں میں۔
لڑکا تو مرجھا سا گیا۔دو سال ہوگے ہیں، کندھا کمزور تھا لیکن سخت جان تھا۔
جان بچ گی، کندھا اورکمزور ہو گیا۔
اب کے سے جسم بھی کمزور ہو گیاتھا۔
سین چینج ہوا۔ بٹوارے زدہ ملک میں آمد۔
- میاں ظہوری
فرار - ایک کہانی
بچے کے باپ کا یتیم۔بلکہ اسکا دادا بھی یتیم۔
سو ایک خوش گوار بنت نبی کے خون میں نہ جانے کون کون رشتے دار بن بیٹھا۔
کسی کی محبتیں مقیم رکھتیں ہیں۔کسی کی نفرت ہجرت کراتی ہے۔
جبکہ لاتعلقی کندھا کمزور کرتی ہے اور فرار کی کشمکش لاتی ہے۔
ٹرین اسٹیشن پر کھڑا لڑکا گھر لوٹتا ہے۔
نہ اسے معلوم کہ کہاں جانا تھا، نہ گھر والوں کو علم کہ یہ کہیں جانے والا تھا۔
یہ ہوتا رہتا۔ہر واپسی بوجھ کو مذید بوجھل کر دیتی۔
کچھ رشتے دار عورتیں آنسو بہاتِیں۔ لیکن عورتیں تو کمزور غم کی شریک ہوتی ہیں۔وہ مرد تو نہیں ہوتیں!
لڑکے کی بہنوں کی شادیاں جیسے تیسے ہوتیں ہیں۔
یہاں تک کہ بٹوارے والے مسلم ملک سے لڑکے کو ایک محسن مرد رشتے دار چٹھی آتی ہے۔
لڑکا ماں کو لے کر پہنچتا ہے۔ گھر کرتا ہے۔ وہ رشتے دار دعا بھی کرتے اور پیار بھی۔ کندھا مضبوط ہوا۔
سین چینج ہوتا ہے۔ رشتے دار اللہ کو پیارے۔
- میاں ظہوری
پہلی خوشی - ایک کہانی
ستر کی دھای۔
آہ۔ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔یہ ایک سیل رواں کی طرح آگے کی طرف بہتا ہے۔
کب بچہ، مرد اور مرد سے شادی شدہ بن جاتا ہے پتہ ہی نہیں چلتا۔
آخر یتیم کی زندگی میں بھی خوشی کا دن آنے والا تھا۔
لیکن اگر کو ی سوٹ پہنے تو اک زمانے کو اچھا لگتا ہے۔سوٹ بہرحال چھپا جاتا ہے۔
بہنوئ سوٹ بوٹ والے لیکن بنت نبی کے خون والی احتیاطیں ہر ایک کے بس کی نہیں۔
ایک بات چلتی ہے اور یتیم کی شادی ہو جاتی ہے۔
کیا خوشی کا دن ہے۔
محبت بلکہ عشق کا آغاز۔ وہ کندھا جو کبھی نہ ملا تھا ہر وقت میسر۔جو بات ان کہی تھی سب کہہ دی۔
دن خوشبو۔ رات مسکراہٹ بن گی۔یوں بھی ہو سکتی تھی زندگی معلوم نہ تھا۔
کتنی حسین تحی ستر کی دھای۔
سین چینج ہوتا ہے۔ خون معاش کے آڑے آتا ہے۔
- میاں ظہوری
حرام - ایک کہانی
حلال، زندگی بدل دیتا ہے۔
حرام،زندگی تبدیل کر دیتا ہے۔
حلال استعمال میں ہو تو حرام کا لقمہ قریب آنے سے تیور تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ نوکری کے مکر کا تحمل بھی ناممکنات میں سے تھا۔یہاں ٹیکس ڈپارٹمنٹ کی نوکری کی آفر محض رشوت کے خوف سے چھوڑی جا رہی ہے۔وہاں رشتہ دار، دوست مشتبہ مال سے بنگلے بنا رہے ہیں۔جب بچپن کٹھن ہو تو کانٹے قسمت معلوم ہوتے ہیں اور صبر زندگی گذارنے کا واحد ذریعہ۔ٹیوشن کی آمدن میں پلا بڑھا ذہن اذیت اٹھاتے اٹھاتے سن سا ہو جاتا ہے۔ لمحے گزرتے ہیں لیکن پتہ ہی نہیں چلتا کیوں اور کب۔
معاش کی تگ و دو میں یتیم کا خون آڑے آ رہا ہے۔بچے تین۔ ہم راز و ہم سفر نے بھی شادی سے پہلے کیا کیا خواب دیکحے اور کیا ہوا۔ حقیقت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔
سو غریب کرے سو کیا نہ کرے۔ بہنوی کے ساتھ کاروبار جو کڑوی گولی بنا۔جو محبت کی چند محفلیں تھیں وہ بھی لٹتی دکھای دے رہیں تھیں۔ بہن بھای ہی تو آخری کندھے تھے، وہ بھی جدا ہو رہے تھے۔
سین چینج ہوا۔ جدای۔
- میاں ظہوری
جدای - ایک کہانی
اک ننھی کونپل جب درخت کی جھنڈ میں اپنا رخ نکالتی ہے تو وہ مسکرا رہی ہوتی ہے۔
درخت کا ہر پتہ اسکو سایہ دے رہا ہوتا ہے۔ وہ سورج میں اٹھلاتی ہے اور بارش کے قطروں کو چوم چوم کر جوان ہوتی ہے۔
لیکن درخت چلا گیا۔ کونپل زمین پر آ گری تھی کچھ ننھی کونپلوں کے ساتھ۔ انہوں نے ڈرتے ڈرتے مٹی کو چیر کر جوان ہونا شروع کر دیا۔ اب کونپلوں کی جدای کا لمحہ آن پہنچا تھا کہ کچھ کانٹے پیدا ہو گے تھے۔ وہ سال ہا سال ساتھ گزارے تھے ، اب دوری میں بدلنے والے تھے۔زندگی طلوع ہو رہی تھی لیکن سیاہی کے ساتھ۔
یتیم اپنی رفیق حیات، والدہ اور تین بچوں تنہا سا ہو گیا تھا۔اب ہم راز کو بھی اپنے خواب چکنا چور ہوتے دکھای دے رہے تھے۔ستر کے اوئل کی جنوری کی وہ خوبصورت سرد شام اب محض یک طرفہ عشق میں تبدیل ہو رہی تھی۔
سین چینج ہوا۔ بچے۔
- میاں ظہوری
بچے - ایک کہانی
ہر عورت بچے کی خواہش نہیں رکھتی لیکن ہو جایں تو پیار کرتی ہے۔پھر جس مرد کو خود محبت کی خواہش تھی اب اس پر ایک نیا قصہ آن پڑا تھا کہ اسے محبت باٹنی تھی۔
زندگی عجیب تماشہ ہے۔ جس مضمون کی تیاری نہ ہو اسکا بھی امتحان سامنے آ جاتا ہے۔جس کونپل کو خود سایہ نہ ملا ہو بھلا وہ درخت کیونکر ایک حد سےزاید تپش روک جا سکے گا۔ وہ تو خود ساے کی تلاش میں تھا اور اس کھڑی دھوپ میں تین ننھی کونپلوں کا سابان بننا تھا۔ یہ عجیب منظر رہا۔بنت نبی کا خون، کندھے کی تلاش، حلال کی دوڑ دھوپ، جدای، یک طرفہ عشق اور اب یہ جوان ہوتے پھول۔
سین چینج ہوا۔آسمان نیا منظر دیکھنے جا رہا تھاگھبراہٹ۔
- میاں ظہوری
گبھراہٹ - ایک کہانی
بعض اوقات انتہای ذہین مرد کی عام خاتون سے شادی ہو جاتی ہے۔ کچھ بچے ماں پر پڑ جاتے ہیں کچھ باپ پر۔ یوں قدرت زندگی تقسیم کرتی جاتی ہے۔وہ مرد جو جلسے، مناظرے اور لکھتا لکھاتا ہو وہ جہاں چاہے مجلس لگا لے اور جسے چاہے دوست بنا لے۔ جبکہ عام خاتون جہاں تک ممکن ہو معاش میں ساتھ دیتی ہے، معاشرت میں ساتھ دیتی ہے۔ لیکن دہایوں کی حق تلفی کی تلافی کس انسان کے بس میں ہے۔
اب وہ مرحلہ آن پہنچا تھا جب نوے کی دھای آ چکی تھی۔ ساری امیدیں بچوں سے وابستہ ہو چکی تھیں۔ کندھا بنیں تو بچے، محبت اور خوشگوار باتیں ملیں تو بچیں اور معاش کی کثرت ہو تاکہ وہ ادھورے خواب پورے ہوں جن کو کبھی کا دل میں ڈوبتے دیکھا جا چکا تھا۔
قدرت اپنے چکر کو کہیں دوہرانے تو نہیں جا رہی تھی؟ نہیں لیکن امیدوں کا وہ سمندر ان الڑھ بچوں کو بوجھ تلے دباے دے رہا تھا۔ جس کی حد و حدود، جس کے قواید و ضوابط کا بھی انکو علم نہ تھا۔ وہ فکروں میں گھلنے لگے۔سیر سپاٹے بے معنی معلوم ہونے لگے۔ دل اس مخلص مرد و خاتون پر نچھاور تھا،
سین چینج ہوا فکریں جوان ہویں قبل اسکے لڑکا جوان ہوتا۔
- میاں ظہوری
جوانی - ایک کہانی
یتیم کا ایک لڑکا اسکی امیدوں کا مرکز تھا اور اسکی رفیق حیات کا نور نظر۔
محبت میں بعض اوقات امید کی ملاوٹ ہو تو دل چاہتا ہے جلدی سے وہ سب امیدیں اور مایوسیوں کے اندھیروں کو دور کر دیں کہ جو مسکراہٹوں کو بوڑھا کر رہے ہیں۔ لیکن محض امیدیں ادھورے خواب ہوتے ہیں اگر ان میں ماحول کی نرمی نہ ہو، اگر ان میں غم میں کثیر ملاوٹ ہو، جس کے اظہار میں شدت ہو، جس سے پیچھے ہٹنا ناقابل تلافی جرم ہو، جس میں کوی مثال نہ ہو، جس میں اظہار کی آزادی نہ ہو الا کہ دھورایا جاے، جس میں طاقت کی جانچ نہ کی گی ہو، جس میں تجزیہ اور تفصیل نہ ہو، اور سب سے بڑھ کر سوچنے کے ہر موقعے کو زور دار آوازیں دبا رہی ہوں۔
ایسے میں بادل بھی آتے ہیں، گھٹا بھی چھاتی ہے، امیدیں بھی بنتیں ہیں لیکن بادل بارش کی رحمت سے خالی ہوچکا ہوتا ہے۔
سین چینج ہوا کمپیوٹر اور قرآن آ رہا ہے۔
- میاں ظہوری
کمپیوٹر اور قرآن - ایک کہانی
لڑکا جوان ہو رہا تھا۔ خوامخوہ جنس دیگر اچھی لگتیں۔ لیکن کوی لطیف پیراے کا علم ہی نہیں تھا۔ ہر لطف بلند شور میں دبا ہوا تھا۔ ہر سوچ کے اظہار پر انجانے خوف کے پہرے تھے۔
یوں تو زندگی نہ بنای ہو گی بنانے والے نے!
بہرحال جب سب رابطے کٹ جایں یا کسی انجانے خوف سے ان کو مسترد کر دیا جاے تو قدرت کمپیوٹر بھیجتی ہے۔جا لالے دن رات کحیل اس سے۔ جب اصول کا ماحول میں غلبہ ہو تو اللہ نے لکھانے والوں سے تفسیر فہم القرآن لکھوا دی او رلڑکے کی نانی کے ایک جاننے والی کے پاس بھیج دی۔ بنت نبی کے بیٹوں پر نہ جانے کیوں اصول پسندی اور قرآن فہمی کا جذبہ بلا کسی کے کہے ہوتا ہے۔
سین چینج ہوا قرآن غلط سمجھنا شروع۔
- میاں ظہوری
جوانی - ایک کہانی
علما اپنے اپنے حصے کے لڑکوں کو اغوا کر رہے تھے۔ یتیم اغوا ہوا لیکن علمی اغوا کا علم بہت دیر میں ہوتا ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ بعض لوگ محبت میں پروی ہر تسبح اپنے قلم کی نوک اور بزور طاقت کاٹ رہے تھے۔ انکا ارادہ تھا کہ غلام بنانے کا سب سے آسان طریقہ کم از کم نبی کے برابر عمل کرنے کی تبلیغ کرنا تھا۔ طریقہ واردات بے حد آسان اور مصروف مردوں اور سادہ لوح عورتوں کی سمجھ سے بالا تر تھا۔ کھانے کھلانے کے محبت بھرے انداز کو تہہ تیغ کیا جا رہا تھا۔ انکو وہ لڑکے درکار تھے جو ہاتھ میں ہتھیار اٹھا کر لوگوں کی جان کے درپے ہوں اور ملکوں ملکوں گھومیں۔ ماں باپ کے واحد سہاروں کو دو ممالک کے سرکردہ دوسروں کے اشاروں پر چھین رہے تھے۔ کیسا ہولناک منظر تھا۔
یتیم کا نور نظر بھی ایک ایسی ہی تفسیر کے جال میں پھسنا شروع ہو چکا تھا۔ غیر لطیف مذید کثافت میں بلا جانے پھنس رہا تھا۔ لیکن جب تفریح کے تمام مواقعے اس گھر سے ایسے ناآشنا تھے جیسے قبرستان کا مردہ کسی خوشی کے موقعے سے تو تمام تر توانای اسی سمت ہی بہنی تھی۔تفسیر پڑھنا قابل تعریف ٹہرا اور کمپیوٹر کا استعمال جاننا قابل فخر۔
وہ فخر جو پنپنے والا نہ تھا۔
سین چینج ہوا یورنیورسٹی۔
- میاں ظہوری
یورنیورسٹی - ایک کہانی
یورنیوسٹی میں داخلے کی خبر دیدنی تھی۔سب بے حد مسرور تھے۔
ایسی ہی زبردست دھوم تھی یتیم باپ کے گھر جب اسکا لڑکا میٹرک میں امتیازی نمبروں سے پاس ہوا۔شیرنی کی اسقدر کثرت ہوی کہ سمجھ نہ آتا کہ اب کس کو بھیجیں۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ باپ کے قابل فخر تذکروں نے پورے خاندان میں ایک خوشی کی کوند بھر دی ہو۔ تمتماتے چہرے مسرت سے لڑکے کو دیکھتے۔ اور واقعی کی اعتبار سے نتیجہ بے حد شاندار تھا۔
لیکن۔ لیکن وہ لڑکا قطعی بے بہرہ رہا کتاب سے باہر کے کسی امتحان سے۔ اسے علم نہیں تھا کہ وہ باپ کے ساے میں پل رہا ہے۔ لڑکا کمپیوٹر کے سحر میں تھا لیکن پڑھای کسی اور سمت کی۔ وہ چار سال۔
سین چینج ہوا چار سال۔
- میاں ظہوری
دو دوست - ایک کہانی
یورنیوسٹی آہ کیا خشک جگہ تھی۔ ایک پھول۔ دو محبتیں اور چالیس مضامین۔
بس کچھ دوست بنا لیے۔ ان میں سب سے زیادہ محبت لڑکے کو دو دوستوں سے تھی۔انکو اس نے بعد میں اپنی شادی میں بھی بلایا۔ دل چاہتا ہے کہ چار سال گزر جایں اور میں اپنی محبت پا لوں۔ لیکن سینے میں کچھ یادیں ہیں کہ جب بڑوں کی آوازیں اتنی بلند ہویں کہ ہمت جواب دے گی تو ہاسٹل کا سوچا۔ ایک دوست کے ساتھ مل کر ساری تفصیلات جمع کیں لیکن ہمت نے ساتھ نہ دیا کہ اس بات کو گھر میں کرتے۔ لڑکے کو معلوم ہو چکا تھا کہ اس دلدل سے نکلنا بے حد مشکل ہے۔
یورنیورسٹی ختم ہوی۔ اب ان کہے امتحانوں کا وقت شروع ہو چکا تھا۔
سین چینج ہوا سولہ نومبر انیس سو ستانویں۔
- میاں ظہوری