سید عاطف علی
لائبریرین
شہزادے کی آپ بیتی۔ عنوان
صبح سویرے جب آنکھ ہماری کھلی تو کیا ملاحظہ فرماتے ہیں کہ اک وسیع و عریض شاہی کمرہ میں جلوہ فروز ہیں۔ جسم تلے ایک عظیم اور شاہانہ مسہری ہے۔ یقیناً یہ وہ مسہری نہیں جس پر آنکھ ہماری لگی تھی۔ زبردستی ایک زبردست سی انگڑائی لی، سسُتی کو دور بھگایا، چُستی کو پاس بلایا اور چست و توانا ہو کر مخملیں بستر سے پاؤں زمین پر دھرے۔ دفعتاً یوں محسوس ہوا پاؤں تلے سخت اور کھردری زمین نہیں، نرم و ملائم احساس ہے۔ ذرا گردن خم فرماکر ملاحظہ فرمایا تو نظر آیا کہ گلِ گلاب کے پنکھڑیوں کا گداز و دبیز قالین ہے جو تاحد نگاہ بچھا ہوا ہے۔ پاس طلائی جوتے ہیں جن پر روپہلی کرنوں کا جال بچھا ہے۔ اس پاپوشِ دلفریب میں پاؤں داخل کیے تو لگا جیسے ہمارے ناپ کے ہی بنے ہیں۔ اتنے نفیس و کومل، گویا کچھ پہنا ہی نہ ہو۔شہزادے کی آپ بیتی۔ عنوان
ظاہر کی آنکھ سے یہ حسین نظارے محسوس نہیں کیے جاسکتے ۔ہو دیکھنا تو دیدہ دل وا کرے کوئیپیچھے مڑ کے دیکھا تو شاہی خلعت فاخرہ سونے سے بنے کڑے پر آویزاں ہے۔ چمک دمک اس کی نگاہوں کو خیرہ کر رہی ہے۔ برابر میں سیاہی مائل سرخ رنگ کا سنہرے حاشیہ والا بڑا اور بھاری پردہ نظر آیا۔ ہم خراماں خراماں شاہانہ انداز سے قدم اٹھاتے اس حسین و جمیل پردہ کے پاس پہنچے، ساتھ لٹکتی ہوئی سنہری ڈوری کھینچی، اچانک بڑی ساری کھڑکی کے پار دم بخود کردینے والا منظر دکھائی دیا!!!
غالب ہے تمام پھولوں پر گلاب اسے خوش نظر کہنے! اسے خوش رنگ تسلیم کرنے اور خوشبو دار ماننے پر زمانہ مجبور ہے۔پھر اُنکی پنکھڑیوں کا دبیز قالین کسقدر حسین لگ رہا ہوگا ۔۔۔۔گلِ گلاب کے پنکھڑیوں کا گداز و دبیز قالین ہے جو تاحد نگاہ بچھا ہوا ہے۔
قفقاز کی پہاڑیوں پر چلنا پڑے گا بھیا فالودہ کھانے کے لئے ۔۔خطہ قفقاز کے ملک آذر بائیجان کے دارالحکومت باکو چلتے ہیں ۔۔فالودہ کھائیں گے ہم
صبح سویرے جب آنکھ ہماری کھلی تو کیا ملاحظہ فرماتے ہیں کہ اک وسیع و عریض شاہی کمرہ میں جلوہ فروز ہیں۔ جسم تلے ایک عظیم اور شاہانہ مسہری ہے۔ یقیناً یہ وہ مسہری نہیں جس پر آنکھ ہماری لگی تھی۔ زبردستی ایک زبردست سی انگڑائی لی، سسُتی کو دور بھگایا، چُستی کو پاس بلایا اور چست و توانا ہو کر مخملیں بستر سے پاؤں زمین پر دھرے۔ دفعتاً یوں محسوس ہوا پاؤں تلے سخت اور کھردری زمین نہیں، نرم و ملائم احساس ہے۔ ذرا گردن خم فرماکر ملاحظہ فرمایا تو نظر آیا کہ گلِ گلاب کے پنکھڑیوں کا گداز و دبیز قالین ہے جو تاحد نگاہ بچھا ہوا ہے۔ پاس طلائی جوتے ہیں جن پر روپہلی کرنوں کا جال بچھا ہے۔ اس پاپوشِ دلفریب میں پاؤں داخل کیے تو لگا جیسے ہمارے ناپ کے ہی بنے ہیں۔ اتنے نفیس و کومل، گویا کچھ پہنا ہی نہ ہو۔
پیچھے مڑ کے دیکھا تو شاہی خلعت فاخرہ سونے سے بنے کڑے پر آویزاں ہے۔ چمک دمک اس کی نگاہوں کو خیرہ کر رہی ہے۔ برابر میں سیاہی مائل سرخ رنگ کا سنہرے حاشیہ والا بڑا اور بھاری پردہ نظر آیا۔ ہم خراماں خراماں شاہانہ انداز سے قدم اٹھاتے اس حسین و جمیل پردہ کے پاس پہنچے، ساتھ لٹکتی ہوئی سنہری ڈوری کھینچی، اچانک بڑی ساری کھڑکی کے پار دم بخود کردینے والا منظر دکھائی دیا!!!
(آج کے لیے اتنا ہی۔۔۔ باقی باقی)
منظر اتنا حسین تھا کہ سانسیں سینہ میں تھم گئیں، باہر نکلنے کا راستہ بھول گئیں۔ جانے کتنے پل بیت گئے کس نے حساب رکھا۔ سامنے اک باغِ پُر بہار تھا، دور افق کے کنارے تک تازہ و سرسبز گھاس کا قالین بچھا تھا، پس منظر میں گہرے سبز رنگ کے درخت قطار اندر قطار ہاتھ باندھے کھڑے تھے، درازی قد کے باعث آسمان کو چھوتے ہوئے محسوس ہورہے تھے۔ گھاس کے دبیز قالین پر سینکڑوں نہیں ہزاروں پریاں رنگ برنگ لباس میں اٹھکھیلیاں کرتی پھر رہی تھیں۔ ہر سو رنگوں کی بہار تھی، نور کی دھنک تھی ، رنگ و نور کا ٹھاٹھیں مارتا سیلاب تھا۔ لال، ہرے اور نیلے، پیلے، سرمئی، گلابی اور پستئی رنگ کے زرق برق لباس پر چمکتے دمکتے، بڑی بڑی روشن آنکھوں والے چہرہ جڑے تھے۔ خوشیوں سے چہکتے، ہنسی سے کھل کھلا تے، کسی کسی بات پر شرم سے سرخ ہوتے چہرے جن سے نگاہیں پھسلی جارہی تھیں۔کیا خوبصورت منظر نگاری کی ہے ۔۔۔بہت عمدہ آغاز ۔
باقی کہانی کا انتظار
یہ تو آن٘کھیں خِیرَہ ہوئی جاتیں پریوں کی اٹھکیلیوں سے ۔۔منظر اتنا حسین تھا کہ سانسیں سینہ میں تھم گئیں، باہر نکلنے کا راستہ بھول گئیں۔ جانے کتنے پل بیت گئے کس نے حساب رکھا۔ سامنے اک باغِ پُر بہار تھا، دور افق کے کنارے تک تازہ و سرسبز گھاس کا قالین بچھا تھا، پس منظر میں گہرے سبز رنگ کے درخت قطار اندر قطار ہاتھ باندھے کھڑے تھے، درازی قد کے باعث آسمان کو چھوتے ہوئے محسوس ہورہے تھے۔ گھاس کے دبیز قالین پر سینکڑوں نہیں ہزاروں پریاں رنگ برنگ لباس میں اٹھکھیلیاں کرتی پھر رہی تھیں۔ ہر سو رنگوں کی بہار تھی، نور کی دھنک تھی ،
بسمل نے ترے یہ دیکھ کے پاؤں پر سر رکھ دیااور خنجر برابر رکھ دیا۔۔۔۔۔۔لال، ہرے اور نیلے، پیلے، سرمئی، گلابی اور پستئی رنگ کے زرق برق لباس پر چمکتے دمکتے، بڑی بڑی روشن آنکھوں والے چہرہ جڑے تھے۔ خوشیوں سے چہکتے، ہنسی سے کھل کھلا تے، کسی کسی بات پر شرم سے سرخ ہوتے چہرے جن سے نگاہیں پھسلی جارہی تھیں۔