ایک کہانی

سید رافع

محفلین
پہلا سین (پارٹ) - ایک کہانی۔قسط 1
بچہ پیدا ہوا، باپ تھا۔ باپ پیدا ہوا، باپ نہ تھا۔ بچے کو پتہ تھا کہ باپ جیسا بننا ہے۔ باپ کو پتہ نہیں تھا کس جیسا بننا تھا۔ باپ بننا چاہتا تھا۔ لوگ بناتے جا رہے تھے، باپ جو نہ تھا۔ سین چینج ہوا۔ بچہ پیدا ہوا۔ ماں تھی۔ ماں پیدا ہوی، باپ تھا۔ بچے کو پتہ تھا کہ باپ جیسا بننا ہے۔ باپ کو پتہ نہیں تھا کس جیسا بننا ہے ، بچے کی ماں جیسا بن گیا۔ پیدائش مکمل ہوئی۔پہلا سین، سین پارٹ اختتام کو پہنچا۔
- میاں ظہوری


بیوہ کا یتیم - ایک کہانی
کیا بیوہ کھلواڑ ہوتی اور یتیم کھیل ہوتا ہے؟ہاں۔
لیکن بیوہ کمزور اور یتیم معصوم ہوتا ہے۔ تو۔
کیا بیوہ کا مال کحلواڑ ہوتی اوریتیم کی زمین کحیل ہوتا ہے؟ ہاں۔
لیکن بیوہ ضرورت مند اور یتیم بے آسرا ہوتا ہے۔ تو۔
کیا بیوہ گحر کی کمتر اور یتیم غیر حساس ہوتا ہے؟ ہاں۔
لیکن بیوہ معصوم عورت اور یتیم خوبصورت بچہ ہوتا ہے۔ تو۔
سین چینج ہوا۔ بیوہ کا یتیم دس سال کا ہو جاتا ہے۔
- میاں ظہوری


کمزوریتیم کندھا - ایک کہانی
کھانا مضبوط اور احساس کندھا بناتا ہے۔ دس سال من پسند کھانا نہ ملے تو جسم کمزور ہوتا ہے۔ دس سال محبت نہ ملے تو کندھا کمزور ہو جاتا ہے۔ کھانے کا سامان دکان سے ملتا ہے۔ کندھا بنانے کا سامان دل سے ملتا ہے۔ تبھی کھانے کی بھوک ختم ہو جاتی ہے۔ کندھے کی بھوک باقی رہ جاتی ہے۔کھانا جسم بناتا رہتا ہے، کندھا کمزور ہی رہتا ہے۔
سین چینج ہوتا ہے۔دس سال کا یتیم اپنا باقی ماندہ کندھا لے کر بیوہ کی بیٹیوں سمیت الگ ہوتا ہے۔
- میاں ظہوری

خون - ایک کہانی
خون سفر کرتے ہیں۔ نیک خون آسمانوں کی طرف، بد خون زمینوں کی طرف۔
خون ظاہر ہوتے ہیں۔ نیک خون شرافت کی شکل میں، بدخون ذلالت کی شکل میں۔
خون توجہ کرتے ہیں۔ نیک خون علم کی طرف، بد خون ظلم کی طرف۔
یتیم کا خون سعود کرتے کرتے بنت نبی تک جا پہنچا۔جہاں سے تمام راستے آسمانوں کے ہیں۔
یتیم روح کی نہیں جسم کی پرورش میں مصروف تھا۔ بیوہ اور اسکی بیٹیاں بھی تو تھیں۔
یتیم کا کلام حق کے لیے تھا۔ لیکن جسم کی عمر دس سال تھی اسے کلام کی کیا معرفت۔جماعت ششم میں جو تھا۔
سین چینج ہوتا ہے۔یتیم تو بہت ذہین ہے۔زمین ہے۔ ہاں۔تو زہر دو۔
- میاں ظہوری

زہر - ایک کہانی
زن، زر، زمین زہر لاتے ہیں۔
وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔
سولہ سال میں بچہ لڑکا بن جاتا ہے۔بانک پن اور جولانی دکھاتا ہے۔ آنکھیں بھی۔
اپنا ہو تو دعایں دیتے ہیں، اپنا نہ ہو اور زمین بھی اپنی نہ ہو تو زہر دیتے ہیں۔
زہر منہ میں جانے سے پہلے دلوں میں آتا ہے، پھر ہاتھوں میں۔
لڑکا تو مرجھا سا گیا۔دو سال ہوگے ہیں، کندھا کمزور تھا لیکن سخت جان تھا۔
جان بچ گی، کندھا اورکمزور ہو گیا۔
اب کے سے جسم بھی کمزور ہو گیاتھا۔
سین چینج ہوا۔ بٹوارے زدہ ملک میں آمد۔
- میاں ظہوری

فرار - ایک کہانی
بچے کے باپ کا یتیم۔بلکہ اسکا دادا بھی یتیم۔
سو ایک خوش گوار بنت نبی کے خون میں نہ جانے کون کون رشتے دار بن بیٹھا۔
کسی کی محبتیں مقیم رکھتیں ہیں۔کسی کی نفرت ہجرت کراتی ہے۔
جبکہ لاتعلقی کندھا کمزور کرتی ہے اور فرار کی کشمکش لاتی ہے۔
ٹرین اسٹیشن پر کھڑا لڑکا گھر لوٹتا ہے۔
نہ اسے معلوم کہ کہاں جانا تھا، نہ گھر والوں کو علم کہ یہ کہیں جانے والا تھا۔
یہ ہوتا رہتا۔ہر واپسی بوجھ کو مذید بوجھل کر دیتی۔
کچھ رشتے دار عورتیں آنسو بہاتِیں۔ لیکن عورتیں تو کمزور غم کی شریک ہوتی ہیں۔وہ مرد تو نہیں ہوتیں!
لڑکے کی بہنوں کی شادیاں جیسے تیسے ہوتیں ہیں۔
یہاں تک کہ بٹوارے والے مسلم ملک سے لڑکے کو ایک محسن مرد رشتے دار چٹھی آتی ہے۔
لڑکا ماں کو لے کر پہنچتا ہے۔ گھر کرتا ہے۔ وہ رشتے دار دعا بھی کرتے اور پیار بھی۔ کندھا مضبوط ہوا۔
سین چینج ہوتا ہے۔ رشتے دار اللہ کو پیارے۔
- میاں ظہوری

پہلی خوشی - ایک کہانی
ستر کی دھای۔
آہ۔ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔یہ ایک سیل رواں کی طرح آگے کی طرف بہتا ہے۔
کب بچہ، مرد اور مرد سے شادی شدہ بن جاتا ہے پتہ ہی نہیں چلتا۔
آخر یتیم کی زندگی میں بھی خوشی کا دن آنے والا تھا۔
لیکن اگر کو ی سوٹ پہنے تو اک زمانے کو اچھا لگتا ہے۔سوٹ بہرحال چھپا جاتا ہے۔
بہنوئ سوٹ بوٹ والے لیکن بنت نبی کے خون والی احتیاطیں ہر ایک کے بس کی نہیں۔
ایک بات چلتی ہے اور یتیم کی شادی ہو جاتی ہے۔
کیا خوشی کا دن ہے۔
محبت بلکہ عشق کا آغاز۔ وہ کندھا جو کبھی نہ ملا تھا ہر وقت میسر۔جو بات ان کہی تھی سب کہہ دی۔
دن خوشبو۔ رات مسکراہٹ بن گی۔یوں بھی ہو سکتی تھی زندگی معلوم نہ تھا۔
کتنی حسین تحی ستر کی دھای۔
سین چینج ہوتا ہے۔ خون معاش کے آڑے آتا ہے۔
- میاں ظہوری

حرام - ایک کہانی
حلال، زندگی بدل دیتا ہے۔
حرام،زندگی تبدیل کر دیتا ہے۔
حلال استعمال میں ہو تو حرام کا لقمہ قریب آنے سے تیور تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ نوکری کے مکر کا تحمل بھی ناممکنات میں سے تھا۔یہاں ٹیکس ڈپارٹمنٹ کی نوکری کی آفر محض رشوت کے خوف سے چھوڑی جا رہی ہے۔وہاں رشتہ دار، دوست مشتبہ مال سے بنگلے بنا رہے ہیں۔جب بچپن کٹھن ہو تو کانٹے قسمت معلوم ہوتے ہیں اور صبر زندگی گذارنے کا واحد ذریعہ۔ٹیوشن کی آمدن میں پلا بڑھا ذہن اذیت اٹھاتے اٹھاتے سن سا ہو جاتا ہے۔ لمحے گزرتے ہیں لیکن پتہ ہی نہیں چلتا کیوں اور کب۔
معاش کی تگ و دو میں یتیم کا خون آڑے آ رہا ہے۔بچے تین۔ ہم راز و ہم سفر نے بھی شادی سے پہلے کیا کیا خواب دیکحے اور کیا ہوا۔ حقیقت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔
سو غریب کرے سو کیا نہ کرے۔ بہنوی کے ساتھ کاروبار جو کڑوی گولی بنا۔جو محبت کی چند محفلیں تھیں وہ بھی لٹتی دکھای دے رہیں تھیں۔ بہن بھای ہی تو آخری کندھے تھے، وہ بھی جدا ہو رہے تھے۔
سین چینج ہوا۔ جدای۔
- میاں ظہوری

جدای - ایک کہانی
اک ننھی کونپل جب درخت کی جھنڈ میں اپنا رخ نکالتی ہے تو وہ مسکرا رہی ہوتی ہے۔
درخت کا ہر پتہ اسکو سایہ دے رہا ہوتا ہے۔ وہ سورج میں اٹھلاتی ہے اور بارش کے قطروں کو چوم چوم کر جوان ہوتی ہے۔
لیکن درخت چلا گیا۔ کونپل زمین پر آ گری تھی کچھ ننھی کونپلوں کے ساتھ۔ انہوں نے ڈرتے ڈرتے مٹی کو چیر کر جوان ہونا شروع کر دیا۔ اب کونپلوں کی جدای کا لمحہ آن پہنچا تھا کہ کچھ کانٹے پیدا ہو گے تھے۔ وہ سال ہا سال ساتھ گزارے تھے ، اب دوری میں بدلنے والے تھے۔زندگی طلوع ہو رہی تھی لیکن سیاہی کے ساتھ۔
یتیم اپنی رفیق حیات، والدہ اور تین بچوں تنہا سا ہو گیا تھا۔اب ہم راز کو بھی اپنے خواب چکنا چور ہوتے دکھای دے رہے تھے۔ستر کے اوئل کی جنوری کی وہ خوبصورت سرد شام اب محض یک طرفہ عشق میں تبدیل ہو رہی تھی۔
سین چینج ہوا۔ بچے۔
- میاں ظہوری

بچے - ایک کہانی
ہر عورت بچے کی خواہش نہیں رکھتی لیکن ہو جایں تو پیار کرتی ہے۔پھر جس مرد کو خود محبت کی خواہش تھی اب اس پر ایک نیا قصہ آن پڑا تھا کہ اسے محبت باٹنی تھی۔
زندگی عجیب تماشہ ہے۔ جس مضمون کی تیاری نہ ہو اسکا بھی امتحان سامنے آ جاتا ہے۔جس کونپل کو خود سایہ نہ ملا ہو بھلا وہ درخت کیونکر ایک حد سےزاید تپش روک جا سکے گا۔ وہ تو خود ساے کی تلاش میں تھا اور اس کھڑی دھوپ میں تین ننھی کونپلوں کا سابان بننا تھا۔ یہ عجیب منظر رہا۔بنت نبی کا خون، کندھے کی تلاش، حلال کی دوڑ دھوپ، جدای، یک طرفہ عشق اور اب یہ جوان ہوتے پھول۔
سین چینج ہوا۔آسمان نیا منظر دیکھنے جا رہا تھاگھبراہٹ۔
- میاں ظہوری

گبھراہٹ - ایک کہانی
بعض اوقات انتہای ذہین مرد کی عام خاتون سے شادی ہو جاتی ہے۔ کچھ بچے ماں پر پڑ جاتے ہیں کچھ باپ پر۔ یوں قدرت زندگی تقسیم کرتی جاتی ہے۔وہ مرد جو جلسے، مناظرے اور لکھتا لکھاتا ہو وہ جہاں چاہے مجلس لگا لے اور جسے چاہے دوست بنا لے۔ جبکہ عام خاتون جہاں تک ممکن ہو معاش میں ساتھ دیتی ہے، معاشرت میں ساتھ دیتی ہے۔ لیکن دہایوں کی حق تلفی کی تلافی کس انسان کے بس میں ہے۔
اب وہ مرحلہ آن پہنچا تھا جب نوے کی دھای آ چکی تھی۔ ساری امیدیں بچوں سے وابستہ ہو چکی تھیں۔ کندھا بنیں تو بچے، محبت اور خوشگوار باتیں ملیں تو بچیں اور معاش کی کثرت ہو تاکہ وہ ادھورے خواب پورے ہوں جن کو کبھی کا دل میں ڈوبتے دیکھا جا چکا تھا۔
قدرت اپنے چکر کو کہیں دوہرانے تو نہیں جا رہی تھی؟ نہیں لیکن امیدوں کا وہ سمندر ان الڑھ بچوں کو بوجھ تلے دباے دے رہا تھا۔ جس کی حد و حدود، جس کے قواید و ضوابط کا بھی انکو علم نہ تھا۔ وہ فکروں میں گھلنے لگے۔سیر سپاٹے بے معنی معلوم ہونے لگے۔ دل اس مخلص مرد و خاتون پر نچھاور تھا،
سین چینج ہوا فکریں جوان ہویں قبل اسکے لڑکا جوان ہوتا۔
- میاں ظہوری

جوانی - ایک کہانی
یتیم کا ایک لڑکا اسکی امیدوں کا مرکز تھا اور اسکی رفیق حیات کا نور نظر۔
محبت میں بعض اوقات امید کی ملاوٹ ہو تو دل چاہتا ہے جلدی سے وہ سب امیدیں اور مایوسیوں کے اندھیروں کو دور کر دیں کہ جو مسکراہٹوں کو بوڑھا کر رہے ہیں۔ لیکن محض امیدیں ادھورے خواب ہوتے ہیں اگر ان میں ماحول کی نرمی نہ ہو، اگر ان میں غم میں کثیر ملاوٹ ہو، جس کے اظہار میں شدت ہو، جس سے پیچھے ہٹنا ناقابل تلافی جرم ہو، جس میں کوی مثال نہ ہو، جس میں اظہار کی آزادی نہ ہو الا کہ دھورایا جاے، جس میں طاقت کی جانچ نہ کی گی ہو، جس میں تجزیہ اور تفصیل نہ ہو، اور سب سے بڑھ کر سوچنے کے ہر موقعے کو زور دار آوازیں دبا رہی ہوں۔
ایسے میں بادل بھی آتے ہیں، گھٹا بھی چھاتی ہے، امیدیں بھی بنتیں ہیں لیکن بادل بارش کی رحمت سے خالی ہوچکا ہوتا ہے۔
سین چینج ہوا کمپیوٹر اور قرآن آ رہا ہے۔
- میاں ظہوری

کمپیوٹر اور قرآن - ایک کہانی
لڑکا جوان ہو رہا تھا۔ خوامخوہ جنس دیگر اچھی لگتیں۔ لیکن کوی لطیف پیراے کا علم ہی نہیں تھا۔ ہر لطف بلند شور میں دبا ہوا تھا۔ ہر سوچ کے اظہار پر انجانے خوف کے پہرے تھے۔
یوں تو زندگی نہ بنای ہو گی بنانے والے نے!
بہرحال جب سب رابطے کٹ جایں یا کسی انجانے خوف سے ان کو مسترد کر دیا جاے تو قدرت کمپیوٹر بھیجتی ہے۔جا لالے دن رات کحیل اس سے۔ جب اصول کا ماحول میں غلبہ ہو تو اللہ نے لکھانے والوں سے تفسیر فہم القرآن لکھوا دی او رلڑکے کی نانی کے ایک جاننے والی کے پاس بھیج دی۔ بنت نبی کے بیٹوں پر نہ جانے کیوں اصول پسندی اور قرآن فہمی کا جذبہ بلا کسی کے کہے ہوتا ہے۔
سین چینج ہوا قرآن غلط سمجھنا شروع۔
- میاں ظہوری

جوانی - ایک کہانی
علما اپنے اپنے حصے کے لڑکوں کو اغوا کر رہے تھے۔ یتیم اغوا ہوا لیکن علمی اغوا کا علم بہت دیر میں ہوتا ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ بعض لوگ محبت میں پروی ہر تسبح اپنے قلم کی نوک اور بزور طاقت کاٹ رہے تھے۔ انکا ارادہ تھا کہ غلام بنانے کا سب سے آسان طریقہ کم از کم نبی کے برابر عمل کرنے کی تبلیغ کرنا تھا۔ طریقہ واردات بے حد آسان اور مصروف مردوں اور سادہ لوح عورتوں کی سمجھ سے بالا تر تھا۔ کھانے کھلانے کے محبت بھرے انداز کو تہہ تیغ کیا جا رہا تھا۔ انکو وہ لڑکے درکار تھے جو ہاتھ میں ہتھیار اٹھا کر لوگوں کی جان کے درپے ہوں اور ملکوں ملکوں گھومیں۔ ماں باپ کے واحد سہاروں کو دو ممالک کے سرکردہ دوسروں کے اشاروں پر چھین رہے تھے۔ کیسا ہولناک منظر تھا۔
یتیم کا نور نظر بھی ایک ایسی ہی تفسیر کے جال میں پھسنا شروع ہو چکا تھا۔ غیر لطیف مذید کثافت میں بلا جانے پھنس رہا تھا۔ لیکن جب تفریح کے تمام مواقعے اس گھر سے ایسے ناآشنا تھے جیسے قبرستان کا مردہ کسی خوشی کے موقعے سے تو تمام تر توانای اسی سمت ہی بہنی تھی۔تفسیر پڑھنا قابل تعریف ٹہرا اور کمپیوٹر کا استعمال جاننا قابل فخر۔
وہ فخر جو پنپنے والا نہ تھا۔
سین چینج ہوا یورنیورسٹی۔
- میاں ظہوری

یورنیورسٹی - ایک کہانی
یورنیوسٹی میں داخلے کی خبر دیدنی تھی۔سب بے حد مسرور تھے۔
ایسی ہی زبردست دھوم تھی یتیم باپ کے گھر جب اسکا لڑکا میٹرک میں امتیازی نمبروں سے پاس ہوا۔شیرنی کی اسقدر کثرت ہوی کہ سمجھ نہ آتا کہ اب کس کو بھیجیں۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ باپ کے قابل فخر تذکروں نے پورے خاندان میں ایک خوشی کی کوند بھر دی ہو۔ تمتماتے چہرے مسرت سے لڑکے کو دیکھتے۔ اور واقعی کی اعتبار سے نتیجہ بے حد شاندار تھا۔
لیکن۔ لیکن وہ لڑکا قطعی بے بہرہ رہا کتاب سے باہر کے کسی امتحان سے۔ اسے علم نہیں تھا کہ وہ باپ کے ساے میں پل رہا ہے۔ لڑکا کمپیوٹر کے سحر میں تھا لیکن پڑھای کسی اور سمت کی۔ وہ چار سال۔
سین چینج ہوا چار سال۔
- میاں ظہوری

دو دوست - ایک کہانی
یورنیوسٹی آہ کیا خشک جگہ تھی۔ ایک پھول۔ دو محبتیں اور چالیس مضامین۔
بس کچھ دوست بنا لیے۔ ان میں سب سے زیادہ محبت لڑکے کو دو دوستوں سے تھی۔انکو اس نے بعد میں اپنی شادی میں بھی بلایا۔ دل چاہتا ہے کہ چار سال گزر جایں اور میں اپنی محبت پا لوں۔ لیکن سینے میں کچھ یادیں ہیں کہ جب بڑوں کی آوازیں اتنی بلند ہویں کہ ہمت جواب دے گی تو ہاسٹل کا سوچا۔ ایک دوست کے ساتھ مل کر ساری تفصیلات جمع کیں لیکن ہمت نے ساتھ نہ دیا کہ اس بات کو گھر میں کرتے۔ لڑکے کو معلوم ہو چکا تھا کہ اس دلدل سے نکلنا بے حد مشکل ہے۔
یورنیورسٹی ختم ہوی۔ اب ان کہے امتحانوں کا وقت شروع ہو چکا تھا۔
سین چینج ہوا سولہ نومبر انیس سو ستانویں۔
- میاں ظہوری
 

سید رافع

محفلین
پہلی نوکری - ایک کہانی۔قسط 2
سولہ نومبر انیس سو ستانویں کو لڑکا پہلی نوکری گیا۔یہ پہلا ان کہا امتحان تھا! کمپیوٹر کی کم از کم دس لینگویج پر کام کرنا آتا تھا لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ کمپنی میں جذبات کی کوی قدر نہیں۔ لفظ نوکری پر غور ہی نہیں کیا۔ نوکر۔سروینٹ۔ جس گھر میں کبھی نوکری دیکھنے میں نہ آی ہو بھلا وہاں لفظ نوکر کی وسعت کو کون پہچان سکتا تھا۔ کیا معلوم تھا کہ یہ اتنا گنجلک کام ہے۔ کیا معلوم تھا کہ دوست نہیں دوست نما ملیں گے۔ یہ کیسی عجیب جگہ ہے۔ میرا دل نہیں لگ رہا۔ یہاں دوست و دشمن کے پیمانے محض رقم ہے۔ کوی کچھ بھی بولنے اور کرنے کو تیار ہے بس رقم کی خاطر۔ میری ساری خوابی دنیا چکنا چور ہو رہی تھی۔ادھر مجھے میری پہلی اور آخری محبت ملنے والی تھی۔
سین چینج ہوا پیام نکاح۔
- میاں ظہوری

پیام نکاح - ایک کہانی
ابھی نوکری کوسات ماہ ہی ہوے تھے۔ایک لڑکی کو دیکھنے کے لیے سب گے۔ بڑے لڑکے کے لیے۔لیکن استخارے نے ایک طویل محنت کو ایک رات میں ہی ٹھکانے لگا دیا۔سو سب سر جھکا ے بیٹحے تھے۔ منجھلے نے کہا میرے لیے پوچھ لیں۔
نوکری۔
نوکری ایک ڈرونا خواب لگ رہا تھا۔ اس بات کی اہمیت نہ تھی کہ کون کیسا محسوس کر رہا ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ جتنا کام کیا جاے گا اتنا امیر باس ہوتا جاے گا۔ اس لیے وہ طرح طرح سے پر دباو ڈال رہا تھا۔ کمپنی برطانیہ کی ایک بڑی کمپنی کی سسٹر تھی۔ باس کے لیے مہ نوشی عام بات تھی۔ چھ مہینے پہلے جنرل مینجر کو لڑکا استعفہ پیش کر چکا تھا۔ وہ مسکرا کر رہ گے۔ لیکن دوسرا جام پر جام پیتا اور لوگوں کو بد حال کرتا۔
وہ کتنی پیاری تھی۔ وہ کتنی معصوم تھی۔پیام دیا گیا۔ایک ماہ لگا منظور ہو گیا۔
سین چینج ہوا منگنی۔
- میاں ظہوری

منگنی - ایک کہانی
لڑکا آفس سے شام سات بجے گھر پہنچا تو سارے گھر والے خوشی سے لڑکے کو دیکھ رہے تھے۔وہ شان استغنا سے ٹفن ایک طرف رکھتا ہے تو نانی آنکھ مارتیں ہیں۔ اور خوشی کے مارے چباتے ہوے بولیں کہ انہوں نے پیام قبول کر لیا۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیسے اس موقعے پر جذبات کا اظہار کرے!
کتاب کو اکیلے میں قبول کرنا کتنا آسان تھا۔ غلط تشریح کی سات جلدیں کتنی آسانی سے سمجھ آرہی تھیں۔ لڑکا کتاب سے مانوس اور لوگوں سے غیر مانوس ہو چکا تھا۔ اسکی سال ہا سال کی کتاب دوستی نے اسے زمینی حقایق سے کسقدر بے خبر بنا دیا تھا۔ یہ رومانوی منظر کتنا بھیانک بننے جا رہا تھا۔
آفس عجیب سے عجیب تر معلوم ہو رہا تھا۔ لڑکا براہ راست پوچھ لیتا کہ آپ یہ کیوں کر رہے ہیں؟ یا یوں کرنے کا کیا مقصد؟ لوگوں کے لب پر ایک گھمبیر مسکراہٹ پھیل جاتی۔ لڑکا سمجھ رہا تھا سب کتاب کے دیوانے ہیں۔ جب بات اتنی معقول ہے تو ان تک بھی پہنچی ہو گی۔ پھر ان کے عمل کی کیا تشریح ہو سکتی ہے۔ لڑکا اللہ کے ستاری اور لوگوں کی معذور ی سے بے خبر تھا۔دھوکہ اور غیبت تو اس رومانوی کتاب میں لکھا تھا کہ برے لوگ کرتے ہیں۔ تو یہ لوگ۔ نہیں نہیں۔ کسی سے تعلق نہیں بن پا رہا تھا۔ کوی سرا نہیں مل رہا تھا۔گھر کے تمام لوگ اپنی معصومیت کا اظہار کر چکے جس کو قبول کرنے سے نہ کتاب روک رہی تھی نہ محبت۔ ان پر فنا ہونے کو دل کرتا۔کہیں ہتیم لڑکے کو کچھ بتانے سے رہ گیا تھا۔
اس کی والدہ کتنی اچھی تھیں۔ لڑکا جو انکا اکلوتا داماد بننے کو تھا، گال پر پیار کرتیں اور خوب دعایں دیتیں۔ کتنا اچھا منظر تھا۔
سین چینج ہوتا ہے اسکو دیکھنے اور ملنے کی تمنا ہر وقت انگڑای لے رہی تھی۔
- میاں ظہوری

دیدار - ایک کہانی
گھر اسکے امی ابو آے ہوے تھے۔ لڑکے کےدل میں گدگدی ہو رہی تھی۔ سب خوش تھے، ایسا لگ رہا تھا کہ تتلیوں جیسے جذبے کسی نہ معلوم سمت سے آکر قلب کے ساحل پر دھیرے دھیرے شور مچا رہے ہیں۔ہر شے پر شام کی خوبصورت رومانٹک تہہ چڑھ چکی تھی۔
ہر کام میں دل لگ رہا تھا۔ جب اسکے امی ابو آتے تو اسکو دیکھنے کی خواہش دو چند ہو جاتی۔
وہ کیا کر رہی ہو گی۔ کیا پہنا ہو گا۔ کیسی لگ رہی ہو گی۔ سارے سوال ہل چل بھی تھے اور دل کا سکون بھی۔
لیکن کتاب کا رومانوی منظر اور گھر کی بلند آوازیں اور روحانیت کی کمی ڈرا رہی تھی۔ مجھے ان کہے واقعات آنے کا تصور ڈرا رہا تھا۔ میں سکون چاہتا تھا جو مجھ سے لمحہ بہ لمحہ اپنے حسن و بے باکی کے ساتھ قریب ہو رہا تھا۔
میں اسکے دیدار کے لیے تڑپ رہا تھا۔
منظر تبدیل ہوتا ہے لڑکا اسکے گھر جاتا ہے۔
- میاں ظہوری

ملاقات - ایک کہانی
کتاب کی دوستی بھی عجیب ہوتی ہے۔ انسان اپنے شہر کے راستوں سے بے خبر ہوتا ہے۔
لڑکے نے اللہ والی چورنگی کا راستہ سمجھا۔ لیکن راستہ بھٹک گیا۔ وہ بیمار ہوی تھی۔ موٹر ساکل پر جوس کا کارٹن پوری جولانی دکھا رہا تھا۔ لڑکے کو راستہ بھی نہ معلوم تھا اور اس نئے تعلق کے آداب سے بھی ناواقف تھا۔
اس پر ہرا اور سفید رنگ کتنا حسین لگ رہا تھا۔لڑکے کو بولنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا۔ لڑکا اس کو تک رہا تھا۔
وہ مسکرا کر پوچھتی ہے یہ کیا لاے ہیں۔ لڑکا صورت میں کہیں غرق، سکوت ٹوٹنے پر ہل سا جاتا ہے۔
جوس ہے۔
اچھا ادھر دیں۔ وہ بولتی ہے اور اندر سے آواز آتی ہے ذرا ادھر آو۔
یوں یہ مختصر یادگار ملاقات ختم ہو جاتی ہے۔
منظر تبدیل ہوتا ہے اسلام آباد روانگی۔
- میاں ظہوری

اسلام آباد - ایک کہانی
منگنی میں لڑکا مدعو نہ تھا۔ سو ملاقات نہ ہوی۔
برٹھ ڈے ۹ ستمبر کو بھی کیک الگ میں ہی کاٹ لیا گیا۔ لڑکا گفٹ میں گولڈ چین دے کر واپس آ چکا تھا۔
اس نے لڑکے کیسٹ تحفہ دینے کا ادب سکھایا۔ لڑکے نے بازار سے خرید کر دیا اس نے گھنٹوں ریکارڈ کر کے اپنے من پسند نغمے بھیجے۔
نوکری روز بروز تلخ ہوتی جا رہی تھی۔ میں نے کسی نوکر سے آفس کے گفتگو کے پیمانے سمجھنے کی کوشش ہی نہ کی۔ مجھے کتاب پر یقین تھا۔ میری لابریری کا حجم بڑھتا جا رہا تھا۔مجھے لگ رہا تھا میں ٹھیک ہوں۔میں ان کے پیمانے کے مطابق بڑا نہیں ہوا تھا۔ باس نے کنفرم کرتے ہوے دو ہزار بڑھاے اور کہا آی وانٹ یو ٹو گرو اپ۔اس کی تشریح جو اب سمجھ میں آی کتاب نہیں سڑک سے سیکھو۔
منگنی ہوے تیسرا مہینہ اور جاب ختم ہوے بیسواں دن۔لڑکے کے والدین پریشان کہ اسکے گھر والے آ گے تو کیا کہیں گے۔
اسلام آباد کی ایک کمپنی میں یورنیورسٹی کا دوست پہنچا اور کال کر کے پوچھا یہاں پڑھانے آو گے؟
ہاں۔
منظر تبدیل ہوتا ہے اسلام آباد کی بارش۔
- میاں ظہوری

بارش - ایک کہانی
دسمبر ۹۸ کی ٹھنڈی شام جہاز اسلام آباد کی فضاوں میں داخل ہوا۔ بارش نے ٹھنڈک کو دو چند کر دیا تھا۔
ہیرو دوست نے پلنگ اور لحاف دلایا اور ایک نالون کے بان کا پلنگ بھی۔کہتے ہیں انجینر بننے سے مقدر بن جاتا ہے!
کتاب ایسا محو کر دیتی ہے کہ اسکو چھوڑ کر آنے کا کوی غم ہی نہ تھا۔
نہ ہی والدین کو نہ ہی بہن بھای، ماموں، کزنز اور دوست۔
لڑکے نے لوگوں کو یاد نہ رکھا لیکن ان کو لڑکا یاد تھا۔
اسکے والد لڑکے کو بیٹوں سے بڑھ کر محبوب جانتے اور امریکہ ایم ایس کے لیے بھیجنا چاہتے تھے۔محبت آنکھوں سے اپنی اکلوتی چاہت کے لیے ٹپکتی۔ لیکن لڑکےکی نظروں پر کتاب کی تشریح کی سیاہی چھای ہوی تھی۔ یہ گھر میں بلند اصول اصول اصول کی رٹ تھی جس نے یتیم کے لڑکے کو سب کھونے پر مجبور کر دیا!
اسلام آباد کے لوگ سادے اور پیار دینے والے تھے۔ نقوی صاحب کی سربراہی میں ہم سب بہت خوش تھے۔ایک لڑکی سیگریٹ پینے والی اور تاش کحیلنے والی نے اسکو معصوم کہا اور لڑکے کے عشق میں اس لیے مبتلا ہو گی کہ اس نے بیوی کے منہ پر تھپڑ مارنے کو کتاب کے خلاف قرار دیا۔ اسکے گھر میں یہ ہوتا تھا!
منظر تبدیل ہوتا ہے ہوم سک۔
- میاں ظہوری

بارش - ایک کہانی
دو مہینے ہونے کو آے تھے۔
منگیتر کے والد لڑکے کو فون کرتے، پیار کی بات کرتے، دعایں دیتے اور کپٹرے تحفے میں بھیجتے۔
ای میل کا زمانہ آ گیا تھا لیکن لڑکا ہاتھ سے لکحے خط کراچی روانہ کرتا۔
ایک چوکور کمرے میں رہنا ایک نیا تجربہ تھا۔ پلنگ اور لحاف کے علاوہ کمرے میں صرف ہیٹر تھا۔
لڑکا یہاں نہیں رہ سکتا تھا۔جمعے کی نماز کے بعد ٹکٹ بک کرایا اور واپسی کی خبر کمپنی کے مالک نقوی صاحب کو دی۔ وہ امریکہ سے آے تھے۔ لڑکے نے اپنی زندگی میں ان سے نفیس انسان نہ دیکھا تھا۔
وہ لڑکی آی جس نے لڑکے کی منگیتر کو معصوم کہا تھا۔ مجھے تب نہ پتہ تھا کہ محبت کی حرکات و سکنات کیا ہوتیں ہیں۔ مجھے اپنے کام سے کام تھا۔
وہ رکنے پر اصرار کرتی۔ میں انکار کرتا۔
اب سمجھ میں آتا ہے کہ وہ یوں کیوں کر رہی تھی۔
سب خاندان کے لیے زندگی میں پہلی بار امپورٹڈ کینڈی لیں۔
واپسی کا جہاز شام سات بجے اسلام آباد کی فضاوں سے بلند ہوتا ہے۔
منظر تبدیل ہوتا ہے میری شادی۔
- میاں ظہوری

لاہوری امریکہ - ایک کہانی
انجینر بننا گھر والوں کے ادھورے خوابوں کی تکمیل کی امید بھی ہوتی ہے۔
لڑکا ناکام ہو رہا ہے۔
دوسری نوکری سے بھی خاطر خواہ مال نہ بن سکا۔لڑکی والے کسی بھی وقت آسکتے تھے، ایک خوف تھا۔
دباو بڑھ رہا تھا۔ خاندان کےچار انجینر لڑکوں کے امریکہ جانے کے قصوں میں تیزی آتی جا رہی تھی۔
یہ اسی نوعیت کا دباو تھا کہ جسکی وجہ سے لڑکے نے انجینرنگ کے سال دویم میں ٹی وی سروس کا چھ مہینے کا کورس کیا، کمپیوٹر کا ڈپلومہ کیا، بی کام میں داخلے کی جستجو کرنا شروع کر دی علاوہ ٹیوشن اور دس مضامین کی پڑھای کے۔
کہیں سے مال آ جاے اور گھر والی کے ادھورے خواب پورے ہوں۔
لیکن سال دوم میں ایک عملی امتحان میں فوڈ پوازن کے بعد لڑکا فیل ہو گیا۔
مرتا کیا نہ کرتا۔ لڑکے نے آٹھ ہزار میں ایک لاہوری گروپ سے امریکہ کے ویزے کی بات کی۔
گھر والے خوش تھے کہ امیدیں بر آنے کو تھیں۔
جہاز لڑکے کو سات اور سمیت لے کر اسلام آباد امریکہ ویزا کے لیے بلند ہوتا ہے۔
منظر تبدیل ہوتا ہے شرابی ویزا گروپ کی ناکامی۔
- میاں ظہوری

شرابی لاہوری کا امریکہ - ایک کہانی
ابھی اسلام آباد سے واپسی پر لڑکے کی تیسری نوکری چند ہفتوں میں لگی تھی۔ لیکن اگر اصول اور پیسے کی صدایں زور سے بلند ہو رہیں ہو ں تو پانچ ہزار کا فرق بھی اگلی نوکری کا باعث بن سکتا ہے۔
چوتھی نوکری کو سات دن ہوے تھے کہ لڑکا امریکہ ویزے کے لیے ایرپورٹ پہنچتا ہے۔
نوکری، نوکری کی تبدیلی اور بلا وجہ کے سفر تھکاوٹ میں حواس سن اور خوشی کہیں گم ہوتی دکھای دے رہی تھی۔
مجھے وہ یاد نہ رہی۔ وہ بہت معصوم تھی۔ میں اس سے فون پر بھی بات نہیں کر سکتا تھا۔ وہ الڑ تھی۔ جلدی سے رکھ دیتی تھی۔
امریکہ کے ویزا کے لیے سب بے چین تھے۔ انکو یقین تھا۔ اسلام آباد سے کال کر کے لڑکے نے نکاح کی تاریخ مخصوص کر نے کو کہا تا کہ لڑکی بھی ساتھ جا سکے۔
رات بھر لاہوری نے شراب میں گزاری۔
امریکہ ویزا آفیسر کے پاس چھ گھنٹے کی قطار کے بعد پہنچے تو اس نے ہم سب کو اوپر سے نیچے تک دیکھا۔
فارم پر ریجیکٹ کی مہر ثبت ہوی اور رات نو بجے طیارہ کراچی کی فضاوں میں داخل ہوا۔
منظر تبدیل ہوتا ہے لڑکا نکاح کی تقریب میں بغیر ویزا کے پہنچتا ہے۔
- میاں ظہوری

نو ویزا - -- نو نوکری - ایک کہانی
نکاح کی تقریب میں بے حد خوش تھے۔
سابقہ تربیت نے اپنا لڑکے کے جسم پر اپنا رنگ دکھانا شروع کیا۔
لا شعور کہہ رہا تھا۔
نو نوکری۔۔۔
نو ویزا۔۔۔۔
بٹ نکاح از ریڈی۔۔۔
ہاتھ کانپ رہے تھے۔ لڑکا مسلسل ہونٹ بھینچ رہا تھا۔
فکریں ہر سو سے سمٹ سمٹ کر عین قبول کے وقت گر رہیں تھیں۔
لڑکے کی آنکھوں کے سامنے سے ہر منظر گزرتا دکھای دے رہا تھا۔
لیکن سرخ غرارے میں وہ حسن کا پیکر لگ رہی تھی۔
جاتے لمحے اس نے مذاق میں ہاتھ بڑھایا کہ ساتھ لے چلیں۔
میں کہیں غرق تھا۔ مسکرا کر رہ گیا۔
اس کی مسکراہٹ ایک کرن تھی جو ڈھلتی شب میں پھوٹی۔
منظر تبدیل ہوتا ہے پانچویں نوکری اسکے گھر کے پاس۔
- میاں ظہوری

شادی - ایک کہانی
نوکری اسکے گھر کے پاس ملی۔ محبت گلیوں سے بھی محبت پیدا کر دیتی ہے۔
لڑکے کو آج بھی اس گلی سے محبت ہے۔
۱۸ جنوری ۲۰۰۰ کی شام وہ پریوں جیسی لگ رہی تھی۔
یہ اسکی شادی کا دن تھا۔
نارنجی غرارے میں چنبیلی کا گجرا ، معلوم ہوتا تھا شفق میں چاند اتر آیا ہو۔
یک جان دو قالب ہو گے۔
وہ روے تو رونا آے۔
وہ ہنسے تو ہسنا آے۔
لڑکے کو اب کسی چیز کی ضرورت نہ تھی۔
لیکن وہی ہوا جس کا خوف تھا۔
اصول کی صدایں بلند ہونا شروع ہویں۔
پھر عورت عورت کی دشمن ہوتی ہے۔
اور لڑکا کتاب کے سحر میں گرفتار۔ ان سب حقایق سے بے خبر۔
اسکی دنیا وہ تھی۔
لیکن ہر دن زہر گھل رہا تھا۔
بات بے بات آوازیں بلند ہو رہیں تھیں۔
اسکے رونے کی آوازیں لڑکا باتھ روم میں سن سکتا تھا۔
لڑکا توسولہ سال کی عمر میں ہی سن ہو چکا تھا۔
اب یہ شور اور نہیں ہونا چاہیے۔
اسی اثنا میں لڑکے اور اسکی نوبیاتا دلہن امریکہ روانہ ہوتے ہیں۔
لڑکے کی نوکری امریکہ کی ایک فرم میں لگی تھی۔
منظر تبدیل ہوتا ہے نیویارک آمد۔
- میاں ظہوری

بوسٹن براستہ نیویارک - ایک کہانی
بعض لوگ سن سے ہوتے ہیں۔
سنای سب دیتا ہےسمجھ کچھ نہیں آتا۔
وہ کچھ کہتی لڑکا کچھ سمجھتا۔
وہ کچھ کہتی لڑکا سنتا ہی نہیں۔
لڑکے کی فیملی سے خیر خواہی لڑکی کی محبت سے ٹکرا رہی تھی۔
بوسٹن میں وہ تنہا ۔ اکثر رونے لگی۔
لڑکے کے آفس جانے لگی۔
لڑکے سے اسکا رونا دیکھا نہ جا رہا تھا۔
نوکری میں چڑچڑاہٹ آ نے لگی۔
لڑکی کو ایک کالج میں داخلہ دلا دیا۔ لیکن برف میں اسکا آنا جانا دکھ کا باعث تھا۔
اسی میں کمپنی کے ایک کسٹمر سے بات بگڑی۔انہوں نے جھٹ نکالا اور ویزا کینسل کر دیا۔
بوسٹن سےکراچی کی پرواز لڑکی کو لے کر فضاوں میں بلند ہوی۔
سب سے تکلیف دہ دن بوسٹن کا یہ تھا۔ایک طویل تیاری کے بعد وہ یہاں آے تھے۔
لڑکا اپنا اپارٹمنٹ خالی کر کے کمپنی کے ہی ایک بنجابی ساتھی کے ساتھ ٹہرا۔
ایک ہفتے بعداسکو لے کر پرواز بوسٹن کے آسمان کو چھوڑ کر سان فرانسکو کے آسمانوں میں داخل ہوتی ہے۔
لڑکا اپنے ایک رشتے دار کے ساتھ فراٹے بھرتی گاڑی میں بیٹھا ہے۔
گفتگو ہو رہی ہے لیکن زبان سے۔دل کہیں اور ہے۔ دماغ کہیں اور۔
منظر تبدیل ہوتا لڑکا نوکری کی تلاش میں۔
- میاں ظہوری

یاد - ایک کہانی
دو مہینے ہو نے کوہیں لیکن کوی نوکری دینے کو تیار نہیں۔
امریکہ عجیب جگہ ہے۔سٹزن ہونا نوکری کی نوید ہے۔
لڑکے سے اسکے بغیر رہا نہیں جا رہا تھا۔
لڑکے کے بڑے بھای کی شادی بھی ہے۔
لڑکا شدید جذباتی لگاو کی وجہ سے امریکہ سے زیادہ بھای کی شادی کو اہمیت دے رہا ہے۔
ویسے بھی تین سال گزرے کو آے ہیں لیکن اسکو اب تک یہ نہیں پتہ چل رہا تھا کہ اس نے پیسوں کی خاطر نوکری کیوں تبدیل کیں ہیں۔ وہ کیوں امریکہ آیا ہے۔ سب بلا تہمید ہو رہا ہے۔اسکے دل میں رقم کی چنداں اہمیت نہیں۔ لیکن سب اسی کو اہمیت دے رہے ہیں۔اسکے ذہن میں سوال ہیں اور یہ سب ان سوالوں کے جواب کے لیے زہر قاتل ہے۔ جواب سکون و تسلی مانگتے ہیں۔
امریکہ میں سود اسکو کاٹ رہا ہے۔ کتا ب کی تشریح الگ تنگ کر رہی ہے۔
لاکھ منع کرنے کے باوجود لڑکا ایک صبح قریبی ایجنٹ سے رات ایک بجے کراچی کی فلایٹ کا ٹکٹ بک کراتا ہے۔
سالوں کی دعاوں سے ہونے والا سفر صرف چھ ماہ میں اختتام پذیر ہوا۔
سان فرانسسکو کی رات کی چمکتی روشنیاں بلند ہوتے جہاز میں کراچی کے لوگوں کی امیدوں کی طرح مدھم ہونے لگیں۔
منظر تبدیل ہوتا لڑکا دوبارہ پہلی کمپنی میں۔
- میاں ظہوری

عجیب محبت - ایک کہانی
سان فرانسسکو سے اڑا طیارہ کراچی پہنچنے کے قریب تھا۔
وہی شہر جہاں سے یتیم کا بیٹا اپنی دولہن کو لے کر چھ ماہ پہلے اڑا تھا۔
باپ کی محبت عجیب ہوتی ہے۔ جو اسکو نہ ملا ہو وہ پورے دل و جان سے اپنی اولاد کو دیتا ہے۔
محبت نہ ملی ہو تو اپنی اولاد کے لیے محبت کا سمندر بن جاتا ہے۔
امریکہ سے واپسی دلہن کے آنسوں کی بنا پر تھی۔ سو دولہا کے پہچنے سے پہلے وہ عتاب میں آ چکی تھی۔
بعض عتاب محبت کی بنا پر ہوتے ہیں۔بعض غصے شیدید اخلاص کی بنا پر ہوتے ہیں۔
لیکن دولہا دلہن کے بیچ یہ عتاب دراڑ بن گیا۔
بھای کی شادی پر فیروزی اڑے پاجامے میں دہ انار کلی کو محو حیرت کیے دے رہی تھی۔
وہ چلتی تو یوں محسوس ہوتا خوش رنگ تتلیاں اڑ اڑ کر منظر کو دلکش بنا رہی ہوں۔
لیکن اس کے جذبات سلیم اور اکبر نے دیوار میں چن دیے تھے۔
وہ چپ تھی۔
سب کچھ تبدیل ہونے جا رہا تھا۔
وہ دولہن جو پندرہ ماہ پہلے رخصتی پر سب کو رلاتی آی تھی اور کھیر چٹای پر اپنے بکھرے کاجل پرکھل کھلا کر ہنسی تھی، اب چپ تھی۔
منظر تبدیل ہوتا ہے دراڑ گہری ہوتی جاتی ہے۔
- میاں ظہوری

دراڑ - ایک کہانی
یتیم کو اسقدر دھوکے ہوے کہ وہ اصول سے چمٹ گیا تھا۔
اب جو اسکی مانے وہ محبت کے لایق۔
لیکن جو وہ نہ وھوراے وہ یتیم کی بے دلی کے عتاب میں آجاتا۔
اب یتیم کے لڑکے پاس ایک ہی ترکیب تھی کہ سب سے بلند اصول یعنی کتاب اللہ پر اصول کی بحث لے آی جاے تاکہ روز روز کی خوشیاں نہ چھنیں۔ بات بات پر آواز بلند نہ ہو۔ عتاب کی حد و حدو متعین ہو جاے۔ عزت کے اصول متعین ہو جایں۔
لیکن یہ ممکن نہ تھا!
سب ٹوٹنے والا تھا۔ یہ ترکیب ناکامی کا شکار ہونے جا رہی تھی۔
دولہن الھج گی تھی۔ اسکے جذبات، لطیف جذبات ماحول کے ماحول کی سختی نے پرخچے اڑا دیے تھے۔
وہ پندرہ پندرہ دن اپنے اس آشیاں میں رہنے لگی جہاں اس نے آنکھ کھولی تھی۔
دولہا کے لیے یہ سب کچھ عذاب مسلسل تھا۔
وہ اسکے بغیر رہ نہیں سکتا تھا۔
اور وہ کیونکر خوش ہو سکتی تھی کہ اگر اسکا دولہا خوش نہ ہو۔
منظر تبدیل ہوتا ہے اصول کی کوشش تیز ہوتی ہے۔
- میاں ظہوری

ناکام جنگ - ایک کہانی
لڑکا اس بات سے بے خبر کہ بعض بندے پیار کے بعض مار کے ہوتے ہیں۔
لڑکا اصول کی بحث میں شدت لے آتا ہے۔اسکی دلہن افسردہ ہے۔
لابریری کا سایز سینکڑوں سے بڑھ کر ہزار سے تجاوز کر گیا۔
شیخ اختری، شیخ مدنی مذکرہ، شیخ مکی مسجد، خلیفہ ڈاکٹر اسرار، مفتی دارلعلوم و مودودی، ہند و عرب کے علما، دیوبندی و بریلوی کتابیں، شیعہ کے بحر الانوار و نہج البالغہ اور اہل حدیث کی تحقیقات ، گاندھی، فراز، فیض، ابن خلدون، تفاسیر، ستہ۔ وہ سب جو اصول سے متعلق تھا زیر مطالعہ آتا گیا۔
ویڈیو، آڈیو کے ہزاروں گھنٹے نوکری چھوڑ کر سنے۔
ایک وقت آیا کہ نوکری محض دو ہزار روپے کی۔ کسی جگہ پڑھانے کی۔
دولہن حیرت زدہ۔
لیکن پیار کا پیاسا دلیل نہیں کندھا اور محبت مانگتا ہے۔
لو سک۔ محبت کا بیمار۔یتیم کو دلیل نہیں محبت درکار تھی۔
دولہا کو کوی راہ اور دلیل نہ ملتی تھی کتابوں میں کہ یتیم سے دلیل مانگی جاے۔لیکن امیدیں اسکے کندھے شل کر رہیں تھیں۔ اور دلہن کتنی پیاری تھی۔ اس کا چپ دولہا کا دل کاٹے دے رہا تھا۔
دولہا نے ایسی جنگ کرنے کا ارادہ کر لیا تھا جس کو آسمانوں میں ناکام لکھ دیا گیا تھا۔
منظر تبدیل ہوتا ہےدولہا اصول اپنانے کا ارادہ کرتا ہے۔
- میاں ظہوری

لبادہ - ایک کہانی
جو جو شیوخ فرماتے جاتے، جو جو کتابیں تجویز کرتی جاتیں دولہا پہنتا جاتا۔
وہ دولہن کو عجیب لگ رہا تھا۔
وہ یتیم کی سمجھ سے بالاتر ہو رہا تھا۔
یتیم کی ہر دلیل کا توڑ ہو رہا تھا صالح علم سے۔
لیکن یہ توڑ آسمان میں ہلاکت کے نام سے لکھ دیا گیا تھا۔
لڑکے کا بھای حیرت زدہ۔ بے بس۔ امیدوں کے بوجھ تلے دبا ہوا۔
لڑکے کے بھای کی شادی ہوی دولہن آی۔
بچی ہوی۔
اور تین سال میں وہ بھای کی دولہن ہمیشہ ہمشہ کے لیے اپنے اس گھر واپس چلی گی جہاں اس نے آنکھ کھولی تھی۔
منظر تبدیل ہوتا لڑکا بھای کی دولہن کو واپس لانے کی کوشش کرتا ہے۔
- میاں ظہوری

بھای کی دولہن - ایک کہانی
بھای سے شدت اخلاص نے لڑکے کو مجبور کیا کہ یتیم کی رضامندی نہ ہونے کے باوجود بھای کی دولہن کو واپس لاے۔
اس سخت کشمکش نے بھای کو کینڈا جانے پر مجبور کر دیا۔
لڑکا بھای کی دولہن لے آیا۔
وہ کینیڈا بھی گی۔
لیکن وہ ہی ہوا جس کا ڈر تھا۔
دولہن کی ماں اور یتیم کی خفیہ تدبیروں کے درمیان کسی کی ایک نہ چلی۔
دولہن کی ماں کی آواز بے حد بلند تھی۔ وہ خان تھی۔
بھای کی دولہن ہمیشہ ہمشہ کے لیے اپنی ماں کی ہوی!
لڑکا اور اسکی دلہن اب مذید عتاب میں آگے۔
وہ غدار اور مجرم ٹھیرے۔
وہ کھولتے سوالوں کی زد میں تھے۔
تپش بے حد بڑھ گی تھی۔
سب کچھ پگھلتا محسوس ہو رہا تھا۔
کوی اخلاص حکومت کا عتاب کم نہیں کر رہا تھا۔
لڑکے کی دولہن نے رونا چھوڑ دیا تھا۔
اسکے آنسو خشک ہو گےتھے۔
ادھر کچھ ایسا ہونے کو تھا کہ جسکا لڑکا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
منظر تبدیل ہوتا دولہن کے بھای کی شادی ہوتی ہے۔
- میاں ظہوری

بھابی - ایک کہانی
آے دن لڑکی اپنے والدہ کے گھر آتی ۔
بھابی نے جب یہ دیکھا کہ ہے تو اسنے بھای کو اس کا استحضار کرایا۔
بھابی اچھی پنجابی خاتون تھیں۔لیکن سب کچھ ہاتھ سے نکلتا جا رہا تھا۔
لڑکے سے بے حد محبت کرنے والے ساس سسر کا کینیڈا جانا تھا کہ بھابی کے ہاتھ پورے گھر کا کنٹرول آگیا۔
اب کے بار لڑکی شل ہو کر آی تو اگلے دن بھای سامان اٹھانے والی گاڑی لے آے۔
سامان جا چکا تھا۔وہ خلا چاہتے تھے۔
لڑکا اکیلا ہو گیا تھا۔
وہ جگہ رہنے قابل نہ رہی تھی جہاں اسے کبھی سکون نہ ملا۔
منظر تبدیل ہوتا لڑکا دولہن کے گھر والوں کو سمجھاتا ہے۔
- میاں ظہوری

ابوظہبی - ایک کہانی
اس سے چند ماہ قبل کہ نوبت خلا تک پہنچے، لڑکی شل ہو کر اپنے گھر جاتی ہے۔
لڑکا مایوس ہو جاتاہے۔
وہ ایک نوکری پر تھا۔ باس ابو ظہبی میں تھا۔
باس نے کہا ابوظہبی آو گے۔
لڑکے کو ایک پل چین نہ آ رہا تھا۔
اس نے حامی بھری۔
جہاز ابوظہبی کے تپتے صحرا پر اپنی گرمی بکھیرتے ایرپورٹ پر اترا۔
باس نے پاسپورٹ رکھ لیا۔
دبی میں مقیم ایک رشتہ دار نے اپنے توسط سے لڑکے کو ایک فلیٹ میں پلنگ دلا دیا۔
نو لوگوں میں ایک شاول والا، ایک آٹو کیڈ والا، ایک نیٹ ورک والا، ایک ابوظہبی کے گٹروں کے محکمے میں کام کرنے والا اور نہ جانے کون کو ن تھے۔
تین لوگ ایک کمرے اور نو ایک فلیٹ میں ہوں تو افراد پر نظر رکھنی ہوتی ہے۔
لڑکا مجھ سے محبت کرنے لگے۔لڑکا انکا خیال رکھتا۔
دو مہینے وہاں رہنے کے بعد وہاں دل نہیں لگ رہا تھا۔
کیسے لگے، کہ لڑکے کے دل کی دھڑکن تو کراچی میں تھی۔
طیارہ لڑکے کو لے کر کر اچی پہنچتا ہے۔
منظر تبدیل ہوتا لڑکا یتیم کا گھر چھوڑتا ہے۔
- میاں ظہوری

پارک - ایک کہانی
لڑکا اپنی دلہن سے پارک میں ملتا ہے۔کتنی خوشی کا دن تھا وہ۔
یتیم اور ان کی رفیق حیات نے اب اس گھرمیں دولہن کی واپسی نامنظور کر دی تھی۔
بات یہ ہے کہ انکے دل ہاتھ میں لیے والا بھی کوی نہ تھا۔
لڑکے عجیب سمتوں میں جا چکے تھے۔
کسی کا دل نہیں لگ رہا تھا۔
گھر کشادگی کے باوجود تنگ ہوتا جا رہا تھا۔
لڑکا اپنی دولہن کے بھای کو سمجھاتا ہے۔
وہ مان جاتے ہیں۔ اک گھر۔ خالی سا بنا لیتے ہیں۔کراے پر۔
آینہ ٹوٹ گیا تھا۔ لیکن جڑ تو گیا تھا۔
عکس تو دکھای دے رہا تھا ۔ خوش ہو گے دونوں۔
یتیم اور انکی رفیق حیات اس پر ناخوش تھے۔ ساری عزت خاک میں مل گی تھی۔
مذہب یتیم میں جو بات اس کو نرمی اور پیار سے بانہیں ڈال کر نہ کی جاے وہ حرام بمقابلہ شراب ہے۔
اور سب معاملے میں لڑکا اور دلہن شراب پی پی کر مدہوش ہو چکے تھے۔
منظر تبدیل ہوتا لڑکا یتیم کو منانے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔
- میاں ظہوری

سخت ترین عتاب - ایک کہانی
حکومت سے غداری کر کے جنت بنانے کی ناکام کوشش لڑکے اور دولہن نے کی تھی۔
اس جنت کو مٹ جانا چاہیے تھا۔
جذبات کو سخت ٹھیس پہنچ چکی تھی۔
یہ جوڑنا نور یوسف مانگتا تھا۔جو ممکن نہ تھا۔
یتیم، انکی رفیق حیات اور اسکے لڑکے میں ایک گہرا تعلق تھا۔
یہ عام تعلق سے اونچا تھا۔
یہ مختلف تھا۔
یہ روحانی تھا۔
اس میں بنت نبی کے خون سے کوی زنجیر تھی جو یتیم اور لڑکے کو دو جان یک قالب بناے ہوے تھی۔
اسکو توڑنا ممکنات میں سے تھا۔
یتیم اس تعلق کو عتاب نازل کرنے کے لیے استعمال کرنے لگا۔
انکی رفیق حیات بھی اس کمزوری پر ضربیں لگانے لگیں۔
ابھی آینہ جو کرچی کرچی ہوا تھا اس پر تکلیف دہ ضربیں پڑ رہیں تھیں۔
اسکو کوی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ یہ روحانی تھیں۔
یہ ایک روحانی بوجھ تھا جو ایک قلب دوسرے کو دے رہا تھا۔
اور دوسرا اگلے کو دے رہا تھا۔
آینہ پھر ٹوٹنے کو تھا۔
بھای کی دوسری شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں۔
منظر تبدیل ہوتا بھای کی دوسری شادی میں بارہ دن ہیں۔
- میاں ظہوری

روحانی کرب - ایک کہانی
دولہن کو الگ گھر میں رہتے ہوے اٹھارہ ماہ ہونے کو آے تھے۔
ان دونوں نے عمرہ کر لیا تھا۔
اس کا داخلہ ہمدرد یورنیورسٹی میں لڑکے نے کرا دیا تھا۔
وہ جب گھر آتی تو صندل جیسے چہرے پر پسینے کی سیاہ لکیریں ہوتیں۔
اب وہ ایک اسکول میں جاب بھی کرنے لگی تھی۔
لاکھ علاج کے باوجود اسکو اولاد نہ ہوتی تھی۔ لیکن کب کس کو اسکی پرواہ!
ان سب کے باوجود سات سال قبل والی دلہن اور دولہااب سرد مہر ہو چکے تھے۔
پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا تھا۔
روحانی کرب نے ساتھ رہتے ہوے بھی لاتعلق سا بنا دیا تھا۔
لڑکا اپنے بچپن کے محسنوں کے سامنے مجرم بن چکا تھا۔
کوی کسی سے کچھ نہیں کہہ رہا تھا لیکن سب ایک کرب میں تھے۔
بھای کی دوسری شادی میں بارہ دن رہ گے تھے۔
لڑکا اور دولہن کی ایک معمولی بات پر تکرار ہوی۔
گاڑی گھر کے سامنے رکی۔
لڑکی گھر کے اندر گی۔ اسکے تیور اچھے نہیں تھے۔
وہ اب شل نہیں ہونا چاہتی تھی۔ وہ اپنا مقام چاہتی تھی ۔
لڑکا کمرے میں رہا۔ وہ گھر کا دروازہ کھول کر جاچکی تھی۔
منظر تبدیل ہوتا لڑکی روتے ہوے اپنے والد کے گھر پہنچتی ہے۔
- میاں ظہوری

مضمحل والد کی لپک - ایک کہانی
لڑکا گھر کا دروازہ بند کرتا ہے۔
جس سے محبت کی جاتی ہے اسکو دکھ نہیں دیا جاتا۔
لیکن لڑکے کے قلب کا کوزہ بھرا ہوا تھا۔
کوی روحانی مشق اس کوزے کا سایز نہیں بڑھا رہی تھی۔
کیا دولہن کو مذید تکلیف نہ دی جاے؟ لڑکا تنہا گھر میں سوچ رہا ہوتا ہے۔
اگلے گھنٹے بعد لڑکی کے مضمحل والد اپنے بھای اور بیٹے کے ساتھ گھر میں داخل ہوتے ہیں۔
ایک گالی اور کی چپلیں لڑکے کو مارتے ہیں۔
لڑکا کہتا ہے سنیں۔
وہ کہتے تھے کیا تو خدا ہے!
منظر تبدیل ہوتا لڑکا لڑکی کو تکلیف سے نجات دیتا ہے۔
- میاں ظہوری

محبت کی علیحیدگی - ایک کہانی
اب کیا بچا تھا۔سب کچھ دینے کے بعد بھی کچھ ہاتھ نہیں آ رہا تھا۔
اسکا دل ٹوٹ چکا تھا۔
سو مہر اور ایک پیپر لڑکی کے بھای کو بلا کر دے دیا۔
وہ کچھ دن بعد سامان لے گے۔
گھر میں ایک قالین، ایک تکیہ اور ایک پردہ بچا تھا۔
سو اسی پر دن رات گزارنے شروع کر دیے۔
بھای کی دوسری شادی میں لڑکا شریک نہیں ہوتا۔
بھابی کو اسکا شکوہ آج تک ہے۔
گھر گرد سے اٹا جا رہا تھا۔
لڑکا صبح ناشتہ خود ہی بنا لیتا۔
یونہی گیارہ ماہ گزر گے۔
لڑکا اپنے دیگر گھر والوں سے ملنے جاتا۔
لڑکا سمجھتا تھا کہ اس طرح دلہن کو چھوڑنے پر حکومت کی سیاسی فتح ہو گی اور وہ خوش ہو ں گے۔
لیکن ہر طرف تعلق اوپری سا ہو کر رہ گیا تھا۔
لڑکے کے لیے دوسری شادی کے لیے لڑکیاں دیکھی جا رہیں تھیں۔
اس دوران لڑکے نے خود ہی اخبار میں نکاح کا ایڈ دیا۔
ایک خاتون دوسرا نکاح چاہتیں تھیں۔
لڑکا نہیں چاہتا تھا لیکن اکیلا لڑکا کیا حکومت کے خلاف دوسری بغاوت کرے؟
نہیں
منظر تبدیل ہوتا دوسری شادی۔
- میاں ظہوری

اسکی فون کال - ایک کہانی
الگ رہنے سے محبت ختم نہیں ہو جاتی۔
وہ ہر دن لڑکے کو کال کرتی۔
وہ سات سال میں ہر چیز کے لیے تیار ہو گی تھی لیکن سمجھ نہیں پای کہ لڑکے نے یہ کیوں کیا!
وہ لڑکے سے خوش تھی۔لیکن اس سے زاید چیزوں سے ناخوش۔
وہ بتاتی کہ اسکے والد اسکو میرج بیورو لے گے۔
وہ اپنی ہر بات لڑکے سے شیر کرتی۔
جو اس نے لڑکے سے سیکھا تھا اسکو دہراتی اور فخر کرتی۔
جو موباہل لڑکے نے اسکو دیا تھا اسکو اپنا زیور سمجھتی۔
وہ معصوم تھی۔
وہ لڑکےکی پہلی بیٹی کے ہونے کی خبر سے پہلے تک کال کرتی رہی۔
جب لڑکے نے اسکو اپنی بیٹی کے آنے کی امید کی خبر دی۔ وہ ٹھٹک کر رہ گی۔
اسکی سات سال کوی اولاد نہ ہوی تھی۔
پھر اس نے کبھی میری کال کا جواب دیا نہ خود کال کی۔
اسکی پنجابی بھابی نے فیصل آباد کے ایک پنجابی سے جو دبی میں مقیم تھا شادی کرا دی۔
اسکے والدین کینیڈا میں اپنے بیٹوں کے ساتھ ہیں۔
لڑکا اب ایک ایسی ملاقات کے انتظار میں ہے جو شاید ناممکن ہو!
وہ فیس بک پر اسکو تلاش کرتا رہا لیکن وہ نہ ملی۔
وہ بلا وجہ کراچی کی ان گلیوں سے گزرتا ہے جہاں سے وہ کبھی اسکے ساتھ گزرا تھا۔
اب بھی وہ اسکے رشتے داروں کی فیس بک میں تصاویر میں اس کو ڈھونڈتا ہے۔ لیکن وہ کہیں نہیں!
اپنے چند ایک رشتہ داروں سے لڑکے نے چند سال پہلے کہا کہ کسی طرح اس سے ملاقات کرا دیں۔
لیکن کون کب کسی کا ساتھ دیتا ہے!
دل چاہتا ہے سب بدل جاے اور پھر وہ مجھے اسی طرح کاجل لگا کر نارنجی غرارے میں مل جاے۔
منظر تبدیل ہوتا دوسری شادی ایک عجیب قصہ۔
- میاں ظہوری

دوسری شادی - ایک کہانی
لڑکے کے اخبار کا اشتہار دینے سے شادی ہونے میں کل تین ماہ کا عرصہ لگا۔
لڑکا اور لڑکی دونوں دوسری دفعہ دولہا دلہن بننے جا رہے تھے۔
عجیب وقت تھا۔
گھر والوں کی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ پندرہ ماہ پہلے کاواقعہ کیا اتنا ہی کمتر ہے کہ بھلا دیا جاے؟
لڑکا حال میں زندہ رہنا چاہتے تھے لیکن گھر والے ماضی میں رہنا چاہتے تھے۔
بار بار کی باز پرس کی وجہ سے لڑکا دوبارہ یتیم کے پاس منتقل ہو گیا تھا کہ دوبارہ تعلق بحال ہو۔
لیکن اب لڑکا کسی کو قبول نہ تھا۔
نہ یتیم کو۔ نہ ان کی رفیق حیات کو۔ نہ بھای کو۔ نہ بہن کو۔ یہ غداری کی سزا تھی۔
جو خلوص لڑکا جمع کر کے لایا تھا وہ پچھلے جراِیم کی تلافی کے لیے ناکافی تھے۔
بھابی نے شادی میں شرکت نہ کی۔
بھای نے باز پرس نہ کی۔
بس شادی کے بعد لڑکے کے والدین کی امریکہ روانگی تھی۔
ٹاور پر لڑکے کی جاب ختم ہوی۔
بھای نے باز پر س کی۔
سو بھای کا گھر ایک ماہ بعد ہی دولہا دولہن کو چھوڑنا پڑا۔
منظر تبدیل ہوتا ہے اولاد ہونے کی اطلاع۔
- میاں ظہوری

اولاد - ایک کہانی
اسکا فون آیا ہوا تھا۔لڑکے کے پہلو میں اسکی دوسری دولہن تھی۔
عجیب وقت تھا، بچہ دوسری سے، اور لڑکا خوشی حاصل کر رہا ہے اپنی پہلی دولہن کو بتا کر!
یہ کافی ہے اس بات کو سمجھنے کے لیے آگے کرب کا ایک نیا دور شروع ہونے والا تھا ۔
ایسا دور جس میں خوشی کو مل کر رنگ بھرنے کے لیے کوی نہیں تھا۔
ہر کوزے میں کچھ بھرا جا سکتا ہے۔
جب اس دوسری شادی کی بات ہوی تو پہلو کا کوزہ لب تک بھرا ہوا تھا۔
سو باوجود بہت ساری کثافتوں کے چارہ نہیں تھا کہ سر تسلیم خم کیا جاے جو ابتدا سے یتیم اور انکی رفیق حیات کے کھیل اور راحت کا سبب تھا۔
یوں اولاد سے کھیلنا ان کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے!
اب وقت آن پہنچا تھا کہ کوزے کا حجم بڑھایا جاے تاکہ دوسری دولہن کے ساتھ لطف و کرم سے رہا جاے۔
بیٹی کی آمد قریب تھی۔
پھر وہ وقت آیا کہ نرس نے اسکو ہرے رنگ کے کمبل میں لپٹا دکھایا۔ وہ رو رہی تھی۔
لڑکےنے اپنی بچی کبھی نہیں دیکھی تھی گھبرا گیا۔
نرس نے مسکراتے ہوے لڑکے کی گود سے بچی لی۔
منظر تبدیل ہوتا ہے کوزہ بڑھانے کی جستجو۔
- میاں ظہوری

کوزہ - ایک کہانی
لڑکے کی بیٹی واکر میں یوگے یوگے اور نہ جانے کیا کیا کہہ کر ادھر سے ادھر دوڑتی پھرتی۔
وہ بڑی آنکھوں والی پیاری بچی تھی۔
مانند ایک کھلونے کے۔
رشتے دار لڑکے کو نامرد سمجھتے تھے کہ سات سال بچہ نہیں ہوا تھا۔
اب بھی طرح طرح کے القاب سے یاد کرتے ہِیں۔
انسان بھی عجیب شے ہے سینےصاف کرنے میں کاہلی کرتا ہے اور مخلوق خدا کو طرح طرح سے تنگ کرتا ہے۔
یوں دوسروں کو ضرورت سے زیادہ سینہ صاف کرنا پڑتا ہے کہ تعلقات برقرار رہیں۔
کوزے کا حجم بڑھانے کے کیا کمپنی کے بجاے مدرسے میں نوکری کر لیں؟
تاکہ ان کلفتوں سے نجات ملے جو ہر کمپنی کا خاصہ ہے۔
لیکن کانٹے ہر جگہ ہیں اور خوشبو صرف کتاب میں رہ گی ہے۔
لڑکا شارع فیصل میں گھوما اور اداروں کو بلامعاوضہ پروجیکٹ کرنے کو کہا تاکہ پیسے سے پیدا ہونے والی سختی سے وقتی نجات ملے۔صرف ایک ایڈورٹایزنگ کمپنی کے مالک نے بات سنی اور راضی ہوے۔
انہوں نے کہا :اٹس یور کال۔زیر لب وہ یہ کہہ رہے تھے یوں نہ کرو۔
چنانچہ ایک کمپنی میں ملازمت کر لی۔
بقیہ وقت کبھی تنہا مسجدوں میں، کبھی قبرستانوں میں، کبھی کسی خانقاہ میں، کبھی کسی مجاہد کے ساتھ، کبھی کسی شیخ کی مجلس میں، کبھی کسی مدرسے میں، کبھی ہسپتالوں اور کبھی یونہی شارعوں پر گزرے لگا۔
دوسرے بیٹے کی آمد۔وہ کسقدر خوبصورت تھا۔
منظر تبدیل ہوتا ہے کوزہ کے حجم بڑھانے کی کوی راہ نہیں مل رہی ۔
- میاں ظہوری

تیسری اولاد - ایک کہانی
وہ امید سے ہے۔ بہن بھای کو ایک اور بھای ملنے والا ہے۔
بڑی بڑی والا لڑکا جب اس دنیا میں آتا ہے تو ہر بچے کی طرح لڑکا اسکے دونوں کانوں میں اذان دیتا ہے۔
ساتویں دن عقیقہ ہو جاتا ہے۔
اولاد کے ساتھ ذمہ داریاں اور معاش کاتسلسل اور اہم بن جاتا ہے۔
لڑکا خود تو مسجدوں کی گرم سرد زمین پر سونے کا عادی سا ہوتا جا رہا تھا
لیکن بچوں کے لیے نرم ای سی سے کم اسکے تصور میں نہ تھا!
محبت فیول کی طرح ہوتی ہے۔
دوسری دلہن کے پاس یہ فیول کثرت سے تھا۔
گاڑی اسی کے سہارے چل رہی تھی۔
لیکن لڑکے کی ناخوشی کو وہ شادی کے چند مہینوں میں ہی بھانپ گی تھی۔
لیکن کمال کا صبر ہے اسکا۔مسکراتا چہرہ اور مزاجا مزاحیہ۔ لپک کے ادھر۔ چھپک کر ادھر۔
وہ بھرے ہوے کوزے میں حتی الامکان کچھ نہ ڈالتی تھی لیکن یہی محبت کی راہ میں رکاوٹ بن رہا تھا۔
اسکی بچے سنبھالنے کی خواہش اور گھر کے کاموں کو خوشی خوشی پورا کرنے کی صدا روز بروز زور پکڑنے لگی۔
یہ توجہ اور ضرورت دونوں کی صدا تھی۔لڑکے کی بہترین کوشیش بھی ناکام ہوتی دکھای دے رہیں تھیں۔
لیکن نوکری کے بوجھ اور دیگر باتوں کی وجہ جو گزر چکی تھیں لڑکے میں نہ توانای تھی نہ وہ ولولہ نہ رہا تھا۔
وہ بات بے بات پر کچن دوڑ جاتی تاکہ گفتگو کا زیادہ موقع ہی نہ آے۔
تینوں بچے شور مچاتے دوڑتے بھاگتے دکھای دینے لگے۔
لڑکے کو قطر سے نوکری کی آفر ہوتی ہے ۔
منظر تبدیل ہوتا ہے لڑکا قطر روانہ ہوتا ہے ۔
- میاں ظہوری

دوحا قطر - ایک کہانی
قطر کی نوکری گویا بادشاہ کے گھر میں ملازم ہونا تھا۔
کمپنی میں سہولیات کا ایک ایسا سلسلہ تھا جو ٹوٹنے میں نہ آتا تھا۔
لڑکے سے بچوں کے بغیر نہ رہا جا رہا تھا۔
لڑکی بھی پورے زور و شور سے قطر آنے کی تیاریوں میں مصروف تھی۔
لڑکا دوحا سے تین ماہ بعد آتا ہے اور سب کو ساتھ لے جاتا ہے۔
پچاس سے زائد کارٹن میں سامان پیک تھا۔
یہ سخت تھکا دینے والا سفر تھا۔
بے انتہا پیکنگ۔ گھر کو خالی کرنا۔ سامان شفٹ کرنا۔
تھکاوٹ کے مارے برا حال تھا۔
جب دو ساتھ رہتے ہوے افراد کسی قسم کی تکلف رکھیں تو وہ بوجھ دل پر آتا ہے۔
تکلف اچھی ثابت نہیں ہو رہی تھی۔
لاکھ کوشش کے باوجود وہ اپنے اور لڑکا اپنے وجود اور باتوں کو کسی نادیدہ قوت کے تحت سمیٹ کر رکھتے۔
محبت دوستی لاتی ہے۔ دوستی عشق لاتا ہے۔
لیکن یہاں جذبات ان کہے اور زندگی میں یکسانیت سی ہو رہی تھی۔حالانکہ تفریح کا کوی موقعہ نہیں چھوڑا جا رہا تھا۔
بچوں کو سنبھالنے اور گھر کے کام زیادہ سے زیادہ کرنے کا اصرار زیادہ سے زیادہ ہوتا جا رہا تھا۔
لڑکے کا جسم کھنچ گیا۔
عرب اداروں کی سیاست دبانے اور شاہ کے تابع کرنے والی ہوتی ہے۔
یہ کھنچاو کو دھورا کر رہی تھی۔
گھر میں بچوں کا شور اور آفس میں کام کا زور نے اس پر سونے پر سہاگہ کا کام کیا۔
آفس والوں کو کام بہت پسند آرہا تھا۔ وہ سیلری اور پوزیشن بڑھانا چاہتے تھے۔
لڑکا تناو اور کھنچاو کا شکار ہوکر بیمار پڑا۔ آفس میں بات خراب ہوی۔ جاب ختم ہوی۔
لڑکے نے اپنی یورنیوسٹی کے دوست سے رابطہ کیا۔
وہ ایک بڑی فرم میں قطر میں ہی ملازمت کر رہا تھا۔
اس نے کوی جواب نہ دیا۔
شام چھ بجے کا وقت تھا۔لڑکی عجیب صابرہ۔ ماتھے پر شکن نہیں۔ بلکہ مسکراہٹ۔
ایک طویل تھکا دینے والی پیکنگ کے بعد جہاز دوحا ایرپورٹ سے بلند ہوتا ہے۔
منظر تبدیل ہوتا ہے ایک سال تک بستر دراز۔
- میاں ظہوری

تناو - ایک کہانی
لڑکا اپنے جسم کو پہچان نہیں پا رہا تھا۔
وہ سخت تناو میں تھا۔
اسی میں قطر کی جمع پونجھی سے ایک فلیٹ لے لیا۔انشا اللہ
جسم میں اتنا کھچاو تھا کہ لڑکاسال بھر تک بستر پر رہا۔
اسکی وجہ ایک طویل سفر اور ڈھلتی عمر تھا تو دوسری طرف قطر کی سخت تھکاوٹ۔
اسکے علاوہ ایک خاص قسم کا تکلف جو خیال پر مبنی تھا لیکن محبت معدوم تھی۔
لڑکی اس پوری گاڑی کا فیول تھی۔ لیکن وہ سرد مہر ہوی تو تناو دو چند ہو گیا۔
اب یہاں نہیں رہا جا سکتا۔
ایک دوست سعودی عرب آنے کا پوچھتے ہیں۔
کمپنی بے حد اچھی تھی۔ لیکن سمجھ نہیں آرہا تھا کہ بیوی بچے کس کے پاس چھوڑ کر جاے۔
اکیلے۔ شاید یہی حل تھا ورنہ کوی سبیل آگے بڑھنے کی نظر نہیں آ رہی تھی۔
پانچ مہینے ویزا آنے میں لگے۔جہاز صبح کراچی کی نم آلود فضا کو چھور کر جدہ کا رخ کرتا ہے۔
منظر تبدیل ہوتا ہے جدہ کے بادشاہ کی غلامی۔
- میاں ظہوری

جدہ - ایک کہانی
جدہ کی بادشاہت میں اترے ابھی چھ گھنٹے بھی نہ گزرے تھے کہ بادشاہ کی تپش کا اندازہ ہو گیا۔
گاڑی کا ڈرایور کہہ رہا تھا کہ میرا یہ کام نہیں۔ دیر سے پہنچا ہوں تو کیا۔
یہ ملک کحینچ کر رکھنے والا ہے۔
ہر سعودی کو بادشاہ کی ماننی ہوتی ہے اور ہر آنے والے کی سعودی کی۔
اپنی مرعات حاصل کرنے کے لیے لڑکے کو وہ جستجو کرنی پڑی کہ جس کے لیے اسکا جسم تیار نہ تھا۔
کمپنی بے حد اچھی تھی لیکن جب دل دماغ تھکے ہوں تو معمولی کام بھی پہاڑ لگتے ہیں۔
سیاست، چالیں، کنٹرول، رویہ۔ اف یہ کیسی جگہ ہے۔
بولا گیا کہ ویزا ختم ہونے والا ہے۔ اور ویزا دے نہیں رہے۔
بولا گیا کہ اگر ویزا نہ لگا تو بلیک لسٹ۔ ایک مسکراہٹ اور ڈانٹ لیکن ویزے کی سبیل کچھ نہیں۔
ویزا لینے کے لیے بحرین جانا ہوگا۔لیکن پانچ سو ریال کی ٹیکسی اور جہاز کا ٹکٹ آپکا۔
وہاں ہر ملازم کو اپنی تنخوا ہ کا کچھ حصہ پھسنانا ہوتا ہے کہ مہینے بھر بعد کمپنی واپس دے دے۔
جدہ سے دمام جانا تھا اور وہاں سے ٹیکسی میں بحرین۔
ایکزٹ ہو اور ویزا لگے۔ لیکن ایکزٹ نہ ہوا۔لڑکے کو دو دن کے لیے پاکستان آنا پڑا۔
جدہ واپس پہنچنے پر لڑکے کو بہت عجیب لگ رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ گھر والوں کی اجازت کے بغیر یہاں رہ رہا ہو۔
باس لڑکے کو بے حد پسند کرنے لگا تھا۔اس کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ جس کام کے لیے سال مختص ہے وہ دو ماہ میں ہی مکمل ہو جاے گا۔
لڑکا ہوم سک ہو رہا تھا۔ اس سے زیادہ احساس پہلو تہی تھا۔
یہاں سے جانے کا فیصلہ غلط تھا۔ لیکن یہاں آنے کی اساس صحیح نہ تھی۔
وہ روکتے رہ جاتے ہیں۔
رات آٹھ بجے جد ہ کا سفر سوا ماہ میں اختتام پزیر ہوتا ہے۔اور طیارہ صحرے عرب سے بلند ہوتا ہے۔
منظر تبدیل ہوتا ہے ال رگگا دبیی روانگی۔
- میاں ظہوری

ال رگگا دبیی - ایک کہانی
لڑکے نے قطر سے آنے کے بعد تناو اور کھنچاو کی تشخیص شور اورکمپنی سیاست کا دباو کی تھی۔
ماحول میں محبت کے بجاے تکلف نے اسے سہہ چند کر دیا تھا۔
یہ اسکو قریبا ایک سال سے بستر پر رکھے ہوے تھا۔
اسکو رفع کرنے کے لیے اس نے جدہ کی نوکری کی حامی بھری تھی۔
اسکی دولہن راضی بمعنی زبان تھی لیکن بزبان دل اگر سنیں تو آنکھیں کچھ اور کہہ رہیں تھیں۔
مسکراتے چہرے پر پلکوں میں بھری نمی کسی اور ہی بات کی خبر دے رہی تھی۔
اس ناراضی اور والدین سے اوپری تعلق اس کو جلد ہی جدہ سے کراچی واپس لے آیا تھا۔
لیکن نہ اسکا جسم ابھی پوری طرح کراچی آنے کے لیے تیار ہوا تھا نہ ہی کراچی میں کچھ تبدیل ہوا تھا۔
لیکن وہ کراچی میں اپنے بستر پر لیٹا ہوا تھا۔
لڑکی اس منظر سے عاجز تھی۔
وہ بات بے بات کچن دوڑ جاتی کہ تکلف کی باتیں مذید لڑکے کی طبیعت خراب نہ کریں۔
لڑکا کراچی میں ایک کینیڈین ادارے میں نوکری کر رہا تھا۔
لیکن جسم ساتھ نہیں دے رہا تھا۔
شور، گھریلو ذمہ داریاں۔
دولہن و بچوں کے ساتھ لطف و کرم سے رہنا نوکری کے بوجھ کے ساتھ مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا تھا۔
نوکری ختم ہوتی ہے
لڑکا اس منظر پر ہے جو دولہن کو نہیں بھاتا۔
لڑکا دبیی کا ویزا نکالتا ہے اور ایک دفعہ پھر ایک غیر رضامندی کے ماحول میں سفر کا بیگ بناتا ہے۔
طیارہ پیتیس ہزار فٹ پر بحیرہ عرب کے اوپر سے دوڑے چلا جا رہا تھا۔
منظر تبدیل ہوتا ہے کراچی ایرپورٹ پر دوستی۔
- میاں ظہوری

کراچی ٹو دبیی - ایک کہانی
لڑکے نے دبیی جانے سے پہلے ایک یو ٹیوب کے لڑکے سے دوستی کی تھی ۔
وہ آنے والوں کو نوکری اور پلنگ کراے پر دیتا تھا۔
وہ یہ کام اپنے لنکس بڑھانے کے لیے کر رہا تھا۔
لیکن اللہ کو کچھ منطور تھا۔ کراچی ایرپورٹ پر ایک لڑکا بیٹھا تھا۔
لڑکے نے اس سے پوچھا کہ آپ دبیی جا رہے ہیں۔
اس نے سر حامی میں ہلایا۔
اس نے پوچھا اور آپ۔ لڑکے نے دبیی بتایا۔
اس نے پوچھا کہ آپ کہاں رہتے ہیں دبیی میں۔میرے پاس کوی جواب نہ تھا۔
وہ بھانپ گیا۔ اس نے کہا کہ میں ال رگگا میں رہتا ہوں۔ آپ چاہیں تو میں پلنگ کا پتہ کروں۔
اندھا کیا چاہے۔ دو آنکھیں۔
بس دبیی ایرپورٹ سے ٹیکسی کے ذریعے وہ لڑکا ال رگگا لے گیا اور ایک جگہ دلا دی۔
وہیں لڑکوں سے کھانے کا طے ہو گیا۔اس لڑکے نے سم دلا دی۔ پہلے دن کمرے کے لوگوں نے کھانا گفٹ کیا۔
لڑکا جہاں تک ممکن ہوتا جاب کے لیے اپلای کرتا ورنہ آرام جو درکار تھا۔
بستروں میں کھٹمل تھے۔اور زبان پر پینٹ نیچے اتارنے کے قصے۔
شام کو ال رگگا میں عورتیں ملنےلگتیں۔ وہ شام کو جلد کھانا کھاتیں اور گاہک کے انتظار میں بیٹھی رہتیں۔
کچھ فلپینی مرد مساج مساج مساج کی آوازیں جا بجا آہستہ الفاظ میں کہتے ملتے۔
سڑکوں پر سینکڑوں مساج کے کارڈ پڑے ہوتے۔
لڑکے کی بیٹی نے کہا تھا بابا آپ انیس دن بعد واپس آجایے گا۔
اس عجیب ما حول میں بھلا کیا آرام ملنا تھا۔
کراچی واپسی کوی خشک کن خیال نہ تھا۔
اسلام آباد پر فضا ہے۔ کیوں نہ وہاں کچھ وقت گزار لیا جاے۔
دبیی کی بلند و بالا عمارتوں کو اپنی پشت دکھاتے ہوے پی آی اے کا طیارہ اسلام آباد کی طرف محو پرواز تھا۔
منظر تبدیل ہوتا ہے اسلام آباد کے چند دن۔
- میاں ظہوری

اسلام آباد کے چند دن - ایک کہانی
ٹھیک انیسویں دن، جیسا کہ لڑکے کی بیٹی نے کہا تھا جہاز دبیی سے اڑ چکا تھا۔
اسلام آباد سے ایک جاب کی آفر آی تھی لیکن وہ جگہ پر ہو چکی تھی۔
کیا اسلام آباد کے ہوٹِل میں رہا جاے؟
کسی نے مشورہ دیا کہ ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ڈی ایچ اے سٹی ہے وہاں کراے پر اسٹوڈیو لے لو۔
لڑکا مالک مکان کو دس ہزار روپے ایڈوانس دے کر ہوٹل واپس آیا۔
اسکا ارادہ یہیں جاب کرنے کا ارادہ تھا۔
تھکاوٹ کے مارے برا حال تھا۔
رشتوں میں کشش اور کھنچاو ہوتاہے۔
وہ بلاتے ہیں۔
وہ پاوں کی زنجیر بن جاتے ہیں اگر انکی اجازت نہ ہو۔
کسی کا چین، کسی کا قرار لڑکے کی کراچی موجودگی میں تھا۔
مالک مکان کو کال کر کے منع کیا۔
جسم کی ہر نس ایک دھاگہ بنی ہوی محسوس ہو رہی تھی۔
ہر دھاگی تنا ہوا تھا۔
ایک نادیدہ طاقت بار بار لڑکے کو کراچی کیوں لیے آتی ہے؟
کیا پھر کراچی جانا ہو گا جہاں دولہن کو بستر پر لیٹا ہو لڑکا پسند نہیں۔
کیا پھر اسی تکلف والی محبت میں شب و روز گزارنے ہوں گے۔
رگوں کے دھاگے تن کر ٹوٹنے کے قریب تھے۔
ذہن سے تمام خیال اچٹتے ہوے محسوس ہو رہے تھے۔
ہر تدبیر ناکام ہوتے دکھای دے رہی تھی۔
بالآخر میٹرو سے بلیو ایریا جا کر لڑکے نے ٹکٹ حاصل کیا۔
اسلام آباد کے خوبصورت مارگلا ہلز کو اپنے پیچھے چھوڑے پرواز کراچی کی طرف اڑے چلی جا رہی تھی۔
منظر تبدیل ہوتا ہے طبعیت مزید خراب اور کولا لمپور روانگی۔
- میاں ظہوری

کولا لمپور - ایک کہانی
اسلام آباد سے واپسی پر لڑکا بستر پر یا مسجد کے فرش پر ہوتا تھا۔
باطنی طور پر نہ جانے کون کون سی قوتیں تھیں جو رگوں کو کحنچ رہیں تھیں۔
بعض کو شبہ ہوتا کہ جن یا جادو ہو گیا ہے۔
اسی دوران لڑکے نے کولا لمپور کے دو انٹرویو دیے جو دونوں کامیاب ہوے۔
گھر والوں کی اجازت سے لڑکا کولا لمپور آ گیا۔
کولا لمپور ہریالی سے پر ہے۔ بارش ایسی کہ فارسٹ گمپ کی مووی ماند پڑ جاے۔
گرج ایسی کہ جراسک پارک کو دہلا جاے۔
اور چمک ایسی کی سیونگ پرایویٹ رایان کی انکھیں چندھیا جایں۔
اس دلکش منظر سے لڑکے کے اندر کا منظر تبدیل ہوا۔
کان، آنکھیں، دل، دماغ، چمک، لپک، جھپک ایک ایک کر کے واپس آنے لگیں۔
دوست جانتے ہیں کہ یہاں سے ایک راستہ رشیا اور ایک چین جاتا ہے۔
لیکن فی الحال وہ مناسب قوت کے انتظار میں ہے کہ اگلا قدم کیا ہو۔
اللہ آپ سب کو سلامت رکھے۔
منظر عارضی طور پر منقطع ہو گیا ہے اب کوی دوسرا کوی منظر تراشے۔
- میاں ظہوری
 

سید رافع

محفلین
اگلی منزل -ایک کہانی۔قسط 3
وہ ایک منزل تھی۔لڑکا اب آپ دیکھیں گے کہ اگلی منزل کی طرف کوچ کرے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کون رکتا ہے اور کون کوچ کرتا ہے۔اب مختصر مختصر جملے پچھلی منزل کی کمتری اچھی طرح واضح کریں گے۔
ہر منزل سے کچھ نہ کچھ فایدہ تو ہے۔ لیکن آدمی سستائے گا۔ پھر اگلی منزل۔
ایک اہم بات۔ یہ اس علم کی شاہرہ کا قایدہ ہے کہ چلنے والے ایک دوسرے سے واقف ہوں۔ رات کے وقت رسول اللہ اپنی زوجہ کے ساتھ گلی سے گزرے تو دو انصاری صحابی بھی گزرے۔ آپ نے انکو روکا اور کہا میری زوجہ ہیں۔ انہوں نے کہا یارسول اللہ آپ سے ہم یہ گمان۔ آپ نے فرمایا مفہوم ہے کہ گمان ٹھیک کرنے کے لیے۔
یہ تو ایک عام مرد بھی سمجھ سکتا ہے کہ کچھ ہمدردی کی ضرورت نہ ہو گی تبھی تو کہانی کے پیرائے میں بیان کرنے کے لائق ہوا۔ مخلص دوست تجسس نہیں کر رہے ہوتے بلکہ وہ تو خیر خیریت پوچھ رہے ہوتے ہیں۔ اور خیریت میں کمی دیکھ کر افسردہ ہوتے ہیں اور اپنے تعاون کا پوچھتے ہیں۔ اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ کال کر کے خیریت پوچھتے ہیں۔ بعض لکھ کر کسی کوتاہی کے لیے معذرت کرتے ہیں۔ بعض اسقدر افسردہ ہوتے ہیں کہ لکھنا ہی بند کر دیتے ہیں۔ بعض کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیسے اس موقعے پر بولیں یا کیا کہیں۔ یہ سب اخلاص کی کلیاں ہیں۔
لڑکا یہ سب زینب عالیان سریا والا بچہ اور عام انسانوں کی صورتحال کی وجہ سے تحریر کررہا ہے۔ لڑکے کو سخت دکھ ہے ان بچوں کا۔
منظر تبدیل ہوتا ہے قلب میں دوبارہ زینب کی یادہ تازہ ہوتی ہے۔



زیب -ایک کہانی
زینب چھ سال کی بچی تھی۔
وہ بھلے شاہ کے شہر قصور میں رہتی تھی۔
چھ سال کی بچی ہوتی ہی کیا ہے، گڑیا۔ کھیلتی ہوی ایک پری۔
لیکن اس ملک کے لوگ غفلت میں تھے۔ وہ بچوں کی حفاظت اپنے یا دوسرے کی بنیاد پر کرتے۔
اگر ان کے بچے محفوظ ہوں تو وہ تجسس کیا کرتے تھے۔ وہ قہقہے مارتے۔
اللہ نے کہاوَلَا تَجَسَّسُوا یعنی اور تجسس نہ کرو۔
پچھلی کہانی شاید اس قلب کو مطمِن کر دے جو تجسس کرتا ہو۔یا شاید وہ کبھی مطمین نہ ہو کیونکہ زندگیاں تبدیل ہو رہیں ہیں۔
جس کی آنکھوں کو قرار نہ ہو۔
جو لوگوں کے خوف میں اللہ کے خوف سے زیادہ مبتلا ہو۔
جو مخلوق خدا کو انکے پاک نہ ہونے پر معطون کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔
جس کے پاس کوی پیغام نہ ہو۔
جس کا دل غضب سے بھرا ہوا ہو۔
زینب بھلے شاہ کی سرزمین پر اپنے گھر سے قرآن پڑھنے نکلی۔
منظر تبدیل ہوتا ہے۔ کیا درندوں کے نام بھی علی اور عمران ہو سکتے ہیں؟عمران علی زینب کو دیکھتا ہے۔


پچھلی منزل -ایک کہانی
زینب میری بیٹی نہیں ہے۔
عمران علی زندہ رہ سکتا ہے۔
عمران علی زینب کو دیکھتا ہے۔ وہ اسے بہلاتا ہے۔ ہاتھ تھامتا ہے۔
وہ اس سے قبل سات اور بچیوں کا ہاتھ تھام چکا تھا۔
لڑکا اپنی کہانی یوں بھی تو بیان کر سکتا تھاکہ نتیجہ نکلتا کہ باپ نے غلط کیا۔
پھر اس نے اسکی یتیمی کے تذکرے سے کہانی کیوں شروع کی؟
لڑکا اپنی کہانی یوں بھی تو بیان کر سکتا تھاکہ نتیجہ نکلتا کہ ماں نے غلط کیا۔
پھر اس نے اسکے خوابوں کے چکنا چور ہونے کے تذکرے سے کہانی کیوں مزین کی؟
لڑکا اپنی کہانی یوں بھی تو بیان کر سکتا تھاکہ نتیجہ نکلتا کہ پہلی دولہن نے غلط کیا۔
پھر اس نے اسکے معصوم ہونے کے تذکرے سے کہانی کے تانے بانے کیوں بنے؟
لڑکے کو خوف تھا کہ اگر اس نے انصاف نہ کیا تو ظلم کیا۔
ظلم تاریکی ہے۔
وہ تاریک لوگوں کے درمیان مذید تاریکی کے اسباب نہیں چاہتا تھا۔
لڑکے نے بیان کوتاریک نہ کیا لیکن مقدر سے بیان کے بعد راضی بھی رہا۔
بیان مقدر بنا دیتے ہیں۔
بیان مقدر بگاڑ دیتے ہیں۔
لوگ اپنے خلاف بیان دینے والے بن جاتے تو زینب ہنستی کھیلتی جوان ہوتی۔
اپنے پیا کے گھر بیاہ کے جاتی۔یہ اسکا مقدر ہوتا ۔
وہ اسکا مقدر نہ ہوتا جو ہوا۔
لوگ اپنی ذات کو انصاف سے بیان کرنے کی طاقت پیدا کریں تو ہم میں عمران علی پنپنے نہیں پاے گا۔
سخت کردار مردوں کا اسکو سامنا ہو گا جو اسکی بدکرداری کو چور چور کر دیں گے۔
عمران علی زینب کو اندھیرے میں لے جا کر اسکے کپڑے اتارتا ہے۔
وہ چلاتی ہے۔
وہ بھاگتی ہے۔
روتی ہے۔
وہ اسے پکڑتا ہے۔
وہ اپنی شلوار اتار چکا ہوتا ہے۔
وہ اسکو زمین پر دے مارتا ہے۔
اپنا عضو مخصوص اس معصوم کے منہ میں دے دیتا ہے۔
اسی دوران زینب کی زبان دانتوں کے درمیان آ کر کٹ جاتی ہے۔ بچی تڑپ کے بے حال ہو گی۔
اسکے ماں باپ عمرے میں اور اسکے ملک کے لوگ تجسس اور قہقہوں میں مصروف تھے۔
اب عمران کے کھیل کا آخری وقت آ چکا تھا۔
وہ اپنی سخت میکینک والے ہاتھوں سے اس نرمی کلی کے گالوں پر طماچے مارتا ہے۔
وہ اسکی ننھی ننھی رانوں کے درمیان بیٹھتا ہے اور اپنےعضو سے اسکا کلی جیسا جسم چیر دیتا ہے۔
وہ آخری بار روتی ہے۔
اسکا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔
وہ مر گی۔
عمران علی کوڑے دان میں پھول کو پھینک دیتا ہے۔
منظر تبدیل ہوتا ہے۔ کیا مقدر بن گیا، کیا تجسس پر قہقہ بلند ہو گیا، کیا اخلاص کا مکمل استعمال ہو گیا۔ نہیں ۔


یخ انچولی -ایک کہانی
لڑکے کی گاڑی انچولی کی بڑی امام بارگاہ سے ذرا دور بیریر کے پاس رکتی ہے۔
خود کش حملوں کی وجہ سے جا بجا یہ بیریر لگے ہیں۔
زینب جیسی ہر دور میں مرتی آی ہیں اور رونے والے غم کی رسم رو کر ادا کرتے آےہیں۔
یہ قدرت کا رحم جانچےاور تقسیم کرنے کا ذریعہ ہے۔
رحمت اللعالمین آے تو بے رحمی کہیں بڑھ کر تھی۔
دربار رسالب مآب لگا ہے۔
ایک صحابی ڈرتے ڈرتے آگے آتے ہیں۔
بیان کرتے ہیں جب میری بچی آٹھ سال کی ہوی تو خوب تیار کرنے کو کہا۔
وہ پوچھتی جاتی بابا کہاں لے جاتے ہیں۔
ننھے ہاتھوں سے میرے ہاتھ پکڑے تھے۔
میں ریگستان میں ایک گڑھا پہلے کھود آیا تھا۔
بچی کو آگے کیا۔ دھکا دیا۔ وہ پکارتی رہی۔
میں نے سب ریت برابر کی اور چلا آیا۔
یہ سننا تھا کہ رحمت للعالمین اسقدر روے کہ ریش مبارک تر ہو گَے۔
ہم بھی یہی رسم ادا کر رہے ہیں۔ آہ زینب۔
غم معمولی نہیں اللہ پکار اٹھتا ہے اپنے جلال کے ساتھ سورہ التکویر میں۔
اور جب زنده گاڑی ہوئی لڑکی سے سوال کیا جائے گا۔ کہ کس گناه کی وجہ سے وه قتل کی گئی؟
بھلا مقدر بنانے والا ہی نہ جانے گا؟
یہ سوال جلال در جلال کے طوفان کی خبر ہے!
لڑکا ذہن میں طلاق کا سوال لیے ایک ایسے گھر میں پہنچتا ہے جس کے دروازے پر بچے کے قد کے برابر چندہ بکس تھا۔
یہ گھر ایک اجڑا دیار تھا، امام بارگاہ کے عین سامنے۔
کچھ لکڑی اور فوم کے صوفے، کچھ بے ترتیب سامان اور دو بزرگوار وہاں تشریف فرما تھے۔
ایک کی نگاہ سخت گہری تھی۔ الفاظ چند تھے لیکن معلوم ہوتا تھا کہ ہر حرکت و سکنت کو جانچ رہے ہیں۔
لڑکا کہتا ہے اسلام و علیکم۔ دونوں مصافحہ کرتے ہیں اور بیٹھ جانے کا شارہ کرتے ہیں۔
منظر تبدیل ہوتا ہے۔ لڑکا اپنے آنے کا مقصد بیان کرتا ہے۔
- میاں ظہوری


شیخ انچولی -ایک کہانی
لڑکا کہتا ہے کہ میں طلاق کے متعلق آپ کا مذہب معلوم کرنا چاہتا ہوں۔
بزرگوار پہلے شیخ کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں۔
مطلب ان سے پوچھیں۔
جوں ہی لڑکا کہتا ہےمیں نے انٹرنیٹ پر پڑھا ہے کہ طلاق کے لیے طہر، عورت کا بے مباشرت ہونا، دو عاقل گواہوں کا ہونا اور خطبہ طلاق پڑھنا ضروری ہے۔
پہلے بزرگوار چونک کر شیخ کو کہا لیجیے اب سب انٹرنیٹ پر آ گیا۔
شیخ ان کی طرف ایک نظر کرتے ہیں اور آنکھوں کی پتلیوں کو درمیان میں لے جا کر پلک جھپک لیتے ہیں۔
وہ بتا دیتے ہیں سب نہیں محض یہ ہی پہنچا ہے۔
اصل ابھی بھی سینے میں ہی ہے اور مخصوص لوگوں تک محدود ہے۔
شیخ لڑکے سے مخاظب ہو کر کہتے ہیں، آپ اہل سنت سے ہیں۔یہ سوال نہیں گفتگو کا آغاز تھا۔
لڑکا کہتا ہے جی ۔آجکل علما اہل محبت کی صحبت اور مساجد میں آنا جانا ہے۔
شیخ کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ امام جعفر صادق کے شاگرد تھے۔وہ حق بیان کرنے سے پہلے لڑکے کو حق کی معرفت میں دیکھنا چاہ رہے تھے۔
لڑکا کہتا ہے کہ ابو حنیفہ کہتے تھے کہ اگر چہ ان کے پاس دو سال گزارے لیکن ساری زندگی گزارتے تو بھی کم تھا۔
اب شیخ اس پر چونکتے ہیں۔ قبل اس کے وہ کچھ کہتے لڑکا یہ کہہ کر قصہ تمام کرتا ہے کہ تمام نور وہیں سے آرہا ہے۔
جب انہوں نے لڑکے کا دل علی کے حق پر ہونا معلوم کر لیا تو اب مرحلہ تھا کہ معلوم کریں کہ عشق کتنا ہے؟
منظر تبدیل ہوتا ہے شیخ اور بزرگوار کی دعوت۔
- میاں ظہوری


شیخ انچولی -ایک کہانی
شیخ بزرگوار کو چاے کا کہتے ہیں۔
بزرگوار لڑکے سے پوچھتے ہیں تو لڑکا پانی کے لیے کہتا ہے۔
پانی آتا ہے۔
شیخ کی تیز نظریں اس پر ہیں کہ لڑکے کا نشت و برخاست کس نوعیت کا ہے۔
لڑکا پانی ہاتھ میں لے لیتا ہے۔
اب شیخ کی نظریں اس پر ہیں کہ پانی پیتا ہے کہ نہیں۔
ہمارے گھر کا کھاتا تو ہے نہیں لیکن معلوم ہم سے حق کرنے آیا ہے!
لڑکا پانی کا ایک گھونٹ لیتا ہے تو شیخ کہتے ہیں ہمارے ہاں طلاق بہت سخت ہے۔ شرایط ہیں۔
پھر وہی سب بیان کر دیتے ہیں جو ابتدا میں لڑکے نے کہا تھا۔
بزرگوار چاے لے کر آ چکے ہوتے ہیں۔
شیخ کی تیز نظریں اس پر ہیں کہ گلاس کہاں رکھا جاتا ہے اور چاے کیسے لی جاتی ہے۔
لڑکا گلاس کو صوفے کے ہتھے پر رکھتا ہے اور چاے بزرگوار سے لے لیتا ہے۔
آپ کچھ نہ کریں۔ آپ اور آپ کی بیوِ ی دل میں فقہ جعفریہ کا اقرار کر لیں شیخ چاے پینے کا اشارہ کرتے ہوے لڑکے سے کہتے ہیں۔
یہ فقہ جعفریہ میں شامل ہو جانے کہ دعوت تھی۔
منظر تبدیل ہوتا ہے بزرگوار اور مودودی۔
- میاں ظہوری

شیخ انچولی -ایک کہانی
شیخ کی دعوت بلاشبہ دعوت عشق تھی۔
وہ چاہتے کہ ایک مرد اور اسکی بیوی بچے اور میسر آیں اہلبیت علیہ السلام کو۔
سلام ہے ایسے مردوں کو جو رسول اللہ اور اہل بیت کےلیے جدوجہد کر رہیں ہیں۔
لیکن لڑکا قدیم طریقے پر واپس لوٹنا جاتا تھا۔
وہاں جہاں رسول اللہ قبل از ظہور اسلام تھے۔
وہ صادق و امین تھے۔
رشتے داروں اور ضرورت مندوں کی ایانت کرتے۔
تنہای میں اللہ کو یاد کرتے۔
برہنہ طواف کو یاد کرتے کہ یہ حادثہ کیونکر ہے۔
کیونکر یہ مختلف قبایل اور فرقے صدیوں سے خون بہا رہے ہیں۔
زینب جیسی کو یاد کرتے۔
لڑکا کہتا ہے کہ اسکی آنکھوں کی چمک کی خاطر ہم کو اپنے آپ کو بدلنا ہو گا۔
اس جھلملاتی مسکراہٹ کی خاطر کھڑا ہونا ہو گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل ہزاروں زندہ زیر زمیں چلیں گیں۔ وہ آے تو آج تک یہ کرنوں جیسی بچیاں زندہ ہیں۔ انکے سامنے ایک کا تذکرہ ہوا تو روے اسقدر روے کہ ریش مبارک تر کیے۔
ہمارے زمانے میں بھی سیکڑوں ماری جا رہیں ہیں۔ لیکن ہم ایک زینب کے لیے نقل رسول میں رویں گے بھی اور افراد کا تزکیہ بھِی کریں گے کہ اب ایک اور اس طرح نہ زمین پر تڑپے۔
لڑکا بزرگوار سے کہتا ہے کہ وہ علم کی شارع پر ہے۔
لڑکا کہتا ہے کہ ۲۲ سال قبل ابتدا میں مودودی کو پڑھا۔
حنفی تھے۔
بزرگوار کو یہ بات مناسب معلوم نہیں ہوتی۔ کہا وہ کب حنفی تھے۔ امام تیمیہ سے متاثر تھے۔ لیکن اچھے عالم تھے۔
لڑکا کے ذہن میں خلافت و ملوکیت کا مکا دوڑ گیا جس نے موددی کو بزرگوار کے نزدیک اچھا عالم بنا رکھا ہے۔
اب بزرگوار لڑکے کے عشق اہل بیت کا امتحان چاہتے تھے۔
وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ لڑکا کہاں تک اہل بیت کے لیے بول سکتا ہے۔
سو گفتگو کا رخ خلفہ ثلثہ کی طرف مڑتا ہے۔
منظر تبدیل ہوتا ہے لڑکے کا عشق کا نظری امتحان۔
- میاں ظہوری


شیخ انچولی -ایک کہانی
بزرگوار فرماتے ہیں کہ ہم نے بھی اسلامک ہسٹری میں ماسٹر کیا ہے۔
مجھے اس بات سے دکھ ہوتا ہے کہ قدردانی کی کس قدر کمی ہے۔
کپڑے، چہرے مہرے کی وجہ سے کیسے کیسے لعل بے وقعت پڑے ہیں۔
اور وہ جو رسول اللہ کے وصال کے موقعے ہوا، بزرگوار لڑکے کو مخاطب کر کے عشق کے نظری امتحان کا ایک اور سوال سامنے رکھ دیتے ہیں۔
ان کا مدعا سقیفہ بنی ساعدہ تھا۔
یہ ایک باغ نما بیٹھک کی جگہ تھی مدینے میں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد یہاں اوس و خزرج کے انصار جمع ہوے۔
ان کے درمیان مسلمانوں کے سربراہ کے بارے میں مکالمہ بڑھا۔
علی و عباس رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دفن کے انتظامات میں مشغول تھے۔ ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور چند مہاجر صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ وہیں پاس میں بیٹھے تھے۔
باغ سے ایک صاحب آے اور اطلاع عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور پھر ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ تک پہنچی۔
سقیفہ پہچنے کے بعد معاملہ سلجھانے کی کوشش ہوی۔
آخر یہ ہوا کہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا ہاتھ اٹھا کر کہا کہ میں ان سے بیعت کرتا ہوں۔
علی کرم اللہ وجہ ایک عرصے اس بات سے راضی نہ تھے لیکن امہ کے مفاد میں ہاتھ تھاما، مشورے دیے اور سکوت اختیار کیا۔
لڑکے نے بدر میں چاروں خلفا دکھای دیے، سو لڑکے نے بھی سکوت کیا اور بزرگوار سے کہا ابھی میں علم کے حصول میں مشغول ہوں۔
شیخ نےایران کے ایک بادشاہ کا قصہ سنانا شروع کیا تاکہ دل کی بات معلوم کریں۔
منظر تبدیل ہوتا ہے شیخ ایران کے بادشاہ کا قصہ سناتے ہیں۔
- میاں ظہوری

شیخ انچولی -ایک کہانی
بزرگوار کو لڑکے کا سکوت پسند نہ آیا تھا کہ بات دو ٹوک نہ تھی۔
لیکن اس بات کو کھولنے کا مطلب لڑکے کے نزدیک تسبح کوتوڑنا تھا کہ پھر خم غدیر، فدک، خطبہ فاطمہ علیہ السلام، خلافت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ، جمل و صفین، معاہدہ امام حسن و شہادت حسین تک بات محدود نہ رہتی بلکہ چودہ سو سال کے علما کی تحقیات اور موجودہ دور کے حالات اور کم ظرفی و جذبات اس میں شامل ہو جاتے جس کو تھامنا نور مہدی علیہ السلام مانگتا ہے۔
شیخ نےپھر بھی اصرار کیا اور کہا محض ہمارے طلاق کی تحقیق کی وجہ سے سارا ایران مسلمان ہوا۔
جب کہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں ایران فتح ہوا۔ اور مسلمان ہوا۔
شیخ نے اپنی بات آگےبڑھاتے ہوے کہا : ایک ایرانی بادشاہ تھا، اس نے عالم سے پوچھا میں نے اپنی ملکہ کو طلاق دی اب کیا کروں کہ واپس میرے پاس آے۔ معلوم ہوا کہ بادشاہ مسلمان تھا۔ ان عالم نے کہا ہمارے اصل عالم عراق میں رہتے ہیں۔ یوں عالم طباطبائي عراق سے ایران آے اور بادشاہ ملکہ کو ایک کرایا اور اسکے بعد سارا ایران مسلمان ہو گیا۔
شیخ کی بات ختم ہوی۔
لڑکے نے بغیر صوفے کے ہتھے پر ہاتھ رکھے اپنے ہاتھ میں موجود چاے کی پیالی کو دو قدم دور ایک سایڈ ٹیبل پر رکھا۔
یہ یوں پیالی کو جلدی سے رکھنا شیخ کو پسند نہ آیا۔
وقت کافی ہوچکا تھا۔
لڑکے نے اجازت چاہی اور ہاتھ مصافحے کے لیے آگے بڑھایا۔
شیخ نے مصافحہ نہ کیا۔
منظر تبدیل ہوتا ہےلڑکے کی گاڑی شیخ نیپا کی طرف روانہ ہو جاتی ہے۔
- میاں ظہوری
 

سید رافع

محفلین
شیخ نیپا - ایک کہانی۔قسط 4
لڑکے کی گاڑی نیپا چورنگی کی جانب چلی جا رہی تھی۔
حق سادہ ہوتا ہے۔ جب باطل کے سر پر پڑتا ہے تو اسکو پھاڑ کر رکھا دیتا ہے۔
بات سادی ہے۔
عمران علی زینب کے سر پر کھڑا ہے۔
کیا کسی کے ہاتھ میں دم ہے کہ اسکے سر کے بال پکڑ کر ننھی گڑیا کو اسکے گھر پہنچاے؟
کیا کسی کے ہاتھ میں ذو الفقار ہےکہ اگلی سحر قاضی کا فیصلہ ہو اور وہ عمران علی کی گردن اتارے؟
بات ہے یہ سحر ہر سچ کے ساتھ نزدیک ہو گی۔
سات ارب کی آبادی میں چند کروڑ انصاف بھرا سچ بولنے لگیں تو جھوٹ کے مٹکے میں وہ چھید ہو گا کہ ہر غلط گردن اتر جاے گی۔
ہر سچ شجاعت سے بھرپور ہوتا ہے۔
ہر مکر بزدلی سے لدا ہوتا ہے۔
سچ برق رفتار اور مکر بوجھل ہوتا ہے۔
سچ سریع الحساب مکر منکر الحساب۔
سچ بہادر مکر ڈرپوک۔
زینب کے لیے سچ بولنا پڑے گا۔
لڑکے کی گاڑی نیپا کے پاس سڑکوں پر آہستہ چل رہی ہے۔
امام بارگاہ کے اردگرد بیریر کا جا ل ہے۔
لڑکا گاڑی کو دور روکتا ہے۔ ہر طرف گٹر کا پانی بہہ رہا ہوتا ہے۔
شلوار کے پانچے اوپر کر کے لڑکا گٹر کے پانی کے درمیان کچھ خشک کچھ تر جگہ پر پاوں رکھتا امام بارگاہ کے چھوٹے دروازے پر پہنچتا ہے۔
گارڈ بے ریش، لڑکا ٹوپی لگاے باریش۔
گارڈ فورا پہچان جاتا ہے کہ یہ ہمارے فرقے سے نہیں۔
لڑکا سلام کے بعد کہتا ہے کہ مجھے امام صاحب سے ملنا ہے۔
گارڈ کہتا ہے کہ ساڑھے آٹھ بجے آیں جماعت کے بعد ملاقات ہو سکتی ہے۔
لڑکا تھکا ہوا ہوتا ہے۔ انتظار کے بجاے اگلے دن کا خیال اسے گاڑی کی طرف واپس لے جاتا ہے۔
منظر تبدیل ہوتا ہےلڑکا اگلے دن شیخ نیپا کے پاس پہنچتا ہے۔
- میاں ظہوری


شیخ نیپا - ایک کہانی
رات کے ساڑھے آٹھ بجے لڑکاامام بارگاہ کے دروازے پر پہنچتا ہے۔
جماعت ختم ہو چکی ہوتی ہے۔
کچھ مرد عورتیں گیٹ کے باہر خوش مزاجی سے بات کر رہے ہوتے ہیں۔ خیر و عافیت دریافت کر رہے ہوتے ہیں۔
جبکہ پلیٹوں اور چمچوں کے ٹکرانے کا شور امام بارگاہ کے چھوٹے دروازے کے باہر سے سنا جا سکتا تھا۔
لڑکا گارڈ کو سلام کرتا ہے۔ گارڈ پہچان گیا ہوتا ہے مسکرا کر جواب دیتا ہے۔
میں بلاتا ہوں امام صاحب کو ۔ گارڈ پلٹتے ہوے لڑکے کو اپنے جانے کا مقصد بارآور کراتا ہے۔
جو ایک نظر رسول کو دیکھے وہ صحابی۔ جس کو رسول خود پالیں وہ علی۔ یہ سچ زینب کو بچاے گا۔
جس سے راضی ہونے کے قصے قرآن میں وہ صحابی۔ جس کو ہر مسلمان مرد و عورت ہر دو رکعت میں بیٹھ کر سلام بھیجے وہ علی کی آل۔ یہ سچ زینب کو بچاے گا۔
جس کی پیٹھ پر رسول سواری کریں غار ثور تک وہ ا بوبکر۔ جو بستر نبوت پر سو جاے وہ علی۔یہ سچ زینب کو بچاے گا۔
جو غار میں غم زدہ ہو اور رسول تسلی دیں وہ ابوبکر۔ جو بستر نبوت پر ایسی میٹھی نیند سوے کہ کم از کم اس رات تو موت نہ آے گی وہ علی۔ یہ سچ زینب کو بچاے گا۔
جو تین روز اونٹنی کا دودھ لے کر آے وہ ابو بکر۔ جس کے سپرد رسول تمام امانتیں سپرد کریں وہ علی۔یہ سچ زینب کو بچاے گا۔
صحابی کے معنی صحبت رسول پانے والا کچھ گھنٹے کچھ دن۔ اہل بیت کے معنی رسول کے گھر میں رہنے والا سارا دن اور پوری رات ہر روز اور سارا سال۔ یہ سچ زینب کو بچاے گا۔
بات یہ ہے کہ علم کا دور دورہ زینب کو بچاے گا۔
اور علم علی سے ہے۔
علی شہر علم کا دروازہ۔
ہر علم علی کے ذریعے شہر سے باہر نکلتا ہے۔
ہر علم حاصل کرنے والے کو اس سخت و کڑک دروازے سے گزر کر ہی شہر میں داخلہ ملتا ہے۔
ابو بکر وہ کہ سورہ توبہ کا علم و آیات دے کر حج پر بھیجے جایں۔
لیکن جبرایل فرمان الہی لے کر پہنچیں کہ علی کو بھیجیں کہ آیات ابوبکر نہیں علی سنایں گے۔
علی صاحب تلاوت ہیں کہ قرآن کے نور کو گھوڑے پر سوار ہونے کے دوران تلاوت کر لیں۔
علی شہر علم میں مانند دروازہ جڑے ہیں سو علم میں شہر سے سب سے زیادہ متصل۔
سو بعد از نبی سب سے زیادہ اللہ کو پہچاننے والے۔
سو بعد از نبی اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والے۔
سو امام کہ اللہ پکارتا ہے کہ ہم سب سے زیادہ ڈرنے والوں کو امام بنایں گے۔
سو انکا سقیفہ بنی ساعدہ پر راضی نہ ہونا محض علم اور اللہ سے ڈرنے کے سبب ہے اور عین حق ہے۔
سقیفہ بنی ساعدہ ایک حادثہ ہے۔
ویسا ہی حادثہ کہ بعض قبایل معانعین زکوۃ ہوتے ہیں اور بعض میں مسلیمہ جیسے نبوت کا دعوی کرتے ہیں۔
یعنی تصور کریں کہ علی و عباس ابھی قبر مبارک کی تیاری میں مصروف ہیں۔
ابوبکر و عمر پاس بیٹھے ہیں اور انصار کے چند لوگ اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ انکا امام کون ہو!
ان کا خلیفہ کون ہو!
کیا یہ کام مسجد نبوی میں اطمینان سے نہیں ہونا چاہیے تھا کہ مسلمان ذرا رسول کی نماز جنازہ سے تو فارغ ہو لیتے!
اگر بوجہ علم کہ انبیا کی میراث علم ہوتی ہے فاطمہ فدک حاصل نہیں کر پاتیں تو علی کو سقیفہ کی بیعت سے بڑھ کر امام اور خلیفہ ہونے کا حق بھی عین یہی علم ہے۔
امام صاحب چھوٹے گیٹ سے باہر آتے ہیں۔ وہ ایک بے ریش عالم مرد تھے۔
گارڈ دو کرسیاں گیٹ کے باہر رکھ دیتا ہے۔
لڑکے کا مدعا سننے کے بعد وہی فرماتے ہیں جو شیخ انچولی نے فرمایا۔
کہتے ہیں ہمارے ہاں طلاق قرآن کے طریقے پر ہے۔
شیخ نے سچ فرمایا۔
وہ فرماتے ہیں کہ ہمارے یہاں اجتہاد شب و روز جاری ہے۔
فرماتے ہیں کہ اہل سنت میں اجتہاد کے دروازے بند ہیں۔ صدیوں سے!
کہتے ہیں کہ ہمارے یہاں لاکھوں کی تعداد میں ورق ہیں جن کو اہل احباب ہی دیکھ سکتے ہیں۔
وہ عام مردوں کی رسای سے دور ہیں۔
کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں زکوہ سونے اور چاندی پر ہے۔ روپے اور بینک کی رقم پر نہیں کہ جنس تبدیل ہو گی۔
شیخ ایک کتاب لڑکے کو دیتے ہیں جو مکالمہ ہے ایرانی عالم اور الازہر یورنیورسٹی کے عالم کے درمیان۔
کہتے ہیں مطالعہ کے بعد آیں۔
لڑکا مصافحہ کر کے گاڑی کی راہ لیتا ہے۔
منظر تبدیل ہوتا ہےلڑکا کتاب کے مطالعے کے بعد شیخ نیپا کے پاس پہنچتا ہے۔
- میاں ظہوری

شیخ نیپا - ایک کہانی
شیخ نے پچھلی دفعہ چلتے چلتے کہا تھاکہ اب لڑکے سے شیخ کے گھر پر ملاقات ہو گی اور کتاب دی۔
کتاب بوجہ اخلاص اور حب اہلبیت میں دی گی۔
لیکن کتاب جعلی اور گڑھی ہوی تھی۔
صحف ابرہیم اور ابراہیم آگے تھے تو زبور اور داود کی کیا ضرورت؟
ابرہیم کے جانے کے بعد شاید کچھ مردوں کو زمین پسند آ گی سو انہوں نے صحف ابراہیم میں تبدیلی کی تاکہ زمین انکے پاس رہے۔
زبور آگی تھی توریت اور موسی کی کیا ضرورت؟
داود کے جانے کے بعد شاید کچھ مردوں کوحکومت پسند آ گی سو انہوں نے زبور میں تبدیلی کی تاکہ حکومت انکے پاس رہے۔
توریت آ گی تھی تو انجیل اور عیسی کی کیا ضرورت؟
موسی کے جانے کے بعد شاید کچھ مردوں کو اپنی بڑای پر غرور ہو گیا تھا سو انہوں نے توریت میں تبدیلی کی تاکہ فخر سلامت رہے۔
انجیل آگی تھی تو محمد عربی اور قرآن کی کیا ضرورت؟
عیسی کے رفع آسمانی کے بعد شاید کچھ مردوں میں زہد اتنا بڑھا کہ انہوں نے انجیل میں تبدیلی کی تاکہ رہبانیت میں پناہ ملے۔
قرآن آ گیا اور اسکی حفاظت اللہ نے اپنے ذمہ لے لی۔
اب محمد عربی کے پردہ فرمانے کے بعد لوگوں نے قرآن پر کتابیں لکھیں۔ لوگوں نے ان کتابوں کے رد میں کتابیں لکھیں۔ کتابوں کے نام وہی رکھے جو اچھی کتاب کے تھے لیکن اندر کچھ لکھ دیا کچھ اڑا دیا۔ کچھ نے کتابیں لکھیں جن میں محمد عربی کی کہی گی باتیں تھیں۔ کچھ نے اس سے ملتی جلتی کتابیں لکھیں جو باتیں محمد عربی نے نہ کہیں تھیں۔ان سب مردوں کا مقصد بھی وہی تھا، دنیا۔ کسی کو حکومت عزیز تھی۔ کسی کو حکومت گرانا مقصود تھا۔کسی کو حکومت سے خوف تھا۔ کسی کو حکومت سے مال چاہیے تھا۔ کسی کے اندر اتنی عزیمیت نہ تھی کہ لکھ کر اپنی جان گنواتا یا قید ہوتا۔ لڑکے نے اس قسم کی درجنوں کتابیں دیکھیں تھیں لیکن ان کتب کی تعداد لاکھوں میں ہے۔
الازہر فاطمید کے دور کی ہزار سالہ پرانی یادگار ہے۔یہ چودہویں اسماعیلی امام ال معیذ کے کہنے پر ایک ہزار سال قبل بنی۔
شیخ کی کتاب میں الازہر یورنیورسٹی کے شیخ ایک ایرانی شیخ سے سوال کرتے ہیں۔
یوں یہ خط و کتابت جاری رہتی ہے اور بالآخر ایک کتاب کی صورت میں شایع کر دی جاتی ہے۔
لیکن ایسا نہیں۔
یہ کتاب پڑھتے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ مصری شیخ بھی دراصل ایک ایرانی عالم ہیں۔
مصری شیخ کے سوال اسقدر بودے ہیں کہ الازہر تو کجا کوی درس نظامی کا طالب علم بھی اس سے بہتر انداز میں سوال کرے۔
کتاب کا مقصد وہی دنیا یا کسی حکومت کا فروغ اور بس۔
لڑکا گارڈ کو سلام کرتا ہے۔ اور شیخ کا پوچھتا ہے۔
شیخ عراق گے ہوے تھے۔
لڑکا کتاب گارڈ کو واپس دیتا ہے اور اب اسکے قدم گاڑی کی جانب تھے۔
منظر تبدیل ہوتا ہےلڑکاشیخ عایشہ منزل کی امام بارگاہ پہنچتا ہے۔
- میاں ظہوری
 

سید رافع

محفلین
شیخ عایشہ منزل - ایک کہانی۔قسط 5
عایشہ منزل کی امام بارگاہ پر گاڑی رکتی ہے۔
امام بارگاہ گویا امام حسین کی بارگاہ کے طرز تعمیر پر بنای گی ہے۔ حالانکہ برا ہے وہ پیسہ جو مٹی اور گارے پر لگے۔
بڑا گیٹ جیسے کہ ہر جگہ بند ہوتا ہے یہاں بھی بند تھا۔ علم محصور ہو کر رہ گیا ہے۔
لڑکا چھوٹے گیٹ پر موجود گارڈ سے امام صاحب کا پوچھتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ ظہر بعد آیں۔
یہ وہ وقت تھا کہ مرد آفس میں ہوتے ہیں۔
اندر سے مجلس کی آواز آ رہی تھی۔
گیٹ کے پاس طلسماتی طرز کے موضوعات کے بڑے پوسٹر لگے تھے جو شہر کی دیگر مجالس کے بارے میں تھے۔
زیادہ تر کا موضوع آمد امام مہدی تھا۔
زیادہ تر مرد بے ریش تھے۔ حالانکہ خوبصورت داڑھی تو سب کو بھلی معلوم ہوتی ہے۔
زیادہ تر مردوں کے چہرے سیاہ ہورہے تھے یا اسکے قریب تھے۔
حالانکہ کتاب چہرے سے سفید پوش کی پہچان بتاتی ہے۔ تَعْرِفُہُمْ بِسِیْمٰہُمْ۔ عبادت گزار کی طرف توجہ دلاتی ہے۔
چہرے ہی روشن اور چہرے ہی سیاہ ہونے کا بتاتی ہے۔
یورپ، ہنزہ، کےپی کے اور بلوچستان یا دیگر علاقوں کے لوگ گورے ہوتے ہیں روشن نہیں۔
یہ اس راہ کی اہم پہچان ہے۔
ورنہ ہر گورے عالم پر فریفتہ ہوں گے۔
چہرہ روشن ہونا غیر ضروری تعصب سے پاک ہونے کی دولت ہے۔ اور اوراد و تہجد کا کمال ہے۔
لڑکا اگلے روز کے ارادے سے واپس ہو گیا۔
اگلے روز بعد از ظہر پہنچا تو امام صاحب پھر بھی نہ تھے۔
لڑکے کے ذہن میں کچھ اگلے شیوخ کی یاد دوڑ جاتی ہے۔
منظر تبدیل ہوتا ہےلڑکاشیخ گلبرگ کا پتہ پوچھ رہا ہے۔
- میاں ظہوری
 

سید رافع

محفلین
شیخ گلبرگ - ایک کہانی۔قسط 6
ٖلڑکا قلب میں کتاب کی تشریح کی سیاہی سمیت گاڑی فضل مل کی جانب دوڑاے لیے چلا جا رہا تھا۔
اسکو گلبرگ میں ایک کتب خانہ مودودی کے شیخ کی اطلاع ملی تھی۔
غرض ان سے ملاقات اور اگلی منزل کی خبر لینا تھا۔
ایک صاحب نے مسجد کے پاس بنگلوں کے درمیان ایک پیچیدہ پتہ بتایا۔
گاڑی کتب خانے کے سامنے رکتی ہے۔
لڑکا ایک وہاں کام کرنے والے سے شیخ کا پوچھتا ہے۔
وہ اسے ایک مختصر سے کمرے میں دو نشستی صوفے پر بیٹھا دیتا ہے۔
شیخ کمرے میں تشریف لاتے ہیں اور مصافحہ کر کے ایک نشستی صوفے پر بیٹھ جاتے ہیں۔
لڑکا اپنے آنے کا مقصد بیان کرتا ہے۔
وہ کہتا ہے کہ وہ نوکری چھوڑکر کل وقتی انہی کاموں لگنا چاہتا ہےجن کا تذکرہ کتاب کی تشریح میں کیا گیا ہے۔
لڑکے کو وہ بہت رومانوی اور قلب کے قریب محسوس ہوتے ہیں۔
شیخ مسکراتے ہوے کہتے ہیں کہ نوکری چھوڑنے کا ہم کسی کو نہیں کہتے۔ آپ نوکری بھی کیجیے اور ہمارے ساتھ کام بھی۔
لڑکے کی امید کے بالکل برخلاف بات ہوی تھی۔اب آگے کچھ پوچھنے کی سمجھ باقی نہ رہی۔
شیخ لڑکے سے مل کر بہت خوش ہوے تھے۔
وہ پانی منگواتے ہیں اور یہ کہتے ہوے کمرے سے باہر جاتے ہیں کہ رکیں میں آتا ہوں۔
شیخ واپس آتے ہیں تو ان کے ہاتھوں میں ایک درجن سے زاید کتب تھیں۔
ہر کتاب کم ازا کم دو سو صفَحے کی تھی۔ ان سب کی مالیت کئی ہزار روپے تھی۔
یہ آپ کے لیے تحفہ۔ شیخ مسکراتے ہوے کتابیں لڑکے کی طرف بڑھاتے ہوے کہتے ہیں۔
شیخ لڑکے سے مصافحہ کرتے ہیں۔
منظر تبدیل ہوتا ہےلڑکا کتابوں کا مطالعہ مکمل کرتا ہے اور شیخ المصطفی ٹرسٹ کے پاس پہنچتا ہے۔
- میاں ظہوری
 

سید رافع

محفلین
شیخ المصطفی ٹرسٹ - ایک کہانی۔قسط 7
لڑکے کی والدہ کے ماموں زاد بھای کے گھر شادی ہے۔
شامیانہ سڑک پر لگا ہے اور گول میزوں کے اردگرد لال کپڑا پہنے کرسیاں سجیں ہیں۔
لڑکے کے ہاتھ میں مودودی صاحب کی کتاب رسائل و مسائل ہے۔ یہ کتاب شیخ گلبرگ نے اسے تحفے میں دی تھی۔
شیخ گلبرگ کی دی ہوی درجن بھر سے زاید کتابوں میں پردہ، تنقیحات اور رسائل و مسائل کی چار جلدیں اہم ہیں۔
ہر کتاب کی طرح یہ کتب سلیس اردو ادب میں لکھی گیں ہیں۔
قاری کے ذہن پر زور نہیں پڑتا اور وہ سب کچھ نفیس اردو کی وجہ سے قبول کرتا جاتا ہے۔
مودودی صاحب نے اپنی تفسیر مِیں اسلام کو ایک تحریک کا درجہ دے کر ایک فاش غلطی کی تھی۔
حالانکہ رسول عربی محض ہادی برحق تھے اور بس۔
لڑکا دولہن اور والدین کو چھوڑ کر سب سے پچھلی ٹیبل پر ایک کنارے جا بیٹھتا ہے۔
لاوڈ اسپیکر پر گانے پوری رفتار سے بج رہے ہیں۔ لڑکا کتاب کے مطالعے میں مصروف ہے۔
شیخ گلبر گ کی کتابیں پڑھ لیں گیں لیکن مودودی صاحب ماچھی گوٹ کے جلسے میں ایک اور فاش غلطی کر گے۔
انہوں نے اپنے ساتھیوں مثلا ڈاکٹر اسرار وغیرہ کو بوجہ سیاست میں آنے کی مخالفت کے ضمن میں نکلال دیا تھا۔
وہ اپنی دلیل میں سیدنا یوسف علیہ السلام کی مانند ووٹ کے زور سے بادشاہ وقت بننا چاہتے تھے۔
تزکیہ نہیں حکومت اسلام کا مقصد ٹہرا۔
ہدایت نہیں حد اسلام کی پہچان بنی۔
روحانیت سے اسقدر بعد کہ سوال کرتے ہیں کہ شاہ ولی اللہ کہ ہم بے حد معتقد لیکن وہ ولی اللہ نام میں کیوں لگاتے ہیں۔
یعنی انکو اس زمانے کی ماہیت کا علم نہیں تھا یا تجاہل عارفانہ تھا۔
تصوف کے بارے میں بھی کچھ اسی طرح کا کلام تھا کہ نہ لگا تو کچھ نہیں اور لگ گیا تو چودہ طبق روشن۔
علم تھا لیکن عشق سے ٹھنڈا نہ ہوا تھا سو پاک و ہند واطراف و اکناف میں گرم گرم ہوایں چلنی شروع ہو گیں۔
اسی اثنا میں لڑکے نے اسرار صاحب کا رومانوِی لیکن غیر ضروری پیغام تین سو سے زاید گھنٹے سنا۔
یہ شیخ المصطفی ٹرسٹ کے طرف آمد اسی سلسلے کی کڑی تھی۔
یہ ایک چھوٹا سا فلیٹ تھا جہاں لڑکا کی بار پہلے بھی جا چکا ہوتا ہے۔
شیخ ایک دبلے پتلے سفیدداڑھی والے تھے۔ وہ یو آے ای سے شیخ اسرار کے کہنے پر ہجرت کر آے تھے۔
انہوں نے اپنےلڑکے کی شادی ڈھای لوگوں پر مشتمل برات پر کی تھی۔
ایک ان کی زوجہ، ایک دولہا اور ایک اسکا دس سالہ چھوٹا بھای۔
شیخ لڑکے کو بیعت فارم ساین کرنے کو کہتے ہیں۔
لڑکے کو اسکا مقصد سمجھ نہیں آرہا ہوتا۔
ظہر کی نماز میں ۲ منٹ رہ گے تھے۔ شیخ کا تذبذب اور لڑکے کے سوال بڑھ رہے تھے۔
شیخ کہتے ہیں فارم ساین کر دیں جماعت نہ نکل جاے۔
لڑکا ساین کرتاہے۔
اب شیخ اسرار کی کتب کا مطالعہ اور صبح فجر کے بعد کی مجالس میں آجانا شروع ہوتاہے۔
منظر تبدیل ہوتا ہےلڑکا گدا تکیہ لے کر شیخ ڈیفنس کے پاس پہنچتا ہے۔
- میاں ظہوری
 

سید رافع

محفلین
شیخ ذیفنس - ایک کہانی۔قسط 8
لڑکے کی گاڑی سی ویو کی طرف رواں دواں ہے۔
پچھلی نشست پر ایک تکیہ اور گدا ہے۔
لڑکا ایک سال کے کورس کے دوران انکو سونے کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
سرسید احمد خان، مودودی صاحب ، اسرار صاحب، خمینی صاحب اور یہ کورس ایک تاریخ رکھتا ہے۔
برطانوی راج بہادر شاہ ظفر کو جزیرہ رنگون میں قید کر چکا ہے۔
مسلمانوں کا ایک ہزار سالہ دور حکومت ختم اور بادشاہ ۱۸۵۷ کی بغاوت کو مدد فراہم کرنے کی الزام میں جزیرے میں قید ہے۔
کوی قیدی نہ ہو کی پالیسی کے مطابق ڈیڑھ لاکھ لوگ قتل کیے جا چکے ہیں۔
خونخوار برطانوی راج عورتوں کی آبروریزی کرتا، مردوں کو لاین میں کھڑا کر کے یک لخت گولیوں سے قتل کرتا۔
پاگل برطانوی راج کو نہ عورتوں کی پرواہ نہ بزرگوں کا لحاظ نہ بچوں پر کوی رحم۔ ہر ایک پامال ہوتا جا رہا ہے۔
کیونکہ مسلمانوں سے حکومت چھینی گی تھی سو وہ سخت ترین عتاب کا شکار تھے۔
علما و مشایخ کو دہلی میں سور کی کھالوں میں زندہ سیا دیا گیا۔ بے شمار کو ہفتوں لٹکا رہنے دیا گیا۔
اب وقت ہے کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو۔
مسلمانوں میں سے جیسے حیسے غدار ملتے جاتے وہ علاقے فتح ہوتے۔ مثلا ٹیپو سلطان کے غدار میر جعفر اور میر صادق۔
برطانوی راج ہندوں سے مل کر اپنی مشینوں اور ساینس کے بل بوتے پر مسلمانوں کو پیستا چلا جا رہا تھا۔
سر سید نے علی گڑھ میں ایک یورنیورسٹی قایم کی اور قرآن کی ساینٹفک تشریح کر دی۔
ایک ایسی تشریح جس کا پیغام محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوی تعلق نہ تھا۔
مسلمان محض آیین میں حقوق مانگ رہے تھے لیکن جاتے جاتے برطانوِ ی راج نے تقسیم ہند کا ایک طویل چھرا تیار کیا۔
برطانوی راج سود ی ذہن اور بمطابق قرآن پاگل اور مخبوط الحواس ہے۔
تقسیم کرو اور حکومت کرو کے وحشی ذہن نے ۱۹۴۷ میں جاتے جاتے دس لاکھ لوگوں کے ساتھ غدر ۱۸۵۷ دوبارہ دوہرای۔
جو لوگ ہزار سال سے ساتھ رہ رہے تھے ان میں خوف و وحشت اتنا بڑھایا کہ عورتیں اپنے باپ بھای کی تلوار سے قتل ہونا ، کنویں میں چھلانگ لگانا اور پہاڑی سے کود جانا پسند کرنے لگیں۔
ٹرینوں کی ٹرینیں جب تقسیم زدہ ملک پہنچتیں خون سے بھری ہوتیں۔ ایک زندہ نہ ہوتا سب وحشت کا نشانہ بن جاتے۔
ریڈ کلف نے کشمیر کو یوں تقسیم کیا کہ پاک و ہند آج تک دست و گریباں ہیں اور اور پاگل برطانوی راج پوری دنیا میں خفیہ طور پر پھل پھول رہا ہے۔
مودودی صاحب نے سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کو دیکھا اور تقسیم ہند کو بھی۔ سو ابتدا میں یہ خواہش ہوی کہ ایک ملک تو ایسا ہو جہاں اسلام کا نظام عدل ہو۔ لیکن ان کی یہ کوششیں بلآخر قرآن کی ایسی تشریح پر منتہج ہوی جو اسلام سے جوڑ نہیں کھاتی۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ ایک ایسے کام کے درپے ہوے جو نور امام مہدی علیہ السلام مانگتا ہے۔
سو جب براہ راست دینی طریقے سے کام میں ناکامی ہوی تو ووٹ کے ذریعے حکومت بنانے کی کوشش کی۔ دلیل یہ تھی کہ سیدنا یوسف علیہ السلام نے بادشاہت حاصل کر کے لوگوں کی ہدایت کا سامان کیا۔ لیکن امر یوسف علیہ السلام نور یوسف علیہ السلام مانگتا ہے۔ سو وہ بھی نہ ہو پایا۔
ڈاکٹر اسرار صاحب نے منہج سیدنا یوسف علیہ السلام کے بجاے منہج سیدنا رسول عربی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے حکومت قایم کرنے کی کوشش کی۔ لیکن وہی بات وہ ایک ایسے کام کے درپے ہوے جو نور امام مہدی علیہ السلام مانگتا ہے۔یا اس سے بھی آگے جایں تو وہ امر رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو سر انجام دینا چاہ رہے تھے جو نور محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم مانگتا ہے۔
یہ تمام سوچیں کم و بیش اس خیال سے ابھری تھیں کہ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم محض ہمارے ہی طرح کے تو بشر ہیں۔سو جو وہ کر سکتے ہیں ہم بھی کر سکتے ہیں۔ حالانکہ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم جیسا اس کاینات میں کوی ہے ہی نہیں نہ ہو گا۔ لیکن رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم ہر زمانے کے بارے میں بتا کر گے ہیں کہ زندگی کیسے گزاریں اور محال کے درپے نہ ہو۔ جو جس کا کام ہے اسکو کرنے دیں۔ ہر کام کا مکلف اپنے آپ کو نہ بنایں۔یہی وجہ ہے کہ ان تحاریک میں موجود لوگ مایوس لوگ ہیں یا پھر متشدد۔
لڑکے کی ملاقات شیخ المصطفی ٹرسٹ نے ڈاکٹر اسرار سے کچھ عرصے قبل کرای تھی۔
لڑکے نے انکو ون قرآن کے منصوبے کے خدوخال سے آگاہ کیا تھا۔
لڑکا چاہتا تھا کہ ایک ایسا سافٹ ویر بنے کہ لاکھوں اھدیث میں سے صحیح چھن کر اوپر آجایں تاکہ ا مت صحیح مذہب کو پہچان لے اور آپس میں گردنیں نہ کاٹے اور اختلاف میں پڑے۔
ڈاکٹر صاحب نے لڑکے سے کہا کہ میں اس عمر کو پہنچ چکا ہو ں کہ اب کوی نیی چیز نہیں سیکھ سکتا۔آپ لاہور آجایں وہاں ہمارے بیٹے ہیں وہ اسکو دیکھیں گے۔
ڈاکٹر صاحب چند دنوں پہلے اس ایک سالہ کورس کا افتتاح کرتے ہوے گلا کر رہے تھے کہ کورس کے چالیس سے زاید شرکا کورس ختم ہونے پر چار رہ جاتے ہیں۔
لڑکا سی ویو کی نم ہواں میں گاڑی سے باہر اترتا ہے۔
شیخ ڈیفنس ان سو لوگوں میں سے تھے جن کو ڈاکٹر صاحب نے خود تیار کیا تھا اور تربیت کی تھی۔وہ این ای ڈی کے انجنیر تھے لیکن اب کورنگی کی ایک مسجد کے پیش امام اور دیگر کاموں میں ڈاکٹر صاحب کے دست راس۔
لڑکے نے سال بھر کورس میں مقیم رہنے کا ارادہ ظاہر کیا۔
شیخ ڈیفنس نے کہا ہمیں اعتراض نہیں لیکن سیکیورٹی کے خدشات بھی ظاہر کیے۔
ساتھ ہی درد دل سے یہ بھی بتایا کہ یہاں نہ آیں بلکہ جس جگہ ہیں وہیں رہ کر دین کی خدمت کریں۔
چند کمپیوٹر اور چند کرسیوں پر مشتمل کمرے یہ نشست اختتام کو پہنچتی ہے۔
لڑکا واپسی کا سفر اختیار کرتا ہے۔
منظر تبدیل ہوتا ہےلڑکا ون قرآن کا منصوبہ شیخ رب میڈیکل اول کو دکھتا ہے۔
- میاں ظہوری
 

سید رافع

محفلین
شیخ اول رب میڈیکل - ایک کہانی۔قسط 9
لڑکا ایک صبح ایک بنگلے نما چار منزلہ مسجد پہنچتا ہے۔یہ ایک بے ترتیب تعمیر تھی جو ضرورت کے تحت وقتا فوقتا کی گی تھی۔
اس مسجد کی دوسری منزل پر شیخ درس نظامی کے کسی مضمون کی تدریس میں مشغول تھے۔
اسرار صاحب کو تین لاکھ لوگوں کی ضرورت تھی جو اسلام آباد میں خمینی تحریک کی طرح قیام کریں۔
جس طرح ایرانی شاہ رضا پہلوی بیس ہزار اسلامی انقلابیوں کو مارنے کے بعد بلا آخر فرار ہوا، اسرار صاحب بھی یہی کچھ چاہتے تھے۔
ظاہر ہے موجودہ حکومتوں کے پاس فضایہ، زمینی دستوں، راکٹوں سے لے کر ایٹم بم تک ہیں سو پرامن انقلاب کا راستہ کچھ ہزار کا سینے پر گولی کھانا ٹہرا۔
اسکے برعکس ایک طبقہ علما کا ہے جو قرآن و حدیث کی تعلیم و تدریس میں مشغول ہے۔
لڑکا شیخ سے مصافحہ کرتا ہے اور ان کے قریب ہی زمین پر بیٹھ جاتا ہے۔
وہ درس میں مشغول رہتے ہیں۔
کچھ دیر بعد لڑکے سے مخاظب ہو تے ہیں جی کہیے۔
لڑکا انکو ون قرآن کے بارے میں بتانا شروع کرتا ہے کہ کیسے احادیث، اسما الرجال کی ہزاروں کتب کو کمپیوٹر ویب سایٹ میں ترتیب دیا جا سکتا ہے کہ ہر موضوع سے متعلق صحیح احادیث چھن کر اول نمبر پر آجایں۔ سافٹ ویر راوی کے ثقہ، عادل، زمانے، زہد اور دیگر معلومات کو ہزاروں کتب سے جانچے گا اور اس پر قدیم محدثین کے روایت اور درایت کے اصول لگاے گا اور احادیث کو ایک عام قاری کے لیے پیش کر دے گا۔ یوں لوگوں کا مذہب ایک ہونا شروع ہو جاے گا سو قرآن کی تشریح ایک ہو جاے گی اور امہ ایک ہو جاے گی اور شیاطین دوسری طرف۔ گویا گمراہ ہونے کے اسباب کم ہو جایں گے۔
شیخ نے کہا آپ اس کی کوی دستاویز بنا لیں اور شیخ کورنگی کو دکھایں کہ وہ اس پر کچھ کام پہلے ہی کر چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کام علما کی سرکردگی میں ہونا چاہیے۔
توحید بندو ں کو جوڑتی ہے ان میں پیار و محبت پیدا کرتی ہے۔
راج برطانیہ توحید کی ضد ہے کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو۔
شیخ علما کے اس سلسلے میں سے تھے جن کی ابتدا ء راج برطانیہ کے زیر نگرانی وہابی فکر دنیاے اسلام میں پھیلانے سے قریبا دو سو سال پہلے ہوی تھی۔
ہند کا ایک گروہ تو ایسا تھا جس نے من و عن وہاب صاحب کی تعلیمات کا پرچار کیا لیکن ایک گروہ صاف کھل کر سامنے بھی نہ آیا اور نہ ہی کل کا کل انکار کیا۔ شیخ اس دوسرے گروہ سے تھے۔
عرب شریف کے وہاب صاحب توحید میں حد درجہ تشدد کی وجہ سے یہاں تک پہنچے کہ مسلمانوں کی اکثریت مشرک ٹہری۔
لیکن اس تحریک کی کامیابی کا کچھ سہرا سلطنت عثمانیہ کے دور کا بوجھل اور پرتکلف دین تھا جو رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی سادہ تعلیمات سے دور تھا۔
بہرحال راج برطانیہ کی پالیسی نے رنگ دکھایا اور مسلمان علما دو گرہوں میں بٹ گے۔ ایک وہ جو ڈھلتے نور کو تھامے ہوے تھا اور بزرگان دین کے طریقے پر تھا اور دوسرا وہ جو محض علم سے ہر خس و خاشاک کو اسلام کے چہرے سے ہٹا دینا چاہتا تھا۔
لڑکا شیخ سے دوبارہ مصافحہ کرتا ہے اور جانے کے لیے زمین سے اٹھتا ہے۔
منظر تبدیل ہوتا ہےلڑکا شیخ رب میڈیکل دوم سے پہلی ملاقات کرتا ہے۔
- میاں ظہوری
 

سید رافع

محفلین
شیخ دویم رب میڈیکل - ایک کہانی۔قسط 10
ہر شیخ رومانوی منظر کو حقیقت کا لباس دے رہا تھا۔ ہر بات چیت حق سے مکر کی تہہ کو اتار رہی تھی۔
ایک صبح لڑکا ایک دستاویز لے کر شیخ اول کے پاس پہنچتا ہے۔
یہ اس نے بہت محنت سے تیار کی تھی۔
شیخ مونچھوں کو لب سے تراشنے میں کسی قدر غلو سے کام لیتے تھے۔ ایسی مونچھ کو برقرار رکھنا ایک وقت مانگتا ہے۔
وہ وزن دار تھے۔ سفید لباس اور بنگلہ دیشی خانقای نوک دار ٹوپی پہنتے۔ سر پر بال کم رکھتے۔
لڑکا سلام کر کے قریب نشست رکھتا ہے اور ون قرآن کی دستاویز شیخ کو دکھاتا ہے۔
لیکن اسکو ایسا لگتا ہے شیخ کو دستاویز سے زیادہ اس سے دلچسپی تھی کہ ہماری مانتا ہے کہ نہیں۔
یہ تھا اس بات کا مقصد جو انہوں نے پہلے کہی تھی کہ ہر کام علما کی سرکردگی میں ہونا چاہیے۔
لڑکے نے شیخ سے کہا کہ اس کا دل عام لوگوں کی باتوں اور نوکری میں نہیں لگتا۔
انہوں نے ہتھیلی کے سایز کے ایک چوکور کاغذ پر تحریر لکھی۔
جس کا لب لباب یہ تھا کہ لڑکا انکے احباب میں سے ہے ذرا اس پر توجہ کریں۔
شیخ نے کہا کہ شیخ دویم نچلی منزل پر ہوتے ہیں ان کو یہ تحریر اور اپنا مسئلہ بیان کریں۔
لڑکا نچلی منزل پر شیخ دویم کے پاس پہنچتاہے تو زمین پر بیٹھے تھے۔ یہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا۔ تہمد اور ایک کرتا پہنا ہوا تھا۔ عمر دار تھے اور چھوٹے سے پان دان سے کتھا نکال کر پان پر لگا رہے تھے۔ان کے دوسرے احباب ان سے گفتگو میں مصروف تھے۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ پیتیس سال قبل یہاں آے تھے۔ انہوں نے بوجہ شادی نہ کی تھی۔ جب ان سے انکے شیخ سے پوچھا کہ کیا کر سکتے ہو تو کہا کچھ نہیں۔ بس ان کے شیخ اسی پر ان پر فریفتہ ہوے اور کہا ہم کو بھی ایسا ہی آدمی چاہیے تھا جو کچھ نہ کر سکتا ہو۔ وہ کہتے تھے جب اللہ کسی کو اپنا بناتا ہے تو اسکو کسی کام کا نہیں چھوڑتا۔شیخ مجذوب تھے۔
لڑکے نے انکو شیخ اول کا لکھی پرچی دکھای اور اپنے ہاتھ کی لکھی ہو ایک تحریر بھی جس میں اپنا مسئلہ لکھا تھا۔
شیخ نے دونوں روقے پڑھے۔
لڑکے کو آج بھی یاد ہے کہ کیسے انہوں نے کسی گہری سوچ میں جا کر ہاتھ میں موجود پرچیاں ہتھیلی میں مسل دیں۔
پھر گویا ہوے اور کہا کہ آپ مایوس ہو رہے ہیں۔ یہ دین داری نہیں کہ نوکری یا لوگوں میں دل نہ لگے۔
پان کھاتے ہوے کہنے لگے آپ میرے پاس آیا کریں۔جو مسئلہ ہو ایک ورق پر لکھ کر اس باکس میں رکھ دیں۔ میں جواب دے دیا کروں گا۔ اس پر عمل کریں اور پھر اپنی کیفیت دوسرے کاغذ پر لکھ کر باکس میں رکھ دیں۔ اور پچھلے تمام ورق اسکے ساتھ منسلک کر دیں۔ شیخ نے مذید کہا کہ یہاں تین مجالس ہوتیں ہیں گیارہ بجے، عصر کے بعد اور عشاء کے بعد جب موقع ملے اس میں آیں۔ یہ پودے پر مانند پھوار کے ہیں۔ اب آپ جایں۔
علی کرم اللہ وجہ کے ابر کرم کی موسلا دھار بارش کا ایک قطرہ شیخ پر بھی پڑا تھا سو انکی گفتگو بے لاگ اور بے تکلف تھی۔ انکا سلسلہ اشرف علی تھانوی صاحب،امدا اللہ مہاجر مکی سے ہوتے ہوے جناب حیدر کرار جناب علی المرتضی کرم اللہ وجہ تک جا پہنچتا تھا۔
لڑکا گیارہ بجے کی مجالس میں جاتا۔ وہاں شیخ سویم کے اشعار پڑھے جاتے۔ انکے بیانات چلاے جاتے۔ کبھی کسی غیر ملک سے کوی مہمان آ جاتا تو اسکا بیان ہو جاتا یا اشعار پڑھ دیتا۔ یہی عصر اور عشاء کی مجالس میں ہوتا۔
مسجد میں عام لال کارپیٹ کے بجاے سفید چادر کی صفیں ہوتیں جو اکثر گندی ہوتیں۔ لڑکے کو ان سے کراہیت آتی۔
آنے والے لوگ سفید کرتے ،نوک دار خانقاہی ٹوپی پہنتے اور اکثر گنجے ہوتے۔
داڑھی بڑھانے، نظر اور دل کی حفاظت اور پایچے ٹخنوں سے اوپر رکھنے پر زور تھا
لڑکا ون قرآن کے منصوبے کو بھول چکا ہوتا ہے۔
منظر تبدیل ہوتا ہےلڑکا ایک صبح شیخ کورنگی سے ملنے روانہ ہوتا ہے۔
- میاں ظہوری
 

سید رافع

محفلین
شیخ کورنگی اول - ایک کہانی۔قسط 11
۲۰۰۵ کی ایک صبح کا سورج طلوع ہوتا ہے۔ لڑکے نے شب سے ہی شیخ کورنگی سے ملنے کا ارادہ کیا ہوا تھا۔
وہ سولہ زبانیں جانتے تھے اور نام نہاد اسلامی بینکاری کے سرکردہ تھے۔
دل میں اللہ کی یاد تہجد اور وظایف کی طرف متوجہ کرتی ہے۔
بینک کا مال نکل نکل کر لوگوں کو خوش کر رہا ہوتا ہے۔
اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ چہرے کی کھال ملایم اور باریک ہو جاتی۔
کالا چہرہ بھی ایک عجب روشنی دے رہا ہوتا ہے۔
گورہ چہرہ نور سے سفید ہورہا ہوتا ہے۔
شیخ رب میڈیکل کی یہ ضد کہ تکرار قرار پیدا کرتی ہے عقلوں میں مکر اور چہروں کو سیاہ اور روکھا کیے دے رہیں تھیں۔
جوچند چہرے یہاں روشن تھے وہ انکی اپنی معصومیت تھی نہ کہ شیخ کا کمال۔
نہ جانے امام بارگاہ کی مجالس کی طرح ان مجالس نے قلوب کا کیا سے کیا حال کر دیا تھا کہ چہروں کی رونق اڑ چکی تھی۔
قریبا ایک صدی قبل برطانوی راج طرح طرح سے مسلمانوں کو مٹا رہا تھا۔ ایک حربہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو کم کرنا تھا۔
اس مخبوط الحواس سودی راج نے عرب شریف مِیں سلطنت عثمانیہ کو گرانے کے لیے آل سعود،ینگ ترک اور اتا ترک کو قوت دی۔ آل سعود نے وہاب صاحب کی دینی سوچ سے نکاح کیا جس کے بطن سے طرح طرح کی ناگوار باتیں اسلامی دنیا کی تیز ترین ناکوں کو پراگندہ کر رہیں تھیں۔
یہاں ہند میں بھی عرب شریف کی وہابی تحریک نے زور دکھایا۔
اشر ف علی تھانوی صاحب جو سینکڑوں کتب کے مولف اور محقق عالم تھےبزور قلم خالق و مخلوق کے ختم ہوتے فرق کو واضح کرنا چاہا۔ لیکن انہوں نے اس ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم پر حفظ الایمان میں وہ کلام کیا کہ جس کو بعد میں تبدیل کر کے انہوں نے چھاپا۔
لیکن قبل اسکے وہ توبہ کرتے یہ کیا گیا سو احمد رضا خان بریلوی جو ایک بلند پایا بزرگ اور محقق عالم تھے، اس پر ایک ایسی سخت گرفت کی کہ آج بھی برصغیر کے مسلمانوں کے قدم ان دو علما کے جھگڑے کی بیڑیوں میں جکڑے ہوے ہیں۔ یہ تقسیم دنیا بھر میں اسلام کی قوت کو کم کررہا ہے۔
لڑکے کی گاڑی کورنگی کی چوڑی چوڑی سڑکوں پر تیز رفتاری سے اپنی منزل کی جانب چلے جا رہی تھی۔
لڑکے نے ایک رقہ لکھا تھا جس کو فوٹو اسٹیٹ کر لیا تھا تاکہ کسی اور شیخ کو دکھانا ہو تو بار بار نہ لکھنا پڑے۔
لڑکا اس ورق کو استقبالیہ پر موجود ایک بزرگ کو دکھاتا ہے۔
شیخ کورنگی بھی شیخ رب میڈیکل کی طرح اشرف علی تھانوی صاحب کے سلسلے سے ہوتے ہوے جناب علی المرتضی علیہ السلام تک جا پہنچتے تھے۔
استقبالیہ کے بزرگ نے پڑھنے کے بعد ایک ادب سکھایا۔ کہنے لگے حضرت شیخ تو اس پر اعتراض نہ کریں گے لیکن بہتر نہ ہو گا کہ آپ فوٹو اسٹیٹ کے بجاے اپنے ہاتھ کی لکھی تحریر ان کے سامنے رکھیں۔
لڑکا اصل تحریر بزرگ استقبالیہ کو دکھاتا ہے۔
وہ لڑکے کو شیخ کے آفس کا پتہ بتاتے ہیں۔
لڑکا آفس پہنچتا ہے تو وہاں انکے سیکریٹری پرچے کو لے لیتے ہیں اور لڑکے کو بیٹھنے کو کہتے ہیں۔
وہ اندر جا کر ورق شیخ کو دے دیتے ہیں۔
کچھ دیر بعد شیخ لڑکے کو بلا تے ہیں۔
لڑکا ایک بڑے سے کمرے میں داخل ہوتا ہے جس میں کھڑکی کی سمت ایک یورنیورسٹی پرنسپل نما میز اور کرسی تھی۔
وہیں شیخ تشریف فرما تھے۔
ایک طرف ایک گدا اور تکیہ تھا جہاں شاید شیخ آرام کرتے ہوں گے۔
لڑکا نوکری سے اپنی عدم دلچسپی اور وہاں کے ماحول سے تنگ دلی کا تذکرہ کرتا ہے۔
شیخ سے ترمذی شریف سے متعلق بات ہوتی ہے تو وہ پوچھتے ہیں کہ آپ نے مکمل پڑھ لی؟
لڑکا کہتا ہے حرف بہ حرف تو نہیں لیکن کثیر حصہ پڑھ لیا ہے۔
وہ درس ترمذی کی تین جلدوں پر مشتمل ایک ضحیم کتاب لکھ چکے ہوتے ہیں۔
شیخ کہتے ہیں آپکا رجحان دین کی جانب کیونکر ہوا؟
لڑکے کو ایک جھٹکا سا لگتا ہے کہ کیا دین بھی ایسی شے ہے کہ اس کی طرف رجحان بعد میں پیدا ہوتا ہو!
لڑکے کو کچھ سمجھ نہ آیا تو کہا کہ امریکہ سے واپسی شاید اسکی وجہ بنی۔
شیخ کہنے لگے ہمارا وقت تو لکھنے لکھانے میں صرف ہوتا ہے۔ آپ کے اور ہمارے درمیان یک رنگا رنگی ہو گی تو بات بنے گی۔
لڑکے کو یہ بات ناگوار گزرتی ہے کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اس کے لیے کسی اور رنگ کا تذکرہ سخت وحشت کا باعث ہے۔
شیخ قرآن کا انگریزی ترجمہ کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ لڑکے کو اپنے کمپیوٹر کے پاس بلاتے ہیں اور ترجمہ دکھا کر خوش ہوتے ہیں۔
شیخ کہتے آپ اسکو ایک کتاب کی صور ت میں کمپیوٹر ڈاکومینٹ میں تبدیل کر سکتے ہیں؟
لڑکا حامی میں سر ہلا دیتا ہے۔
بعد میں لڑکا کچھ کام کرتا بھی ہے اور شیخ کو دکھاتا بھی ہے۔
لیکن معاشی ذمے داریاں جلد ہی لڑکے کو اس فی سبیل اللہ کام سے دور کر کے نوکری کے دشت میں آبلہ پای کے لیے مجبور کر دیتیں ہیں۔
ایک موضوع پر بات نکلتی ہے تو شیخ اپنے والد کی تصنیف کی اس موضوع پر موجودگی پر خوش ہوتے ہیں۔
اب کافی وقت ہو چکا ہوتا ہے۔
لڑکا شیخ سے مصافحہ کرتا ہے اور کمرے سے باہر نکلتا ہے۔
گاڑی گلشن کی جانب رواں دواں ہے۔
منظر تبدیل ہوتا ہےلڑکا شیخ یہودی سے سلیمان رشدی کے معتلق بات کرتا ہے۔
- میاں ظہوری
 

سید رافع

محفلین
شیخ یہودی اول - ایک کہانی۔قسط 12
لڑکے کی توجہ انٹرنیٹ پر موجود یہودی، عیسای، بدھ مت، مسلمان اور ملحد شیوخ کی طرف ہوی۔
علم مومن کی کھوی ہو ی میراث ہے، جہاں سے ملے حاصل کرے۔
انہی میں ایک ڈینیل پایپ تھا۔ یہ ہارڈ ورڈ یورنیورسٹی کا پی ایچ ڈی تھا۔
یہ اسریل کے لیے امریکہ میں بذریعہ اپنی ویب سایٹ کے کام کرتا۔
شیخ کورنگی نے چلتے چلتے لڑکے سے کہا کہ آپ اتوار کی اصلاحی مجالس میں آیا کریں۔
لڑکے نے کہا کہ وہ گلشن کی مسجد میں شیخ کی جمعے کی تقاریر سنتا ہے۔
شیخ نے کہا وہ تقاریر ان مجالس سے مختلف ہیں۔ ساتھ ہی اپنی لکھی اصلاحی خطبات کی سولہ میں سے تین جلدیں پڑھنے کو دیں۔
ڈینیل پایپ کا مقصد مختلف موضوعات پر مسلمانوں کے درجہ حرارت کا اندازہ لگانا اور پالیسی سازوں کی مدد کرنا تھا۔
۲۰۰۷ میں ملکہ برطانیہ سلمان رشدی کو سر کا خطاب دیتی ہے۔
لڑکے کی نظر سے ڈینیل کا ایک مضمون اس سلسلے میں گزرتا ہے جس سے اسکو سخت اذیت ہوتی ہے۔
لڑکے کی بات چیت قریبا چار ماہ سایٹ پر موجود قریبا ایک درجن یہودی مرد و عورت علما ءسے ہوتی ہے۔
یہ اسلام سے شدید نفرت، عربی اور اسلامی علوم کے عالم تھے۔
کبھی لڑکے کے نام کا استہزاء، کبھی قرآن و رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا، کبھی لڑکے کی سوچ کا۔
لڑکا ان کو سمجھنا چاہتا تھا تو ان کی تمام ترگستاخیوں، زہر فشانیوں کا محبت سے جواب دیا۔
لڑکے سمجھ چکا تھا کہ اسلام کے دشمن ہیں اور کس قدر شدید ہیں۔
ایک یہودی مستشرق نے تو اپنا نک نام ہی ذمی نو مور رکھا تھا۔ ذمی اسلامی حکومت کے پناہ یافتہ غیر مسلم ہوتے ہیں جو مسلمانوں کو خراج ادا کرتے ہیں۔مطلب وہ کہتا تھا کہ میں اب ذمی نہیں بننا چاہتا۔
ذمی نو مور عربی علوم کا ماہر اور شدید مکار تھا۔اسکے ساتھ ایک یہودی عورت سوزین تھی جو اس سے کچھ کم نہ تھی۔
معلوم ہوتا تھا کہ انکے قلب کی جگہ پتھر رکھا ہو۔کوی محبت انکو راضی نہیں کر پا رہی تھی۔
بعد میں معلوم ہوا کہ مکر کا علاج نرمی میں نہیں سختی میں ہے۔
نقل کفر کفر نہ باشد۔
یہ یہودی وہی گھسے پٹے موضوعات جو صدیوں سے انکا وتیرہ رہا ہے ایک ایک کر کے سامنے لاتے ہیں۔ مثلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پچاس برس کی عمر مبارک کے بعد شادیاں، اسلام تلوار کے زور پر پھیلا، چرچ اور اسٹیٹ کی تقسیم، اللہ پر تہمت و اعتراضات، عورتوں کی ختنہ اور دیگر۔
ذمی نو مور لڑکے سے استہزا کرتے ہوے کہتا ہے کہ تم نےچودہ سو سال قبل سارے مڈل ایسٹ پر حملہ کیا تاکہ تمھارے اللہ کو لوٹ کے مال کا پانچوں حصہ ملے۔کون ہے جو یہ کہتا ہےاسلام تلوار کے زور پر نہیں پھیلا۔
الفاظ کا مکر کرتے ہوے کہتا ہے کہ نصاری کا کروسیڈ ، نصاری کی تعلیمات کے باوجود کیا گیا۔ اس جملے کا کوی مقصد ہی نہیں صرف یہ کہ نصاری کے خلاف بولنے پر آمادہ کیا جاے تاکہ یہودی نصاری پر یہ ثابت کریں کہ مسلمان ایسے ایسے ہیں۔
جب بات چیت کو چند روز گزر جاتے ہیں تو لڑکا ڈینیل کو مخاطب کرتے ہوے کہتا ہے کہ آپ اپنی ویب سایٹ کو انسانی روحوں کی بالیدگی اور بہتری کے لیے استعمال کریں۔ ڈینیل کہتا ہے کہ میں ایسی ہی تجاویز دیتا ہوں جیسا کہ اس مضمون میں بھی کیا۔ حالانکہ یہ ایک مکر محض تھا۔
بات چیت اتنی طویل ہوتی ہے اور کمنٹ اتنے زیادہ کہ سایٹ کریش کر جاتی ہے۔
یوں چند ماہ چلنے والی یہ گفتگو اختتام کو پہنچتی ہے۔
منظر تبدیل ہوتا ہےلڑکا شیخ فیصل مسجد کے ساتھ تبلیغی اجتماع جاتا ہے۔
- میاں ظہوری
 

سید رافع

محفلین
شیخ تبلیغ - ایک کہانی۔قسط 13
شام کی ڈھلتی دھوپ میں عصر کی جماعت بائیں جانب سلام پھیرتی ہے۔
جماعت کی پہلی صف سے ایک نوجوان کھڑے ہو کربا آواز بلنددا ئیں بائیں گردن گھماتے ہوے اعلان کرتا ہے۔
دعا کے بعد دین کی محنت پر بات ہو گی آپ سب شریک ہو کر ثواب دارین حاصل کریں۔
لڑکا مسجد کے صحن میں دعا کے بعد دیگر لوگوں کے ساتھ ایک دائرہ بنا کر بیٹھ جاتا ہے۔
مسجد کے حسن کو اسکی خوبصورت تعمیر چار چاند لگا رہی تھی۔
ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام کہ برا ہے وہ پیسہ جو مٹی اور گارے پر لگے اور ایک یہ مسجد!
یہ شاہ فیصل سعودیہ کے عطیے سے بنی تھی۔
راج برطانیہ کے اگلے دستوں کو اپنا پیغام ساری دنیا تک پہچانا تھا۔
مسجد نبوی کھجور کے تنوں کے ستنوں پر تعمیر ایک چوکور کمرہ جس میں بلال حبشیؓ کی اذانیں ایمانوں کو گرماتیں۔
سلطنت عثمانیہ اپنے بوجھل اور باتکلف دین کے باعث گر چکی تھی۔
دنیا بھر میں یہ خوبصورت مساجد عجیب و غریب پیغام نشر کر رہیں تھیں۔
ان کا مقصد ہدایت نہ تھا بلکہ ذہن سازی تھا۔
ڈیڑھ ارب مسلمانوں میں سے اپنے حصے کے کارندے جمع کرنا۔
یہ دل کے لیے نہیں دماغ کے لیے بنی تھیں۔
یہ برین واشنگ اور پروپگینڈے کی میکانیات کو سامنے رکھ کر بنای گئیں تھیں۔
ایک پیغام کو اتنی زیادہ اور کثرت سے نشر کرو کہ دماغ مفلوج ہو کر رہ جاے۔
پھر اس مفلوج دماغ سے جو چاہو کرا لو۔
لیکن ابتدا ء میں یہ سب یوں نہ تھا۔
ہزار سال میں اسلام میں اسقدر کمزوری آی کہ بادشاہ جہانگیر کے والد اکبر نے دین اکبری پھیلانا شروع کیا۔
مجدد الف ثانی نے ایک طویل قید و جدوجہد کے بعد بادشاہ جہانگیر کو سجدہ تعظیمی اور دیگر بے جاء باتیں نہ کرنے پر آمادہ کیا۔
جہانگیر کی کئی بیویاں شیعہ اور ہندو تھیں۔ نور جہاں ان میں اسے ایک شیعہ بیوی تھی۔
یہ اپنی لڑکی دینا بھی اپنا مذہب پھیلانے کا ایک طریقہ ہے۔
لیکن بے جاء باتیں اسقدر تھیں کہ مکتوبات میں مجدد الف ثانی کو بے جاء باتوں کا گھٹا ٹوپ اندھیرا ہر سو دکھای دے رہا تھا۔
مذید تین سو سال گزرے تو کمزور ی اور بڑھی یہاں تک کہ سلطنت عثمانیہ تک گر گئی۔
لوگ اب دین و ادب سیکھنے خانقاہوں میں نہیں آتےسو خانقاہوں کو لوگوں تک جانا پڑا۔
راج برطانیہ میں ہر کاشتکار، دیہاتی، اجڈ، گنوار، نان بای، پنساری، دھوبی اور بدو کو کلمہ اور چند سورتیں سکھانا مقصود تھا کہ نماز تو پڑھیں۔
اس تبلیغ کے بانی مولانا الیاس پر تبلیغ کا اسقدر غلبہ تھا کہ ایک کاشتکار کو پیغام پہنچایا اس نے ایک طماچہ دیا۔
انہوں نے کہا کہ بے شک طماچہ مار لو لیکن میری بات سن لو۔
ان پر یہ کیفیت گویا پیاس و بھوک کی طرح ہو کر رہ گئی تھی۔
مسجد کے اطراف میں ہرے بھرے پیڑ جس پر چڑیاں شام ہونے کی وجہ سے دن بھر کی خبریں ایک دوسرے کو سنا رہیں تھیں۔
دوسری طرف ایک وسیع میدان جس میں کھیلوں کے شوقین اس حلقے سے بے فکر اپنے آپ کو تھکا رہے تھے۔
شیخ نے ایک مخصوص کتاب سے درس دیا۔
پھر اجتماع کا وعدہ انشااللہ کہلوا کر لیا گیا اور ارادے کاپی میں لکھ لیے گئے۔
لڑکے نے بھی بوجہ اصرار شیخ اجتماع کا ارادہ لکھوایا اور یوں تشکیل مکمل ہوئی۔
پھر محلے کا گشت ہوا۔
کچھ دنوں بعد ایک صبح صابن نما سوزکی گاڑی میں لڑکا بمعہ آٹھ لوگوں کے اورنگی کی اجتماع گاہ کی طرف راونہ ہوئے۔
اجتماع گاہ پہنچنے پر ظہر کا وقت تھا۔ شیخ ایک نوجوان تھے۔ انہوں نے ہماری مسجد کا ٹینٹ جلد ڈھونڈ نکالا۔
شیخ پنساری کی دکان چلاتے تھے۔ ان کو ہاں کہلانے کا ہر حربہ آتا تھا۔
ہر طرف ہزاروں ٹینٹ تھے۔ ایک طرف خواص کا ٹینٹ تھا جس میں مال دار لوگ سہولیات کے ساتھ تھے۔
وضو کے لیےآدھے پایپ کا ٹ کر ایک کئی سو میٹر کی درجنوں نہریں سی بنا لی گئیں تھیں ۔
ہزاروں لوگ وضو کر رہے تھے۔
ایک طرف عارضی بیت الخلاء کی ایک طویل لاین تھی۔
دوسری طرف کئی منزلہ کوکا کولا اور سیون اپ کی کریٹ تھے۔
درجنوں کھانے پینے کی عارضی دکانیں تھیں جہاں پانچ روپے میں دال روٹی مل جاتی۔
لڑکے کے وضو شدہ گیلے پاوں میں میدان کی ریت چپکے جارہی تھی ۔
لڑکے نے اپنے ٹینٹ پر آکر چپل اتاری تو وہ ساری ریت پاوں سے چٹائی پر آ گئی۔
دیگر ساتھیوں کی ریت اور اردگرد اڑتی دھول نے چہرہ کپڑے سب گرد آلودہ کر دیے تھے۔
جب لڑکے نے سنتوں کے سجدے میں سر چٹائی پر رکھا تو پیشانی مٹی کے موٹے اور باریک ذرات سے بھر گئی۔
اب فرض کا اعلان ہوا تو لوگ آگے پڑھنا شروع ہوے۔
لڑکا اپنے ٹینٹ سے کئی سو میٹر آگے جا چکا تھا لیکن صف نہ بنتی تھی کہ اللہ اکبر کی صدا بلند ہوئی۔
صف میں دائیں بائیں آگے پیچھے ہر طرف جگہ تھی۔
لڑکا نماز کی نیت باندھ لیتا ہے۔
نماز کے بعد کھانا ہوتا اور پھر درس۔ یوں آدھی درجن دروس کے بعد رات ہو گئی۔
دور کسی مسجد سے پوری رات درود و سلام پڑھنے کی آوازیں آ تی رہیں۔
وہیں چٹائی پر نیم جاگے نیم سوئے تھے کہ اذان فجر ہوِئی۔ بعد از نماز ناشتہ اور پھر ذہن سازی کا سلسلہ شروع ہوا۔
لڑکے کے سارے جسم میں عجیب قسم کا درد ہو رہا تھا۔
لڑکے نے شیخ سے ظہر کے بعد واپسی کا ارادہ ظاہر کیا۔
لیکن شیخ سے ہاں کہلوانا نا ممکنات میں سے تھا۔
درس ہوتے رہے یوں ظہر کے فرض ختم ہوئے۔
لڑکے نے شیخ سے پوچھا تو انہوں نے ڈیل بریک کرنے کے لیے کہا کہ کل چلے جائیں، پھر عصر تک اصرار ہوا، پھر ظہر کی بقیہ سنتوں تک لیکن یہ ذہن سازی لڑکے کے لیے سخت اذیت کا باعث تھی۔
سو لڑکا شیخ سے بعد از سلام اپنے گھر کی ویگن میں بیٹھتا ہے۔
رفتہ رفتہ ویگن اجتماع گاہ کو پشت دکھاتی اور اس شاہراہ کی بھیڑ کو پیچھے چھوڑ کر تیز رفتاری سے اپنی منزل کی طرف رواں ہو جاتی ہے۔
منظر تبدیل ہوتا ہےلڑکا شیخ یہودی دوم نوم چومسکی سے بات چیت کرتا ہے۔
- میاں ظہوری
 

سید رافع

محفلین
شیخ یہودی دویم - ایک کہانی۔قسط 14

۔۲۰۰۷ کا ایک دن چڑھا جمعے کی نماز کا وقت قریب تھا۔

لڑکا نماز جمعہ سے قبل ایک مختصر سی ای میل نوم چومسکی کو بھیجتا ہے۔

نوم چومسکی امریکہ کی پینسلوینیا یورنیورسٹی سے پی ایچ ڈی ہے۔

پیدایش کے اعتبار سے وہ ان ۸۰ فیصد یہودی میں سے جو اشکنازک ہیں ۔لیکن چومسکی اسرایل کا کھلا مخالف ہے۔

اب وہ ایک ماہر ادبیات کے طور پر امریکہ کی معروف یورنیورسٹی ایم آی ٹی میں ۱۹۵۵ سے پروفیسر ہے۔

چومسکی ایک ملحد فلاسفر اور ویت نام جنگ کی کھلی مخالفت کے بعد ایک سیاسی تجزیہ نگار کے طور پر ابھرا۔

اسنے پروپیگنڈہ پر سیر حاصل بحث کی اور اسکے ذریعے خون کی ہولی کیسے کھیلی جا رہی ہے ایک کتاب بھی لکھی۔

لڑکے کو اسی آخری بات نے مجبور کیا کہ چومسکی سے بات چیت کی جاے۔

نماز جمعہ پر جانے سے قبل لڑکا چومسکی کو ای میل لکھتا ہے کہ سادہ زندگی گزارنا کیوں مشکل ہوتا جا رہا ہے؟ اسکے بارے میں کیا کیا جاے؟ کیا پروپگینڈے کے ذریعے ہم انسانوں کو سادہ اوردرگزر کرنے والی زندگی کے بارے میں برین واش کر سکتے ہیں؟ کیا اس پروپگینڈے کا جنگوں اور ماحولیاتی تبدلیوں پر یکساں اثر نہ پڑے گا؟

چومسکی ایک سطری جواب دیتا ہے، یہ مشکل سوال ہیں، میں اسکا جواب نہیں دے سکتا۔

لڑکا جوابا لکھتا ہےیہ سوال کیونکر مشکل ہیں؟

چومسکی پھر ایک سطری جواب دیتا ہے، اگر یہ سوال مشکل نہیں تو میں ان کے جواب سننے میں دلچسپی رکھتا ہوں۔

لڑکا ڈینیل پایپ سے رشدی ، تسلیمہ نسرین، آمینہ ودود، جے لینڈ پوسٹر اور پوب بینڈڈ پر کی گی ایک طویل گفتگو چومسکی کو بھیجتا ہے۔لڑکے کے ذہن میں اسلام ایک سادہ سا حل ہے۔

چومسکی اس پر ایک فلسفی کی مشکلات کو لکھتا ہے ۔

چومسکی جواب میں کہتا ہے، میں نے آپکے جواب پڑھ لیے۔ اگر یہ آپ کے لیے تسلی بخش ہیں، تو ٹھیک۔ اور آپ خوش قسمت ہیں۔ لیکن میرے لیےایک طرح کے معبود کو دوسرے معبود پر تسلیم کرنے کی کو ی معقول وجہ نہیں دکھای دیتی۔ سو میرے لیے یہ جوابات بے معنی ہیں۔ لہذا اسکا جواب دینا میرے لیے مشکل ہی رہا۔

لڑکا لکھتا ہے کہ اب میں سمجھا کہ آپ کو جواب دینا مشکل کیوں ہوا۔ لیکن کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اگر انسانی اخلاق کو الہامی کتب سے ہدایت نہ ملے تو پھر کہاں سے ملے؟

چومسکی جوابا لکھتا ہے، یہ سوال غلط طریق پر کیا گیا۔ یہ سوال پہلے ہی تسلیم کر لیتا ہے کہ الہامی کتاب کو ہی انسانی اخلاق کو سمت دینی چاہیے۔ لیکن یوں تو الہامی کتاب کو کسی بھی بات کو حق بجانب کہنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال توریت جو کہ موجودہ مذاہب میں دل کی حیثیت رکھتی ہے ایک ایسی مقدس ہستی کو بیان کرتی ہے جو شاید انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ انسانوں کو ذبح کرنے والی تھی۔ نوآبادیاتی مقامی لوگوں کو قتل کر رہے تھے جب وہ امریکہ میں الہامی کتاب لہراتے ہوے داخل ہو رہے تھے۔ اسرایل کے فرزند وعدہ کی گئی زمین میں داخل ہوتے ہوے املیکٹز کو معبود برحق کے نام پر ذبح کر رہے تھے۔ اور مثالیں ان گنت ہیں۔ انسانی اخلاق ہماری اندرونی فطرت کے ماتحت ہونے چاہیں۔ اب چاہے ہم کو ایک معبود اچھا لگے یا دوسرا۔

گفتگو ہوتے ہوے ایک ہفتہ گزرنے کو آیا تھا۔ لڑکا جمعرات صبح دس بجے چومسکی کو جواب دیتے ہوے لکھتا ہےکہ میں نے سوال اسطرح اسوجہ سے کیا تاکہ میری پوزیشن واضح ہو جاے اور پھر ہم سوالات کے ذریعے سیکھنا شروع کریں گے۔ الہامی کتابوں کو پڑھنے کے بعد میں نے یہ اندازہ لگایا کہ یہ بے جاء استعمال نہیں کی جا سکتیں۔الا یہ کہ قلب سلیم ہی موجود نہ ہو۔ توریت بے شک قدیم ہے لیکن جدید الہامی کتاب نے تحریفات کو صاف کر دیا۔اور جہاں تک بات ہے تاریخ انسانی میں سب سے زیادہ ذبح کرنے والی مقدس ہستی کا تو پہلا ذرا یہ طے کر لیتے ہیں کہ حق بجانب ذبح کیا ہوتا ہے؟ کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ انسٹھ لاکھ لوگ جنگ عظیم اول اور دویم میں مارے گئے اور ذبح کرنے والوں کا تعلق آزاد فطرت سے جڑی اقوام سے تھا۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہم نظری طور پر یوں نہ سمجھ لیں کہ جنگ سے فرار ممکن نہیں اور یہ الہامی کتب کا نہیں بلکہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے؟ اور یہ کہ ہم معاہدوں کے ذریعے جنگوں سے بچ تو سکتے ہیں ختم نہیں کرسکتے؟ ایک آخری سوال یہ کہ چلیں الہامی کتب کو ہٹا دیتے ہیں، اب بتایں کہ کیونکر مختلف فطرت کے انسان ایک دوسرے کے ساتھ بغیر جنگ کے رہ سکتے ہیں؟

چومسکی لکھتا ہے کہ اچھے سوال ہیں لیکن مجھے کوئی فائدہ نظر نہیں آتا اگر کہ ہم الہامی کتاب کو استعمال بھی کر لیں۔

لڑکا لکھتا ہے۔ میں معذرت خواہ ہوں کی تفصیلی جواب لکھ کر آپکا قیمتی وقت لے رہا ہوں۔ اگر ہم الہامی کتاب سے شروع نہ کریں تو ہمیں معاشرت ایک خالی کینوس سے شروع کرنا پڑے گا۔

پھر اس کینوس میں رنگ بھرنے کے لیے ہمیں بے حد بڑے بڑے معاشرتی تجربے کرنے پڑیں گے جس کی قیمت انسانی قوت، سرمایہ اور وقت ہو گی۔ اور یہ تمام محدود ہیں۔

مثلا یہ جواب دینے کے لیے کہ ہم کہاں سے آئیں ہیں اور ہماری منزل کیا ہے ہمیں لارج ہیڈرون کولایڈر جیسے تجربات کرنا ہوں گے جس کی قیمت ہے ساڑھے نو بلین ڈالر، پینتیس ممالک، ایک سو چونسٹھ ادارے اور دو ہزار سائنسدان۔

اسی طرح مال کو سمجھنے کے لیے ہمیں تجربات کرنے ہوں گے۔ مثلا شرح سود کو سمجھنے ہمیں جواب دینا ہو گا کہ سات فیصد ٹھیک ہے یا پندرہ فیصد غیر انسانی ہے یا پھر سود ہونا ہی نہیں چاہیے! اگرچہ مالیاتی تجربات ابھی مکمل نہیں ہوئے ہیں لیکن وارن بوفٹ نے اتنی ہمت ان سب تجربات کے درمیان کی کہ اپنا احساس جرم ظاہر کیا۔ بوفٹ کہتا ہے کہ موجودہ مالیاتی نظام جو میں کرتا ہوں بہت خوب نوازتا ہے، بے انتہا اور بے حد نوازتا ہے۔ میں اپنا احساس جرم نہیں چھپاوں گا کہ میرے پاس معاشرے کے لاتعداد چیک ہیں۔

مالیاتی تجربات کے بعد ہمیں تجارتی تجربات بھی کرنا ہوں گے مثلا کم منافع لیا جاے یا زیادہ۔ کون سی شرح منافع صحیح ہے؟ہمیں جواب دینا ہو گاکہ کیا تجارت منافع کے حصول کے لیے کی جاے یا انسانی ضرویات کو پورا کرنے کے لیے؟

منظر تبدیل ہوتا ہے لڑ کا گفتگو کو تجارت، سیاست، انسانی حقوق، لیڈرشپ، کاروبار، شادی اور قانون سازی کی طرف موڑتا ہے۔

- میاں ظہوری
 

سید رافع

محفلین
شیخ یہودی دویم - ایک کہانی۔قسط 15


چومسکی لڑکے سے بات چیت میں دلچسپی لے رہا تھا جسکا اظہار اس نے گفتگو کے اختتام پر کیا بھی۔

لڑکا بات کو آگے بڑھاتے ہوئے چومسکی کو لکھتا ہے۔

جبکہ عظیم ترین کاروبار ی تجربات اپنی پوری قوت سے جاری ہیں جن میں ایجائل سے لے کر ہر جگہ اور ہر وقت کے تجربات بھی شامل ہیں بل گیٹس نے اپنے تیس سالہ کاروباری تجربات یہ سیکھا کہ پندرہ سینٹ کی میزل ویکسین انسانیت کے لیے ٹیکنالوجی کے تجربات سے زیادہ اہم ہے۔ وہ گیٹس فاونڈیشن کی ویب سائٹ پر لکھتا ہےہر روز ایک ہزار بچے پندرہ سینٹ کی میزل ویکسین نہ ملنے کے باعث مر رہے ہیں۔ وہ لکھتا ہے کہ 3 ارب لوگ دو ڈالر روزآنہ سے کم پر زندگی گزار رہے ہیں۔

جبکہ عظیم ترین کمر توڑ تکلیف دہ تجربات انسانی پیدایش و منزل تجارت اور کاروبار میں ابھی چل ہی رہے ہیں ہمارے لیے ضروری ہو گا کہ ہم سیاست میں بھی تجربات کریں تاکہ تماتر تجربات کے لیے دولت اور لوگ میسر آیئں۔ مثلا ہمیں جواب دینا ہو گاکہ کیا عام افراد قانون سازی میں حصہ لے سکتے ہیں یا یہ امیر لوگوں کا حق ہے؟ کیا سیاست قوم کے لیے کی جائے یا کہ انسانیت کے لیے؟ کیا لیڈر ایک قوم کا ہو یا کہ انسانیت کا؟

ہمیں میڈیا میں خبر پہنچانے پر بھی تجربات کرنے ہوں گے کہ کیااسکا مطلب صحیح خبر پہنچانا ہے یا انسانوں کی پروپیگنڈے کے ذریعے ذہن سازی کر نا ہے؟

سیاسی تجربات ہی کی ایک شاخ انسانی حقوق ہیں۔ ہمیں جواب دینا ہو گا کہ فرد کے کیا حقوق ہیں اور معاشرے کے کیا حقوق ہیں؟ کیا ہم جنس شادی فرد کا حق ہے یا سوسائٹی کا؟ کیا حمل ضایع کرنا انفرادی حق ہے؟جمہوریت کے تجربے کو جاری رکھنے کے لیے قانون سازی کے تجربات بھی کرنا پڑیں گے تاکہ فرد اور معاشرے کے حقوق کے درمیان ایک لطیف توازن تلاش کر لیا جائے۔مثلا کیا شادی سے قبل سیکس اور شادی سے باہر سیکس جرم ہیں؟ کیاشراب پی کر گاڑی چلانا جرم ہے یا شراب پینا ہی جرم ہے؟ ان تمام تجربات کے نتائج جانچنے کے لیے ادارے بنانے پڑیں گے جو نئے تجربات کی نشاندہی کریں اور نتائج کی روشنی میں موجودہ قوانین کو منظور و مسترد کریں۔

اسکے برعکس اگر ہم الہامی کتاب سے شروع کریں تو بنے بنائے قوانین ہمیں میسر ہوں گے اور ہمیں عظیم تجربات نہیں کرنا پڑیں گیں اوردنیاوی سرمایہ اس جگہ استعمال ہو گا جہاں ضرورت ہے۔

میں آپ سےتفصیلی ہونے پر اور آپ کا قیمتی وقت لینے پر معذرت خواہ ہوں۔



چومسکی جواب میں لکھتا ہے میں آپ نے جو کہا میں اس کے بڑے حصے سے متفق ہوں۔ لیکن ایک حذف کروں گا۔ الہامی کتاب سے بالکل یہی مسائل ابھریں گے ،ایک مذیڈ کے ساتھ۔ ہمیں اپنے منتخب شدہ معبودپر ایمان کو حق بجانب ثابت کرنا ہوگا اور اپنے معبود کو اسکی چنی گی صفات کے ساتھ حق بجانب ثابت کرنے کی جستجو کرنا پڑے گی۔



لڑکا اپنی پچھلی بات کی مذید وضاحت کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میری معذرت قبول کریں کہ انگلش میری مادری زبان نہیں۔ ایک الہامی کتاب کے ساتھ ہمیں یکساں مسائل کا سامنا نہ ہو گا کہ ہمارے پاس بنے بنائے قوانین موجود ہوں گے اور کوئ عظیم تجربات کی چنداں ضرورت نہ ہوگی۔مثلاایک معبود کو تسلیم کر لینے بعد ہمیں معلوم ہو گا کہ ہم کہاں سے آئے اور کہاں جا رہے ہیں۔ ہمیں معلوم ہو گا کہ بلاسودی کاروبار ہی صحیح تجارتی ماڈل ہے۔ اسی طرح کم شرح منافع اس بات کے احساس کے ساتھ کہ کاروبار کا اصل مقصد انسانی ضرورتوں کو پورا کرنا ہے نہ کہ منافع کمانا۔ معبود کو تسلیم کرنے سے عظیم تجربات ضرور بالضرور رک جایئں گے۔ جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ اگر ہم کوئی بھی معبود منتخب کر لیں اس کو حق بجانب کیسے ثابت کریں گے؟ سو اسکے لیے ایمان لانے والےاپنے اپنے صحیفوں کی طرف لوٹیں گے اورصحیفوں کے علماء آپس میں بات چیت کر کے ایک صفحے پر آجایئں گے۔ علماء صحفاء آسان الفاظ میں عام انسانوں کو بتا دیں گے کہ انکے حق بجانب ہونے کی کیا دلیل ہے کہ جن صفات کے ساتھ انہوں نے معبود کو مانا۔ کیونکہ یہ کام تحقیق طلب اور قابل تعین ہے سو یہ ممکن ہے کہ اس میں کثیر سرمایہ نہ لگے ۔



چومسکی جواب میں لکھتا ہے کہ اگر ہم ایسا معبود منتخب کریں جو حق بجانب جواب دیتا ہو تو سوالوں کے جواب عادلانہ دیے جائیں گے۔لیکن ایسا تو ہم بنا کسی معبود کو منتخب کیے بغیر بھی کر سکتے ہیں۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ معبود منتخب کرنے سے انکی زندگیاں بہتر ہوں گی، انکے خیالات بہتر ہوں گے، ان کے جذبات بہتر ہوں گے۔ بہت خوب۔لیکن میں دیانت داری سے یہ سمجھتا ہوں کہ اس میں قابل گفتگو کچھ ہے ہی نہیں۔



منظر تبدیل ہوتا ہے لڑ کا گفتگو کو سمیٹتے ہوئے علماء اور جنگوں پر کچھ مذید کلام کرتاہے۔

- میاں ظہوری
 

سید رافع

محفلین
شیخ یہودی دویم - ایک کہانی۔قسط 16


چومسکی لڑکے سے بات چیت میں دلچسپی لے رہا تھا جسکا اظہار اس نے گفتگو کے اختتام پر کیا بھی۔

لڑکا بات کو آگے بڑھاتے ہوئے چومسکی کو لکھتا ہے۔

جبکہ عظیم ترین کاروبار ی تجربات اپنی پوری قوت سے جاری ہیں جن میں ایجائل سے لے کر ہر جگہ اور ہر وقت کے تجربات بھی شامل ہیں بل گیٹس نے اپنے تیس سالہ کاروباری تجربات یہ سیکھا کہ پندرہ سینٹ کی میزل ویکسین انسانیت کے لیے ٹیکنالوجی کے تجربات سے زیادہ اہم ہے۔ وہ گیٹس فاونڈیشن کی ویب سائٹ پر لکھتا ہےہر روز ایک ہزار بچے پندرہ سینٹ کی میزل ویکسین نہ ملنے کے باعث مر رہے ہیں۔ وہ لکھتا ہے کہ 3 ارب لوگ دو ڈالر روزآنہ سے کم پر زندگی گزار رہے ہیں۔

جبکہ عظیم ترین کمر توڑ تکلیف دہ تجربات انسانی پیدایش و منزل تجارت اور کاروبار میں ابھی چل ہی رہے ہیں ہمارے لیے ضروری ہو گا کہ ہم سیاست میں بھی تجربات کریں تاکہ تماتر تجربات کے لیے دولت اور لوگ میسر آیئں۔ مثلا ہمیں جواب دینا ہو گاکہ کیا عام افراد قانون سازی میں حصہ لے سکتے ہیں یا یہ امیر لوگوں کا حق ہے؟ کیا سیاست قوم کے لیے کی جائے یا کہ انسانیت کے لیے؟ کیا لیڈر ایک قوم کا ہو یا کہ انسانیت کا؟

ہمیں میڈیا میں خبر پہنچانے پر بھی تجربات کرنے ہوں گے کہ کیااسکا مطلب صحیح خبر پہنچانا ہے یا انسانوں کی پروپیگنڈے کے ذریعے ذہن سازی کر نا ہے؟

سیاسی تجربات ہی کی ایک شاخ انسانی حقوق ہیں۔ ہمیں جواب دینا ہو گا کہ فرد کے کیا حقوق ہیں اور معاشرے کے کیا حقوق ہیں؟ کیا ہم جنس شادی فرد کا حق ہے یا سوسائٹی کا؟ کیا حمل ضایع کرنا انفرادی حق ہے؟جمہوریت کے تجربے کو جاری رکھنے کے لیے قانون سازی کے تجربات بھی کرنا پڑیں گے تاکہ فرد اور معاشرے کے حقوق کے درمیان ایک لطیف توازن تلاش کر لیا جائے۔مثلا کیا شادی سے قبل سیکس اور شادی سے باہر سیکس جرم ہیں؟ کیاشراب پی کر گاڑی چلانا جرم ہے یا شراب پینا ہی جرم ہے؟ ان تمام تجربات کے نتائج جانچنے کے لیے ادارے بنانے پڑیں گے جو نئے تجربات کی نشاندہی کریں اور نتائج کی روشنی میں موجودہ قوانین کو منظور و مسترد کریں۔

اسکے برعکس اگر ہم الہامی کتاب سے شروع کریں تو بنے بنائے قوانین ہمیں میسر ہوں گے اور ہمیں عظیم تجربات نہیں کرنا پڑیں گیں اوردنیاوی سرمایہ اس جگہ استعمال ہو گا جہاں ضرورت ہے۔

میں آپ سےتفصیلی ہونے پر اور آپ کا قیمتی وقت لینے پر معذرت خواہ ہوں۔



چومسکی جواب میں لکھتا ہے میں آپ نے جو کہا میں اس کے بڑے حصے سے متفق ہوں۔ لیکن ایک حذف کروں گا۔ الہامی کتاب سے بالکل یہی مسائل ابھریں گے ،ایک مذیڈ کے ساتھ۔ ہمیں اپنے منتخب شدہ معبودپر ایمان کو حق بجانب ثابت کرنا ہوگا اور اپنے معبود کو اسکی چنی گی صفات کے ساتھ حق بجانب ثابت کرنے کی جستجو کرنا پڑے گی۔



لڑکا اپنی پچھلی بات کی مذید وضاحت کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میری معذرت قبول کریں کہ انگلش میری مادری زبان نہیں۔ ایک الہامی کتاب کے ساتھ ہمیں یکساں مسائل کا سامنا نہ ہو گا کہ ہمارے پاس بنے بنائے قوانین موجود ہوں گے اور کوئ عظیم تجربات کی چنداں ضرورت نہ ہوگی۔مثلاایک معبود کو تسلیم کر لینے بعد ہمیں معلوم ہو گا کہ ہم کہاں سے آئے اور کہاں جا رہے ہیں۔ ہمیں معلوم ہو گا کہ بلاسودی کاروبار ہی صحیح تجارتی ماڈل ہے۔ اسی طرح کم شرح منافع اس بات کے احساس کے ساتھ کہ کاروبار کا اصل مقصد انسانی ضرورتوں کو پورا کرنا ہے نہ کہ منافع کمانا۔ معبود کو تسلیم کرنے سے عظیم تجربات ضرور بالضرور رک جایئں گے۔ جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ اگر ہم کوئی بھی معبود منتخب کر لیں اس کو حق بجانب کیسے ثابت کریں گے؟ سو اسکے لیے ایمان لانے والےاپنے اپنے صحیفوں کی طرف لوٹیں گے اورصحیفوں کے علماء آپس میں بات چیت کر کے ایک صفحے پر آجایئں گے۔ علماء صحفاء آسان الفاظ میں عام انسانوں کو بتا دیں گے کہ انکے حق بجانب ہونے کی کیا دلیل ہے کہ جن صفات کے ساتھ انہوں نے معبود کو مانا۔ کیونکہ یہ کام تحقیق طلب اور قابل تعین ہے سو یہ ممکن ہے کہ اس میں کثیر سرمایہ نہ لگے ۔



چومسکی جواب میں لکھتا ہے کہ اگر ہم ایسا معبود منتخب کریں جو حق بجانب جواب دیتا ہو تو سوالوں کے جواب عادلانہ دیے جائیں گے۔لیکن ایسا تو ہم بنا کسی معبود کو منتخب کیے بغیر بھی کر سکتے ہیں۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ معبود منتخب کرنے سے انکی زندگیاں بہتر ہوں گی، انکے خیالات بہتر ہوں گے، ان کے جذبات بہتر ہوں گے۔ بہت خوب۔لیکن میں دیانت داری سے یہ سمجھتا ہوں کہ اس میں قابل گفتگو کچھ ہے ہی نہیں۔



منظر تبدیل ہوتا ہے لڑ کا گفتگو کو سمیٹتے ہوئے علماء اور جنگوں پر کچھ مذید کلام کرتاہے۔

- میاں ظہوری
 

سید رافع

محفلین
شیخ اول پرانی سبزی منڈی - ایک کہانی۔قسط 17


رات کا آٹھ بج رہا تھا۔

لڑکا ایک چھوٹے بیگ میں دو جوڑی کپڑے ٹوتھ پیسٹ برش اور دو چادریں رکھتا ہے۔

رکشا لے کر وہ پرانی سبزی منڈی کی ایک مسجد پہنچتا ہے۔

یہ مسجدایک تاریخ رکھتی ہے۔

سات سو برس قبل عراق سے بے شمار نیک و صالح بزرگ ہند تشریف لائے۔

بغداد میں عباسی خلیفہ کو چنگیز خان کے سپاہیوں نے قالین میں لپیٹا اور گھوڑوں سے روند ڈالا۔

یوں عظیم اسلامی خلافت و حکومت کا خاتمہ ہوا۔

اسلام ایک نور ہے ۔

یہ سینوں میں اترنے کے لیے اپنا ظاہر حدود میں رہ کر تبدیل کر لیتا ہے۔

ہند آنے والے نیک اور صالح بزرگوں نے دیکھا کہ یہاں کے لوگ جب مندر جاتے ہیں توپرپرساد کا کھانا ملتا ہے۔

سو ان صالحین نے مسجد میں آنے والوں کو کھانا کھلایا اور اسکا نام لنگر پڑا۔

لوگ اس سے خوش ہوتے اور اسلام سے جڑتے جاتے۔

مندر میں بھجن گایا جاتا۔

سو ان بزرگوں نے قرآن و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف پر مبنی قوالیاں اور نعتیں ترتیب دیں۔

لوگ اس سے خوش ہوتے اور اسلام سے جڑتے جاتے۔

مندر کے سادھو اور پنڈت گہرے رنگوں جیسے نارنجی، بیگنی اور ہرے رنگوں کے لباس پہنتے۔

سو ان صالحین نے اسلام کی ترویج کے لیے انہی رنگوں کے عمامے اور عبائے سلوا کر پہننا شروع کیے تا کہ ظاہر سے وحشت نہ ہو۔

لوگ اس سے خوش ہوتے اور اسلام سے جڑتے جاتے۔

ان صالحین نے دیکھا کہ ہندو جوگی، بابے اور پنڈت آسن لے کے کر چالیس روز دریا میں کھڑے ہوتے، کچھ کنویں میں پورا دن الٹا لٹکتے، کچھ سالوں ہمالیہ کے پہاڑوں پر گزارتے۔

یہ عملیات جوگی بابے میں ہوا میں اڑنے، پہاڑوں کو سرکانے اور مستقبل کا نقشہ بتا دینے میں مدد کرتیں۔

سو ان صالحین نے چالیس روز دریا میں کھڑے ہو کر سورہ مزمل پڑھی، کچھ عقیدت مندوں کو کنویں میں الٹا لٹکنے کو کہا اور کچھ نے بارہ سال ہمالیہ میں اپنے شیخ کے ساتھ گزارے۔

ان صالح بزرگوں کی اسلام سے یہ محبت اور جان توڑ ریاضتیں رنگ لایں ۔

ایک اندازے کے مطابق محض بزرگوار خواجہ معین الدین چشتی رحمہ اللہ کے کوششوں سے نوے لاکھ ہندوں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔

یہ سب کے سب صالحین حیدر کرار جناب علی المرتضی علیہ السلام کے شجر کے خوشہ چیں تھے۔

وقت گزرا۔

اب ہندووں پنڈتوں نے ظاہر کو تبدیل کیا کہ اسلام کے اس سیل رواں کے آگے بند باندھا جائے۔

سو پنڈتوں اور بابوں نے مسلمانوں کی طرح ایک خدا کو ماننا شروع کیا۔

ان میں باباگرو نانک اولین اور اس تحریک کے بانی ہیں۔

مسلمان بارہ اماموں کو مانتے سو انہوں نے دس گرو کو مانا۔

عمامہ پہننا شروع کیا۔

زلفیں بڑھایں۔

تلوار و کرپان لباس کا حصہ بنایا۔

یہ مذہب سکھ مت کھلایا۔

مسلمان صالحین پر ایک مشکل یہ تھی تو دوسری طرف مسلمان علماء بزرگوں کی ظاہری حالت کو واپس اصل سادہ حالت میں واپس لانا چاہتے تھے۔

یہ مسجد جس میں لڑکا رات ساڑھے آٹھ بجے پہنچا تھا انہی بزرگوں کے سلسلہ جدوجہد کی ایک کڑی تھی۔

لڑکا تربیت گاہ پر بیٹھے شیخ اول سے مصافحہ کرتا ہے اور اپنے تین دن رکنے کے ارادے کو ظاہر کرتا ہے۔

شیخ مسکرا کر کہتے ہیں آپ بیگ یہاں رکھیں اور بعد از عشاء ہم بات کرتے ہیں۔

لڑکے کی نظر مسجد کے ستنوں پر لگے بورڈ ز پر پڑتی ہے۔

ایک بورڈ جو پلاسٹک کا بنا ہوا تھا اور ٹیوب لایٹ اسکے اندر روشن تھی لکھا تھا کہ ماں باپ کا نافرمان جنت میں نہ جائے گا۔

لڑکے کو دھچکا لگتا ہے کیونکہ وہ اپنے والدین کی رضا مندی کے بناء یہاں آیا تھا۔

بعد از عشاء لڑکا وہ بورڈ شیخ کو دکھاتا ہے اور واپس گھر لوٹنے کا عندیہ سناتا ہے۔

شیخ لا کھ تاویل کرتے ہیں لیکن لڑکا بعد از سلام رخصت ہوتا ہے۔

اب رکشا گھر کی جانب دھواں اڑاتے دوڑا جا رہا ہے۔

لڑکا بعد کے مہینوں میں جب اس بورڈ کو دیکھتا ہے تو وہ اتار دیا گیا ہوتا ہے۔

لڑکے کو روحانی مراکز مکر میں گھرے ہوئے اور مادی مراکز سود میں ڈوبے دکھائ دیتے ہیں۔


منظر تبدیل ہوتا ہے لڑ کا غیر سودی اشتہاری بورڈ بیت المکرم پر لگاتا ہے۔

- میاں ظہوری
 

سید رافع

محفلین
غیر سودی بورڈ - ایک کہانی۔قسط 18


لڑکا ایک صبح نیپا چورنگی سے سوک سینٹر اور پھر واپس گلشن چورنگی تک سفر کرتا ہے۔

اسکا ارادہ تھا کہ ایک بورڈ لگائے جس پر اس کی ویب سائٹ کا بنیادی پیغام درج ہو۔

پیغام تھا،سودی بینکوں سے پیسا نکال کر حلال تجارت میں لگائیں۔

لڑکا گاڑی چلا رہا تھا لیکن وہ ہر گزرنے والے خالی بورڈ جس پر ٹولیٹ لکھا ہے اسکے نمبر پر بات بھی کرتا جا رہا تھا۔

اردو سائنس کالج کا 25 فٹ بورڈ 25 ہزار روپے ماہانہ کرائے پر ایک ماہ کے لیے میسر تھا۔

پینافلیکس کا ڈیزاین ، چھپائ ، شیٹ اور چڑھانا اتارنا سب اشتہاری کمپنی کے ذمے تھا۔

آگے کے بورڈ اور مہنگے تھے جبکہ شاہراہ فیصل پر ان کی قیمت ڈھائی گنا تک تھی۔

خدمت خلق کے اشتہار جس پر کسی کا نام، پتہ، فون یا ویب سائٹ نہ ہو تو صرف شیٹ اور چھپائی کی قیمت دینا تھی۔

کیونکہ ویب سائٹ کا نام تھا سو یہ خدمت خلق کے زمرے میں نہ آتا تھا۔

لڑکا گاڑی یو ٹرن کرتا ہے۔

ایک بورڈ بیت المکرم کے مقابل سڑک کے کنارے پر واقع تھا۔

کے ایم سی کے لگائے گئے سفیدے کے درخت اس کے پیچھے تھے۔

دو سو میٹر دور ایک درخت کی کچھ شاخیں ہوا سے لہرا کر اس بورڈ کے اوپری الٹے ہاتھ کا منظر روکے دیتیں تھیں۔

لڑکا اشتہاری کمپنی کو کال ملاتا ہے۔

پتہ چلتا ہے کہ اس کی قیمت 16 ہزار روپے ماہانہ ہے۔

لڑکا دیگر بورڈز کی قیمت پتہ کرتا جاتا ہے۔ یوں گھر آ جاتا ہے۔

اگلے دن اشتہاری کمپنی کے دفتر میں پہنچتا ہے۔وہ ایک فلیٹ تھا۔

لڑکا رقم ادا کرتا ہے۔

اشتہاری کمپنی کے صاحب کہتے ہیں کہ وہ ای میل پر ڈیزائن حتمی منظوری کے لیے بھیجیں گے۔

ان صاحب نے شاید ایسا اشتہار اکثر نہ دیکھا تھا۔ سو ایک لکیر حیرت کی ان کی پیشانی پر دوڑ گئی۔

لوگ سمجھتے ہیں دنیا بھر میں لوگ اور خصوصا پاکستان کے مسلمان فارمی مرغیاں کھانے سے بے حیاء اور غیر حساس ہو گئے ہیں حالانکہ سود ی ادارے میں رقم رکھنا بھی گویا ایک مخبوط الحواس مرد کا ساتھ دینا ہے جس کا گناہ ماں کے ساتھ 36 دفعہ سے بھی زیادہ بے حیائی کا کام کرنا ہے۔ سود رقم کا ہی لین دین ہے لیکن اس پیدا ہونے والی بے حیائی کی شدت ملاحظہ کیجیے کہ ایک تو بدکاری وہ بھی ماں کے ساتھ اور وہ بھی 36 دفعہ نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ یقینا اس 36 میں بھی راز نبوت ہے جس سے لڑکا واقف نہیں۔ یقینا ماں بھی راز رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس سے لڑکا واقف نہیں۔ یقینا بدکاری میں راز پیغمبر ہے جس سے لڑکا واقف نہیں۔

جمعرات آفس جاتے ہوئے لڑکا اشتہار کو دیکھتا ہے اور خوش ہوتا ہے کہ کتنے ہی لوگ متوجہ ہوں گے۔

آفس سے واپسی پر بھی اشتہار لگا ہوتا ہے۔

اب جمعے کا دن چڑھتا ہے۔

لڑکا چلتی گاڑی سے گردن گھما کر جو دیکھتا ہے تو وہاں سے اشتہار غائب ہے۔

لڑکا اشتہاری کمپنی کے صاحب کو کال ملاتا ہے ۔

وہ صاحب حیرانی سے کہتے ہیں اشتہار وہاں نہیں ہے؟

وہ کہتے ہیں میں جا کر دیکھتا ہوں اور آپ کو کال بیک کرتا ہوں۔

جمعہ ان کی کال آتی ہے وہ کہتے نامعلوم لوگوں نے رات کو وہ اشتہار اتار لیا۔ ان کی آواز میں ایک عزم تھا۔

وہ کہتے ہیں آپ فکر نہ کریں میں بغیر کسی اضافی قیمت کے اشتہار دوبارہ بنا کر لگوا تا ہوں۔

سود سے کثیر بے حیائی پیدا ہوتی ہے۔ جس سے کثرت زنا جو آنکھوں سمیت زبان، کانوں اور شرم گاہ سے کیا جاتا ہے عام ہو جاتا ہے۔زنا سے ولد الزنا لڑکے اور لڑکیا پیدا ہوتے ہیں جو مذید زنا کی طرف راغب ہوتے ہیں اور صالحین کو صرف قتل کر کے چین پاتے ہیں۔ کوئی ہدایت ولد الزناکو بھلائی کی طرف راغب نہیں کرتی کہ عیب شدید ہے لیکن الا ماشاء اللہ۔ کوئئ محبت ولد الزنا کو توحید سے جڑنے نہیں دیتی کہ عیب شدید ہے لیکن الا ماشاء اللہ۔ ولدالزنا کی کثرت ہو تو قتل بڑھتا ہے کہ وہ صالحین کو دباتے ہیں یا قتل کرتے ہیں۔ اگر ولدالزنا لڑکی ہو تو وہ قتل ابرار پر مردوں کو اکسائے گی اور جذباتی کرئے گی۔ جب صالحین مرتے ہیں تو برائی اور فتنہ برپا ہونے کا بند ٹوٹتا ہے اور لوگوں پر قتل سیلاب کی طرح نازل ہوتا ہے۔ جس میں حیاء نہیں پھر وہ سو جو چاہے کرتا پھرے۔

اشتہار دوبارہ لگتا ہے۔

لڑکا ہفتے کی صبح دیکھتا ہے تو اشتہار لگا ہوا ہے۔

لیکن یہ منظر رات تک ہی قائم رہتا ہے۔ لڑکا اتوار کی صبح جب دوبارہ دیکھتا ہے تو اشتہار رات کی تاریکی میں پھر نامعلوم افراد نے اتار لیا تھا۔

اب کے سے اشتہاری کمپنی کے صاحب کی کال خود آتی ہے اور وہ افسوس کا اظہار کرتے۔ لڑکا انکو تسلی دیتا ہے اور انکے تعاون کا شکریہ ادا کرتا ہے۔

آج سے پورے 120 سال پہلے 1898 میں پہلی عالمی بینکرز کا خفیہ اجلاس ہوتا ہے۔

آج سے پورے 120 سال پہلے 1898 میں فرعون کا لاشہ سمندر کی تہہ سے ملتا ہے اور تصدیق بھی ہو جاتی ہے۔

قرآن کی آیت ہے کہ فرعون کی لاش کو ہم آنے والوں کے لیے نشانی بنا دیں گے۔

لیکن چودہ سو سال میں یہ نشانی ظاہر نہ ہوئی۔

فرعون کا گنا ہ کیا تھا۔ وہ کہتا تھا میں سب سے بڑا رب ہوں۔ میری تہذیب مثالی تہذیب ہے۔ یہ قرآن بتاتا ہے۔

اب 1898 میں ایک بات طے پائی کہ عالمی بینکر رب اعلی ہے اور اسکی تہذیب مثالی ہے۔

بس نشانی ظاہر ہو گئی۔

انکے ساینسدانوں نے بتا دیا کہ دیکھ لو یہ تصدیق شدہ فرعون کو کہ اسکا بھی یہی دعوی تھا۔

لیکن صد افسوس کہ موسی علیہ السلام کے باوجود محبت سے سمجھانے سے وہ اپنے دعوی رب اعلی سے دستبردار نہ ہوا۔

وہ مکر کرتا تھا۔

بہت بڑا مکر۔

وہ کثرت سے ذبح کرتا۔

چھوٹے بچوں کو ذبح کرتا کہ اسکی حکومت بچ جائے۔

آج عالمی بینکر مخبوط الحواس ہو کر یہی سب کر رہے ہیں ۔

مسلمان اپنے مال انکے بینکوں میں رکھ کر انکے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں اور انکے بچے قتل ہوئے جاتے ہیں۔

لڑکا اب سینکڑوں پمفلٹ فوٹو اسٹیٹ کراتا ہے۔

جمعے کے دن وہ پچھلی صف میں بیٹھتا ہے۔

جماعت جونہی اختتام کو پہنچتی ہے لڑکا مسجد کے گیٹ پر چپل پہن کر آ جاتا ہے۔

وہ ایک پمفلٹ کو آگے کر دیتا۔

جو نمازی چاہتا پمفلٹ لے لیتا۔

لڑکا آفس کی راہ لیتا ہے اور بقیہ بچے ہوئے پمفلٹ دکانوں میں دیتا جاتا ہے۔

لڑکے کو سود کا علاج تجارت سمجھ آیا سو اسکی تشہیر کی لیکن حقیقتا سود کا علاج صدقہ ہے۔

نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم جو آتا رات آنے سے پہلے صادقہ کر دیتے۔ سو محروم کا حق اسکو پہنچ جاتا۔

رسول محترم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن، دو ن اور حد ہے کہ تین دن والے کو ہلکا کہا کہ وہ تمام گھاٹیاں عبور کر جائے گا۔

لڑکے کے پاس جب دس ماہ کا مال بینک میں ہو وہ اطمینان پاتا ہے۔ جبکہ ایک ماہ کا خرچہ 90 ہزار ہو۔

جب یہ ہو تو وہ توکل کی حالت میں آتا ہے اور اگلی منزل کی طرف دیکھتا ہے۔

اس کو عقل سے حل کرنا ہو گا کہ کیسے ہلکا ہواجائے تاکہ پھنیں نہیں گھاٹیاں عبور کرتے جایئں۔

صدقہ و تحفہ اپنے والدین کو دیں۔ خوب دیں۔

پھر گھر والوں بیوی بچوں کو۔ خوب دیں۔

پھر محلے والوں کو۔ خوب دیں۔

پھر رشتے داروں کو۔ خوب دیں۔

پھر کوئ ادارہ بنا لیں۔ خوب دیں۔

گھرانوں کو جوڑنا سب سے اہم ہے اور یہی ہلکے ہونے کی راہ۔

لڑکا بینک میں موجود سونے کی ڈلی خریدتے خریدتے نہ ہونے کے برابر کر دیتا ہے تاکہ کم از کم مال کاغذی نوٹ کی صورت میں نہ ہو۔

لیکن اسکا اصل علاج ضروری خرچے رکھ کر سب بلترتیب تحفہ دے دینا ہے۔ وہ مال آپکا ہے ہی نہیں۔

لڑکا اب تک یہ سمجھ رہا تھا کہ یہ سب بے خبری کے سبب ہے سو وہ مذید تحصیل علم کے لیے کوشش کرتا ہے۔

منظر تبدیل ہوتا ہے لڑ کا شیخ اول بنوری ٹاون سے آٹھ سالہ درس نظامی میں شامل ہونے کی بات کرتا ہے۔

- میاں ظہوری
 

سید رافع

محفلین
شیخ اول بنوری ٹاون - ایک کہانی۔قسط 19


ایک صبح لڑکا بنوری ٹاون میں موجود ایک مسجد پہنچتا ہے۔

لڑکا اپنے والدین سے علحیدہ طارق روڈ میں ایک مکان میں اپنی دلہن کے ساتھ منتقل ہوگیا تھا۔

نوکری اور عام مردوں سے تعلقات نے لڑکے پر یہ واضح کر دیا تھا کہ علم کی کمی لوگوں کو طرح طرح سے بھٹکا رہی ہے۔

چنانچہ اسکے ذہن میں کسی مدرسے میں منتقل ہونے کا خیال آیا۔

عام دینی مسائل کے حل کے لیے لڑکے کا بارہا اس مدرسے آنا ہوا تھا۔

مدرسے کا ماحول انتہائی سادہ تھا۔

کثیر علم سے لبریز علماء بھی زمین پر نشست و برخواست کرتے اور چند ہی لمحوں میں بڑی سے بڑی الجھن رفع کر دیتے۔

انکا انداز گفتگو دھیما، بے لاگ اور ڈر سے خالی ہوتا۔

اس مدرسے کے بانی سادات حسینی سے تھے۔

ان کا نسب سید آدم رحمہ اللہ اور امام حسین علیہ السلام سے ہوتے ہوئے جناب حیدر کرار علی المرتضی علیہ السلام سے جا ملتا۔

بے انتہا متوکل، سیاست اور شہرت سے دور علم حدیث سکھانے میں مشغول رہتے۔

لڑکا انکے بیٹے سے ملنے گیا تھا۔

یہ سب نقشبندیہ سلسلے کے بزرگ تھے ۔

ان کا سلسلہ سید آدم رحمہ اللہ سے ہوتے ہوئے مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ سے جا ملتا۔سید آدم رحمہ اللہ مجدد الف ثانی کے اجل خلفاء میں سے تھے۔ مجدد الف ثانی بادشاہ اکبر کے دین اکبری کا رد و مقابلہ کرنے کے باعث مشہور ہوئے۔

بانی بنوری ٹاون نے سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ سے اکتساب فیض کیا تھا جن کا شجرہ امام حسین علیہ السلام سے جا ملتا تھا۔ سید حسین احمد مدنی اپنے شیخ محموالحسن رحمہ اللہ کے ساتھ برطانوی راج کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے اسیر مالٹا ہوئے۔

لڑکا دار الفتاء سے چند قدم دور ایک بڑے کمرے میں شیخ بنوری ٹاون اول کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ اس کمرے میں مدرسے کے منتظمین تشریف رکھتے تھے۔

علماء کا یہ سلسلہ ایک تاریخ رکھتا ہے۔

عا لمی بینکرزبرطانیہ کیتھولک چرچ سے بغاوت کی پروٹیسٹنٹ تحریک کامیاب کرا چکے تھے۔

انقلاب فرانس کے ذریعے یہی کام فرانس میں مکمل ہوا۔اور پھر امریکہ میں۔

پروٹیسٹنٹ عیسائی دنیا کے وہابی ہیں۔

انہوں نے پوپ کے بوجھل تحریف شدہ دین سے بغاوت کردی تھی اور کتاب کی تشریح خود کرتے ۔

بینکرز نے ان منحرف لوگوں کو سائنسدان بنایا اور طرح طرح کی مشینیں اور ہتھیار بنانے میں استعمال کیا۔

ان اقوام کو دین سے مذید دور کرنے کے لیے جنس پرستی کو عام کیا گیا یہاں تک کہ ان ممالک کی اسی فیصد آبادی حرامزادوں پر مشتمل ہے۔

سو زنا اور قتل ان اقوام کا مزاج بن گیا ہے۔

ان اقوام میں ایسی عورتیں ہیں جو بے حیائی میں صف اول پر ہیں۔ اور ایسے مرد ہیں جو سنگ دلی سے قتل کرنے میں صف اول پر ہیں۔

بینکرز کو پتہ چل گیا تھا کہ جنگ اقوام کو سودی قرضوں میں پھسناتی اور انکا غلام بناتی ہے۔

سو جنگ عظیم اول شروع ہوئی۔

برطانوی راج جنگ عظیم اول میں بری طرح پھنس چکا تھا۔

قریبا ایک کروڑ لوگ جان بحق ہو چکے تھے۔

راج برطانیہ اور فرانس کی اتحادی افواج کو گندم اور افراد سارے ہند سے پہنچ رہے تھے۔ لیکن پنجاب اور بنگال میں راج کے خلاف تحریکیں چل رہیں تھیں۔

پنجاب میں صورتحال تیزی سے بگڑ رہی تھی۔

سرحدی علاقوں ، قبائل اور افغانستان کا حال یہ تھا کہ وہاں راج برطانیہ کی ایک نہ چلتی تھی۔

کمزور ہوتے راج برطانیہ نے ان تحریکوں کو قابو کرنے کے لیے کالا قانون نکالا جس کا نام رولٹ ایکٹ تھا۔

قانون کے تحت کسی کو غداری کے شک کی بنیاد پر جیل میں ڈالا جا سکتا ہے۔

اسی دوران پنجاب کے شہر امرتسر میں جلیانوالہ باغ میں جرنل ڈائر نے قریبا چار سو لوگوں کو ایک جلسہ گاہ میں قتل کیا۔

مسلمان، ہندو، سکھ، بچے، عورتیں، بوڑھے سب مارے گئے۔

آج بھی اگر پاک وہند کے لوگوں میں فاصلے کم ہوں تو انکے اصل دشمن راج برطانیہ سے مقابلہ ممکن ہو اور اس خطے کے خوشحالی کا دور دورہ ہو۔

اس بدلتی صورتحال کو دیکھتے ہوئے سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ اپنے شیخ مولانا محموالحسن کے ساتھ مکہ گئے ۔

وہ سلطنت عثمانیہ سے مدد حاصل کرنا چاہتے تھے جو کہ راج برطانیہ کا دشمن تھا۔

اپنے ایک رفیق عبد اللہ سندھی کو افغانستان بھیجا کہ فوجی امداد حاصل ہو۔ انہوں نے وہاں سے زرد رنگ کے تین ریشمی رمالوں پر خط ہند روانہ کیے۔

لیکن غداری ہوئی اور رمال پکڑے گئے۔

مکہ میں بھی عربوں نے ترکوں کے خلاف بغاوت کی۔

سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ اپنے شیخ مولانا محموالحسن بغاوت کے جرم میں پکڑے گئے اور مالٹاکے جزیرے بھیج دیے گئے۔

مالٹا آج کے گوانتاناموبے کے جزیرے کی طرح ہے۔

بانی بنوری ٹاون کی مردان کے نزدیک پیدائش ، پشاور میں تعلیم کے علاوہ سرحدی علاقوں اور افغانستان سے تعلق کی ایک وجہ یہ تاریخ بھی ہے۔

مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ سےگہرے تعلق کی وجہ سے ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص شغف تھا۔

اسکے علاوہ والد گرامی طبیب تھے اور خوابوں کی تعبیر کا علم جانتے تھے سو یہ علوم گھر سے ہی مل گئے۔

دس لڑکوں کے ساتھ قرضہ لے لے کر مدرسے کو شروع کیا تھا۔

شیخ کمرے میں داخل ہوتے ہیں۔

وہ ایک نوجوان تھے۔

لڑکے سے مصافحہ کرنے کے بعد کہا کہ آپ ملاقات کرنا چاہ رہے تھے۔

لڑکا کہتا ہے جی۔ بات یہ ہے کہ میں لوگوں سے تعلق میں دین کا نقصان پاتا ہوں۔

لڑکا مذید اپنے ذاتی اور نوکری کے حالات کا تذکرہ کرتا ہے ۔

لڑکا کہتا ہے کہ کیا یہ اچھا نہ ہو گا کہ میں درس نظامی کی تعلیم میں مصروف ہو جاوں تاکہ نیک صحبت میسر آئے۔

شیخ بے لاگ جواب فورا دیتے ہیں۔ یہاں بھی لوگ ویسے ہی ملیں گے۔

لڑکے کے پاس اب کہنے کو کچھ نہ تھا سو شیخ سے رخصت کا مصافحہ کیا۔



منظر تبدیل ہوتاے لڑ کا یہودی مستشرق ڈینیل پائپ کو رشدی، تسلیمہ نسرین، امینہ ودود، جے لینڈ پوسٹن اور پوپ بینڈکٹ سے متعلق تفصیل سے لکھتا ہے۔

- میاں ظہوری
 

سید رافع

محفلین
رشدی، تسلیمہ نسرین، امینہ ودود، جے لینڈ پوسٹن اور پوپ بینڈکٹ - ایک کہانی ۔ قسط 20


لڑکا یقین رکھتا تھا کہ سورہ الحجر کے لَحَافِظُوْنَ سے قرآن کی حفاظت ہوئی تو سورہ الکوثر کے انا شائنک ھو الا بتر سے اللہ نے رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کو برباد کرنے کا وعدہ لیا۔

سو لڑکے کا کام اب محض اس نعمت اسلام میں سے زیادہ سے زیادہ حصہ لینا رہ گیا۔

جن کاموں کی ذمہ داری اللہ نے لی وہ کیونکر اپنے ذمے لے سکتا تھا۔

ہاں البتہ یاد دھانی اس کی ذمے داری ٹہری۔

لڑکا ڈینیل پائپ کوتفصیلی لکھتا ہے کہ وہ کیسے سوچتا ہے۔

ڈینیل نے ملکہ برطانیہ کے رشدی کو سر کا خطاب دینے کی تائید کی اور کہا کہ وہ ایک عمدہ ناول نگار ہے۔

لڑکا اپنا تعارف کراتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ کراچی پاکستان سے تعلق رکھتا ہے۔

وہ طالب علم ہے اور اس موضوع پر بات کرنے کا اہل نہیں لیکن اس کااس واقعے پر ا یک نقظہ نظر ہے جس سے اس سمیت دنیا بھر کے مسلمان غم زدہ ہوئے۔

لڑکا ابتدائی وضاحت کرتا ہے۔

میری سطحی مسئلے اور چہروں پر بات کی ذرا بھی خواہش نہیں۔

مثلا رشدی، تسلیمہ نسرین، امینہ ودود، جے لینڈ پوسٹن اور پوپ بینڈکٹ۔

لیکن میں شدید خواہش مند ہوں کہ ہم مسئلے کی جڑ پر بات کریں تاکہ سمجھیں اور حل کریں۔

لڑکا اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ بہت سے انسان شیطانی اغواء کا شکار ہوگئے ہیں سو وہ اسکے برعکس اغواء کی جدوجہد کر رہا ہے۔

وہ کہتا ہے ،اور میرا مقصد محفوظ طریقے سےعلمی اغواء کرنا ہے۔

لڑکا تشدد کو یکسر مسترد کرتے ہوئے علمی بحث کرنے کا اظہار کرتا ہے۔

میرے نقطہ نظر میں، جیسا کہ دنیا میں کہیں بھی انصاف کا کوئی نظام نہیں ہے. لہذا قتل کے بجائے، میں اس بات کو یقینی بناؤں گا کہ یہ چہرے اور مسائل محفوظ طریقے سے مغرب سے علمی اغواء کر لیےجائیں ۔

لڑکا لگی لپٹی رکھے بغیر اپنا مقصد بیان کرتا ہے۔

کہ وہ ایک سچائی کو تسلیم کریں ۔

اللہ۔

میں اللہ سے مدد کرنے کے لئے دعا کرتا ہوں. مجھے امید ہے کہ آپ اس علمی اغواء کرنے میں میری مدد کریں گے۔

لڑکا ڈینیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ آئیے ہر انسانی روح کی بنیادی ضرورت سمجھتے ہیں. ہر انسانی روح سرتسلیم خم کرنا چاہتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مذاہب موجود ہیں۔

لڑکا مغرب کی آزادی پر چوٹ کرتا ہے۔ اور آزادی کی اہمیت بھی تسلیم کرتا ہے۔ ساتھ ہی راستے کی بھی خبر دیتا ہے۔

انسان سر تسلیم خم کیے بغیر خوش اور مطمئن زندگی نہیں گزار سکتا، اور انسان آزادی کے بغیر بھی نہیں رہ سکتا۔

یہ دو متضاد نظریات ہیں۔

لیکن یہ حالت حاصل کرنا ممکن ہے۔

کیسے؟

انسان کو سرتسلیم خم کرنا چاہئے لیکن کسی دوسرے انسان کے سامنے نہیں، بلکہ صرف سب سے طاقتور اور سب سے زیادہ غالب خدا کے سامنے ۔

یعنی اللہ ۔۔۔تاکہ اسکی آزادی کی حفاظت ہو۔

لڑکا مذید وضاحت کرتا ہے کہ جس طرح غذا اور پانی نہ ملنے سے جسم کمزور ہو جاتا ہے اسی طرح روح کی غذا نہ ملنے سے روح غصیلی، غم زدہ اور متشدد ہو جاتی ہے۔

لڑکا اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ روح کو ایسی صحیح غذا ایسے مردوں سے ملتی ہے جن کے قلوب خود صحت مند ہوں اور بے غرض ہوں۔

لڑکا موضوع کو ایک اور سمت سے واضح کرتا ہے۔

جن ارواح کو ایک طویل مدت سے انکی غذا نہ ملی ہو وہ غیر مطمئن ہو جاتی ہیں اورایسی روحیں اللہ کے سامنے صحیح طور پر سر تسلیم خم کرنے میں مدد نہیں کر سکتیں۔

ہاں اگر کوئی صاف دل ان سے بات کرے اور انکو محبت دے۔

لڑکا تسلیمہ نسرین کی مثال دیتے ہوئے کہتا ہے کہ کیسے اسکے ساتھ بچپن میں کیا جانے والے ریپ نے اسکو متشدد بنایا۔ تسلیمہ مسلمان گھرانے سے تھی لیکن اسکے ایک رشتے دار نے بچپن میں اسے ریپ کیا۔اس واقعہ کا اسکی بقیہ زندگی پر اثر رہا اور وہ ملحد محض بن کر رہ گئی۔ میں تسلیمہ کو بات چیت کے لیے مدعو کرتا ہوں کہ وہ واپس اللہ سے جڑ جائے۔

کیسے مصر کے غیر منصفانہ ماحول نے امینہ ودود کو سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کیا کہ ایک عورت زندگی کے تمام خوشگوار پہلوں کو بھول کر محض اپنے بدن کے تحفظ میں متشدد ہو کر رہ گئی۔وہ نیویارک میں 2005 میں مسلمان مردوں کی جماعت کی امام بنی۔مصر ناانصافیوں سے بھرا پڑا ہے اور اس پر آواز اٹھانا اسکو متشدد بناتا چلا گیا۔ میں امینہ کو بات چیت کے لیے مدعو کرتا ہوں کہ وہ واپس اللہ سے جڑ جائے۔

رشدی ایک مسلم گھرنے میں پیدا ہوا لیکن تعلیم ایک عیسائی جان کونن اسکول میں حاصل کی۔ میرے لیے یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ وہ اسلام اور عیسائیت کے درمیان الجھ کر رہ گیا۔وقت گذرتا گیا اور وہ متشدد ہو گیا اور پھر کیا سو جو کیا۔ لڑکا رشدی کو پیغام دیتے ہوئے کہتا ہے کہ تمہارا ناول بھوک سے تڑپتی روحوں کے لیے غذا کا کوئی سامان نہیں۔ معاشروں میں تبدیلی ایک نازک عمل ہے۔ مذہب سے گرد ہٹانا اس سے بھی نازک ترین کام ہے۔تم اپنے ناول پر نظر ثانی کرو اگر تم واقعی انسانی روحوں کا خیال کرتے ہو۔ میں رشدی کو بات چیت کے لیے مدعو کرتا ہوں کہ وہ واپس اللہ سے جڑ جائے۔

لڑکا پاپ بینڈکٹ کو دعوت گفتگو دیتا ہے کہ وہ پوپ کی اس بات کے متعلق دریافت کرے کہ جب اس نے کہا کہ مجھے صرف دکھائیں کہ اسلام میں آپ کو صرف برائی اور غیر انسانی چیزیں ملیں گی، جیسے تلوار کی طرف سے پھیلانے کا حکم ۔لڑکا کہتا ہے کہ میں یہاں کھڑا ہوں اور میں پوپ سے بھی کہتا ہوں. ہم دونوں زبردست طاقتور اللہ کے سامنیں جھکیں اورانسانی روحوں کو آرام کرنے میں مدد دیں۔

لڑکا ڈینیل سے کہتا ہے ایسے غیر منصفانہ ماحول میں افراد کے ذہن اپنے جسم کے تحفظ کے لیے چلتے ہیں۔ اور انکے اندر کے رونے کی آوازوں کی گونج طرح طرح متشدد راستے نکال لیتی ہے۔

اب یہ زخمی روحیں کیونکر اللہ کا راستہ دکھا پایں گی! ہمیں پیار و محبت سے ان تڑپتی روحوں کو تھپکی دینی ہو گی۔

سوال یہ ہے کہ اسقدر روحیں متشدد کیوں ہوتی جا رہیں ہیں؟

ایک لفظ میں اسکا جواب ہے۔ سود۔

جی سود۔

اس خونخوار سودی بینکنگ نے خاندانوں سے مل بیٹھ کر خوش ہونے کی جگہیں محدود سے محدود کر دیں ہیں۔ سو متشدد روحوں کی کثرت ہوگئی ہے۔

مغربی بینک زمین کھود کھود کر نئی نئی اشیاء بنانے کے لیے رقم فراہم کرنے میں سرگرم ہیں تاکہ جسم آرام حاصل کریں لیکن اس میں روحوں کی غذا کا کوئی سامان ہی نہیں۔

میں اپنے دل میں کھٹک کے بغیر کہتا ہوں کہ سود ہٹا دیں انسانی روحوں کو غذا ہوا اور پانی کی طرح ملنی شروع ہو جائے گی۔



منظر تبدیل ہوتا ہے لڑ کا اس مسجد عشاء سے قبل پہنچتا ہے جہاں جانے کو شیخ اول بنوری ٹاون نے کہا تھا۔

- میاں ظہوری
 
Top