غدرکی بھگدڑ میں شہزادے اور شہزادیاں انگریزوں سے جانیں بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے اور بھاگ رہے تھے اِن کے پیچھے خواجہ حسن نظامی ۔وہ اُن کے لیے شہزادے ،شہزادیاں نہیں قصے اور کہانیاں تھیں ۔عبرت کے قصے اور نصیحت کی کہانیاں۔انگریزاُنھیں پکڑتے تو جیلوں میں بند کرتے ۔خواجہ صاحب نے اُنھیں اپنی کتابوں میں محفوظ کر دیا ۔ ’’غدرِ دہلی کے افسانے ‘‘،’’بیگمات کے آنسو‘‘،’’سی پارۂ دل‘‘،’’دہلی کی آخری ہچکی‘‘جیسی تصانیف میں ہم اور آپ اُن مصیبت کے ماروں سے مل سکتے ہیں۔
 
فلسفہ پیار کا تم کیا جانو
تم نے کبھی پیار نہ کیا
کبھی انتظار نہ کیا۔۔۔
میں تختی کی رعایت سے اور فلم ڈائریکٹر کی ہدایت سے دیوآنند جبکہ میوزک ڈائریکٹر کی کمپوزیشن میں رفیع صاحب کہہ رہے ہیں ۔فلم ہے مایا۔
 
قطر کا لے دے کر ایک ہی شہر ہے دوحہ ۔باقی الخور،اُم سعیدکی حیثیت شاید محلوں کی ہے ۔محلے کو محلہ سے محلوں ہی پڑھیے گا ۔محل مت سمجھ لیجیے گا۔
 
کراچی بھی خوب ہے ۔مچھر نہ ہوں تو جنت اور بجلی نہ ہو تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر بجلی نہ ہوتو کوئی بھی جگہ جہنم سے کم نہیں ، کراچی کی کیا تخصیص۔تو بس اتنا ہی جملہ کافی ہے کہ کراچی بھی خوب ہے مچھر نہ ہوں تو جنت ارضی ہے۔۔۔۔۔
 
ہزارہ ایکسپریس کا حادثہ ۔ اللہ تعالیٰ رب العزت اِس حادثے میں جاں بحق ہونیوالوں کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو شِفائے کاملہ دے ،آمین۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ظفرمندی کہنے کا موقع نہیں مگر زہے نصیب کہتے ہوئے اپنی خوش نصیبی پر نازاں ہوں کہ محمد احمد صاحب ہوئے مجھ سے ہم کلام ، واہ،احمدصاحب میں آپ کے شذرات پڑھتا ہوں اور آپ کی سحرانگیز نثرکابھرپور لطف اُٹھاتا ہوں ۔یہ میری ایک اور خوش نصیبی ہے،واہ۔
ثابت ہوا کہ یہ بس آپ کی علم دوستی ہے کہ محض چھوٹی موٹی تحریروں کی بنیاد پر مجھ ایسے ناچیز سے اس قدر خوش گمانی رکھے ہوئے ہیں۔ اللہ رب العزت آپ پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین۔
 
Top