سید عاطف علی
لائبریرین
کیا طاقت ہے قلم کی ! واہ !
نہایت خوبصورت زمانہ تھا۔ قلم، دوات، روشنائی، تختی اور تختی کی مٹی۔گذرے لمحوں کی کیسی کیسی یادیں وابستہ ہیں قلم کے ساتھ ۔سیٹھے کے قلم کا بھی کیا زمانہ تھا ہم نے تختی لکھی ہے ۔۔۔تختی کی رگڑ سے نکلتی آواز کو صریر کہتے ہیں۔ایک زمانہ تھا لوگوں کی خوشخطی کی دھوم ہوا کرتی تھی۔۔۔
وہ تختی کی خوبصورتی ہمیں آج بھی یاد ہے ۔نہایت خوبصورت زمانہ تھا۔ قلم، دوات، روشنائی، تختی اور تختی کی مٹی۔
ہم تو اماں سے تختی پر مٹی لگوایا کرتے تھے۔ روشنائی خشک ہوا کرتی تھی دوات میں ڈال کر پانی ڈال کر لکھنے کے لیے تیار کیا کرتے تھے۔
یہ تختی ہم ملتانی سے خود ہی پوت لیا کرتے تھے ۔ امی چولہے پہ سکھا دیا کرتی تھیں اگر اسکول کو دیر ہو رہی ہو تو۔نہایت خوبصورت زمانہ تھا۔ قلم، دوات، روشنائی، تختی اور تختی کی مٹی۔
ہم تو اماں سے تختی پر مٹی لگوایا کرتے تھے۔ روشنائی خشک ہوا کرتی تھی دوات میں ڈال کر پانی ڈال کر لکھنے کے لیے تیار کیا کرتے تھے۔
اور ہم محلے کی دوکان سے یعقوب روشنائی کی پڑیا لے کر دوات میں ڈالتے تھے۔ ایک پلاسٹک کی دوات ایسی تھی جسے الٹا کرنے پر بھی سیاہی نہ گرتی تھی۔یہ تختی ہم ملتانی سے خود ہی پوت لیا کرتے تھے ۔ امی چولہے پہ سکھا دیا کرتی تھیں اگر اسکول کو دیر ہو رہی ہو تو۔
پر بھیا ہر دور کی اپنی خوبصورتی ہے ۔۔۔اب ہر چیز کی جگہ فون نے لے لی ہے ۔۔۔بہت پرانی باتیں ہو گئیں یہ تو ۔ آج کل کے بچوں کے لیے تعجب ہو گا اس میں ۔
چلیں ایسا کر کے دیکھ لیتے ہیں۔ مقصد تو لکھنا ہے۔ انگلیوں سے لکھیں یا قلم سے۔جلدی زیادہ ہو تو انگلیاں ہی دوات میں ڈبو کر لکھیے۔ مطلب ٹائپ کیجیے۔
ڈر گئے تھے ہم دل میں یہ سوچ کر کہ ساری محفل میں گھومنے والی بات سے کہئں ہمیں بھتنی تو تصور نہیں کر لیا گیاخیر کی شب ہو سب کی۔ کوئی شر نہ ہو ۔